ہمارے معزز حکمران

وطن عزیز کو معرض وجود میں آئے ہوئے 63سال ہوچکے ہیں۔ اس دوران یہ ملک کئی جنگوں سے بھی گزرا اور قدرتی آفات سے بھی۔ سول حکومت کے علاوہ ڈکٹیرز نے بھی اس پر حکمرانی کی۔ سانحہ 1971اس ملک کو دو حصوں میں تقسیم کر گیا۔اندرونی سازشوں اور بیرونی سازشوں سے بھی یہ ملک بچ نہ سکا۔ 1998ءمیں یہ پہلا اسلامی ایٹمی طاقت بنا۔ ایٹمی طاقت رکھنے والے ممالک میں یہ ملک تو شامل ہوا لیکن اس جیسا قوت برقرار نہ رکھ سکا۔ایٹمی طاقت رکھنے والے ممالک کو کوئی ملک میلی آنکھوں سے بھی نہیں دیکھ سکتا لیکن یہ ملک اپنے خود غرض اور کرپٹ حکمرانوں کی وجہ سے اپنی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت بھی نہیں کر رہا، ڈرون طیاروں کے حملوں کی صورت میں بار بار اس کی جغرافیائی سرحدوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہورہی ہے اور یہ حکمران اس کے خلاف بات تک بھی نہیں کرسکتے۔

ہمارے معزز حکمران اتنے عرصے میں کوئی ایسے منصوبے اور ترقیاتی کام نہ کر سکے، جن سے ملکی وسائل کو بہتر استعمال میں لائے جائیں اور محب وطن بن کر ایسے کام کریں جن سے ملک خود کفیل ہو اور غریب کی زندگی بہتر ہوجائے۔ملک ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوجائے اور بین الاقوامی دنیا میں اس کو ایک مضبوط ،خوشحال اور قابل بھروسہ حکمرانوں کے ملک کے طور پر پیش کیا جائے۔

گزشتہ دنوں ” The News“ میں ایک 9سالہ ترکی بچی Merve Tekinayکا خط بنام صدر مملکت جناب زرداری صاحب نظر سے گزرا۔ جس میں اس نے اپنی ایک سال کی پاکٹ منی اور گڑیا سیلاب زدگان کے لیے بطور امداد بھیجی ہے۔ Merve Tekinayنے اپنے خط میں لکھا ہے :
" I don't know how much needs, equal to our help for your situation. I send you one year pocket money and my doll. In the behalf of our friendship , I also send a photo of me."

یہ بچی واقعی داد کی مستحق ہے۔ جس جذبے کے تحت Merve Tekinay اپنی ایک سال کے پاکٹ منی اور گڑیا بھیجتی ہے اس کا ذکر وہ اپنے خط میں آگے جا کریوں کرتی ہے:
"I am little, I saw Pakistan in the news and felt so sad. My Daddy told me that you helped us in independence war alot. So now it is our turn to help you in this flood. I wrote this letter because I want you to know that we are all informed about this. May God help you."

خط کے اس حصے سے صاف ظاہر ہے کہ ہم نے ایک غیرت مند اور مہذب قوم کی مدد کی تھی جس کی غیرت مند بچی بھی ہمارے دکھ اور مصیبت کو اپنی دکھ اور مصیبت سمجھتی ہے جبکہ آج ہم جس قوم کی تابعداری اور فرمان برداری کی صور ت میں مدد کررہے ہیں اُنہوں نے تو اس کے بدلے میں پورے ملک کو آگ میں دھکیل دیا ہے اور اپنے ہتھیاروں کی Advertismentکے لیے اسے ہمارے اوپر استعمال کر کے دنیا میں اس کی مارکیٹنگ کر رہے ہیں۔

Merve Tekinayجیسی کئی اور بچیوں نے بھی بیرونی ملک اور اندورن ملک اپنی پاکٹ منی اور گڑیاں سیلاب زدہ لوگوں کے لیے پیش کی ہوں گی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ پاکٹ منی اور گڑیا صحیح سلامت متاثریں کو بھی پہنچی ہے ؟؟

بلاشبہ اکتوبر 2005کا زلزلہ جس نے سیکنڈوں میں پوری پوری بستیوں کو زمین بوس کیا اور ہزاروں لوگوں کو مکانوں کے ملبے تلے دبا دیا،اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک بڑی آزمائش تھی لیکن ہمت مرداں مدد خدا سے یہ بستیاں دوبارہ آباد ہوچکی ہے۔

موجودہ سیلاب جس نے کروڑوں لوگوں کو بے گھر کردیا ۔ لوگوں کی مال و دولت اور جانوروں کو اپنے ساتھ بہا کر لے گیا ، پاکستان کی تاریخ کا بدترین سیلاب ثابت ہوا۔ملک کے چاروں صوبے اس سے متاثر ہوئے۔لوگ سڑکوں اور درختوں کے نیچے اپنے دن و رات گزارنے پر مجبور ہوئے ۔کئی کئی دنوں تک بھوکے اور پیاسے رہے ۔ بیمار پڑے رہے ۔گرمی اور سردی کو کھلے آسمان تلے برداشت کیا ۔ ایک وقت کی خوراک کے لیے ترستے رہے اور آخر کار رونے لگے اور سوچنے لگے کہ گھر ، مال و دولت اور کئی جانوں کو تو کھو بیٹھے ہیں اب ہم زندہ بچنے والوں کا کیا ہوگا۔ ظاہر سی بات ہے کہ ایسے گھمبیر حالات میں عوام حکمران طبقے کی طرف ہی دیکھتے ہیں کہ وہ آکر ہماری مدد کریں۔

حالت جنگ ہو یا قدرتی آفات پاکستان کی عوام نے اس میں بڑھ چڑھ کر اپنی خدمات پیش کی ہے اور حکومت اور فوج کا ساتھ دیا ہے اور اپنی استطاعت کے مطابق مدد کی ہے لیکن یہ حکمران اس بہادر قوم کو دنیا کے سامنے ایک بھکاری قوم کے طور پر پیش کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔

کیا اس ملک کے حکمران جنہوں نے قومی خزانے کو لوٹ کر اپنے بنک بیلنس بڑھائے ہیں اور اپنے غریب عوام کا خون چوس کر اپنے محلات تعمیر کیے ہیں ان میں بھی Merve Tekinayکی طرح جذبہ ہے کہ وہ صرف اپنے ایک دن کی آمدن سیلاب سے متاثرہ لوگوں پر خرچ کریں ؟ اور ان کو دوبارہ زندگی کے دوڑ میں جلد ازجلد شامل کریں ؟ یا صرف وہ بیرونی دنیا سے اس کے نام پر بھیک مانگ کر اس میں سے بھی اپنا فیصدی نکا لیں گے ؟۔

ڈونرز شک و شبہ میں ہیں کہ کیا اُن کے Donations حکمران طبقہ متاثرین پر خرچ کرے گا ؟؟پوری دنیا اسے فیصدی حکمران کہہ رہی ہے اور ان کی جگ ہنسائی ہورہی ہے لیکن حکمران ٹس سے مس نہیں ہو رہے ہیں۔یہ فیصدی کا داغ دنیا نے نہیں بلکہ حکمرانوں نے خود اپنے اوپر لگایا ہے ۔ یہ خود ایسے بیانات دے رہے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آپس میں فنڈز کی تقسیم پر متفق نہیں ہیں۔ اس لیے مختلف تقاریروں میں بار بار اس بات کا اعادہ کر رہے ہیں کہ فنڈز کو شفاف انداز میں استعمال کیا جائے گا ۔فنڈز میں لوٹ مار اور کرپشن سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے تبدیلی کی بات کر رہے ہیں۔ جس تبدیلی کی حکمران بات کر رہے ہیں ، بے روزگاری اور مہنگائی تلے دبے یہ عوام اُن کے محلات پر قبضہ کر کے خود نہ لے آئیں۔

اب وقت آچکا ہے کہ حکمران یہ داغ دھو ڈالیں اور بیرون اور اندرونِ ملک سے آنی والی امداد کی تقسیم کی Accountabalityاور شفافیت پوری دنیا اور قوم کے سامنے پیش کریں، خود غرضی سے کا م نہ لیں بلکہ ملکی مفادات کو ترجیح دیں اور متاثرہ لوگوں کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کریں، تاکہ ملکی وقار کو بچایا جا سکے ورنہ وہ دن دور نہیں کہ اللہ تعالیٰ اُن کو اپنی گرفت میں لے کر دنیا میں اور آخرت میں دررناک عذاب میں مبتلا کر دے گے۔
Farid Ullah
About the Author: Farid Ullah Read More Articles by Farid Ullah: 2 Articles with 1248 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.