آہ اے ناداں! قفَس کو آشیاں سمجھا ہے تُو

اسرائیل کے انتخابات نے پھر ایک بار بنجامن نتن یاہو کے وزیراعظم بننے کی را ہ ہموار کردی ۔ ان نتائج کو دیکھ کر دلیر صحافی ابھیسار شرما کی حالیہ ویڈیو کا ابتدائیہ یاد آتا ہے ۔ اس ویڈیو میں شرما کہتے ہیں ’ہرکوئی کہتا ہے مودی پھر آئے گالیکن آکر کرے گا کیا؟‘ اس کے بعد شرما نے پچھلے پانچ سالوں میں مودی سرکار کی وعدہ خلافیوں اور ناکامیوں کو بیان کیا ہے۔ یہی بات یاہو کے بارے میں بھی کہی جاسکتی ہے کہ ’آتو گیا ہے لیکن کرے گا کیا؟ ‘ بنجامن یاہو پانچویں بار وزیراعظم بن کر اسرائیل کے اولین وزیراعظم بن گورین یعنی وہاں کے پنڈت نہرو کی برابری کرلیں گے لیکن پھر سوال یہی ہے کہ اس ریکارڈ کو قائم کرنےکے باوجود وہی کریں گے جو اس سے پہلے کرتے رہے ہیں ۔ مقامی فلسطینی آبادی کے گھروں کو اجاڑ کر ان کی جگہ باہر سے آنے والوں کو بساناجیسا کہ ہمارے یہاں پہاڑوں پر رہنے والے قبائلیوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ وہ احتجاج کریں تو ان پر طاقت کا استعمال ۔ وہ پتھر اٹھائیں تو ان پر گولیاں برسانا یہ بھی کشمیر میں ہوا ہے۔ ساری دنیا کی سیر کرنا جیسا کہ مودی جی نے کیا ۔ رافیل کی مانند بدعنوانی میں ملوث ہونا اور عیش کرنا اس لیے کہ جمہوری انتخاب نے انہیں پھر ایک بار پانچ سال کے لیے یہ سب کرنے کا پروانہ عطا کر دیا ہے۔

اسرائیل کا انتخابی نظام ہندوستان سے قدرے مختلف ہے وہاں پہلے آنے والا کامیاب اور باقی سارے ناکام کے بجائے متناسب نمائندگی کے اصول پر عمل کیا جاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ جس پارٹی کو جتنے فیصد ووٹ ملتے ہیں اسی تناسب سے ان کے نمائندے ایوان پارلیمان (کینسٹ) میں نامزد ہوجاتے ہیں ۔ حالیہ انتخابات میں وزیراعظم بنجامن نیتن یاہوکی قیادت والی دائیں بازو کی اتحاد نے کل ۱۲۰ میں سے ۶۵ سیٹیں جیت لی ہیں ۔ویسے تو نیتن یاہو کی پارٹی ’لیکوڈ‘ کو صرف ۲۶ فیصد ووٹ ملے لیکن اس کے حصے میں ۳۵ نشستیں آگئیں۔ اس کے مقابلے حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت’بلیو اینڈ وائٹ‘ کے بھی تقریباً ۲۶ فیصد ووٹ ملے اور اس کو بھی ۳۵ نشستوں کا حقدار قرار دیا گیا اس طرح جماعتی سطح پر تو مقابلہ برابری پرآگیا لیکن دائیں بازو کو اپنے اتحاد یوں کی بدولت برتری حاصل ہوئی ۔ اس کی ہمنوا جماعتوں نے ۳۰ نشستوں پر کامیابی درج کرائی جبکہ بلیو اینڈ وائٹ کی حمایت کرنے والے صرف ۲۰ نشستوں پر کامیاب ہوسکے اور دونوں محاذ کی جملہ تعداد میں ۱۰ کا فرق رہ گیا۔

ان نتائج کاقابلِ ذکرپہلو یہ ہے کہ ۲۰۰۳؁ کے بعد یہ لیکوڈ پارٹی کے یہ سب سے بہترین مظاہرہ ہےجیسا کہ بی جے پی کا ۲۰۱۴؁ میں تھا۔ ۵۰فیصد سے کچھ زیادہ نشستوں پر بی جے پی کبھی کامیاب نہیں ہوئی تھی حالانکہ اس کے ووٹ کا تناسب صرف ۳۱ فیصد تھا۔ اسرائیل چونکہ بہت چھوٹا ملک ہے اس لیے وہاں ہندوستان کی طرح علاقائی جماعتیں نہیں ہیں لیکن سخت گیرپارٹی ’شاس‘ اور ’یونائیٹیڈ توراہ جوڈائی ازم‘ نے ۸، ۸ سیٹیں جیتی ہیں جبکہ ’عزرائیل بیتینو‘ اور’یونین آف رائٹ ونگ پارٹیز‘ نے ۵، ۵ نشستوں پر اپنی کامیابی درج کرائی ہے۔ اسی کے ساتھ نتین یاہو کی سرکار میں وزیرخزانہ موشے کہلون کی ’کولانو‘ چار سیٹیں جیت سکی ہے۔ اسرائیل میں انتخاب جیتنے کے لیے یاہو نے وہی سب کیا جو مودی جی کررہے ہیں ۔ اپنی ناکامیوں اور بدعنوانی پر پردہ ڈالنے کے لیے بالاکوٹ ائیر اسٹرائیک کی طرح غزہ پر بمباری کی ۔ گولان کا مسئلہ اور اس پر امریکی حمایت اسی طرح حاصل کی کیسے کشمیر کے معاملے کو اچھالا جارہا ہے ۔ یروشلم کو دارالخلافہ بنانے اور بیت المقدس کی اہمیت کو ختم کرنے پر اسی طرح سیاست کی گئی جیسے رام مندر پر ہندوستان میں کی جاتی ہے۔ مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف اسی طرح نفرت پھیلائی گئی جیسے ہندوستان میں پھیلائی جاتی ہے غرض جمہوریت ہندوستان میں ہو اسرائیل میں اس کا رنگ روپ یکساں ہوتا ہے۔

عالمی سطح پر یہودی اپنے آپ کو ذہین ترین ثابت کرنے کے فراق میں دنیا بھر کے ہر قابل ذکر واقعہ کا کریڈٹ لینے میں پیش پیش رہتے ہیں یہاں تک بچوں کی پیدائش سے قبل منصوبہ بندی تک کی افواہیں اڑا کر لوگوں کو مرعوب کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے غزہ کو کھلی جیل میں تبدیل کرنے کے باوجود وہاں جانے سے گھبراتے ہیں اور حماس کے آگے ان کی ایک نہیں چلتی۔ ان غاصبوں کی عیاری و مکاری سے محمود عباس جیسے لوگ تو دام میں آجاتے ہیں مگر مجاہدین اسلام کے آگے دھری کی دھری رہ جاتی ہے۔ اسرائیل کا سرپرستِ اعلیٰ امریکہ اپنے آپ کو سب سے زیادہ طاقتور سمجھتاہے اور عسکری قوت کے گھمنڈ میں نت نیا ہنگامہ کھڑا کرتارہتا ہے لیکن کبھی ویتنام میں اسے رسوا ہونا پڑتا ہے تو کبھی افغانی مار بھگاتے ہیں ۔ ہندوستان کو اپنی قدیم تہذیب و ثقافت کا غرہ ّ ہے۔ وہ تہذیب جس میں انسانوں کے ساتھ جانوروں سے برا سلوک ہوتا تھا ۔ تملی کا حق مٹھی بھر لوگوں کی اجارہ داری تھی ۔ ظلم و جبر کوباعثِ نفریں نہیں بلکہ قابلِ تعریف سمجھا جاتا تھا اور مذہبی کتابوں سے اس کی سند حاصل کی جاتی تھی ۔ آج کے دور میں اس پر عمل درآمد مشکل ضرور ہے لیکن آئین ہند کی جگہ منو سمرتی کو نافذ کی شدید خواہش زعفرانیوں کے دل میں انگڑائیاں لینے لگی ہیں ۔

یہ حسنِ اتفاق ہے کہ مذکورہ بالا تینوں ممالک نے اپنے تمام اختلافات کے باوجود سیاسی سطح پر جمہوری سیاسی نظام سے اتفاق کرلیا ہے۔ اس لیے کہ جمہوریت سے ان کو اپنے عزائم کے بروئے کار لانے میں کوئی خطرہ محسوس نہیں ہوتا بلکہ وہ ان کی معاون و مددگار بن جاتی ہے ۔ یہ نظام سیاست تینوں ممالک میں فی الحال یکساں نتائج ظاہر کررہاہے یعنی تینوں کے فکری سطح کے فرق کو اس نظام سیاست نے ایک سطح پر ہموار کردیا ہے۔ ہندوستان میں جب سے انتخابات کا اعلان ہوا ہے دانشور طبقہ بجا طور پر فکر مند ہے کہ کہیں مودی جی دوبارہ منتخب نہ ہوجائیں ۔ لوگ مودی جی کو ملک کے جمہوری نظام کے لیے عظیم ترین خطرہ قرار دے رہے ہیں اور اس کی بقاء کے لیے مودی جی کو شکست و فاش سے دوچار کرنا چاہتے ہیں حالانکہ وہ بھول جاتے ہیں کہ اسی نظام نے مودی جی کو اقتدار سے نوازہ ہے ۔

یہ نظام سیاست جس کی دہائی دی جارہی ہے دنیا کی عظیم ترین جمہوریت امریکہ کو ڈونلڈ ٹرمپ جیسے بد دماغ رہنما سے نواز چکاہے۔ ٹرمپ کی ذہانت کے آگے تومودی جیسے نہ جانے کتنے لوگ چائے بیچتے ہیں اور اس نے ابھی ابھی نتن یاہو جیسے بدعنوان اور سفاک وزیراعظم کی مدت کار میں مزید توسیع کردی ہے۔ اب وقت آگیا ہے لوگ افراد کے بجائے نظام سیاست کے متبادل پربھی غور و خوض کریں ورنہ لوگ تو بدلتے رہیں گے لیکن حالات نہیں بدلیں گے اور افراد کا بدلنا بھی ضروری نہیں ہے ۔ اس نظام زحمت کی نقاب کشائی حکیم الامت علامہ اقبال نے کرچکے لیکن امت چونکہ اس کے سحر میں مبتلا ہے اس لیے یہ چشم کشا شعر بھی اس کے آنکھوں کی پٹی نہیں کھول پاتا؎
اس سرابِ رنگ و بو کو گُلِستاں سمجھا ہے تُو
آہ اے ناداں! قفَس کو آشیاں سمجھا ہے تُو

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1450814 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.