مرِے لہجے میں عیسیٰ بولتا ہے

مجتبیٰ حیدر شیرازی کا تعلق راول پنڈی سے ہے لیکن جنگی اصطلاح میں’’اس کی مار کا علاقہ ‘‘ ہر وہ جگہ ہے جہاں اُردو بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ مجتبیٰ حیدر شیرازی کے ایک شعرنے نہایت مختصر عرصے میں بہت لمبا سفر کیا۔یہی وجہ ہے کہ مجتبیٰ حیدر شیرازی نے اپنی کتاب کا نام بھی اس شعر کے مصرعۂ ثانی پر رکھا۔شعر کچھ یوں ہے:
مری آواز کو مصلوب کردو۔مرِے لہجے میں عیسیٰ بولتا ہے

تاریخ بتاتی ہے کہ عیسیٰ کے لہجے میں بولنے والے ہمیشہ معتوب رہے۔ مزاحمتی ادب کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ عالمی سطح پر پہلی جنگِ عظیم کے اختتام پرمختلف لکھنے والوں نے مزاحمتی لہجہ اپنایا۔جنگ کے اختتام پرنو آبادیاتی نظام کو ٹھیس پہنچی توسیاسی،سماجی اور ادبی سطح پر استعماری قوتوں کے خلاف سردجنگ کا آغاز ہوا۔ اردو شاعری کی بات کی جائے تو متقدمین میں جوش ملیح آبادی کو مزاحمتی لہجے کا امام سمجھا جاتا ہے کیونکہ ۱۹۲۰؁ء سے ۱۹۳۰؁ء کے دوران انھوں نے ایسی بہت سی نظمیں تخلیق کرڈالی تھیں جن میں ان کا مزاحمتی لہجہ کھل کر سامنے آ گیا تھا۔متوسطین میں حبیب جالب نے اسی لہجے میں عوامی جذبات کی ترجمانی کی اور متاخرین میں اردو زبان کے جواں مرگ شاعر مقبول عامر
نے بھی اسی لہجے کو اپنایا۔اور اب مجتبیٰ حیدر شیرازی کی شاعری کے تیور بھی کچھ ایسے ہی معلوم ہوتے ہیں۔ مقبول عامر نے اپنے مجموعۂ کلام ’’دیے کی آنکھ‘‘ کی ابتدا اپنی شہرہ آفاق نظم’’فردِ جرم‘‘ سے کی تھی۔
فقیہہ شہر بولا بادشہ سے
بڑا سنگین مجرم ہے یہ آقا
اسے مصلوب ہی کرنا پڑے گا
کہ اس کی سوچ ہم سے مختلف ہے
اورمجتبیٰ حیدر شیرازی نے بھی اپنے مجموۂ کلام ’’ مرِے لہجے میں عیسیٰ بولتا ہے‘‘ کی ابتدا درج ذیل اشعا رسے کی:
بیعت ِ جبر سے انکار مرِے خون میں ہے
کربلا تو مری تخلیق کے مضمون میں ہے
درد کی حد سے گزر کر ہی سکوں ملتا ہے
قاعدہ صبر کا تسلیم کے قانون میں ہے

مجتبیٰ حیدر شیرازی کے ہاں یہ مزاحمتی لہجہ جا بہ جا ملتا ہے۔اس کے ہاں بات ہی انکار سے شروع ہوتی ہے اور کیوں نہ ہو کہ جس عہد میں وہ زندگی بسر کر رہا ہے اس عہد نے انسانی عظمت کو خاک و خون میں لتھڑے دیکھا ہے۔احساسِ شکست وریخت ہمارے اجتماعی شعور کا حصہ بن کر ہماری شعری روایت میں در آیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ مجتبیٰ حیدر شیرازی یہ کہنے پر مجبور ہوا ہے کہ:
حکم ہوا ہے کوئی کھڑکی کھلی نہ رکھی جائے گی
کیوں کہ آج گلی میں خون سے ہولی کھیلی جائے گی
پورا آ جائے گا موت کا پھندا جس کی گردن میں
شہر میں ایسے ہر اک شخص کو پھانسی دے دی جائے گی

مجتبیٰ حیدر شیرازی نے ایک متحرک اور فعال زندگی گزاری ۔اُس نے آمرانہ دور میں قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔وہ اپنے آبائی علاقے پسرور سے پنجاب اسمبلی کے ممبر کی حیثیت سے منتخب ہوکرسیاسی نظام کا حصّہ بھی رہا۔بحیثیت ڈپٹی اٹارنی جنرل قانونی پیچیدگیوں سے بھی نبرد آزما ہوا اوراُس نے ذرائع ابلاغ میں بطور اینکر ،تجزیہ نگار اوربراڈکاسٹر بھی خدمات انجام دیں۔ زندگی کو ہرزاویے سے دیکھنے
اور پرکھنے کے بعدوہ شعر گوئی کی اس منزل تک پہنچا۔
آیات کی منزل سے بصارت کے جہاں تک
اک مرحلۂ سخت یہاں سے ہے وہاں تک
اس دشت ِ بلا خیز میں حیران کھڑا ہوں
درپیش تحیّر ہیں کئی جسم سے جاں تک

وارداتِ عشق و محبت گزشتہ دو سو سال سے اُردو غزل کا محبوب ترین موضوع رہا ہے اور آج بھی اردو غزل اس موضوع سے مکمل طور پر جُڑی ہوئی ہے۔وقت کے ساتھ ساتھ اس موضوع میں تنوّع ضرور پیدا ہوا ہے اور نئے آنے والوں نے اس واردات حسن وعشق کو ایک مختلف پیرائے میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔مجتبیٰ حیدر شیرازی کی غزل میں بھی اس عام فہم موضوع کی جھلک نظر آتی ہے ۔
مہک اُس کے لبوں کی لفظ کے پیکر میں گویا ہے
یہ کوئی خواب خوش کن آنکھ کے پتھر میں گویا ہے
ہمیں آنکھیں کسی بھی حال دھوکا دے نہیں سکتیں
نظر میں تو نہیں لیکن وہ ہر منظر میں رہتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لحد میں رات کی جب دن اُتار لیتا ہوں
تو نیند سے ترے سپنے اُدھار لیتا ہوں
خبر کرو نہ مجھے دل کے ٹُوٹ جانے کی
کہ بے خودی میں کوئی دن گزار لیتا ہوں
ترے خیال سے خوشبو کشید کرتے ہوئے
ترے جمال سے لفظِ بہار لیتا ہوں

زیرِ تبصرہ کتاب میں مجتبیٰ حیدر شیرازی نے کچھ نظمیں بھی شامل کی ہیں تا کہ نظم سے شغف رکھنے والے صاحبانِ ذوق بھی اس کی شاعری سے حظ اُٹھا سکیں۔ہمارے نوجوان شعرا کے ہاں نظم بہت تیزی سے اپنی جگہ بنا رہی ہے۔شاید اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ غزل نظم کی طرح خیالات کے منطقی تسلسل کو برقرار نہیں رکھ سکتی۔مجتبیٰ حیدر شیرازی کی نظمیں بھی اس کی غزلوں کی طرح فنی لحاظ سے مضبوط ومربوط ہیں۔دعا بالجبر،گمان،ادراک،ترے ہجر میں،خوش کلامی اور قبول ہے، اچھی نظمیں ہیں۔مجتبیٰ حیدر شیرازی نے ’’الطہور شطر الایمان‘‘(صفائی نصف ایماں ہے)کو موضوع بناتے ہوئے کراچی کی ایک کچی بستی پر آپریشن کے تناظر میں بہت خوبصورت نظم تخلیق کی ہے۔نظم ملاحظہ ہو:
کہا ظلِ الہی نے
زمیں کو پاک کردو
شکستہ جھونپڑے
بے ڈھب مکاں
بدبو زدہ گلیاں
سبھی کچھ ریت کرڈالو
یہ بنجر چھاتیوں کو نوچتے بچے
یہ خستہ تن جوں
مدقوق بوڑھے
ان سبھی کو روندڈالو
زمیں کو پاک کردو
کہ ہم کو یاد رکھنا ہے
صفائی نصف ایماں ہے

جناب افتخار عارف مجتبیٰ حیدر شیرازی کی شاعری کے متعلق یوں رقمطراز ہیں’’مجتبیٰ حیدر شیرازی زندگی کا ایک واحد نظریہ رکھتے ہیں۔پوری قوت کے ساتھ ہر طرح کی ناانصافیوں کے خلاف ڈٹ جانے کاحوصلہ بھی رکھتے ہیں اور حسبِ توفیق اس کی شعری ترجمانی کا حق بھی ادا کرتے ہیں۔لہجے کا شائستہ،خطیبانہ اسلوب اور عقیدہ وعمل کے بلا فصل اظہار نے مجتبیٰ حیدر شیرازی کی شاعری کو بھی زندگی کا ایک مظہر بنا دیا ہے۔امید کی جاتی ہے کہ سخنِ خیر کے اعلان کی یہ روایت آنے والے زمانوں میں بھی قائم رہے گی اور مصطفی حیدر شیرازی کا قبیلہ کامیاب ہو کر رہے گا ‘‘ ہماری بھی یہ دعا ہے کہ ہمارے عہد کا یہ خوش فکر شاعر یوں ہی اپنے لفظوں کا جادو جگاتا رہے اور میدان سخن میں کامیابی وکامرانی اس کا مقدّر ہو۔

Khalid Mustafa
About the Author: Khalid Mustafa Read More Articles by Khalid Mustafa: 6 Articles with 16704 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.