روشن مستقبل کا سنہراسورج

وہ آؤٹنگ کیلئے نکلے، ایک ہوٹل سے کھانا کھایا شاپنگ کی فرمائش پر میاں بیوی کی لڑائی ہوگئی وہ کارمیں موٹروے پر گھر جارہاتھاکہ ایک پولیس افسر نے تعاقب کرکے انہیں ایک جگہ روکنے پر مجبور کردیا کاروالے نے چیں بچیں ہوکر پو چھا۔۔۔کیا مسئلہ ہے۔۔ کیوں روکاہے مجھے؟
’’موٹروے پر حد رفتار۔۔۔60ہے آپ80کی رفتارسے جارہے ہیں۔۔ پولیس افسر نے جواب دیا
’’ہرگزنہیں۔۔۔وہ چلایا میں مقررہ رفتارسے کم پرہی جارہاتھا۔۔۔او ڈارلنگ کاروالے کی بیوی نے دخل دراندازی کرتے ہوئے شوخی سے کہا میرے خیال میں آپ تو100کی رفتارسے گاڑی چلارہے تھے۔۔ کاروالے نے خشمناک نظروں سے بیوی کو گھورااسی دوران پولیس افسر نے کہا آپ کی کار کی عقبی لائٹ بھی ٹوٹی ہوئی ہے جو کسی حادثے کا سبب بن سکتی ہے
’’اوہ۔مجھے نہیں معلوم وہ کب اور کیسے ٹوٹی؟ ۔میں تمہیں دو ہفتوں سے کہہ رہی ہوں بیوی پھر بول پڑی۔۔ لیکن تم سنتے ہی کب ہو؟
’’آپ نے سیفٹی بیلٹ بھی نہیں باندھ رکھی۔۔پولیس افسر نے قدرے توقف سے الزامات کی فہرست میں اضافہ کرتے ہوئے کہا
’’آپ۔ اس نے مدافعانہ رویہ اختیارکرتے ہوئے جواب دیا جب بائیک سے اترے میں نے اسی وقت سیفٹی بیلٹ کھولی تھی
’’نہیں۔۔۔بیوی پھر بولے بغیر نہ رہ سکی سیٹ بیلٹ باندھنے کی آپ کو تو عادت ہی نہیں۔اب خاوندکا پارہ چڑھ گیااس نے سیخ پا ہوکر کہا ’’بکواس بندکرو ورنہ میں تمہارا منہ توڑ دوں گا‘‘
پولیس افسر عورت سے مخاطب ہوا’’ کیا آپ کے شوہر آپ سے ہمیشہ اسی اندازسے بات کرتے ہیں
’’نہیں ۔۔جواب ملا جب تھوڑی بہت پی کر بہکتے ہیں اس وقت غصہ دکھاتے ہیں ۔لگتاہے حکومت کو ان دنوں ایسی ہی صورت ِ حال کا سامناہے سالانہ بجٹ سے صرف ایک ماہ قبل اور عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف سے مذاکرات کے بیچوں بیچ پاکستان کے وزیر خزانہ اسد عمر کی تبدیلی کے فیصلے کو ‘سرپرائز’ تو نہیں لیکن ایک غیر روائتی سیاست دان کا اہم اور مشکل فیصلہ ضرور قرار دیا جا رہا ہے سیاسی صورت ِ حال یہ ہے کہ وفاقی کابینہ کے بڑے بڑے برج الٹا دیئے گئے ‘ وزیراعظم عمران خان نے وفاقی کابینہ کے بعض ارکان کے محکموں میں ردوبدل کر دیا ۔ کابینہ میں اکھاڑ پچھاڑ، سیاسی اور غیر سیاسی حلقوں میں ہلچل مچ گئی پنجاب اور خیبر پی کے میں تبدیلیاں ناگزیرہیں کوئی مانے یا نہ مانے یہ تبدیلیاں ہوکررہیں گی یہ بھی ہو سکتاہے پنجاب کے وزیر ِ اعلیٰ تبدیل ہوجائیں یا گورنر یا دونوں ہی،بہرحال ایک کی تبدیلی یقین نظرآرہی ہے اس کے پیچھے تحریک ِ انصاف کی گروپنگ ہے یہ گروہ بندی سے زیادہ انا کی جنگ ہے ہر رہنما چاہتاہے تحریک ِ انصاف اس کے گھرکی لونڈی بن کررہے اس لحاظ سے حکمران پارٹی میں داخلی اور خارجی دونوں اطراف سے یلغارہورہی ہے عموماً یہ اس وقت ہوتاہے جب پارٹیاں اپوزیشن میں ہوں یا کرائسس میں ہوں تحریک ِ انصاف میں ایسا کچھ نہیں پھر سوچنے کی بات یہ ہے کہ حکمران پارٹی کو کیا ہوگیاہے اس کا ایک ہی جواب میں پی ٹی آئی میں ہیوی ویٹ اس قدرجمع ہوگئے ہیں انہیں سنبھالنا مشکل بلکہ سنبھالا دوبھر ہوگیاہے موجودہ سیاسی صورت ِ حال کے تناظرمیں بے خوف و خطرکہا جا سکتاہے پی ٹی آئی حکومت کے پہلے 8 ماہ بعد ہی پی ٹی آئی کی حکومت پی ٹی آئی کی نہیں رہی‘ جبکہ پی ٹی آئی کے نام پر قائم ہونے والی حکومت میں زیادہ تر حکمرانی پیپلزپارٹی اور مشرف دور کے وزراء کی ہے‘ وزیر اعظم عمران خان 8 ماہ بعد ہی پی ٹی آئی کے ان وزراء سے مایوس ہوگئے جو پی ٹی آئی کے نام پر الیکشن میں منتخب ہوئے اور ان میں سے چند حکومت کا حصہ بنیں لیکن 8 ماہ بعد وہ چند وزراء بھی گھر بھیج دیئے گئے اس طرح اب پی ٹی آئی حکومت میں بیشتر اہم قلمدان غیر منتخب لوگوں کے پاس ہیں جو پارلیمنٹ کو جواب دہ نہیں ہیں اوران مشیران ومعاونین خصوصی کا تعلق بھی نہیں ہے جس وزیر خزانہ اسد عمر کی بحیثیت معیشت دا ن عمران خان تعریف کرتے نہیں تھکتے تھے اور 8 سال سے ان کی اسد عمر سے سیاسی رفاقت تھی‘ لیکن اب وہ ایک ایسے شخص کو مشیر خزانہ نے کبھی دیکھانہ ان سے کبھی ان کی ملاقات ہوئی‘ تمام تاثر یہ ہے کہ حفیظ شیخ جو پیپلزپارٹی دور میں بھی وزیر خزانہ رہے ہیں وہ دراصل آئی ایم ایف کے نمائندے ہیں اور وہ پاکستان میں خزانہ کا قلمدان سنبھالنے کے بعد حسب سابق پاکستان کی بجائے آئی ایم ایف کے مفادات کیلئے کام کریں گے جبکہ عوام دہائی دے رہے ہیں کہ عمران خان نے بلنو بانگ دعوے تو کئے لیکن انہیں کو کوئی پیکیج نہیں دیا، ملک وزیر بدلنے سے نہیں بلکہ پالیسیاں بدلنے سے بہتر ہوگا۔ نا اہلی کے سبب عوام مزیدپریشانی کا شکارہوگئے ہیں۔اب اس نااہلی کو کچھ لوگ ناتجربہ کاری سے تعبیر کرتے ہیں خود حکمران پارٹی کے وزیر مشیر اور سپورٹر عوام کو تسلیاں دے رہے ہیں کہ تحریک انصاف وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں عوامی مسائل کے حل کے لیے کوشاں ہے۔ عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کیے جارہے ہیں۔ عوام کی فلاح کیلئے تاریخی منصوبوں کا انعقاد کیا جارہا ہے جس کی مثال ملک کی تاریخ میں نہیں ملتی ہے ملک کے اندر عوامی دور آئے گا۔ ماضی کے نااہل حکمران خود تو اربوں ڈالروں کی بیرونی ممالک جائیدادیں بنا کر بیٹھے ہیں جبکہ وزیر اعظم ملکی معیشت کی بہتری کیلئے خود ملکوں ملکوں جاکر اقتصادی پیکج لے رہے ہیں اگر زرداری اور نوازشریف ملک وقوم سے مخلص ہوتے تو پاستان کو کھربوں ڈالرکا مقروض نہ کرتے بہرحال عوام انتظار کریں عمران خان کی قیادت میں ملک حقیقی معنوں میں ترقی کی منازل طے کرے گا۔ اس وقت وزیرِ اعظم عمران خان پاکستان میں کرپشن، غربت ،جہالت اور بیروز گاری کے خاتمے کے خلاف جدو جہد کی علامت ہیں۔ سیاسی پوائنٹ سکورنگ کرنے والے وقت کی نزاکت کو سمجھیں اور تنقید برائے تنقید کی روش کو ترک کر کے پاکستان کی ترقی ،معاشی مضبوطی اور سا لمیت کیلئے اپنا حصہ ڈالیں،یہ وقت پاکستان کے لئے کام کرنے کا ہے نہ کہ اوچھے ہتھکنڈوں کے ذریعے حکومت کے لیے مسائل پیدا کرنے کا۔ ملک پہلے ہی کرپشن اور ذاتی مفادات کی وجہ سے بہت پیچھے جا چکا ہے۔ تحریکِ انصاف کی قیادت معیشت کی بہتری اورمضبوطی کے لیے پوری نیت کے ساتھ دن رات ایک کرکے کام کر رہی ہے۔ اب تنقیدکرنے والے پاکستان کی بہتری کے لئے تجاویز دیں نہ کہ صرف باتوں سے کام چلائیں۔ لوڈشیدنگ ،مہنگائی اور غربت سابقہ حکومتوں کی نااہلی کانتیجہ ہے قوم کو یقین دلاتے ہیں کہ پانچ سال کی حکومت مکمل کرنے کے بعد ہم ایک نیاخوشحال پاکستان قوم کودیں گے ملکی معیشت کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے کیلئے حقیقت پسندانہ ترجیحات کا تعین کیا جا رہا ہے تاکہ تیز رفتار ترقی کے اہداف کو حاصل کیا جاسکے اس لئے مایوس ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ خدا کرے ایسا ہی ہو آخر امیدپر دنیا قائم ہے اور ہمیں اﷲ کے حضور امید بلکہ یقین ہونا چاہیے کہ پاکستان میں ترقی وخوشحالی،امن و سلامتی کے روشن مستقبل کا سنہراسورج جلدطلوع ہوگا۔

Sarwar Siddiqui
About the Author: Sarwar Siddiqui Read More Articles by Sarwar Siddiqui: 218 Articles with 159279 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.