گزشتہ سال ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں تشکیل پانے
والی حکومت اَبھی تک عوامی توقعات پر پوری نہیں اُتر سکی ہے ۔کیوں کہ
حکمرانوں اور سیاستدانوں کی توجہ آپس کی لڑائیوں اور کھینچا تانی کی وجہ سے
عوامی مسائل اور پریشا نیوں کے حل سے یکسرہٹ چکی ہے ۔ بیشک ، پچھلے آٹھ ،
دس ماہ میں ہمارے ایوانوں میں کسی بھی قسم کی عوامی فلاح و بہبود سے متعلق
قانون سازی نہیں ہوپائی ہے ۔ اِس کی خاص وجہ صرف یہی ہے کہ آج ہمارے ایوان
سیاسی اور ذاتی لڑائیوں کا اکھاڑا بن گئے ہیں۔سیاست دانوں کے ذاتی مسئلے
ایوانوں میں لائے جارہے ہیں۔ذراسی بات کو بتنگڑ بنادینا حکومت اور اپوزیشن
کا مشغلہ بن گیاہے۔خواہ حکمران جماعت ہوکہ حکومتی اتحادی ہوں یا اپوزیشن کی
جماعتوں سے تعلق رکھنے والے اراکین ہوں۔اِن کی ایک دوسرے سے متعلق زبانیں
پھسلنے کا معاملہ آئے روز کا معمول بن گیاہے۔
آج جتنی اِن کی زبانیں پھسلتی ہیں۔ اِتنی تو سڑکوں پر چلتی گاڑیاں نہیں
پھسلتی ہیں۔ جتنی کہ اَب ہمارے سیاستدانوں کی زبانیں پھسلنے لگیں ہیں ۔ جس
کے بعد ایوانوں ، پبلک مقامات اور ٹی وی پروگراموں میں ایسا سیاسی تصادم
اور رن چھڑجاتاہے کہ ایوان اور سارا مُلک مچھلی بازار کا منظر پیش کرنے
لگتاہے ۔جیسا کہ آج کل ہمارے ایوانوں میں مذکر کو صاحبہ اور موئنث کو صاحب
کی گونج سے بائیس کروڑ عوام کے کان پک چکے ہیں ۔حالاں کہ بات کچھ بھی نہیں
ہے۔ پچھلے دِنوں عوامی اجتماع سے خطاب کی دوران وزیراعظم عمران خان کی زبان
دوسروں کی طرح پھسل کر بلاول زرداری کو ایک بار ’’ صاحبہ ‘‘ کیا کہہ گئی؟ ؛تب
سے پی پی پی اور ن لیگ والوں نے اِس’’ صاحبہ‘‘ کو اتنا اُجھالا ہے کہ اِس
سے بلاول زرداری کی اچھی بھلی شخصیت اور ساکھ متاثر ہورہی ہے یہ مسئلہ اتنا
بڑا بھی نہیں ہے جتنا کہ جعلی جمہوریت کا نعرہ لگا کر حکومت کی راہ میں
رغنہ ڈالنے والی اپوزیشن پارٹیوں پی پی پی اور ن لیگ نے رائی کو پہاڑ بنا
کر پیش کیا ۔یقینا اِن کے اِس عمل سے بلاول سمیت دونوں پارٹیوں کے سیاسی
کیرئیر کو بھی دھچکالگا نے کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔ اور عوام الناس میں
دونوں پارٹیوں کا یہ امیچ گیاہے کہ آج اپنے گرد احتساب کا دائر تنگ ہوتا
دیکھ کر یہ بوکھلاہٹ کا شکار ہیں ۔اِسی لئے حکومت مخالف چیخنے چلانے کا
کوئی بھی بہانہ ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہتی ہیں۔آج نجی اورجعلی جمہوریت
سے جمہوری توقعات کا وابستہ کرنا،نابینا کا خواب ہے۔اَب رینگتے ، زمین پر
اپنا وجود گھیسٹتے پاکستانی عوام کو سوچنا ہوگا کہ وہ اسمبلی میں اپوزیشن
کے غیر سنجیدہ رویوں کو سمجھیں کہ ایوان میں اپوزیشن کا کردار کیسا ہے؟عوام
خود کو کمزور نہ سمجھیں ؛ یہ حکمرانوں اور سیاستدانوں سے زیادہطاقتور اور
باشعور ہیں ؛یہ حکمرانوں اور سیاستدانوں سے اپنے حقوق سے متعلق پوچھیں کہ
اِنہوں نے اِنہیں ووٹ دے کر ایوانوں تک اپنے مسائل حل کرنے اور مہنگائی سے
نجات اور جمہوریت ثمرات اپنے گھر کی دہلیز تک پہنچانے کے لئے پہنچایاتھا یہ
تو ایوان میں جاکر اِنہیں (عوام کو )ہی بھول کر اپنی ہی ذاتی اور سیاسی
لڑائی جھگڑوں میں کیوں لگ گئے ہیں؟
آج ایوانوں کو مچھلی بازار بنا دیکھ کر یہ شک یقین میں بدلتا ہوا محسوس
ہوتا ہے کہ جیسے ہمارے حکمرانوں اور سیاست دانوں نے عوامی مسائل اور
پریشانیوں کے حل سے منہ موڑ کر بے حسی، بے شرمی،بے حیائی،ہٹ دھرمی اور پلے
درجے کی ڈھٹائی کی چادر اُوڑھ لی ہے ۔اَب کوئی کچھ بھی کہے اِنہیں اگلے
انتخابات تک یہی کچھ کرنا ہے آج جو یہ کررہے ہیں کیوں کہ اِس کے سِوا اِن
کے پاس کچھ کرنے کو رہ کیا گیاہے۔؟سو ،کیا یہ بہتر نہ ہو کہ اَب عوام
اپوزیشن والے ایوان نمائندگان سے اچھائی کی اُمیدیں رکھنا چھوڑدیں؟کاش اگلے
بلدیاتی الیکشن اور عام انتخابات سے پہلے مہنگائی کو بے لگام کرنے اور
جمہوری ثمرات کو عوام تک پہنچانے سے روکنے والے بہروپ سیاست دانوں کے رویوں
سے عوام کی آنکھیں کھل جا ئیں۔اِس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ آج مُلک میں
جمہوریت کو بہترین انتقام کہنے والے ہمارے سیاسی جمہوری پنڈتوں نے مُلک میں
مہنگائی کو بے لگام کرکے اپنے ہی ووٹرز سے انتقام لینے کی ٹھان لی ہے آج
جنرل الیکشن کے بعد بے لگام مہنگا ئی کی غنڈہ گردی سے جمہوری انتقام کا
جتنانشانہ غریب شہری اور ووٹربن رہے ہیں اُتنا کوئی سیاست دان مہنگائی کے
ہاتھوں جمہوری انتقام کا نشانہ نہیں بن رہا ہے۔ضروری ہے کہ اشراف اور جعلی
جمہوری پنڈتوں کے دماغ سے دل تک پھیلے مفاداتی کینسر کا علاج فوری آپریشن
کرکے کیا جائے تاکہ اشراف اور جعلی جمہوری پنڈتوں میں حقیقی جمہوریت کے
جراثیم اور سیل پروان چڑھیں، اور مُلک میں حقیقی جمہوری ثمرات اشراف سے
عوام الناس تک پہنچیں۔پاکستانی عوام اپنے سیاسی شعور سے کسی بھی صورت میں
قابض ہونے والے اشراف سے جان چھڑانے کے لئے سنجیدہ ہوجائیں۔ ورنہ اشراف کا
مٹھی بھر طبقہ اِنہیں اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات کے لئے اپنا غلام بنائے
رکھے گا۔بہر کیف ،اِس حقیقت سے اِنکار نہیں ہے کہ لگ بھگ 71سال سے مُلکی
ایوانوں سے لے کر گلی محلوں تک مہنگائی اور جمہوریت کے چرچے توبہت عام رہے
ہیں، مگرکسی نے بھی مہنگائی کو لگام دینے اور جمہوریت کو اِس کی روح کے
مطابق پھیلانے میں رتی برابر بھی اپنا کردار ادا نہیں کیا ہے ۔ جیسے تیسے
وقت گزرتاگیاہے؛ مُلک میں مہنگائی تو امر بیل کی طرح تیزی سے پلی پھولی اور
پروان چڑھتی گئی ہے۔ مگرافسوس کے ساتھ کہنا پڑتاہے کہ ہمارے مُلک میں
جمہوریت کے ٹھیکیداروں ، رکھوالوں ، جمہوریت کے چیمپیئنوں اورجمہوریت کے
پنڈتوں نے اِس کی آباری اِس طرح سے نہیں کی ہے۔ جس طرح سے کیا جانا اِس کا
اور اُن کا حق تھا ۔یہی وجہ کہ آج جمہوریت کی مالا جپنے والے اپنے ہی
ہاتھوں جمہوریت کی نسل کشی کرکے بھی صاف انکاری ہیں کہ یہ بے خطا ء اور بے
قصورہیں۔ (اِن سطور کے رقم کرنے تک یہی جمہوری پنڈت اپنے قول و فعل سے اِسے
ڈھائی فٹ یا ڈھائی ہاتھ نیچے دفن کرنے کے در پر ہیں) اِنہوں نے جمہوری
ثمرات روک کردانستہ مُلک میں مہنگائی کو اِس لئے بے لگام کئے رکھا تاکہ
عوام اِس کے بوجھ تلے دبے رہیں۔ اور کوئی کسی سے جمہور یا جمہوریت کی بابت
کچھ نہ پوچھے ،اگر جمہوریت کی کوئی بات کرے؛ تو یہی سیاست دان یا جمہوریت
کے پنڈت کریں ۔اِن کے علاوہ کوئی جمہوریت کے بارے میں نہ تو سوچے اورنہ تو
کوئی بات کرے۔اَب لازمی ہے کہ ایوان کومچھلی بازار بنانے والوں سے نجات کے
لئے عوام اپنا کردار ادا کریں؛اورحالیہ دِنوں میں نیب قوانین میں حکومت اور
اپوزیشن کے اشتراک سے ہونے والی ترامیم کے لئے بھی اپنا رول ادا کریں۔کیوں
کہ جس طرح ایوانوں میں سیاسی پنڈتوں نے اپنے سیاسی اور ذاتی مفادات کے لئے
جمہوریت کی نج کاری کرکے اِسے اپنا غلام بنالیا ہے۔ آج اِسی طرح ایک مرتبہ
پھر سارے شاطر سیاسی اور جمہوری پنڈٹ (حکومت اور اپوزیشن) بغل گیر ہو کر
نیب قوانین میں اپنے بچاؤ کے لئے ترامیم کرکے اپنی دال دالیہ مُلک کو جس
طرح چاہو لوٹو کھاؤ پر چلاناچاہتے ہیں۔ اِنہیں ایسا کرنے سے عوام روکیں،
ورنہ؟ (ختم شُد) |