مشہور پنجابی محاورہ ہے ’’ڈاچی اوس ویلے سُوئے گی
جَدوں سائیں مَرگئے‘‘ (اونٹنی تَب بچہ پیدا کرے گی جب مالک مر گئے)۔کچھ
ایسی ہی صورتِ حال کا سامنا قوم کو ہے جس کو سہانے سپنے دکھائے گئے اور کہا
گیا کہ پہلے 100 دنوں میں ہی قوم کی تقدیر بدل دی جائے گی۔ 100 دِن تو کیا
اڑھائی سو دِن گزر گئے لیکن ہر روز مصائب وآلام میں اضافہ ہی ہوا۔ جب کچھ
بَن نہ پڑا تو کہہ دیا گیا کہ یوٹرن کے بغیر کوئی بڑا لیڈر نہیں بن سکتا۔
ریاستِ مدینہ کی تشکیل کے دعویداروں کی کمند اب ’’صبر‘‘ پہ ٹوٹی۔ سوال مگر
یہ کہ اگر ’’صبر‘‘ پر بھی یوٹرن لے لیا گیاتو مفلسوں کے پاس باقی کیا بچے
گا سوائے خودکشی کے۔
ہمیں تو یہ بھی علم نہیں کہ اِس صبر کی حد کہاں تک ہے۔ کوئی دو سال صبر کی
تلقین کر رہا ہے تو کوئی تین سال اور کچھ ’’محتاط‘‘ پورے پانچ سال بھی مانگ
رہے ہیں۔ سوال مگر یہ کہ صبر کب تک؟۔ مہنگائی، لوڈشیڈنگ، کریش کرتی سٹاک
مارکیٹ، روپے کی ناقدری، ڈالر کی اونچی اُڑان، پٹرولیم مصنوعات اور گیس کی
تیزی سے بڑھتی قیمتوں اور معیشت کی بربادی پر صبر کب تک؟۔ اڑھائی روٹیوں کی
جگہ ایک روٹی کھانے کا ’’مفیدمشورہ‘‘ دینے والے وزیر باتدبیر کے ارسطوانہ
مشورے پر صبر کب تک؟۔ جھوٹ کی آڑھت سجاتے وزراء کی لاف زنی پر صبر کب تک؟۔
ایک وزیر نے فرمایا کہ عافیہ صدیقی کے معاملے پر قوم کو جلد خوشخبری ملے گی۔
معروف صحافی سلیم صافی نے پول کھول دیا ’’ وزارتِ خارجہ کے مطابق سِرے سے
کوئی پیش رَفت نہیں ہوئی۔ یہ بیان محض اخبارات میں سُرخی لگوانے کے لیے دیا
گیا‘‘۔ ایک وزیرِمملکت دور کی کوڑی لائے۔ اُنہوں نے ہزارہ کمیونٹی کے دھرنے
میں انکشاف کیا کہ وزیرِاعظم عمران خاں نے ایرانی صدر ہاشمی رفسنجانی سے
طویل مذاکرات کیے۔ بھائی! ہاشمی رفسنجانی تو 2017ء میں وفات پاچکے۔ کیا
اُنہیں قبر سے نکال کر کپتان سے ملاقات کروائی گئی یا پھر کپتان خود ملاقات
کے لیے قبر میں تشریف لے گئے؟۔ نَووارد وزیر پارلیمانی امور بریگیڈیئر (ر)
اعجاز شاہ نے کہا کہ عوام احتجاج کے لیے باہر نکلے تو شدید گرمی میں اُن کی
’’چھترول‘‘ ہوگی۔ شاید جمہوریت کا حُسن یہی ہے کہ ووٹ لینے کے بعد ووٹرز کی
’’چھترول‘‘ کی جائے۔ شاید اِسی لیے اعجاز شاہ کو وزارتِ داخلہ کا قلمدان دے
دیا گیا ہے تاکہ ’’چھترول‘‘ میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہو سکے۔ اسد عمر
المعروف عالم چَنّا 27 ارب قرضے کی نوید سناتے سناتے وزارت سے ہی ہاتھ دھو
بیٹھے۔ صرف اسد عمر ہی کیا حکومت میں تو وزارتوں کی ’’اُکھاڑ پچھاڑ‘‘ کا
سونامی آگیا۔ پہلے یہ سونامی بیوروکریسی میں آیا ہوا تھااب وزراء بھی اِس
میں شامل ہوگئے ہیں۔ فوادچودھری جہلمی کو اطلاعات ونشریات کی بجائے سائنس
وٹیکنالوجی کا وزیر بنا دیا گیاجس پر نوازلیگ کی مریم اورنگ زیب نے کہا کہ
یہ بہت اچھا ہوا، اب پاکستان میں ہیلی کاپٹر 55 روپے فی کلومیٹر کے حساب سے
کرائے پر چلا کریں گے۔ فوادچودھری کی جگہ فردوس عاشق اعوان کو اطلاعات
ونشریات سونپنے پر ہم خوش کہ کپتان نے میڈیا کو اُس کی اوقات یاد دلا
دی۔تحریکِ انصاف کی حکومت میں پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر پارلیمانی
کی جگہ صدارتی نظام کا شور تو سب نے سُنا اور پڑھا، اب عملی نمونہ بھی
سامنے آگیا۔ منتخب ارکان کی جگہ غیر منتخب ٹیکنو کریٹس کی حکومت قائم ہو
چکی۔ معاونینِ خصوصی اور مشیران کی بھرمار دیکھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ یہ
صدارتی نہیں، پارلیمانی نظام ہے،نام البتہ پارلیمانی نظامِ حکومت ضرور۔ اب
پنجاب اور خیبرپختونخوا کی حکومتوں میں عنقریب اُکھاڑ پچھاڑ شروع ہو جائے
گی۔ کپتان نے جس ’’تبدیلی‘‘ کا نعرہ لگایا تھا، وہ شاید یہی تھی۔
بات دوسری طرف نکل گئی، ہم کہہ رہے تھے کہ دیکھتے ہیں کہ قطرے کو گہر میں
ڈھالنے کے دعویدار ’’قومی صبر‘‘ کا اور کتنا امتحان لیتے ہیں۔ فی الحال تو
ڈھلتی عمر کے گہرے ہوتے سایوں میں ہم سوچ رہے ہیں کہ کیا دَمِ واپسیں سے
پہلے ہم اُس پاکستان کی ایک جھلک دیکھ پائیں گے جو علامہ اقبالؒ کا خواب
اور قائدِاعظمؒکی محنتوں کا ثمر تھا۔ چہارجانب مایوسیوں کی تَنی ہوئی دبیز
چادر میں اختر شیرانی یاد آئے۔
اے عشق کہیں لے چل اِس پاپ کی بستی سے
نفرت گہہ عالم سے ، لعنت گہہ ہستی سے
اِن نفس پرستوں سے ، اس نفس پرستی سے
دور اور کہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل
آکاش کے اُس پار اِس طرح کی بستی ہو
جو صدیوں سے انساں کی صورت کو ترستی ہو
اور جس کے نظاروں پہ تنہائی برستی ہو
یوں ہو تو وہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل
صبر کی تلقین کرنے والے کہتے ہیں کہ گزشتہ حکومت نے قیمتوں پر مصنوعی
کنٹرول کرکے ’’بے ایمانی‘‘ کی۔ وہ کہتے ہیں کہ مصنوعی طریقے سے لوڈشیڈنگ پر
قابو پایا گیا، مصنوعی طور پر ڈالر کنٹرول کیا گیااور مصنوئی طریقے سے
گروتھ ریٹ بڑھایا گیا۔ 27 ارب ڈالر قرضے کی نوید سنانے والے ’’ایماندارو‘‘!
کہیں یہ سڑکیں، موٹرویز، اوورہیڈز اور انڈرپاسز بھی مصنوعی تو نہیں؟۔ کہیں
100 ارب روپے میں چلنے والی 3 میٹرو بسیں بھی محض خواب وخیال تو نہیں (ایمانداروں
نے پشاور میں 100 ارب لگا دیا لیکن تاحال میٹرو کی جگہ کھڈے ہی کھڈے)۔ کہیں
ساڑھے گیارہ ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کا دعویٰ بھی تو مصنوعی نہیں؟۔
66 روپے فی لٹر فروخت ہونے والا پٹرول تو یقیناََ مصنوعی ہی ہوگا ، اِسی
لیے تو ایمانداروں نے پٹرول 100 روپے فی لٹر کر دیا۔ ہم یہ سوچنے پر مجبور
کہ یقیناََ ’’اقتصادی راہداری منصوبہ‘‘ بھی مصنوعی ہی ہوگا اور ہسپتالوں
میں ملنے والی مفت ادویات تو ’’دو نمبر‘‘ہوں گی ہی۔ حیرت ہے کہ بے ایمانوں
نے پانچ سالوں میں 40 ارب ڈالر قرضہ لیا اور 46 ارب واپس کیا۔ پھر بھی
حکومت چھوڑتے وقت قومی خزانے میں 19 ارب ڈالر موجود۔ اگر یہ سب ’’بے ایمانی‘‘
کی برکتوں سے ہوا تو خُدارا آپ بھی بے ایمان بن جائیں کہ بے ایمانوں کے
جانے کے بعد خزانہ خالی اور ہم دَر دَر کے بھکاری، اگر مذید بھیک نہ ملی تو
ملک دیوالیہ۔
صبر کی تلقین کرنے والوں نے ادویات کی قیمتوں میں 55 سے 200 فیصد اضافہ کر
دیا۔ پنجاب کی وزیرِصحت فرماتی ہیں کہ صرف اُن ادویات کی قیمتوں میں اضافہ
کیا گیا جو ایمرجنسی اور آپریشن تھیٹر میں استعمال کی جاتی ہیں۔ اُنہوں نے
فرمایا ’’ہم سارے پنجاب کا بجٹ ادویات کے لیے نہیں دے سکتے، نہ ہی آوٹ ڈور
والے ہر مریض کو دوائی دے سکتے ہیں‘‘۔ محترمہ کے بیان سے یوں محسوس ہوتا ہے
کہ جیسے وہ اپنی ’’گِرہ‘‘ سے ادویات خرید کر قوم پر احسانِ عظیم کر رہی
ہوں۔ اُنہیں علم ہونا چاہیے کہ یہ عوام کی نَس نَس سے نچوڑا ہوا لہو ہی تو
ہے جس کے بَل پر وہ ایسے بیانات داغ رہی ہیں۔ اگر صرف آپریشن تھیٹر اور
ایمرجنسی ادویات مہنگی کی گئی ہیں تو اُنہیں خریدے گا کون؟۔ کیا محترمہ
نہیں جانتی کہ اشرافیہ تو ’’متعفن‘‘ سرکاری ہسپتالوں کا رُخ ہی نہیں کرتی۔
اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے تو علاج کے لیے یورپ اور امریکہ کا رُخ کرتے
ہیں یا پھر مہنگے ترین پاکستانی ہسپتالوں کا۔ سرکاری ہسپتالوں میں تو
نجبور، مقہور اور راندہ درگاہ ہی آتے ہیں۔ اُنہیں اگر مفت ادویات نہیں مل
سکتیں تو اُن کے لیے ادویات مہنگی کرنا کہاں کا ’’انصاف‘‘ ہے۔ محترمہ ساری
زندگی شعبۂ طِب سے وابستہ رہی ہیں، اُن سے سوال ہے کہ کیا ایمرجنسی اور
آپریشن تھیٹر کا تعلق شعبۂ طِب سے نہیں۔ کیا سرکاری ہسپتالوں کے سارے آؤٹ
ڈورز بند کر دینے چاہییں تاکہ ’’نہ رہے بانس، نہ بجے بانسری‘‘۔
سوال یہ بھی ہے کہ جب پنجاب حکومت وزیروں، مشیروں اور ارکانِ اسمبلی کی
تنخواہوں اور مراعات میں 3 گُنا اضافہ کر رہی تھی، تَب محترمہ کہاں تھی۔ جب
پنجاب کے وزیرِاعلیٰ کی تنخواہ میں یک لخت 6 گُنا اضافہ کیا گیا، تَب
محترمہ نے کیوں نہیں کہا کہ یہ بھوکوں مرتی قوم پر ظلمِ عظیم ہے۔ ارکانِ
اسمبلی تو اپنی ’’توندیں‘‘ بڑھانے کے لیے تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ
کروا رہے تھے حالانکہ کروڑوں روپے صرف کرکے اسمبلیوں میں پہنچنے والوں کو
تنخواہوں کی ضرورت ہے نہ مراعات کی لیکن جن مجبوروں کی زندگیاں داؤ پر لگی
ہیں، اُن کے لیے مفت ادویات پر حکمران چیں بہ چیں کیوں؟۔ محترمہ کے ’’بڑے
صاحب‘‘ تو ریاستِ مدینہ کا ماڈل تھامے گلی گلی پرچار کر رہے ہیں لیکن
ریاستِ مدینہ میں تو دریائے فرات کے کنارے مر جانے والے کتّے کی روزِ قیامت
پُرسش پر بھی امیرالمومنین حضرت عمر لرزہ بَراندام تھے۔ بڑے صاحب کو یاد
رکھنا ہو گا کہ ریاستِ مدینہ میں انصاف تھا، ’’تحریکِ انصاف‘‘ نہیں۔ تحریکِ
انصاف کی حکومت میں مفلسوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جا رہا ہے اُسے دیکھ
کر تو بے اختیار یہ کہنے کو جی چاہتا ہے کہ
پڑیے گر بیمار تو کوئی نہ ہو تیماردار
اور اگر مر جائیے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو
اگر کوئی لاوارث مر جائے تو اُس کی لاش میڈیکل سٹوڈنٹس کے کام آئے اور اگر
لواحقین ہوں تو لاش لے جانے کے لیے ایمبولینس کے پیسے نہیں۔ کیا یہی ہے
ریاستِ مدینہ؟۔ |