انڈیا کے دارالحکومت دہلی میں موجود تہاڑ جیل میں زیر
سماعت قیدی شبیر کی پشت پر 'اوم' (ہندو معبود کے نام) سے داغے جانے کے
معاملے میں اب کڑکڑڈوما عدالت میں 30 اپریل کو سماعت ہوگی۔
|
|
اس سے پہلے عدالت نے جانچ رپورٹ پیش کرنے کے لیے 22 اپریل کی تاریخ طے کی
تھی لیکن جیل انتظامیہ عدالت میں اپنی جانچ رپورٹ پیش کرنے میں ناکام رہی
اس لیے سماعت ملتوی کر دی گئی۔
تہاڑ جیل کی جانب سے عدالت میں موجود اہلکار نے جانچ رپورٹ پیش کرنے کے لیے
دو ہفتے کا مزید وقت مانگا جسے عدالت نے خارج کرتے ہوئے اگلے ایک ہفتے کے
اندر ہی رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔
قیدی کے اہل خانہ کا الزام ہے کہ انھیں جیل میں پہلے سے ہی تشدد کا نشانہ
بنایا جا رہا ہے۔
جیل حکام کا کہنا ہے کہ اس معاملے کی جانچ ہو رہی ہے اس لیے وہ اس معاملے
میں میڈیا کو کچھ نہیں بتا سکتے۔
حکام کا کہنا ہے کہ تحقیقات مکمل ہونے تک اس جرم کے ملزم سپرنٹینڈنٹ کے
خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاسکتی ہے۔
تہاڑ جیل کے اضافی آئی جی راج کمار نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ
عدالت نے 30 اپریل تک کا وقت دیا ہے اور اس وقت تک تحقیقات کی رپورٹ سونپ
دی جائے گی۔
|
|
جیل انتظامیہ کی حیلہ سازی
ان کا کہنا ہے کہ جانچ پوری ہونے تک اس افسر کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو
سکتی جس پر 'اوم' سے داغنے کا الزام ہے۔
انھوں نے کہا کہ عدالت ہی یہ طے کرے گی کہ ان کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے۔
دہلی کے سیلم پور کے رہائشی شبیر کے خلاف 'آرمز ایکٹ' کا معاملہ عدالت میں
زیر سماعت ہے۔
شبیر کے والد ایوب نے واقعے کے بارے میں معلومات دیتے ہوئے کہا کہ سب سے
پہلے ان کے بیٹے نے اپنی بیوی اور بھائی کو بتایا کہ جیل میں ان پر کیا
تشدد ہوا۔
وہ کہتے ہیں: 'جب اس کی بیوی اور بھائی جیل میں اس سے ملنے گئے تو شبیر نے
اپنی پیٹھ پر بنا نشان انھیں دکھایا اور بتایا کہ جیل میں انھیں کس طرح
تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس کے بعد ہم نے اپنے وکیل سے رابطہ کیا
جنھوں نے عدالت میں عرضی داخل کی۔'
ایوب کا کہنا ہے کہ ان کا خاندان پہلوانوں کا ہے اور ان کے استاد ہندو ہیں
جن کے اکھاڑے میں انھوں نے پہلوانی کے ہنر سیکھے۔ اس واقعے سے انھیں صدمہ
پہنچا ہے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے شبیر کے وکیل جگموہن نے الزام لگایا کہ تہاڑ جیل
کی انتظامیہ نے جانچ رپورٹ پیش کرنے میں آنا کانی شروع کر دی ہے اور عدالت
کی طے کردہ تاریخ پر انھوں نے رپورٹ پیش نہیں کی۔
'جب 22 اپریل کو عدالت میں مقدمے کی سماعت ہوئی تو جس افسر کو وہاں حاضر
ہونا تھا وہ نہیں آئے۔'
|
|
جیل سپرنٹینڈنٹ پر سنگین الزامات
لیکن جیل انتظامیہ کی جانب سے عدالت میں جو اہلکار پیش ہوئے انھیں اس کیس
کے بارے میں کوئی معلومات نہیں تھی۔
بہرحال انھوں نے بتایا کہ عدالت کے حکم پر اب شبیر کو دوسری جیل میں منتقل
کر دیا گیا ہے۔
جگموہن کہتے ہیں کہ تشدد کے علاوہ جیل سپرنٹینڈنٹ نے مذہبی جذبات کو بھی
مجروح کیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ انھیں جیل انتظامیہ کی رپورٹ کا انتظار ہے جس کے بعد وہ
مزید قانونی کارروائی کریں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب جیل سپرنٹینڈنٹ پر ہی
سنگین الزامات ہیں ایسے میں جیل حکام کی جانب سے تحقیقات نامناسب ہے۔
ان کا یہ بھی مطالبہ کہ جانچ کسی آزاد اور منصفانہ ایجنسی سے کرائی جائے۔
ان کے خیال میں اس کے بعد ہی حقیقت سامنے آ سکتی ہے۔
دوسری جانب جیل انتظامیہ کا کہنا ہے کہ زیر سماعت قیدی دوسری جیل میں منتقل
ہونے کے لیے اس قسم کے الزامات لگا رہا ہے۔
|