آج ہم جس معاشرے میں سانس لے رہے ہیں،وہ ایک گھٹن زدہ
معاشرہ بن چکا ہے ۔حکمران ہوس اقتدار میں اتنے آگے بڑھ چکے ہیں کہ انہیں
اچھے برے کی تمیز نہیں رہی ۔حکمرانوں کو یہ تک اندازہ نہیں کہ جس عوام نے
انہیں یہاں تک پہنچایا ہے ،وہ کیا سوچتے اور کیاچاہتے ہیں․․؟عوام کے ذہن
میں سوالات بھرے پڑے ہیں،ان میں چند یہ ہیں کہ کیا یہ ہمارے ملک میں جمہوری
نظام ہے اور اگر ہے تو اسے ایسے چلنا چاہیے․․․غربت کیوں نہیں مٹ رہی․․․ملک
پر سے قرضے ختم کیوں نہیں ہو رہے․․․انصاف ہر گھر کی دہلیز پر کیوں نہیں
پہنچ رہا․․․؟وغیرہ
ملک چلانے کے لئے جمہوری نظام کو اس لئے اچھا سمجھا جاتا ہے ،کیونکہ
جمہوریت میں مذہب،ذات ،زبان،تہذیب ،فرقہ یا اکثریتی طبقہ کا بول بالا نہیں
ہوتابلکہ ہر کسی کو برابری کی بنیاد پر نمائندگی ملتی ہے۔لیکن پاکستان میں
اس نظام کے بربادی کے ہم خود ذمہ دار ہیں ۔ہمارے ہاں جاگیردارانہ ،سرمایہ
دارانہ اور حاکمانہ ذہنیت نے عوام کو ہمیشہ غلام سمجھا۔آزادی کی قیمت سے نا
آشنا لوگ سیاست میں عروج پا گئے اوروہ لوگ دھن دولت کے بل بوتے پر سیاست
میں قدم جمانے لگے،جن کا کردار انتہائی گرا ہوا تھا ۔سیاسی پارٹیوں نے
انہیں فوقیت دی ۔یہی وجہ بنی کہ سیاسی پارٹیاں دولت مندوں ، غنڈے ،مافیاؤں
اوربد کرداروں کو انتخابی عمل میں شریک کرتی رہی ہیں ۔ان کی تعداد انتخاب
در انتخاب بڑھتی رہی ہے ۔یہاں اقتدار کے حصول کی خاطراجتماعیت کے نظریہ کو
پس پشت ڈال کر نفرتیں بڑھانے کا پروپیگنڈا کیا گیا ہے۔اس پروپیگنڈے میں ایک
مفروضہ قائم کیا جاتا ہے ،جماعتی تعصب کو ہوا دی جاتی ہے ،اس سے لوگوں کے
جذبات کو بھڑکایا جاتا ہے اوران نفرتوں کو اقتدار میں آنے اور عوام کو ان
نفرتوں میں ایسا الجھا دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے حقیقی مسائل کو درگزر کر کے
ان نفرتوں کے بھنور میں ایسے بہہ جاتے ہیں کہ حکمرانوں کے اقتدار کا وقت
پورا ہو جاتا ہے ۔پھر دوسری ٹیم آ جاتی ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے ۔اکثر طاقت
ور قوتیں اقتدار سنبھال لیتی ہیں،لیکن ان سب کے درمیان نقصان ملک اور عوام
کا ہوتا ہے ۔عوام غریب تر ہو رہی ہے اور حکمران امیر ترین ہوتے جا رہے ہیں
۔یہ جمہوری نظام کا قصور نہیں بلکہ آج تک جمہوری نظام کو ملک میں رائج ہی
نہیں ہونے دیا گیا ۔
اب آ جاتے ہیں ،غربت مٹاؤپر۔افسوس کی بات یہ ہے کہ ہر سیاسی پارٹی غریب کو
استعمال کر کے اقتدار حاصل کرتی ہیں اربوں روپے ہڑپ ہو جاتے ہیں ،مگر غربت
پر بات تک نہیں ہوتی ۔یہ حیرت کی بات ہے کہ اس قدر اہم مسئلے کو ہمارے ملک
میں اکثر نذر انداز کیا جاتا ہے ۔کئی حکومتیں آئیں اور چلی گئیں ۔لیکن غربت
پر بات تک نہیں کی۔یہاں تک کہ غربت کے متعلقہ اعداد و شمار تک مخفی رکھے
جاتے ہیں ۔بین القوامی معیار کو دیکھا جائے تو وہ 2ڈالر یومیہ ہے ۔اگر اس
معیار پر پاکستان کو دیکھا جائے تو پاکستان کی 60فیصد آبادی غربت کی زندگی
گزار رہی ہے۔پاکستان کو غربت مٹانے کے لئے دنیا بھر سے کروڑوں ڈالر کی
امداد ملتی رہی ہے ۔اس کے علاوہ دنیا بھر کے ڈونر اداروں سے بھی غربت مٹانے
کے لئے بے شمار رقم حاصل کی ہے ۔لیکن ملک میں غربت کم ہونے کی بجائے بڑھی
ہے ۔بھارت اور چین نے غربت میں نمایاں کمی کی ہے ۔پاکستان میں ہر آنے والی
حکومت چاہے وہ جمہوری ہو یا غیر جمہوری غربت مٹانے کی بات صرف بیانات تک
کرتی رہی ہیں ۔ 1951ء سے آج تک کوئی ایسا سال نہیں گزرا جب کوئی ’’غربت
مٹاؤ‘‘پروگرام نہیں چل رہا ہو،مگر ان تمام پروگراموں میں حکومتوں کی ناکامی
اور کرپشن کی واضح جھلک نظر آتی رہی ہیں ۔اگر ملک میں واقعی غربت میں کمی
کی خواہش ہوتی تو ملک میں روزگار کے مواقع بڑھانے کی طرف تمام تر توجہ دی
جاتی ۔اس کے لئے معاشی اصلاحات کی ضرورت ہوتی ہے ۔انڈسٹری اور صنعت کی
بحالی کے اقدامات کرنے کی طرف توجہ دینی تھی ،مگر بد قسمتی سے ان مسائل کو
کبھی ترجیح نہیں دی گئی ۔
ہمارے وزیراعظم بھائی عمران خان کی تمام تر سیاست کا دارومدار الزامات اور
جھوٹ پر کھڑا ہے ۔انہیں کنٹینر کی سیاست اتنی پسند آئی ہے کہ وہاں سے ہٹنے
کا نام نہیں لیتے ۔ماضی کی حکومتوں پر قرضے لینے کے الزامات لگاتے ہیں ۔کیونکہ
عمران خان کو پورا یقین نہیں تھا کہ ان کے انمپائر انہیں یہاں تک پہنچائیں
گے ،اس لئے سنی سنائی اورجو منہ میں آیا بول دیا،مگراﷲ تعالیٰ کی قدرت اسے
ہی کہتے ہیں کہ وقت کا پہیہ بدلا اور عمران خان کو وزیر اعظم بنا دیا گیا ۔یہ
پرچی سے بڑھ کر پرچی تھی ۔لیکن 22کروڑ عوام کے ملک پرحکومت کرنا ہر کسی کے
بس کی بات نہیں ہوتی ۔نا اہلی سامنے آئی اور آٹھ نو ماہ میں تمام پول کھل
گیا ۔عوام کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ پاکستان پر قرضہ کیوں ہے ؟کیونکہ
پاکستان کی آمدنی کم اور اخراجات زیادہ ہیں ۔حکومتوں نے اپنی آمدنی کے
ذریعے تلاش کرنے کے بجائے اندرونی انتشار اور غیر ضروری معاملات میں
الجھائے رکھا اور آج بھی اسی شدت سے الجھا رہے ہیں ۔پاکستان نے اپنی
برآمدات بڑھانے اور درآمدات کو کم کرنے میں کوئی کوششیں نہیں کی ہیں ۔ملک
میں مشینری اور ٹیکنالوجی نہ ہونے کے برابر ہے ،اس پر کام بھی نہیں کیا جا
رہا ۔مسلم لیگ (ن) پر تنقید کی جا رہی ہے کہ انہوں نے ملکی قرضے بڑھائے ہیں
،مگر انہوں نے تو سی پیک جیسا بہت بڑا منصوبہ شروع کیا، جس کے لئے انہوں نے
30ارب ڈالر کی پاور پلانٹس مشینری اور دیگر اضافی درآمدات کیں ۔اگر سی پیک
کے لئے یہ درآمدات نہ کی جاتیں تو قرضہ لینے کی ضرورت نہ ہوتی ۔اب اگر یہ
پاور پلانٹس لگے ہیں تو 11000میگاواٹ نئی بجلی بنائی جا رہی ہے ۔ان قرضوں
سے بہت سے ترقیاتی منصوبے بنائے گئے ۔ معاشی صورت حال کو بہتر بنانے کے لئے
اقدامات کئے ۔جس سے سٹاک مارکیٹ میں اربوں ڈالر کی غیر ملکی سرمایہ کاری
ہوئی۔قرضے لینے پر پروپیگنڈا کرنے کی بجائے عوام کو بتانا چاہیے تھا کہ سی
پیک جیسے منصوبوں کے لئے قرضے اچھے ہوتے ہیں ۔اس سے دوسروں کے پیسے کو
استعمال کر کے اپنی ترقی کرتے ہیں ۔اگر قرضے غیر ترقیاتی کاموں کے لئے لیے
جائیں تو پھر معاشی بوجھ بنتے ہیں ۔عمران خان بھی انہیں منصوبوں کا افتتاح
کر رہے ہیں جن منصوبوں کے لئے مسلم لیگ (ن)نے قرضے لیے تھے ۔تاکہ ملک کو
ترقی دی جائے اور اسے اپنے پاؤں پر کھڑا کیا جائے ۔
امن اور انصاف کے بغیر زندگی کٹھن ہے ۔اگر زندگی کی تمام سہولیات میسر کر
دی جائیں مگر امن اور سلامتی کا حصول نا ممکن بنا دیا جائے تو تمام سہولیات
ہونے کے باوجود انسان بے سکون رہتا ہے ۔مگر ہماری عوام تو دونوں طرف سے پسے
ہیں ۔تحریک انصاف نے ہر گھر کی دہلیز پر انصاف پہنچانے کا وعدہ تو کر لیا ۔لیکن
یہ وعدہ بھی دوسرے وعدوں کی طرح کہیں کھو چکا ہے ۔اداروں سے سیاسی دباؤ ختم
کیا ہونا تھا،اس حکومت نے سیاسی دباؤ کی تمام حدود کو عبور کر دیا ہے ۔ایسی
مثالیں قائم کر دی ہیں جن کی مثال 71برسوں میں نہیں ملتی۔یہاں چور کی سزا
کوتوال اور شاہ کی سزا رعایا کو مل رہی ہے ۔انصاف کے حوالے سے اس ملک میں
نو ماہ کی بچی نشوا ایک بڑی مثال ہے اور کیا اس واقع کے بعد بھی ہم اپنے آپ
کو انسان کہتے ہیں۔یہی ہماری قومی سطح پر تباہی ،بربادی اور ذلت کی وجہ ہے
۔
حکمران اور حزب اختلاف کو ہوش کے ناخن لینے چاہیں ۔ سیاست دانوں کو کٹھ
پتلیوں کی طرح نچا کر پہلے بھی ملک کے آئین و قانون سے کھلواڑ کیا جاتا رہا
ہے اور آج بھی سکرپٹ اسی جانب جاتا صاف دکھائی دے رہا ہے ۔سب جانتے ہیں کہ
فرخ نسیم کو وزیر قانون ایم کیو ایم نے نہیں بنوایا ۔جنہوں نے انہیں جس
مقصد کے لئے بنوایا ہے اسے پورا کرنے کے لئے قومی اسمبلی میں حرکت میں آ
چکے ہیں ۔انہوں نے ایک خطرناک آئینی پیکیج بنا رکھا ہے ،جو آئین سے ماوریٰ
اقدام ہے اور صدارتی نظام کا احیا ہے ۔سیاست دانوں کو اپنا رویہ تبدیل کرنے
کی ضرورت ہے ۔عدم برداشت اور رواداری ختم ہو رہی ہے ،اس کا بال آخر بھیانک
انجام نکلے گا۔عمران خان کنٹینر کی سیاست میں ایسے مگن ہوئے کہ انہیں اور
ان کی ٹیم کو ملک چلانے کی تربیت لینے کا وقت ہی نہ مل سکا ۔جس کی وجہ سے
آج ریاست جن بحرانوں سے دوچار ہے، وہ پیدا ہوئیں ۔اب ٹیکنو کریٹ ملک چلائیں
گے تو انتخابات کرانے کی کیا ضرورت ہے ؟یہی باور کروانے کے لئے سارا ڈرامہ
لگایا گیا ہے ۔ایک جانب خطرناک معرکہ آرائی ہے اور دوسری جانب سیاست دانوں
کو صاحب اور صاحبہ کی بحث پر لگا دیا گیا ہے ،افسوس ہی کر سکتے ہیں ،اپنے
حکمرانوں کی سوچ پر ۔
|