یارِ من ناصر علی ’بہ زبان قلم‘

سید ناصر علی کی کتاب ’بہ زبان قلم‘ میں پیش لفظ
٭
سید ناصر علی گزشتہ چار عشروں سے قلم وقرطاس سے جڑے ہوئے ہیں۔ ان کی زبانِ قلم سے بے شمار مضامین، کالم اور تصانیف و تالیفات منظر عام پر آچکی ہیں۔ پیش نظر تصنیف ”بہ زبانِ قلم“ ان کے مضامین و تراجم اورکالموں کا مجموعہ ہے۔ کچھ عرصہ قبل ان کی ایک تصنیف ”خاکے کہانیاں“ شائع ہوچکی ہے۔ راقم نے اس تصنیف کا خصوصی مطالعہ اور تبصرہ تحریر کیا۔اس وقت ’بہ زبان قلم‘ کا مسودہ میرے پیش نظر ہے۔ مَیں سید ناصر علی صاحب کی قلم کاریوں سے بخوبی شناسا ہوں، ان کا قلم ہر موضوع پر پھول جھڑیاں بکھیرتا، پڑھنے والے کے چہرہ پر مسکراہٹ بکھیرتا، سنجیدہ موضوع کی تہہ بہ تہہ کو تاباں و رخشندہ کرتا دکھائی دیتا ہے۔ ایک جانب وہ مصنف ہیں تو دوسری جانب مدیر کی حیثیت سے ادارت کا حق خوش اسلوبی اور مہارت سے ادا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

سید ناصر علی میرے اسکول کے ساتھیوں میں سے ہیں۔ یہ راز کوئی چھ عشروں بعد کھلاکہ ہم دونوں کا بچپن بہار کالونی مسان روڈ میں گزرا اور ہم نے’غازی محمد بن قاسم اسکول‘ سے پرائمری تعلیم حاصل کی۔ اس اسکول کے مالک اور ہیڈماسٹر جناب آزاد بن طاہر مرحوم تھے۔اس انکشاف کے بعد حسب ضرورت تصرف کے ساتھ منہ سے نکلا ؎
بچھڑے عشروں کے اس طرح حقیقت میں ملیں
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں

تو اس محبت، چاہت اور تعلق کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ سید محمد ناصر علی خاکہ نگار بھی ہیں اور کہانی کار بھی، مؤلف بھی ہیں مترجم بھی۔ گویا ادب کی مختلف اصناف کے اظہار کا گلدستہ ہیں۔ پیش نظر تصنیف ان کے مضامین، کالموں اور ترجمہ شدہ مضامین کا مجموعہ ہے۔

سید ناصر علی نے جامعہ کراچی سے صحافت اور جامعہ پنجاب سے سیاسیات میں ماسٹرکیا، اس ناطے سے صحافی ہیں اور صحافت کے موضوع پر مضامین بھی اس مجموعے میں شامل ہیں۔سیاست اور حالات حاضرہ پر ان کی گہری نظر ہے۔ان موضوعات پر ان کا قلم سیاست کے رازوں کو افشاں کرتا دکھائی دیتا ہے۔ مصنف و مؤلف ہی نہیں فوٹوگرافی اور مصوری کے شہسوار بھی ہیں۔انہوں نے وزارت خارجہ کے ریسرچ ڈا ئیریکٹر یٹ میں خدمات سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا، سعودی عرب میں بھی اپنی خدمات کے جوہر دکھائے، کنسپٹ رائیٹر اور پروڈکشن ہاوس میں عملی تجربہ حاصل کیا۔ کالج آف فزیشن اینڈ سرجن میں ڈائریکٹر پریس اینڈ پبلی کینشنز رہے۔بقائی میڈیکل یونیورسٹی کے ڈائیریکٹر تعلقات عامہ و مطبوعات کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔

سید ناصر علی کا’زندگی نامہ‘ جو ان کی کتاب ’خاکے کہانیاں‘ میں درج ہے سے معلوم ہوا کہ ناصر صاحب کا تعلق ہندوستان کے معروف شہر رائے بریلی سے ہے،رائے بریلی یو پی (اتر پردیس) کا ایک ضلع ہے،یہاں ہمیشہ مسلمانوں کی اکثریت رہی ہے اور اب بھی ہے۔بریلی اپنے محل وقوع کی وجہ سے18 ویں صدی کے اوائل میں روہیلوں کا مرکز رہی ہے۔اکابرین بریلوی جنگِ آزادی کی تحریکوں میں سرگرم رہے۔ان حریت پسندوں میں ناصر علی کے اجداد بھی شامل تھے۔ رائے بریلی نہایت مر دم خیز علاقہ مشہور ہے۔ یہاں نامور ہستیوں نے جنم لیاجیسے جناب احمد رضا خان بریلوی،ڈاکٹر عبادت بریلوی، حسن رضا خان حسنؔ بریلوی، ادیب رائے پوری، اختر رضا خان بریلوی، عبرت صدیقی پروفیسر وسیم بریلوی، مجاہد بریلوی و دیگر شامل ہیں۔

سید ناصر علی کے مطابق ان کے اجداد نے عراق سے ہندوستان ہجرت کی، ان کے جدِ امجد کا سلسلہ نسب حضرت امام جعفر صادقؒ سے ملتا ہے۔ اس حوالے سے وہ جعفری ہیں اور رائے بریلی کے حوالے سے بریلوی۔یہ اور بات ہے کہ وہ اپنے نام کے ساتھ نہ تو جعفری اور نہ ہی بریلوی لگاتے ہیں۔ والدرائے بریلی کے ٹیکنیکل اسکول میں انسٹرکٹر تھے۔ ان کا خاندان 1950ء میں ہجرت کر کے پاکستان آیا اور کراچی میں آباد ہوا۔ ان کے لکھے ہوئے خاکے، کہانیاں اور مضامین ان کے صاحب طرز ادیب ہونے کی عکاسی کر تے ہیں۔ ناصر علی کا انداز تحریر سادہ، عام فہم ہے، وہ مشکل الفاظ استعمال نہیں کر تے بلکہ آسان الفاظ میں اپنی بات بیان کرتے ہیں۔ ان کے کردار جان دار اور بھر پور اثر لیے ہوتے ہیں۔

’بہ زبان قلم‘ دو حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلے حصے میں 11مضامین اور کالم ہیں جب کہ دوسرا حصہ تراجم شدہ مضامین پر مشتمل ہے اس میں سات مضامین ہیں۔ صحافت کے موضوع پر مضامین میں زرد صحافت یعنی یلو جرنلزم کے بارے لکھتے ہیں کہ ”زرد صحافت سے وابستہ صحافی خبروں میں سنسنی خیزی پیدا کر کے اور قاری کے جذبات سے کھیلتا ہے تاکہ اخبار کی مانگ بڑھے۔ ٹی وی چینل کے اس طرح اس کی رپورٹنگ بڑھتی ہے۔ زرد صحافت کا محاورہ 1890ء میں منظر عام پر آیا‘۔

اپنے ایک مضمون میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کے مقاصد کی وضاحت عمدہ طریقے سے کی ہے۔’اپنی شخصیت کو پہنچانئے‘کے عنوان سے انسان کی شخصیت کو معتدل بنانے، کچلی ہوئی شخصیت اور صحت مند شخصیت کے وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ’اپنی ذات پر بھروسہ اور اپنی کامیابی پر ایمان آدمی کی شخصیت کو نکھار کر دلاویز بنادیتا ہے‘۔ اپنے ایک مضمون میں لفظ’نقطے‘ اور ’نکتہ‘ کا تجزیہ خوبصورت انداز سے کیا گیا ہے۔’شطرنج۔کھیل یا تربیت حِرب و سیاست‘ میں شطرنج کی تاریخ احسن انداز سے بیان کی ہے۔ اس کا آغاز کب اور کہاں سے ہوا، اس کا بنیادی فلسفہ کیا ہے۔ شطرنج کا سیاست و حکمرانی سے گہرا تعلق ہے۔ اس کے ہر مہرہ فوجی دستوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ زمانہ قدیم کے حکمراں اپنی اولادوں کو جہاں دوسر ے علوم و فنون سکھاتے تھے وہاں شطرنج کا کھیل بھی لازمی سکھایا کرتے تھے۔ مصنف نے مشہور مفکر البیرونی کا یہ قول نقل کیا ہے جس سے شطرنج کی اہمیت واضح ہوجاتی ہے کہ: ’ہندوستانی باشندوں کی ذہانت کے اندازے کے لیے ان کے مشہور کھیل شطرنج کو پیش کردینا کافی ہے‘۔

سید ناصر علی کا ایک مضمون ’امن عالم‘ بھی ہے جس میں انہوں نے دنیا میں امن قائم رکھنے کی ضرورت، اہمیت اور طریقہ کار پر روشنی ڈالی ہے۔ اس حوالے سے ان کا ایک اور مضمون ’تعلیم۔ ذریعہ ئ فروغِ امن‘ عمدہ مضمون ہے۔ ان کی یہ بات حقیقت پر مبنی ہے کہ ’علم ہی کے ذریعے امن کا پودا پھلتا اور پھولتا ہے‘۔
 
کتاب کا دوسرا حصہ تراجم شدہ مضامین پر مشتمل ہے۔ ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ کرنا اپنی جگہ علمی، ادبی اہمیت رکھتا ہے تو دوسری جانب یہ ایک علم اور فن کا درجہ رکھتا ہے، ترجمہ مختلف زبانیں بولنے والوں کے مابین ابلاغ کا وسیلہ ہے اور دو اقوام کے علمی خزانے سے ایک دوسرے کو روشناس کرانے کا موثر ترین ذریعہ بھی ہے۔ سید ناصر علی ترجمے کے فن سے بخوبی واقف اور ہنر رکھتے ہیں۔ قاضی شیخ عباس بورتھانی کے مضمون کا ترجمہ ’قرآن کا اعجاز‘ کے عنوان سے کیا ہے۔ اس میں قرآن کی سورہ یوسف جس میں حضرت یعقوب ؓ کا اپنے بیٹے حضرت یوسفؓ کی جدائی میں روتے روتے بینائی کھوبیٹھنا اور پھر بینائی کا بحال ہونے کا ذکر ہے۔ ڈاکٹر عبد الباسط کی اس تحقیق کا ذکر ہے جس میں پسینہ سے آنکھوں کے لیے ڈراپس تیار ہوئے اور سوئیزرلینڈ کی کمپنی نے دواکی پیکنگ پر ڈاکٹر عبدالباسط کی اس خواہش پر واضح طور پر دوا کا نام ”قرآنی دوا“ لکھا۔ مضمون کی اشاعت۵۰۰۲ء میں ہوئی تھی۔ اسی طرح ایک اور مضمون معین الدین احمد کا سید ناصر علی نے ترجمہ کیا جس کا عنوان ”آب شفا زم زم“ ہے۔ سعود عرب کے حکمراں شاہ فیصل السعود کے دور میں آب زم زم کے بارے میں یورپ کی لیباریٹریز میں تحقیق کیا جاناجس کے مطابق زم زم بلاشک و شبہ آب مصفا اور پینے کے لیے انتہائی موزوں ہے۔اس مضمون میں زمززم کی کی خصوصیات بھی بیان کی گئی ہیں۔ ان کے علاوہ سبز باغ، چمنستان خیال، قیامت صُغریٰ، انوکھی وصیتیں،کیا محبت اسی کو کہتے ہیں؟مضامین کتاب کا حصہ ہیں۔ یہ دلچسپ ہی نہیں بلکہ معلوماتی بھی ہیں۔

سید ناصر علی کئی تصانیف و تالیفات کے خالق ہیں، ’بہ زبان قلم“ کے علاوہ ’ہمارے خواب ہمارا عزم‘،’قلم رکنے سے پہلے (مجموعہ مضامین)‘،’گلدستہ ئ مضامین‘،’دس سالہ جائزہ‘،’بات اس ماہ کی‘،’بقائے صحت کے اداریے‘ اور دیگر تالیفات شامل ہیں۔علم و ادب تخلیق کرنے میں سید ناصر علی نے اپنی عمر صرف کی ہے۔ مختصر لیکن عمدہ تصنیف منظر عام پر لانے پر دلی مبارک باد۔ یہ تصنیف کالم نگاروں، ادیبوں اور ادب و ابلاغ عامہ کے طالب علموں کے لیے خاص طور پر مفید ہے، اسے ہر لائبریری کی زینت بھی ہونا چاہیے۔

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 865 Articles with 1437817 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More