پاکستان میں عدم استحکام کی ایک بڑی وجہ ڈس انفارمیشن
ہے۔ عام طور پر اس پر بحث کرنے سے گریز کیا جاتا ہے لیکن یہاں میرے وطن کی
عزت اور سالمیت کی بات ہے تو میری قلم کا مجھ پر قرض ہے کہ میں قارئین کو
اس جانب متوجہ کروں۔ سوشل میڈیا ایک ایسا ہتھیار ہے جس سے دشمن کسی بھی ملک
کی رعایا خاص طور پر نوجوان نسل کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ یہ ہائبرڈ وار
کا ایک حصہ ہے۔پاکستان کے سرحدی علاقے اول دن سے ہی دہشتگردی کا شکار رہے
ہیں خاص طور پر ہمارے بلوچستان اور خیبر پختون خواہ کے سرحدی علاقے۔ کیونکہ
ان علاقوں کے لوگوں میں لالچ اور حرص بھرا ہوا ہے جس کی وجہ سے وہ پیسوں
کیلئے کسی بھی حد تک گر سکتے ہیں۔ نائن الیون کے واقعے کے بعد افغانستان کے
سرحدی علاقوں اور ڈیرہ بگٹی میں اکبر بگٹی کو مارنے کے بعد بولان کے علاقے
میں حالات کافی حدتک کشیدہ ہوئے ہیں۔ جس کیلئے پاک آرمی کو ڈھیروں قربانیاں
دینی پڑیں اور ان دہشتگردوں جنہوں نے پاکستان پر نام نہاد فتوے لگا کر
مساجد، امام بارگاہوں پر حملے کئے ، مہاجر، بلوچ، پٹھان اور پنجابیوں کو
قتل کیا اور پاکستان بھر میں تعصب کی جنگ کو چھیڑا۔ پہلے ایران کی سرحدوں
سے یہی فتنہ شیعہ سنی ، اور افغانستان بارڈر سے سوویت یونین جنگ کی صورت
پاکستان میں داخل ہوا جس نے پاکستانی معیشت ، استحکام اور سالمیت کو بے
انتہا متاثر کیا۔ کراچی میں مہاجر اور سندھی تعصب نے کراچی کے سمندر کو لہو
لہو کیا، لیاری اور ملیر کی سڑکوں پر اعضا کٹے ، بوری بند لاشے ملنے لگے ،
آئے دن اس قسم کے فتنے فسادوں نے پاکستان کو صنعتوں سے محروم کر دیا اور
جرمنی کو قرض دینے والے ملک کی معیشت کی عمارت جس کی بنیادیں صنعتوں سے
مضبوط بنائیں گئیں تھیں زمین بوس ہو گئی۔ ملک میں جمہوریت کا راگ الاپنے
والے سبھی کاروباری شیلٹر حاصل کرنے کیلئے مقتدر ہوئے اور پورے ملک کو اپنی
جاگیر سمجھا۔ بھتہ خوری ، قتل و غارت گری اور پارلیمنٹ و سینٹ کے تقدس کی
پامالی نے عوام الناس میں استحقاق کی جنگ چھیڑ دی۔ خوشحالی نہ ہونا اور
ٹیکسوں کی ادائیگی کے باوجود اگر عوام کو بنیادی سہولیات کا حصول میسر نہ
ہو تو عوام میں عدم برداشت کا پیدا ہونا فطری عمل ہے، اور اسی کمزوری کا
فائدہ دشمن خوب اٹھاتا ہے۔ لیکن منتخب نمائندوں کی غلطی کو اداروں پر
تھوپنا بھی بجا نہیں ہے۔ ان سرحدی علاقوں کو تمام تر بنیادی ضروریات سے
محروم رکھ کر انہیں پسماندہ رکھنا اور پھر ان پر سیاست کرنا ان علاقوں کے
وڈیروں کا وطیرہ رہا ہے ۔ مشرف دور کے آپریشن میں اکبر بگٹی ، کراچی میں
پیپلز پارٹی ، ایم کیو ایم جیسی جماعتوں کے جرائم کی روک تھا م کیلئے
کاروائیوں کے بعد عوام الناس کو پاک فوج کے خلاف ورغلا کر ان سے ملک مخالف
کام لئے جاتے رہے ہیں۔ شاید آپ کو یاد ہو کہ اگر کوئی سپاہی یا عام پنجابی
کسی سلسلے میں بلوچستان کا سفر خیبر پختونخواہ کی طرف سے کرتا تو اسے بولان
کے علاقے میں پکڑ کر مار دیا جاتا ، اور ان کے گلے کا ٹ کر ان سے فٹ بال
کھیلا جاتاتھا۔حال ہی میں ایک اور واقع پیش آیا ہے جس میں بارہ افراد کو
سفر کرتے اتار کر ان کی شناخت کے بعد انہیں گولیوں سے بھون دیا۔ کیا ایسے
لوگ کسی طور بھی انسان ہو سکتے ہیں؟ اکبر بگٹی نے بولان کو خود ساختہ ریاست
بنا رکھا تھا ، اپنی ہی ایک آرمی بنا رکھی تھی جو مقامی پشتونوں کو مارتے
رہتے تھے۔ ان کے درمیان ایسے غیر انسانی واقعات معمول بن چکے تھے جس کی وجہ
سے نہ تو کوئی سرکاری ادارہ کام کر سکتا تھا اور نہ ہی انہیں وہاں کوئی
تعمیر و ترقی کا کام کرنے دیا جاتا۔ پولیو کے قطروں پر فتویٰ لگا کر بچوں
کو پولیو کے قطرے تک پلانے والوں کو گولیوں سے بھون دیا جاتا رہا۔ خود بلوچ
قوم اور پشتون قوم کے سرداروں نے اپنی قوم کا غلط مورال دنیا میں بلند کیا
اور آج رونا روتے ہیں کہ ہمیں دنیا میں غلط کیوں کہا جاتا ہے؟ کلبھوشن
یادیو جیسے را ایجنٹ کی گرفتاری کے بعد اس کے نیٹ ورک میں معلوم ہوا کے اسے
پاکستان میں گوادر پورٹ سے کراچی تک لے کر جانے اور بلوچ لبریشن آرمی کی
بنیاد رکھنے میں مدد دینے والا حاجی خان بلوچ تھا جو بولان کے ایک علاقے
وڈھ سے تعلق رکھتا ہے اور حاجی خان وڈھ والا کہلاتا ہے ، آج بھی گرفتار ہے۔
یہ ایسی ضدی قوم ہے جو اپنے جرم کو تسلیم ہی نہیں کرتی ۔ وہاں بگٹیوں نے
بیلا پارٹی بنا رکھی ہے جو آرمی کے جوانوں پر حملہ آور ہوتی ہے اور اجنبی
لوگوں کا قتل کرتی ہے ۔کچھ روز قبل ڈیرہ مراد جمالی کے قریب ریلوے ٹریک میں
بمب نصب کرتے کچھ لوگوں کو مقامی لوگوں نے دیکھا تو انہوں نے پولیس کو خبر
کی، جس کے بعد پولیس موقع پر پہنچی تو فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس میں ایک
دہشتگرد ہلاک ہوا، ایک اور وقوعے میں بارہ آرمی ، نیوی کے اہلکارو ں کو
بیلا پارٹی کے لوگوں نے شناخت کے بعد شہید کر دیا۔ جب ان جرائم پیشہ افراد
کے خلاف کاروائی ہوتی ہے تو یہ لوگ سوشل میڈیا کے ذریعے پاک فوج مخالف
پراپیگنڈے کرتے ہیں ۔ نقیب اﷲ محسود کو جعلی پولس مقابلے میں راؤ انوار نے
قتل کر دیا جس کے بعد سے منظور پشتین جیسا شیطان مسنگ پرسن کا رونا پیٹ رہا
ہے ، اور ساتھ ہی یہ نعرہ بھی لگاتا ہے کہ دہشتگردی کے پیچھے وردی ہے۔
حالانکہ نقیب اﷲ محسود کو قتل کروانے والے قتل کرنے والے کون تھے سب منظر
عام پر آ چکا ہے ، جس کے خلاف نقیب اﷲ محسود کا خاندان اداروں پر مکمل
اعتماد کرتے ہوئے کیس لڑ رہا ہے لیکن منظور پشتین اس کو جواز بنا کر یوں ہی
جلسے اور ڈرامہ رچائی کھڑا ہے۔ جب منظور پشتین کو عدالت عالیہ نے بلایا اور
کہا کہ لاؤ لوگوں کی لسٹ اور ثابت کرو کہ انہیں آرمی نے اٹھایا ہے تو وہ
دوبارہ عدالت عالیہ میں پیش نہیں ہوا اس طرح جھوٹا ثابت ہوا۔گزشتہ روز پی
ٹی ایم اور پارلیمان کے درمیان پہلا باقاعدہ رابطہ ہوا ہے ۔ سینٹ کے خصوصی
اجلاس کے دوران منظو ر پشتین اور رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ کی موجودگی میں
منظور پشتین نے دوبارہ وہی مطالبات دوہرائے ہیں۔لیکن منظور پشتین جو
پشتونوں کے تحفظ کی بات کرتا ہے اس پر پشتون خود اعتماد نہیں کرتے اور وہ
جانتے ہیں کہ یہ این ڈی ایس ، را اور موساد کا سورس ہے ۔جیکب آباد، ڈیر ہ
مراد جمالی سے کوئٹہ جاتے ہوئے راستے میں ہی سبی سے ایک سڑک گوادر پورٹ کی
طرف جاتی ہے اور ملک دشمنوں کا سب سے بڑا ٹارگٹ ہی گوادر پورٹ ہے ، اسی لئے
ان علاقوں میں سیکیورٹی سخت کی گئی ہے لیکن بلوچ لبریشن فرنٹ والے اس پر
سوال اٹھاتے ہیں کہ ہمیں ہمارے ہی گھر میں چیک کیا جاتا ہے حالانکہ یہ سب
ان کے اپنے تحفظ کیلئے ہے۔ اسی طرح جب وزیر ستان اور فاٹا میں امن قائم ہو
چکا ہے اور وہاں انتظامی صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے کوششیں جاری ہیں تو
منظور پشتین جیسے لوگ ایسے کامو ں میں رکاوٹ کھڑی کرتے ہیں ۔ پہلے تین ماہ
میں فاٹا میں انتخابات ہوجانے چاہئے تھے اور وہاں انتظامی کام شروع کر دینا
چاہئے تھا۔ بیلا پارٹی ، بلوچ لبریشن فرنٹ اور پی ٹی ایم دشمن عناصر کے
موہرے ہیں ،انہیں اب لگام ڈال دینی چاہئے۔ حکومت کو چاہئے کہ ان علاقوں میں
سب سے پہلے بنیادی سہولیات کی باہم فراہمی جلد یقینی بنائے ، جو عناصر اس
عمل میں رکاوٹ بنیں انہیں بے نقاب کیا جائے تاکہ مزید سوشل میڈیا کو ڈس
انفارمیشن کے طور پر استعمال نہ کیا جا سکے ۔ پاک آرمی ہو یا کسی بھی ملک
کی فوج سب اپنے ملک کی نظریاتی و سطحی سرحدوں کی حفاظت کرتی ہیں اور اس
کیلئے وہ کسی بھی حد تک جانے کا اختیار رکھتی ہیں۔ اشراف اور دو نمبر طبقوں
کو جب حرام مال نہیں ملتا تو وہ بپھر کر بلیک میل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ،
لیک بلیک میل کرنا کوئی حل نہیں بلکہ قومی دھارے میں شامل ہونا حل ہے۔ پاک
آرمی کا جو کام ہے وہ بخوبی انجام دے رہی ہے ، سوشل میڈیا کے دانشور ایسا
مواد پھیلانے سے گریز کریں جن کی کوئی حقیقت نہ ہو |