بڑھتے ملکی قرضوں، معاشی بحران ، مہنگائی و غربت
میں اضافے کی وجہ سے موجودہ پارلیمانی نظام کی ناکامی کا چرچہ ان دنوں زبان
عام ہے، اور نئے تجربے کے طورپر ملک میں اسلامی صدارتی نظام کے نفاذ کی
بازگشت بھی سنائی دے رہی ہے۔ کہا جارہا ہے کہ پاکستان میں پارلیمانی نظام
نے قومی مسائل حل کرنے کی بجائے مسائل میں اضافہ، اور ریاست کو سنگین
بحرانوں سے دوچار کیا ہے۔جبکہ اس صورتحال پر اگر باریک بینی سے جائزہ لیا
جائے تو معلوم ہوتاہے کہ موجودہ پارلیمانی نظام میں جہاں اسٹیبلشمنٹ نے
جمہوریت کو چلنے نہیں دیا، وہاں سیاستدانوں نے جمہوریت اور سیاست کو عالمی
جمہوری اصولوں کے مطابق چلانے کی بجائے جاگیروں اور کارپوریشنوں کی طرح چلا
کر جمہوری نظام کو کمزور کیا۔ فوج کے اقتدار پرست جرنیل سول امور میں کھلم
کھلا مداخلت کرتے رہے اور حکومتیں بنانے اور توڑنے کی سازشیں کرتے رہے،لیکن
پارلیمانی جمہوریت اور سیاستدان ان کا راستہ نہ روک سکے۔ اگر پاکستان کی
سیاسی جماعتیں منظم ہوتیں اور انکے اندر بھی جمہوریت ہوتی تو پارلیمانی
نظام مضبوط ہوتا، اور بیوروکریٹس اور جرنیلوں کیلئے سیاسی عدم استحکام پیدا
کرنا ممکن نہ ہوتا۔ عالمی سروے کے مطابق آج جمہوریت کے حوالے سے پاکستان
دنیا کے 167 جمہوری ممالک میں 112 نمبر پر ہے، یعنی پاکستان کا شمار ناکام
ترین جمہوری ممالک میں ہوتا ہے، کیونکہ موجودہ پارلیمانی نظام میں جمہور
یعنی عوام کمزورجبکہ سیاسی خاندان مضبوط ہوئے ہیں۔ پاکستان میں بدقسمتی سے
آج بھی انگریزوں کا پارلیمانی نظام رائج ہے جو امریکہ و برطانیہ کے سامراجی
اور حکمران اشرافیہ کے طبقاتی مفادات کا تحفظ کرتا ہے ، جبکہ عوام بنیادی
انسانی حقوق سے محروم ہیں۔ اور پارلیمان کی مایوس کن کارکردگی کی بدولت
گزشتہ دس سال سے تسلسل کے ساتھ چلنے والا پارلیمانی جمہوریت کا تجربہ بھی
ناکام رہا ہے، وزیروں نے ایوان کو اہمیت دی نہ عوام کو، ان دس سالوں میں
ڈیموکریسی کو ڈاکو کریسی بنا دیا گیا ، ریکارڈ توڑ غیر ملکی قرضے لے کر
آنیوالی نسلوں کے مستقبل کو داؤ پر لگا دیا گیا۔ گزشتہ 10سالہ پارلیمانی
جمہوری دور میں درجنوں خاندانوں کے اثاثے ریاست کے اثاثوں سے کئی گنا بڑھ
گئے، منی لانڈرنگ کے نئے ریکارڈ قائم ہوئے، جمہوری اور سیاسی استحکام مفقود
رہا، اور جب تک سیاسی استحکام نہ ہو، معاشی استحکام پیدا نہیں ہوسکتا۔
پارلیمانی جمہوریت کے نام پر ایک ملک میں دو نظام بنادیئے گئے ایک امیروں
کیلئے اور دوسرا غریبوں کیلئے، قانون بھی دو، امیر کیلئے الگ اور غریب
کیلئے الگ۔ موجودہ پارلیمانی نظام عوام کو بنیادی حقوق ،تعلیم صحت روزگار
صاف پانی فوری سستا انصاف اور امن امان دینے میں بری طرح ناکام رہا ہے۔ اس
وجہ سے نوجوانوں میں مایوسی اور محرومی بڑھی اور وہ انتہا پسندی پر مائل
ہوئے ۔
لہٰذا اس ناکام پارلیمانی نظام پر کہاجارہا ہے کہ اب جمہوری صدارتی نظام کو
موقع دیا جائے، صدارتی نظام چیک اینڈ بیلنس عدلیہ کی آزادی ،شفاف یکساں
احتساب اور ریاستی اداروں کے استحکام کو یقینی بنائے گا،مضبوط اور طاقتور
صدر کی موجودگی میں کسی ریاستی ادارے کو اپنی آئینی حدود سے تجاوز کرنے کی
جرات نہیں ہو گی۔ اس بارے میں میڈیا پر بحث شروع ہو چکی ہے، تبصرے تجزیے
شایع ہورہے ہیں ۔ جبکہ اگر ملک میں حقیقی جمہوریت کو آزادانہ طور پر پھلنے
پھولنے کا موقع دیا جاتا اور سینیٹ کی طرح قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے
انتخابات متناسب نمائندگی کے اصول پر کروائے جاتے تو آج پارلیمانی نظام
ناکارہ اور فرسودہ ہونے کی بجائے فعال اور متحرک ہوتا اور صدارتی نظام کے
تجربے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہوتی۔ اگر ملکی مفاد کو دیکھا جائے تو صدارتی
نظام کی بجائے موجودہ پارلیمانی نظام ہی بہتر ہے کیونکہ جب کوئی فرعون بنے
،ظالم بنے ،جابر بنے تو پارلیمانی قوتیں اس کو منظرسے ہٹا کرقائد ایوان کو
تبدیل کر سکیں۔ بلاشبہ فرد اگر سلیم العقل، سلیم الفطرت ہو گا تو وہ
وزیراعظم ہو کر بھی بہت کامیاب رہے گا اور اگر فاترالعقل ہوگا تو چیف مارشل
لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدر ہو کر بھی ملک توڑ دے گا اور دو قومی نظرئیے کو
تباہ کرکے ملک کے لیے تباہی و بربادی کا راستہ استوار کرے گا۔ ماضی میں بھی
تمام تر اختیارات کے مالک فرد واحد کے بعض فیصلوں کے اثرات ملکی سلامتی،
بقاء اور اتحاد و یکجہتی پر پڑے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک شخص کو با
اختیار کرنے کے بجائے پارلیمنٹ کو با اختیار کیا جائے۔ پاکستان کو اس وقت
سب سے زیادہ ضرورت نقش عالم پر اپنے آزاد اور خود مختار جمہوری وجود کو
تسلیم کروانا ہے،معاشی خود کفالت حاصل کرنی ہے ، عام آدمی کی زندگیوں کو
اقتصادی خوشحالی سے روشناس کرانا ہے نہ کہ ہمارا وزیر خزانہ یا وزیر اعظم
کشکول اٹھاکر ملک ملک بھیک مانگتے پھریں۔ آج ریاست مدینہ کی مثال دیتے ہوئے
بلا امتیاز احتساب کا دعویٰ تو کیا جاتا ہے ، مگر بدقسمتی سے اپنے چہیتوں
کو بچانے کیلئے کوششیں بھی کی جاتی ہیں۔ اب جبکہ حکومت مہنگائی پر قابو
پانے، عوام کو ریلیف دینے اور نظام چلانے میں ناکام نظر آرہی ہے، ایسے
حالات میں درحقیقت صدارتی نظام کا شوشہ چھوڑ کر اصل مسائل سے لوگوں کی توجہ
ہٹائی جا رہی ہے، ہمیں صدارتی ادوار کی ترقی کی مثالیں دی جا رہی ہیں، لیکن
شاید یہ بھول رہے ہیں کہ اسی صدارتی نظام کی بدولت مشرقی پاکستان ہم سے
علیحدہ ہوا، اسی نظام نے ملک میں شدت پسندی کو فروغ دیا اور اسی نظام کے
ایک فیصلے کی تازہ مثال دہشت گردی کی خلاف جنگ ہے، جس نے اس ملک میں ہزاروں
شہریوں کی جانیں لے لیں اور معاشی طور پر ہمیں دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچا
دیا۔ حکمران یاد رکھیں کہ جب آپ کے وعدے پورے ہوں گے تو یہ قوم آپ کو بار
بار موقع دے گی، لیکن آپ کی چند ماہ کی کارکردگی دیکھ کر عوام آپ سے نالاں
ہیں ، اور مزید نااہل وزیروں کے محکمے تبدیل کرکے طرز حکمرانی اور
پارلیمانی نظام میں بہتری کا مطالبہ کررہے ہیں، تاکہ عوام کو مہنگائی کے
عذاب سے نجات میسر آسکے۔ ان گھمبیر حالات میں قوم صدارتی نظام کی تمنا
رکھنے والوں کا ساتھ کبھی نہیں دے گی،آج قوم اپنے حکمرانوں سے دعوؤں اور
وعدوں کی بجائے عملی اقدامات کا مطالبہ کررہی ہے۔ |