ایم کیو ایم کے قائد محترم الطاف حسین صاحب
نے ملک میں سب سے پہلے انقلاب کا نعرہ بلند کیا، اور اس طرح پسے ہوئے،مجبور
اور اٹھانوے فیصد عوام کی ترجمانی کی۔ چند روز پیشتر بھی انہوں نے اپنے ایک
ٹیلفونک خطاب میں محب وطن جرنیلوں کو انقلاب میں عوام کا ساتھ دینے کی دعوت
دی ہے۔ ( ویسے بڑی عجیب بات ہے کہ انقلاب عوام برپا کرتے ہیں لیکن ایم کیو
ایم کے قائد بہانے بہانے سے فوج کو جمہوری عمل میں مداخلت کی دعوت دیتے
رہتے ہیں ) ہاں البتہ ایک بات ماننے والی ہے کہ ٹیلیفونک خطاب کا انقلابی
آئیڈیا بھی انہی کا ہے اس طرح ایک فائدہ تو ہوا کہ کم از کم اب ان کو خطاب
کرنے کے لئے پاکستان آنے کی ضرورت نہیں رہی۔ اس طرح انہوں نے اپنی بچت کا
سامان کرلیا ۔
محترم الطاف حسین نے 1980 کی دہائی میں سندھی ٹوپی اور اجرک پہنی تھی اور
سندھی مہاجر بھائی بھائی کا نعرہ لگایا لیکن اچانک پاجامہ سیاست شروع کر دی
صوبہ سندھ مہاجر سندھی فسادات کی لپیٹ میں آگیا اور دونوں طرف لاشیں گرنے
لگیں اور اب ایک دفعہ پھر سندھی ٹوپی اور اجرک پہن کر اپنے آپ کو سندھ
دھرتی کا سچا بیٹا کہتے ہیں۔ لیکن شاید وہ بھول رہے ہیں کہ کپڑے بدلنے سے
آدمی کی شخصیت نہیں بدلتی ۔ایم کیو ایم اول تا آخر بھتہ خور، دہشت گرد اور
قاتل تھی اور ہمیشہ رہے گی۔
ایم کیو ایم نے کراچی اور حیدرآباد کے عوام کو کیا دیا جو اب پاکستان کی
عوام کو دیگی ان لوگوں نے مہاجر ماؤں کی گود اجاڑ دی، سہاگنوں کو بیوہ کیا
اور بچوں کو یتیم بنایا۔ ان لوگوں نے اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے پڑھے
لکھے مہاجر نوجوانوں کو گمراہ کر کے سیاست کے نام پر بھتہ خوری اور دہشت
گردی پر لگا دیا اور ان پر مقدمات قائم ہونے کے بعد تم ان مہاجر نوجوانوں
اور ان کے اہل خانہ کو بلیک میل کرتے رہے اور وہ نہ چاہتے ہوئے بھی الطاف
حسین صاحب کی انا کی تسکین کے لیے مجبوراً غیر قانونی کام کرتے رہے اور یہ
سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ شہر کراچی جو پڑھے لکھے اور باشعور لوگوں کا شہر
تھا جس کو ایم کیو ایم دہشت گردوں اور بھتہ خوروں کا شہر بنا دیا۔
ایم کیو ایم سندھ کے شہری علاقوں میں وڈیرہ بن کر ابھری 90 کو اپنی اوطاق
بنایا اور ایم کیو ایم کے کارکنان اور کراچی کے عوام کے ساتھ کمی اور
مزارعوں جیسا سلوک کیا۔ جاگیرداروں کی طرح اپنے مخالفین کو پولیس اور دہشت
گردوں کی طاقت سے کچلا۔ ایم کیو ایم کے قیام سے لے کر 2008 تک ہر انتخابات
بندوق کی نوک پر جیت کر اپنے ممبران قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کو
کروڑوں میں فروخت کر کے جاگیر داروں کی حکومت کے قیام کے لیے معاون اور
مددگار ثابت ہوئی۔ جنرل مشرف دور میں سندھ میں ارباب جیسے جاگیردار کی
حکومت کے پشتیبان کرتی رہی اور موجودہ حکومت جو وڈیروں کی حکومت ہے اس کا
سب سے بڑا سہارا بھی ایم کیو ایم ہی ہے۔
انقلاب کے بعد زمینداروں سے زمین چھین کر غریبوں میں تقسیم کرنے کا دعویٰ
کرنے والوں کی موجودہ صورتحال یہ ہے کہ کراچی اور حیدرآباد کے تمام پارکس،
کھیل کےمیدان اور رفاہی پلاٹوں پر قبضہ کر کے یا تو ان پر پلازے بنا دئے
گئے ہیں یا پھر ان پر پلاٹ کاٹ کاٹ کر اپنے کارکنوں میں تقسیم کر دیئے گئے۔
ایم کیو ایم کے قائد نے نوے کی دھائی میں اس وقت کے سندھ کے وزیر اعلیٰ جام
صادق سے اپنی جان بخشی کی شرط پر ایم کیو ایم کے 189 سینئر کارکنان کی
فہرست فراہم کی اور ایم کیو ایم کے کارکنان کو نامساعد حالات کا سامنا کرنے
کے لیے بے یارو مددگار چھوڑ گئے اور خود حکومت سندھ سے ڈیل بنا کر بڑے آرام
و سکون سے کراچی ایئر پورٹ سے لندن روانہ ہوگئے۔ انہوں نے اپنی ذات و
خاندان کے علاوہ بھی کسی کے بارے میں فکر نہیں کی یہی وجہ ہے تمہارے ساتھ
اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کرنے والوں میں ایک آدھ کے علاوہ کوئی اس دنیا
میں باقی نہیں۔ تم نے برطانوی شہریت حاصل کرنے پر اخبارات میں مسکراتی ہوئی
تصاویر شائع کروائیں۔ گزشتہ 18 سال سے لندن میں عیاشی کر رہے ہو اور
کارکنان کو بیوقوف بناتے ہوئے کہتے ہو کہ اتنے مصائب و آلام کے باوجود آپ
کا قائد آپ کے درمیان ہے۔
انقلاب زندہ باد انقلاب زندہ باد
دوستوں اور ساتھیوں آج کے لئے اتنا ہی کافی ہے۔ ملتے ہیں ایک بریک کے بعد !
|