شیشہ گر

ڈاکٹر جمیل جالبی کی خدمات کے اعتراف میں ریاض سعودی عرب میں مقیم معروف شاعر صدف فریدی کی نظم شیشہ گر کے زیر عنوان ایک نزرانہ عقیدت۔

ڈاکٹر جمیل جالبی راہی ملک عدم ہوئے اور وراثت میں ہم جیسے طالب علموں کے لئے اپنی کتب کی شکل میں بیش بہا خزانہ چھوڑ گئے۔ تخیل ادبی فورم نے سعودی عرب کے شہر ریاض میں جالبی کی خدمات کے اعتراف میں معروف شاعر منصور چوہدری کے دولت کدے پر ایک تعزیتی ریفرنس کا انعقاد کیا جس میں معروف شعراء اکرام نے شرکت کی اور ادباء اور شعراء نے اپنی مقدور بھر کوشش کی کہ جالبی کی خدمت میں اپنا نظرانہ عقیدت پیش کر سکیں، جالبی کوئی ایسی ہستی نہیں کہ جس کے فکر و فن کا احاطہ آسانی سے کیا جا سکے، جالبی کے بارے لکھنے کا سوچتے ہی ایک مشکل سامنے کھڑی ہو جاتی ہے کہ ”طاقت ہو دید کی تو تقاضہ کرے کوئی“، اب جالبی کے علم و فن کو پرکھنے کی طاقت ہی قلم میں نہیں تو پھر تقاضہ کیسا، جالبی کو سمجھنے کے لئے صرف ادب کا طالب علم ہونا ہی کافی نہیں فلسفہ، تاریخ، مذاہب، یونانی ادب، ادب کی جملہ اقسام، بین الاقوامی تعلقات اورعالمی معاشرتی ثقافت اور علوم سے بہرہ مند ہونا بھی ضروری ہے اور ظاہر ہے یہ تمام علوم صرف ایک ہستی میں جمع تھے اور اس کا نام تھا جمیل جالبی، اب دوسرا کہاں سے لائیں کہ تم سا کہیں جسے۔

اس موقع پر مجھ سے کئی کم علموں کو اپنی کم فہمی کی شرمندگی سے بچانے کے لئے ریا ض کے کہنہ مشق شاعر صدف فریدی نے فرض کفایہ کا کردار ادا کی اور جالبی بارے اپنی نظم ”شیشہ گر“ پیش کی اور کوشش کی کہ جالبی کی خدمات کا کچھ نہ کچھ احاطہ کیا جا سکے، یہ نظم صرف نظم نہیں، یہ نظم صرف جالبی کی محبت کا اعتراف ہی نہیں بلکہ یہ مختصر ترین صورت میں ارسطو سے پاکستان کی ثقافت تک کا ایک جائزہ ہے، اس نظم نے جہاں شاعر کی قادر الکلامی کو آشکار کیا ہے وہیں یہ بھی ثابت کر دی ہے کہ شاعری ہی ابلاغ کا اوج کمال ہے اور یہ ہی وہ فن ہے جس سے دریا کوزے میں بند ہوتے ہیں، نظم میں کہا گیا ایک ایک لفظ غور طلب ہے اور دعوت فکر دیتا ہے، اس نظم اور صدف فریدی کی کاوش پر بات کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ نظم کا مطالعہ کر لیا جائے کہ بات سمجھنے میں آسانی ہو،
صدف فریدی نے کہا کہ:
سخنور تھا۔۔۔۔۔
وہ تاریخ ادب کے راہ گزر کا اک مسافر تھا۔۔۔
وہ خرقہ پوش صوفی کی طرح
ماضی کی گرد آلود، گلیوں میں بھٹکتا تھا۔۔۔
ادب کے حرف کہنہ کا، دھواں آلود خیمہ، جس کا مسکن تھا
جہاں آراستہ بزم سخن تھا۔۔۔۔
ارسطو، ایلیٹ سے میر، میرا جی تلک کی ہم جلیسی تھی
جنہیں وہ شہر آئیندہ کے افسانے سناتا تھا
وہ شیشہ گر تھا، ٹوٹے آئینوں کو جوڑتا تھا
سخن آسا، شکستہ حرف کہنہ کی
جو بکھری کرچیاں تھی۔۔۔
انہیں پلکوں سے چنتا تھا
نئے آئینے کی صورت گری میں، خود فنا تھا
وہ سوداگر تھا، سخن آمیز سکوں کا
معانی کے جواہر، اس کے کیسے میں بھرے تھے
وہ محبوب سخن کا بانکپن تھا
وہ اب ہم میں نہیں ہے
مگر وہ پھر بھی زندہ ہے
ادب کی شاہراہوں پر۔۔۔۔۔ ردائے حرف اوڑھے
گلی، کوچوں میں اب بھی پھر رہا ہے۔۔۔

عزیزان من اب آپ دیکھئے کہ صدف فریدی نے اپنی اس مختصر نظم میں کس چابکدستی سے جالبی کی شخصیت کا احاطہ کرنے کی کوشش کی، فرمایا کہ:

”سخنور تھا“
ہم فیصلہ ہی نہ کر پائے کہ جالبی ادیب تھا، نقاد تھا، تاریخ دان تھا، فلسفی تھا، ایلیٹ شناس تھا، ارسطو سے آشنا تھا یا فرانسیسی ادب کا ماہر تھا، شاعر نے تین الفاظ میں بتا دہا کہ جالبی تو سخنور تھا یعنی جالبی ان تمام علوم کا عالم تھا، ادب کی تاریخ جالبی کی دسترس میں تھی، فلسفہ جالبی کے صریر خامہ کا پابند تھا
بات یہاں ختم نہیں ہوئی، صدف نے کہا کہ:
”وہ تاریخ ادب کے راہ گزر کا اک مسافر تھا“

اس ایک مصرے میں شاعر ہم جیسے طالب علموں کو اردو ادب کی تاریخ سے روشناس کر وا رہا ہے، کہ کیسے جالبی نے تاریخ کے اوراق کی خاک چھانی، کس عرق ریزی سے اردو ادب جس کی کم و بیش عمر ایک ہزار سال سے لگ بھگ ہے کا جائزہ لیا، کس محنت سے ایک ایک حرف تاریخ کے اوطاق سے اکھٹا کیا اور اردو ادب کی تاریخ مرتب کی، یہ ایک مصرعہ نہیں، صاحبو یہ دس الفاظ کا مجموعہ نہیں دس صدیوں کا سفر ہے
اس کے بعد شاعر نے کہا کہ
”وہ خرقہ پوش صوفی کی طرح
ماضی کی گرد آلود گلیوں میں بھٹکتا تھا۔۔۔“

ان الفاظ کی گہرائی دیکھئے، خرقہ پوش صوفی کا استعارہ کس خوبصورتی سے استعمال کیا ہے، جیسے کوئی صوفی ایک جبہ پہنے اپنے مقصد کے حصول کی خاطر دنیا و مہافیا سے بے خبر اپنے من کو مار کر دنیاوی لذتوں کو تیاگ کر اپنی منزل کی جانب جا نکلتا ہے، اسی طرح جالبی نے اردو ادب کو آئیندہ نسلوں تک پہنچانے کا مقصد پا لیا اور اپنی زندگی صرف اس ایک مقصد کو پانے میں تیاگ دی کہ کیسے بھی اردو ادب آنے والی نسلوں تک اپنی درست ترین حالت اور سند کے ساتھ پہنچ جائے۔

پھر شاعر کہتا ہے کہ:
”ارسطو، ایلیٹ سے میر، میرا جی تلک کی ہم جلیسی تھی
جنہیں وہ شہر آئیندہ کے افسانے سناتا تھا“

پہلے مصرعے میں شاعر نے جالبی کی اس کاوش کو سراہا ہے جس میں جالبی نے ارسطو کے فلسفے کو بنیاد بنا کر ادب کا ایک ناقدانہ جائزہ لیا، یہ ایک مصرعہ ہمیں بتاتا ہے کیسے جالبی نے ادب میں شاعری کے مضامین، شاعری کا معاشرے میں مقام و منصب، ادب کی کلاسیکی موسیقی، ڈرامہ اور ڈرامہ لکھنے کا فن، مذہب او ر ادب کا تعلق، روایت اور انفرادیت، صحافت، تنقید، تجربہ اور تنقید کی حدود متعین کیں اور ایک آنے والی نسلوں کو ادب کی پہچان اور رہنما اصول فراہم کر دئے، جالبی کی یہ وہ کاوش ہے جس کا اعتراف شاعر نے کیا کہ آج محض جالبی کا مطالعہ کر لینا ہی ان تمام فنون کی جانکاری کے لئے کافی ہے چہ جائیکہ لائبریریوں کی لائبریریاں چھان ماری جائیں۔ دوسرا مصرعہ جالبی کی تحریر ”ادب یا ما بعد الادب“ کا خلاصہ بیان کرتا ہے کہ جالبی نے ارسطو سے جو سفر شروع کیا وہ جدید ادب اور تنقیدی فقہ تک کیسے منتقل ہوا۔

اس کے بعد شاعر نے کہا کہ:
”وہ شیشہ گر تھا، ٹوٹے آئینوں کو جوڑتا تھا
سخن آسا، شکستہ حرف کہنہ کا
جو بکھری کرچیاں تھی۔۔۔
انہیں پلکوں سے چنتا تھا
نئے آئینے کی صورت گری میں خود فنا تھا“

شاعر کے یہ الفاظ جالبی کی اس کوشش کو خراج عقیدت ہیں جس میں جالبی نے ”قدیم اردو کی لغت“ تیا ر کی، جالبی نے اردو ادب کے ٹوٹے ہوئے یعنی متروک الفاظ کو جا بجا اپنی پلکوں سے اٹھایا اور یہ شیشہ گری کہ کہ الفاظ کی بکھری ہوئی کرچیوں کو یوں یکجا کیا کہ آج ہمیں قدیم اردو کو سمجھنے کے لئے ایک مستند اور مفید لغت دستیاب ہے، اگر جالبی نے اس کام میں اپنی انگلیاں فگا ر نہ کی ہوتی تو آج ہماری کم علمی شاید جہالت میں بدل چکی ہوتی۔
عزیزان من شاعر نے کہا کہ:
”وہ سوداگر تھا سخن آمیز سکوں کا
معانی کے جواہر اس کے کیسے میں بھرے تھے“

ان دو مصروں نے جالبی کی کل متاع حیات بیان کر دی ہے اور جالبی کی اپنی آنے والی نسلوں سے محبت بھی، جالبی نے ایک باپ کی طرح کوشش کی کہ اس کی آنے والی نسلیں ادبی دولت سے محروم رہ کر علمی کسمپر سی میں زندگی نہ گزاریں، جالبی نے الفاظ کے سکے جمع کئے ادب کے نئے کھاتے کھولے، تنقید، تاریخ، تجربہ، فلسفہ اور ادبی حیات کی دولت جمع کی کہ آنے والی نسلیں یہ نہ کہہ سکیں کہ ہمارا روحانی باپ ہمارے لئے کوئی ادبی ورثہ چھوڑ کر نہیں گیا۔

شاعر نے کہا کہ:
”وہ محبوب سخن کا بانکپن تھا“

یہ الفاظ جالبی کی ظاہری زندگی کا احاطہ کئے ہوئے ہیں، جب تک جالبی ہم میں موجود تھا وہ ادب کے آسمان پراماوس کاچاند تھا جس کی روشنی دشت ادب میں بھٹکتے ہوئے راہرؤں کو راستہ دکھاتی تھی، جس کی روشنی میں ادب کے چرخے پر الفاظ کا سوت کات کر حروف کی ردا بنتی تھی، جس کی کشش ادبی خیالات کے سمند ر میں مدو جذر کا محور تھی، جس کے وجود پر ادیب اپنی اشکال تلاش کرتے تھے، جس کا وجود ادب کے دیوی دیوتاؤں کا پتہ دیتا تھا
”وہ اب ہم میں نہیں ہے
مگر وہ پھر بھی زندہ ہے “

یہ الفاظ جالبی کی ما بعد حیات کا مظہر ہیں، جالبی جو اپنی ظاہری حیات میں ایک چاند تھا، اب وہ ایک تارے کی شکل اختیار کئے ہوئے آج بھی ہمارے ساتھ ہے، جب بھی ادب کی دنیا پر رات کی تاریکی چھا جائے تو مسافر کو منزل کا پتہ دینے اور اسکی رہنمائی کے لئے جالبی ایک تارے کی مانند آسمان پر اپنی آب و تاب سے چمک رہا ہے، اس تارے کی موجودگی میں یہ ممکن نہیں کہ راہ ادب میں گامزن مسافر راستہ بھول جائے،
”ادب کی شاہراہوں پر۔۔۔۔۔ ردائے حرف اوڑھے
گلی، کوچوں میں اب بھی پھر رہا ہے۔۔۔“

شاعر دنیا کو بتا رہا ہے کہ جالبی کو اپنے سے الگ نہ سمجھو، وہ آج بھی موجود ہے، جس گلی میں، جس مکان میں، جس نگر میں، جس کوچے میں، اردو ادب موجود ہے جالبی وہاں موجود ہے، جب تک اردر ادب ہے، جالبی کی حیات جاوداں ہے۔

Rashid Mehmood
About the Author: Rashid Mehmood Read More Articles by Rashid Mehmood: 20 Articles with 29187 views I am a qualified CPA and professional Financial and Audit Manager with over 12 years of experience in a variety of industries in key roles at national.. View More