تحریک انصاف کی بڑھکیں دم توڑ چکی،دعوے دھرے کے دھرے رہ
گئے ،عوام سے وعدے کیا پورے کرنے تھے، اپنوں نے ہی سارا پول کھول کر رکھ
دیا۔حکومت کے 244دن کے بعد ناقص کارکردگی پر وفاقی کابینہ میں بڑی پیمانے
پر اکھاڑ بچھاڑ نے واضح کر دیا کہ حکومت چلانا ان ’’کھلنڈروں ‘‘کے بس کی
بات نہیں تھی،مگر مقتدر قوتیں غیر اخلاقی اور غیر قانونی طریقے سے انہیں
اقتدار میں لانے کے لئے باضد رہی ہیں ۔آخر کمزور عوام جسے صرف روٹی کے لالے
ڈال دیئے گئے ہوں،وہ ان طاقتوں سے کیسے لڑ سکتے ہے ۔ملک کی اشرافیہ اور
عوام کی سوچ مختلف ہے جبکہ ملک کے وسائل پر صرف اشرافیہ کا تسلط ہے اور
وسائل پر قابض اشرافیہ کی سوچ جابرانہ ہے،وہ عوام کو اپنا حقیر غلام سمجھتے
ہیں ۔جن کی حیثیت ان کے نزدیک حقیر کیڑے مکوڑوں سے زیادہ ہر گز نہیں ہے ۔
ہمارے ملک کی سیاسی تاریخ رہی ہے کہ سیاست میں بساط پلٹتے دیر نہیں لگتی ۔عمران
خان نے اپنے ایمپائرزپر جس قدر بھروسہ کر رکھا تھا ۔خوش فہمی کا لیول عروج
پر تھا ۔’’سب اچھا ہے‘‘کا طوق گلے میں ڈال کر کبوتر کی مانند آنکھیں بند کر
لیں۔اب کابینہ میں ردو بدل کر کے پرویز مشرف کی ساری کابینہ حکومت میں واپس
لانے کے بعد عمران خان کا خیال ہے کہ وہ خود بچ جائیں گے ․․․؟ایسی سوچ پہلے
کئی وزراء اعظم کے ذہین کے دریچوں میں آتا رہا ہے ۔لیکن ان شاہ سے زیادہ
شاہ کے وفاداروں کو منہ کی کھانی پڑی ہے ۔
آج ملک کی معاشی حالات رفتہ رفتہ مقتدر قوتوں کے ہاتھ سے بھی باہر ہو چکے
ہیں۔ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر ساڑھے چھ ارب ڈالر رہ گئے ہیں جبکہ افراط زر
اس وقت اس دہائی کی بلند ترین سطح کو چھو رہا ہے ۔آئی ایم ایف سے قرضہ حاصل
کرنا دشوار ہو رہا ہے ، کیونکہ ان کی شرائط کسی صورت قابل قبول نہیں ہو
سکتی۔ان شرائط میں سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ پاک چائینا کے تمام معاہدوں کی
تفصیلات بتائیں جائیں ،اس کے علاوہ بھی ایسی شرائط ہیں جس سے ملکی دفاع میں
پریشانی ہو سکتی ہے ۔ عمران خان کہتے تو یہ ہیں کہ میں اقتدار کا بھوکا
نہیں ،مگر عملی طور پر زرا سا جھٹکا لگا تو سارے دوست احباب اور ان
کھلاڑیوں کو صفر کر دیا۔اپنی پرانی عادت کے مطابق ٹیشو پیپر سمجھ کر
استعمال کیا اور پھر بری طرح پھینک دیا۔آج اسد عمر اتنا نالائق ہو گیا ۔جو
ہیرو تھا وہ اتنی جلدی زیرو کیوں ہو گیا․․․!!جب سب اسد عمر کی معاشی پالیسی
اور سوچ پر تنقید کرتے تھے تو عمران خان ان کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے تھے
، مگر ایک ہی رات میں کیا طوفان آ گیا تھا۔عبدالحفیظ شیخ کو مشیر خزانہ
تعینات کیا جا رہا ہے،ویسے وہ بھی معاشی چیلنج قبول کرنے کے لئے اپنی شرائط
پر تیار ہوں گے ۔
اسد عمر کے ساتھ ایسا سلوک کیوں ہوا․․؟عمران خان کو اپنی حکومت بچانے کے
لئے پیسوں کی شدید ضرورت ہے ، تاکہ ملک کی بد ترین معاشی صورتحال اور دفاعی
ضروریات کو پورا کر سکیں ۔ان کی کوشش ہے کہ آئی ایم ایف کی سخت شرائط تسلیم
کر کے یکمشت یا کم سے کم اقساط پر قرضہ لے لیا جائے ۔اسد عمر کا موقف اس کے
برعکس تھا کہ عوام دشمن شرائط پر مبنی معاہدے پر دستخط کر کے بدنامی اپنے
سر نہیں لینا چاہتے تھے ۔اسد عمر اور عمران خان میں شدید اختلافات ہو چکے
ہیں۔جو چند دنوں کے بعد کھل کر سامنے آجائیں گے۔اسد عمر اتنے بد دل ہو چکے
ہیں کہ وہ قومی اسمبلی کی سیٹ بھی چھوڑنے بلکہ سیاست کو ہی خیر باد کرنے کا
سوچ رہے ہیں ۔اسی لئے کہتے ہیں کہ شاہ کے وفاداری میں حدود کو نظر انداز
نہیں کرنا چاہیے تھا۔اسد عمر پارلیمنٹ کے اندر اور باہر مخالفین پر برستے
رہے اور بڑھکیں مارتے رہے ہیں۔جب وہ وفاقی وزیر خزانہ تھے تو قومی اسمبلی
کے اجلاسوں میں معیشت کو بہتر بنانے کے بڑے بڑے دعوے کرتے رہے ،لیکن ان کو
فارغ کرنے کی بنیادی وجہ ان کی نالائقی اور نا اہلی ثابت ہوئی کابینہ میں
اہم تبدیلی اس لئے کی گئی کہ بعض وفاقی وزراء کی کارکردگی انتہائی مایوس کن
رہی ،صحت کے وفاقی وزیر عامر کیانی پر کرپشن کے الزامات لگے اس لئے ان کو
وفاقی کابینہ سے فارغ کیا گیا ان کی وزارت ایک غیر منتخب شخص طفر اﷲ مرزا
کو معاون خصوصی کے طور پر دی گئی اب عامر کیانی کو کرپشن کیس کا سامنا کرنا
پڑیگا ۔شہر یار آفریدی ناکام وزیر مملکت برائے داخلہ ثابت ہوئے۔وفاقی وزیر
اطلاعات و نشریات فواد حسین چوہدری روزانہ اپوزیشن جماعتوں پر کیچڑ اچھالتے
رہے کارکردگی دکھانے کی بجائے وہ مخالفین کی غیر پارلیمانی الفاظ کے ساتھ
درست بناتے رہے ان کی بڑی کار کردگی مخالفین پر کیچڑ اچھالنا تھا۔اب انہیں
وزیرسائنس و ٹیکنالوجی مقررکیا گیا ہے۔آج اس لطیفے پر صرف ہنسا جا سکتا ہے
۔
اپوزیشن نے ابھی تک خاموش رہ کر اور عدالتوں میں مقدمات بھگت کر وقت گزارا
ہے ۔انہوں نے حکومت یا مقتدر اداروں کے خلاف جارحانہ رویہ نہیں اپنایا اور
احتجاج کی پالیسی نہیں اپنائی ۔یہ ان کی کامیاب پالیسی رہی ہے ۔حزب اختلاف
نے حکومت اور مقتدر قوتوں کو کوئی موقع فراہم نہیں ہونے دیا کہ وہ راہ فرار
اختیار کر پاتے ۔عمران خان تو اس ڈارامے کے چھوٹے سے اداکار ہیں ۔اس ڈرامے
کا فلاپ ہونے کا اعلان عنقریب ہونے کی امید ہے ۔عمران خان کی قربانی دے دی
جائے گی ،یہی وجہ ہے کہ دانستہ صدارتی نظام کی میڈیا میں بحث شروع کر دی
گئی ہے ۔حالانکہ صدارتی نظام کا تجربہ کئی بار ہو چکا ہے،جس کا نتیجہ
پاکستان میں سیاسی ،سماجی اور معاشی بحرانوں کی صورت میں نکلا ہے۔
ہمارے ملک میں سب سے بڑا مسئلہ مختلف طاقتوں کا اقتدار میں رہنے کی خواہش
ہے۔سیاسی ہو یا غیر سیاسی طاقتیں صرف اقتدار چاہتے ہیں ، کوئی ملک کی بہتری
نہیں سوچتا ۔آج بھی پہلے ملک میں سیاسی اور معاشی انتشار کو عروج پرلایا
گیااور پھر اپنے من پسند لوگوں کو اقتدار سونپ دیا گیا،مگر جب وہ بری طرح
ناکام ہو گئے ،تو انتشار کو کم کرنے کی بجائے بڑھانے کے اقدامات کیے جا رہے
ہیں ۔جس کی بڑی مثال بریگیڈئیر (ر) امتیاز شاہ کو وزارت داخلہ دیا جانا ہے
۔امتیاز شاہ پرویز مشرف کے انتہائی قریبی ساتھی ہیں۔اس لئے مسلم لیگ (ن) کے
لئے نا پسند ہیں ۔کیونکہ اعجاز شاہ آئی ایس آئی اور ایم آئی کے علاوہ اہم
عہدوں پر فائز رہے ہیں اور ضروری بات کہ یہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت
کی منصوبہ بندی میں ملوث رہے ہیں۔ظاہر ہے ان کی تعیناتی پر پیپلز پارٹی کے
شدید تحفظات ہوں گے ۔فردوس عاشق اعوان پیپلز پارٹی میں وزیر اطلاعات تھیں
،مگر جب نیب نے ان کے خلاف کرپشن کے کیس کھولے تو پیپلز پارٹی کی قیادت نے
ان کی کوئی مدد نہیں کی تھی ۔یہی وجہ تھی انہوں نے تحریک انصاف میں شمولیت
اختیار کر لی ۔جس پر ان کے خلاف تحقیقات بند ہوگئی تھیں ۔وہ غیر منتخب ہیں
مگر پھر بھی انہیں اطلاعات و نشریات کی وزارت دے دی گئی ہے ۔
ابھی تو پنجاب کی باری آ رہی ہے ۔یہاں وزیر اعلیٰ کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ
کابینہ کی بڑے پیمانے پر تبدیلی ہو گی ۔جس میں مسلم لیگ (ق) کے ممبران کی
وزارتوں کو بھی خطرہ لاحق ہو گا۔یہ جس انداز میں وزراء اور بیوروکریسی کے
سروں پر تلوار لٹکا کر کام لیے جانے کا تجربہ ہو رہا ہے ، اس سے کامیابی تو
دور کی بات ملک کو کچھ عرصہ چلانا بھی نا ممکن ہو جائے گا۔جان بوجھ کر
سیاسی و معاشی انتشار بڑھایا جائے گا اور اپنے مقاصد پورے کرنے کے لئے
راہیں ہنوار کی جائیں گی ۔ |