جوش خطابت ہو یا کسی پریس کانفرنس یا جلسے میں تقریر،
عموماً ’’زبان پھسل جاتی ہے۔‘‘ یہ ایک لاشعوری عمل ہے۔ وزیراعظم عمران خان
کی جانب سے دورہ ایران کے موقع پر دو موضوعات پر پریس کانفرنس کے دو پیرائے
شدید تنقید کی زد میں آئے ہیں۔ جرمنی اور جاپان کے علاوہ پاکستان میں دہشت
گردوں کی کمیں گاہوں کے اعترافی بیان کے حصوں کو ادھورا کہا جارہا ہے کہ
بیان کو درست کوڈ نہیں کیا گیا۔ سیاق و سباق میں قطع برید کی گئی اور جرمنی
جاپان کے معاملے میں وزیراعظم کی زبان پھسل گئی تھی۔ وزیراعظم کے بیان پر
دوران احتجاج پاکستان مسلم لیگ (ن) نے گو نیازی گو کے بجائے گو نواز گو کا
نعرہ لگادیا، جس پر نعرے لگوانے والی (ن) لیگی رہنما عظمیٰ ٰ بخاری شرمندہ
ہوکر ہنس پڑیں۔ 4 جولائی 2017 کو طلال چوہدری کی زبان لڑکھڑا گئی تھی،
موصوف جوش خطابت میں وزیراعظم نواز شریف کو مرحوم کہہ گئے تھے۔ طلال چوہدری
پاناما کیس میں نواز شریف کی بے گناہی ثابت کرنا چاہتے تھے۔ فیڈرل جوڈیشل
اکیڈمی کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’’حسین نواز کی
منی ٹریل ان کے ’’مرحوم والد‘‘ سے لے کر اس کے اپنے تک کا ایک ایک سچ قوم
بھی جانتی ہے‘‘۔ 12 ستمبر2016 کو سابق وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز
رشید کی زبان بھی پھسل گئی تھی۔ حج کے متعلق بیان دیتے ہوئے نواز حکومت سے
پہلے کے سرکاری حج کو ہی سستا حج قرار دے ڈالا۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے
جذبات میں الٹا بول گئے تاہم بعد میں جیسے ہی انہیں خیال آیا تو تصحیح کر
ڈالی کہ اس سے قبل سرکاری حج مہنگا ہوتا تھا اور پرائیویٹ حج اس سے بھی
زیادہ مہنگا ہوتا تھا۔ زعیم قادری کی زبان بھی پھسل گئی تھی، جذبات میں کہہ
دیا کہ ان شاء اﷲ نواز شریف ضرور نااہل ہوجائیں گے۔ انہیں جب احساس دلایا
گیا تو انہوں نے اپنی غلطی کی تصحیح کی۔
11مئی2017کوچیچہ وطنی میں خطاب کے دوران سابق وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ
ہم بجلی کے منصوبوں پر کام کررہے ہیں، ہمارے کام مکمل ہورہے ہیں، دہشت گردی
کا خاتمہ ہورہا ہے، رواں سال ’’بجلی بھی ختم ہوجائے گی‘‘۔ تاہم فوراً درستی
کرتے ہوئے کہا کہ لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہوگا۔ مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی
اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف کی زبان پھسل گئی تھی۔ قومی اسمبلی
میں اظہار خیال کرتے ہوئے شہباز شریف کی زبان پھسل گئی اور وہ تحریک انصاف
پر تنقید کے دوران غلطی سے کہہ بیٹھے کہ ہم پیپلز پارٹی کو ملک کا یہ
خوبصورت پروگرام تباہ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ پھر فوراً ہی غلطی کا
احساس ہوا تو معذرت کی۔ ایک جلسے میں خودعمران خان نے شیر کو ووٹ دینے کی
اپیل کردی تھی۔ تاہم گزشتہ دنوں بلاول بھٹو زرداری کے لیے نازیبا استعمال
کیے، جو وزیراعظم کے عہدے کے شایان شان نہیں تھے۔
16 دسمبر 2018 کو سابق وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ آصف زرداری کو ’’درباری‘‘
کہہ گئے تھے۔ پیپلز پارٹی کے ٹنڈوالٰہ یار کے جلسے کے دوران ان کی زبان
پھسلی تھی۔ گورنر سندھ عمران اسماعیل جب ایم کیو ایم کے رہنما خواجہ اظہار
کے حادثے میں زخمی ہونے پر عیادت کرنے گئے تو ان کی زبان پھسل گئی اور
انہوں نے عیادت کی جگہ ’’تعزیت‘‘ کہہ دیا تھا۔ جس پر توجہ دلانے پر انہیں
معذرت طلب کی۔ اگر زبان پھسلنے پر پاکستان کے تمام رہنماؤں کی غلطیاں لکھتا
جاؤں تو ایک کتاب مرتب ہوسکتی ہے۔ اس لیے اگروزیراعظم نے فرانس کے بجائے
جاپان کہہ دیا تو اپوزیشن، سوشل میڈیا ایکٹویٹس سمیت میڈیا پرسنز کو ادراک
کرلینا چاہیے تھا کہ وزیراعظم نے جو بیان دیا، وہ اپنے سیاق و سباق سے درست
تھا، لیکن ممالک کے نام لیتے ہوئے ان سے غیر دانستہ غلطی ہوئی۔ راقم اسے
زبان پھسل جانا ہی سمجھتا ہے۔ وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری
وضاحت کرچکی ہیں، تاہم وزیراعظم ہاؤس کی جانب سے غیر دانستہ غلطی پر مفصل
وضاحت آجاتی تو اچھا رہتا، لیکن وضاحت بروقت کیوں نہیں آرہی، اس کی ایک اہم
وجہ ہے۔
سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ دراصل وزیراعظم نے پاکستان میں دہشت گردوں کی
موجودگی کے اعتراف پر شدید تنقید کے سبب پہلے متذکرہ معاملے پر وضاحت سے
گریز کی راہ اختیار کی ہے۔ وزیراعظم کے ایران جانے سے قبل وزیر خارجہ اور
وزارت خارجہ نے کوسٹل ہائی وے دہشت گردی کے حوالے سے ایران کے خلاف سخت
زبان استعمال کی تھی۔ اس بیان کو ایران میں دہشت گردی کے واقعات پر ایران
کی جانب سے باربار پاکستان پر الزامات کی دراصل توثیق قرار دیا جارہا ہے۔
حالانکہ اس سے قبل ایران کی جانب سے بارڈر فورسز اہلکاروں کے مبینہ اغوا پر
ایرانی سپاہ پاسداران انقلاب کی جانب سے بڑا سخت موقف اختیار کیا گیا تھا
یہاں تک پاکستان میں گھس کر حملے کی دھمکی تک دی تھی۔ پاکستان نے دہشت
گردوں کی کمین گاہوں کے خاتمے کے حوالے سے دنیا کو باور کرایا تھا اور یقین
دہانی کرائی تھی کہ پاکستان میں اب دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں ختم
کردی گئی ہیں۔ پاکستان میں اب کسی دہشت گرد تنظیم کا نیٹ ورک نہیں۔ تاہم
جرمنی، جاپان والے بیان کو زبان پھسلنا تو سمجھا جاسکتا ہے، لیکن میزبانوں
کے سامنے ایران میں ہونے والے واقعات پر پاکستان میں اب بھی دہشت گردوں کی
کمین گاہوں کا اعتراف یقینی طور پر سنگین غلطی ہے۔ سابق وزیر دفاع خرم
دستگیر کے اس مطالبے کی تائید کی جارہی ہے کہ وزیراعظم کو پارلیمنٹ میں
اعتماد میں لے کر اپنے متنازع بیان کی وضاحت کرنی چاہیے، کیونکہ یہ بیان
کسی فرد کا نہیں بلکہ وزیراعظم کا ہے۔
کالعدم تنظیموں کی موجودگی کے متعلق وزیراعظم کا بیان غیر معمولی و حساس ہے،
کیونکہ دورہ ایران سے قبل 14 فروری 2019 کو ایران کے جنوب مشرقی علاقے میں
ایک خودکُش حملے میں پاسداران انقلاب کے کم ازکم 27 محافظ ہلاک اور20زخمی
ہوئے تھے۔ اطلاعات کے مطابق محافظوں کو منتقل کرنے والی گاڑی کو پاک ایران
سرحد سے متصل سیستان بلوچستان صوبے میں خاش زاہدان روڈ پر نشانہ بنایا گیا
تھا۔ نیز صوبہ سیستان سے ایرانی بارڈر فورسز کے14اہلکاروں سمیت15 اکتوبر
2018 کو میر جاوا میں ایرانی اہلکاروں کے اغوا کے واقعات بھی عمرانی حکومت
میں ہی رونما ہوئے ہیں۔ پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان کی جانب سے جاری
بیان میں ان واقعات کی مذمت کی گئی تھی، تاہم جنگجو گروپ جیش العدل نے دعویٰ
کیا ہے کہ ان واقعات کے پیچھے اس کا ہاتھ ہے۔ ان حالات میں وزیراعظم کے
دہشت گرد تنظیم کا پاکستان سے حملے کے اعتراف کو زبان کی پھسلن نہیں بلکہ
سنگین غلطی یا کوتاہی سمجھا جارہا ہے۔ بہتر ہوتا کہ اگر اورماڑہ سانحے کے
ساتھ وزیراعظم تفتان و تالاب تک ایران اور پاکستان کے سرحدی علاقے میں
ایرانی فورسز کی جانب سے قریباً ہر رات پاکستانی علاقوں میں گولے برسانے پر
بھی بات کرتے۔ 950کلومیٹر سرحد کو محفوظ بنانے کے لیے مالی تعاون کا معاہدہ
کرتے۔ انسانی اسمگلنگ اور ایرانی پٹرولیم مصنوعات کی اسمگلنگ پر بھی بات
ہوتی، بلکہ ان معاملات پر وزارت خارجہ اور سیکیورٹی فورسز کی سطح پر
مذاکرات کا سلسلہ شروع کرنے پر اتفاق رائے کیا جاتا تو یہ تاریخی دورہ بن
سکتا تھا۔ |