پولیو کیا ہے؟

پولیو وائرس کی تین اقسام ہیں جو انسانی جسم میں منہ کے راستے داخل ہوتے ہیں ،آنتوں میں جاکر اپنی تعداد بڑھانے کے بعد خون کے زریعے پٹھوں کو کنٹرول کرنے والے اعصابی خلیوں میں پہنچ کر انکی تباہی کا باعث بنتے ہیں ۔اس طرح ان اعصاب کے زیر کنٹرول پٹھے بے کار ہو جاتے ہیں ۔یعنی اس حصے کا فالج ہو جاتا ہیں ۔بیشتر کیسز میں یہ ٹانگوں کے اعصاب کو متاثر کرتے ہیں ۔اور مریض چلنے سے معذور ہو جاتا ہے۔عموما کسی ایک طرف کی ٹانگ متاثر ہوتی ہے ۔آنتوں سے یہ وائرس پاخانے کے زریعے جسم سے خارج ہوتا ہے ،اور استنجا کے بعد ہاتھ نہ دھونے کی صورت میں یا پانی کے ناقص نظام نکاس کی وجہ سے بہت تیزی سے دوسرے افراد تک پہنچ جاتا ہیں ،ابتدائی علامات تیز بخار ،پٹھوں کا درد،سر درد،سستی اور گردن کا تناؤ ہیں اکثر کیسز میں ہی فالج تک نوبت پہنچتی ہیں ،یہ بیماری کسی بھی عمر میں لگ سکتی ہیں البتہ 3سال سے کم عمر کے بچوں میں اسکی شرح سب سے زیادہ ہے،امریکی صدر فرینکلن ڈی روز ویلٹ بھی 1921میں اسی بیماری کی وجہ سے فالج کا شکار ہو گئے تھے (یہ بیماری تا حال لا علاج ہے)۔۔۔ویکسین کیا ہوتی ہے ؍ ویکسین وہ زریعہ ہے جس میں بیماری پیدا کرنے والے جراثیم ہی مردہ یا کمزور حالت میں جسم میں داخل کیئے جاتے ہیں ،یوں وہ جسم کی قوت مدافعت کو اس بیماری کے خلاف متحرک کر دیتے ہیں ۔ہمارا مدافتی نظام انہیں پہچان لیتا ہے اور یاد رکھتا ہے۔بعد میں جب ماحول سے اس بیماری کے جراثیم جسم میں داخل ہوتے ہیں تو مدافعتی نظام پہلے ست تیار ہوتا ہے اور فوری جوابی حملہ کر کے جسم سے انکا صفایا کر دیتا ہے،

پولیو اور اسکی ویکسین کی تاریخ۔
1950کی دہائی میں امریکہ میں پولیو کے اوسطا2000کیسز سالانہ منظر عام پر آتے تھے اور وبا کی صورت میں یہ تعداد 58000سالانہ تک بھی ریکارڈ پر موجود ہے ۔پولیو سے بچاؤ کی پہلی ویکسین جوناز سالک (Jonas Salk)نے بنائی جو 1955میں امریکہ میں صدر روز ویلٹ کی دسویں برسی کے موقع پع لانچ کی گئی ۔یہ پولیو کی تینوں اقسام کے مردہ وائرسز پر مشتمل تھی ۔اسے بندر کے گردوں میں تیار کیا جاتا تھا ،یہ انجکشن کے زریعے دی جاتی ہے،اسکے استعمال سے پولیو کیسز کی سالانہ تعداد 1953میں 35000سے گر کر 1957میں 5600تک رہ گئی،اور1961میں محض 161کیسز رپورٹ ہوئے ۔اسی سال (1961) امریکہ ہی میں پولیو کی دوسری ویکسین تجرباتی مراحل سے گزر کر سامنے آئی۔یہ کمزور وائرسز پر مشتمل تھی اور اسے البرٹ سیبن(Albert Sabin) اور ہلری کاپروسکی(Hillary Koprowsky)نے علیحدہ علیحدہ ٹیموں کے ساتھ تیار کیا تھا ۔اس میں وائرس کو چوہوں سے بار بار گزار کر کمزور کیا جاتا تھا ۔آجکل یہ ویکسین لیب میں انسانی خلیوں سے گزار کر تیار ہوتی ہیں پاکستان میں دستیاب ویکسین اقوام متحدہ فراہم کرتی ہیں جو کہ نووارٹس کمپنی بیلجیم میں تیار کرتی ہیں ۔جبکہ بھارت میں کئی ایک کمپنیاں اسے خود تیار کرتی ہیں ،ابتدا میں اس میں تینوں اقسام کے وائرس تھے ۔لیکن پاکستان میں اب ٹائپ 2کے خاتمے کے بعد موجودہ ویکسین ٹائپ 1اور3کے خلاف بنائی جاتی ہے۔اسوقت کیونکہ امریکہ کی مکمل توجہ سالک ویکسین پر تھی لہذا سیبن نے اپنی ویکسین روس میں اور کاپروسکی نے جنوبی افریقہ اور میکسیکو میں لانچ کی ،ہر جگہ اسکے بہترین نتائج سامنے آئے سیبن پولش نثزاد امریکی شہری تھا لیکن سرد جنگ کے باوجود روس نے اسے اپنے اعلیٰ ترین سول اعزاز سے نوازا،1963میں بھی اسے استعمال کی منظوری مل گئی اور1965تک تقریباً100ملین امریکیوں کو اس ویکسین کے قطرے پلائے گئے،یوں نتیجاً شمالی امریکہ میں پولیو کا آخری کیس 1979میں روپورٹ ہوا ۔اور 1994تک جنوبی امریکہ سے بھی اسکا خاتمہ ہو چکا تھا۔2002تک تمام مغربی اور ترقی یافتہ ممالک سے اس ویکسین کی بدولت پولیو کے مرض کا خاتمہ ہو چکا تھا ۔بھارت کو 2014میں پولیو فری قرار دے دیا گیا ،اسکے بعد نائجیریا جیسے ملک نے بھی پولیو سے نجات حاصل کر لی ہے۔اس ویکسین کی خاص بات یہ ہے کہ یہ آنتوں سے خارج ہوکر پانی کے زریعے کمونٹی میں پھیل جاتی ہے اور ان لوگوں کو بھی بالواسطہ طور پر فائدہ پہنچاتی ہے جنہوں نے خود یہ قطرے پیئے نہیں ہوتے ۔یہی وجہ ہے کہ پولیو کے مکمل خاتمے کے لیے انجکشن والی ویکسین کی بجائے اسے خاص اہمیت دی جاتی ہے اور پھر انجکشن کی نسبت اسے دینا بھی آسان ہے۔

ہم کہاں کھڑے ہیں ــــ․․
آج دنیا میں صرف پاکستان اور افغانستان ہی دو ایسے ممالک ہیں جہاں پولیو کی بیماری باقی ہے ،حکومت کی پوری کوششں تھی کہ2016تک اس پر قابو پا لیا جائے لیکن2017میں بھی تادم تحریر 2کیسز سامنے آیاتھے دوسرا گلگت میں ،جبکہ 2016میں کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا تھا۔

خدشات و تحفظات۔
پولیو سے متعلق ہمارے ہاں بہت زیادہ الہام پایا جاتا ہے ،کچھ سازشی تھیوریوں نے،کچھ سی ۔آئی ۔اے نے اور کچھ ہماری اپنی نااہلی نے پاکستان میں پولیو کے خاتمے کے کوششوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے،
اس مفصل مضمون میں ہم باری باری ان تمام عوامل کا جائزہ لیں گئے۔

1۔سی آئی اے کا کردار۔
اگر سی ائی اے ،اسامہ بن لادن کی جاسوسی کے لیے اس علاقے میں مصنوعی پولیو مہم شروع نہ کرتی تو پولیو پروگرام کو شک کی نظر سے دیکھنے کا موقع نہ ملتا اور نہ ہی دہشتگردوں کے ہاتھوں پولیو افسران کی ہلاکت کے افسوسناک واقعات وقوع پزیر ہوتے،کچھ ایسی رپورٹس بھی منظر عام پر آئی جن میں افغانستان اور قبائلی علاقوں میں پولیو ٹیمز کے ڈبوں میں جی۔پی ۔ایس ڈیوائسز لگانے کا اعتراف کیا گیا بعد میں وہاں ڈرون حملے ہوئے تو مقامی طالبان بھڑک اٹھے اور اندھا دھند پولیو ٹیمز کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ۔بہر حال 2013میں افغان طالبان کے اعلامیے کے بعد کم از کم اس شک والی وجہ کا تو خاتمہ ہو جانا چاہیے ۔جس میں طالبان نے اعلان کیا کہ اگر اقوام متحدہ اور عالمی ادارہ صحت طالبان کے اعتماد یافتہ ورکرز کو استعمال کرنے پر راضی ہوں تو وہ خود پولیو کے خاتمے کی مہم کاحصہ بننے کو تیار ہیں۔
(حوالہhttp*//polioeradication.org/news-postafghanistan-talibans-declaration-polio/erad ication)اسی طرح جماعت الاحرار کے اسواقت کے ترجمان نے بھی پچھلے سال ایک انٹرویو میں بتایا کہ اب ہم پولیو ٹیمز کو فوکس نہیں کرینگے۔

2۔ہماری اپنی نااہلی۔۔۔
کر پشن نے یہاں بھی ہمارا پیچھا چھوڑا۔ویکسین کو ٹھنڈا رکھنے کا بندوست نہ کرنا،پولیو ورکرز کو مناسب اجرات اور سیکورٹی مہیا نہ کرنا ،ورکرز کا ویکسین پلائے بغیر خانہ پوری کرنا،پولیو کیسز کی رپورٹنگ میں بے ضابطگیاں ،مذہبی عناصر کا بلا ثبوت اس سے متعلق شکوک و شہبات پھیلا نا۔۔وغیرہ وغیرہ۔۔یہ وہ چند وجوہات ہیں جن کی بنا پر ہم نے خود اپنے پیروں پر کلہاڑی ماری ہیں اور اس معاملے میں پوری دنیا سے پیچھے رہ کر رسوا ہو رہے ہیں
الف۔جب اس بیماری سے محض 0.5فیصد مریضوں کو فالج ہوتا ہے اور ان میں سے بھی محض5سے10فیصد ہلاک ہوتے ہیں تو دیگر کہیں ذیادہ خطرناک بیماریوں کے مقابلے میں اس پر پوری دنیا مل کر اپنی توانائیاں کیوں خرچ کر رہی ہیں؟
ب۔اس لیے کہ یہ وہ بیماری ہے جسکا پوری دنیا سے مکمل صفایا ممکن ہے جبکہ دیگر بیماریوں میں فی الحال ایسا ممکن نہیں ۔دوسرا یہ کہ یہ محض 0.5فیصد کوئی چھوٹی فگر نہیں ۔اوپر بتایا گیا ہے کہ امریکہ میں1950کی دہائی میں58000لوگ اس بیماری سے مستقل طور پر معذور ہوئے-

3۔پاکستان میں یہ ویکسین مفت بھجی جاتی ہے اور زبردستی پلائی جاتی ہے دیگر بیماریوں اور آفات سے بے تحاشہ اموات ہوتی ہیں لیکن اس پر دنیا کو ترس نہیں آتاکیا وجہ ہے کہ ساری ہمدردی پولیو سے ہی متعلق ہے ؟پہلی بات یہ کہ مفت ویکسین صرف پولیو کے لیے نہیں بلکہ 9دیگر بیماریوں کے لیے بھی مہیا کی جاتی ہیں۔دوسرا یہ کہ پولیو کے سلسلے میں کوئی ہمارے ساتھ ہمدردی کا اظہار نہیں بلکہ ترقی یافتہ ممالک کا اپنا مفاد ہے جیسا کہ اوپر ذکر کیا کہ اسکا وائرس انتہائی سرعت سے پھیلتا ہے لہذا تمام ممالک کویہ خطرہ ہے کہ اگر پاکستان سے اسکا خاتمہ نہ ہوا تو یہاں سے کسی کیرئیر مریض کے زریعے دوبارہ ان کے ہاں پہنچنے کا خطرہ برقرار رہے گا۔اور یہ وہ کسی صورت نہیں چاہتے۔

3۔اسکی ویکسین میں مائع حمل ادویات شامل ہیں جو بلوغت پر مردوں/عورتوں کو بانجھ کر دیتی ہے۔
1۔ویکسین کے ذریعے مائع حمل ادویات کی تیاری ابھی محض تجرباتی مراحل میں ہیں اگر ایسی کوئی دوا بن چکی ہوتی تو کم از کم تو چائنہ والے اسے استعمال کر رہے ہوتے اور دنیا فیملی پلاننگ کے دیگر مہنگے اور کسی حد تک غیر مؤثر زرائع پر سرمایہ نہ لگاتی،دوسرا یہ کہ یہ ویکسین دنیا میں69 سال سے استعمال ہو رہی ہیں ۔کس ملک میں شرح پیدائش میں کمی واقع ہوئی ہے؟اگر یہ مسلمانوں کے خلاف سازش ہے تو مسلم ممالک کے اعداد وشمار کس حد تک اس مفروضے کو سپورٹ کرتے ہیں؟پاکستان میں کم از کم دو نسلیں یہ قطرے پی چکی ہیں موجودہ تیسری نسل کی تعداد پہلے سے کہیں زیادہ نہیں ہیں ؟

4۔اس ویکسین کے ذریعے بندر سے کینسر پیدا کرنے والاوائرس SV۔40پھیلا۔
1۔پہلی بات یہ ہے کہ ایس وی40کی آمیزش انجکشن والی سالک ویکسین میں پائی گئی تھی ،قطروں والی میں نہیں ۔دوسرا یہ کہ صرف امریکہ میں 1963تک ملاوٹ والی ویکسین 10سے30ملین امریکیوں کو لگائی گئی ۔اسکے علاوہ روس اور دیگر ممالک میں جہاں اس میں ایس وی40کے شواہد ملے،کل ملا کے کروڑوں افراد کو یہ ویکسین لگی۔ہم تسلیم کرتے ہیں کہ یہ ایک فاش غلطی تھی اور اسکی وکالت کسی طرح بھی درست نہیں ،لیکن جتنا شور مچایا جارہا ہیں اسکی بھی کوئی منطق نہیں بنتی اول تو 1980کے بعد سے اب تک اس ملاوٹ کا خاتمہ ہو چکا ہے دوسرا یہ کہ 1998میں ایک عالمی لیول کی تحقیق میں ان لوگوں کی بہت بڑی تعداد کا معائنہ کیا گیا جنہوں نے مبینہ طور پر یہ آمزش زدہ ویکسین لگوائی تھی ۔نتائج سے ثابت کیا گیا کہ ان تما م لوگوں میں عام لوگوں کی نسبت کسی بھی کیسز کی شرح زیادہ نہیں پائی گئی ۔مذید یہ کہ ایس وی40کا کینسر کا باعث ہونا بھی کبھی ثابت نہیں کیا جا سکا۔

5۔جنوبی افریقہ میں اس ویکسین کے زریعے ایڈز کو پھیلائے جانے کے شواہد موجود ہیں لہذا اب بھی اسکا امکان ہے۔
1۔ایک برطانوی صحافی نے یہ خبر پھیلائی کہ کاپروسکی کی ویکسین کے استعمال کے بعد افریقہ کے ان علاقوں میں ایڈذ کی شرح میں اضافہ ہواہے لہذا اس ویکسین میں ایڈز کا وائرس شامل ہے ۔بعد میں ثابت ہوا کہ آغاز سے30سال قبل سے موجود چلا آرہا ہیں ،کورٹ میں کیس چلنے کے بعد دعوی کو ثابت نہیں کیا جا سکا۔

6۔ترقی یافتہ ممالک میں پولیو ڈراپس بین ہیں اور وہاں صرف ٹیکوں والی ویکسین استعمال ہوتی ہیں ۔کیوں؟
1۔یہ بات مکمل درست نہیں ۔شروع میں تمام ممالک بشمول امریکہ میں یہی ویکسین استعمال کی گئی جسکا حوالہ اوپر گزر چکا ہے ،جب پولیو کا مکمل خاتمہ ہو گیا تو پھر اسے مردہ وائرس والی ویکسین سے بدل دیا گیا اور قطرے بین کر دئیے گئے اسکی وجہ یہ ہے کہ جب آزاد وائرس کا مکمل خاتمہ ہو جائے تو اس ویکسین میں موجود کمزور وائرس کو بھی اس کمیونٹی میں پھرتے رہنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی ۔کیونکہ یہ اپنی ہیت تبدیل کر کے پولیو کی بیماری دوبارہ سے پھیلانے کی صلاحیت بہرحال رکھتا ہیں (تفصیل آگے آرہی ہے)لہذا کوئی بھی ملک یہ رسک لینے کو تیار نہیں ۔پاکستان میں بھی جب پولیو کے کیسز صفر تک پہنچ جائے گئے تو یہاں بھی قطرے بین اور ٹیکے شروع کر دئیے جائے گئے ۔اس کے پہلے مرحلے میں 14ہفتے کی عمر میں قطروں کے ساتھ پولیو کے ٹیکے کی ایک اضافی ڈوز دینے کا آغاز ہو گیاہے-

7۔ویکسین بذات خود فالج کاباعث بنتی ہے۔
1۔حقیقت یہ ہے کہ تمام اعتراضات میں سے سب سے جاندار یہی ہے ۔یہ درست ہے کہ پولیو کے قطروں میں کمزور وائرس استعمال ہوتا ہے جو بیماری پھیلانے کی صلاحیت نہیں رکھتا ۔لیکن اپنے سفر کے دوران یہ اپنی ہیت تبدیل کر کے فالج کا باعث بننے والے وائرس کا روپ دھار سکتا ہے۔لیکن اس صورت میں یہ ان بچوں کو زیادہ متاثر کرتا ہے جنہوں نے پولیو ڈراپس کا کورس مکمل نہیں کیا ہوتااور اس وجہ سے پولیو کے خلاف قوت مدافعت کمزور ہوتی ہیں یا پھر وہ بچے بھی اسکا نشانہ بنتے ہیں جو پہلے سے ہی نظام مدافعت کی کسی بیماری کا شکار ہو ں ،ایسے بچوں کی تشخیص پہلے سے ہو چکی ہو تو انہیں یہ قطرے نہیں پلائے جاتے ،اور پھر اس قسم کے فالج کی شرح بہت ہی کم ہے یعنی 2.4ملین خوراکوں میں سے ایک میں ایسا کیس سامنے آتا ہے۔2000سے2011تک پوری دنیا میں پولیو ڈراپس کی 10ارب خوراکیں پلائی گئیں اور ویکسین سے ہونے والے فالج کے اس دوران 580کیسز سامنے آئے ایک اندازے کے مطابق یہ ویکسین پلائی گئی نہ ہوتی تو اس دوران پولیو سے فالج زدہ بچوں کی تعداد پوری دنیا میں 6ملین سے زیادہ ہوتی۔۔۔

8۔جب پیدائشی کورس مکمل ہو چکاہو تو پولیو ڈیز پر اضافی خوراکوں کا کیا جواز ہے؟
1۔یہ بھی اہم سوال ہے خاص طور پو اس تناظر میں کہ ویکسین سے پولیو کورسک چھوٹا ہی سہی لیکن بہرحال موجود ہے۔دراصل حکومت کا مقصد یہ ہے کہ کوئی بھی بچہ کسی بھی صورت میں پولیو ویکسین کی مقررہ خوراکوں سے محروم نہ رہے اس لیے اسکے پاس اسکے سوا کوئی عملی طریقہ نہیں کہ وقتا فوقتا پولیو ڈیز مقرر کر کے ہر بچہ ہر بار پولیو کے دو قطرے ،کے سلوگن کے تحت یہ مہم چلائی جائے اس میں ان لوگوں کو مستشنی کیا جا سکتا ہے جنہوں نے روٹین کی ویکسینشن کروا رکھی ہو ۔لیکن چونکہ ہمارے ہاں بہت سے لوگ اوپر بیان کردہ خدشات کی وجہ سے کسی صورت یہ قطرے پلانے کو تیار نہیں لہذا حکومت بھی کسی پر اعتبار کر کے اسے رعایت دینے کا رسک نہیں لے سکتی،حکومت پر اسوقت پوری دنیا کا بے تحاشہ دباؤ ہے اگر اس بیماری پر قابو نہ پایا گیا تو پاکستانیوں کے بیرون ملک سفر پر مکمل پابندی لگ سکتی ہے ۔لہذا حکومت ویکسین کے ذریعے ہونے والے فالج کے چھوٹے رسک کو برداشت کر سکتی ہے پر زبردستی قطرے نہ پلا کر پولیو کے امکانات کو زندہ رکھنے کے بہت بڑے رسک کو نہیں۔البتہ وزیر اعظم کے فوکل پرسن بابر بن عطاء برائے پولیو انسدا د،اور پاکستان نیشنل پولیو پلس کمیٹی کے چئیرمین عزیز میمن اور پاکستان میں تمام روٹرین کے زریعے پولیو کے حوالے سے آگہی مہم چلا رہی ہے جس کا مقصد والدین اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے۔ اور پاکستان کے ہر شہروں میں پولیو مرض کے خاتمے کے لیے سکولوں ،ہسپتالوں،ریلوے اسٹیشنوں،بس سٹاپوں ،پر پولیو ڈیز کے موقع پر محکمہ صحت کے ویکسینٹر موجود ہوتے ہیں جو اپنے فرائض بخوبی انجام دیتے ہیں۔۔۔

 

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Waseem Aslam
About the Author: Waseem Aslam Read More Articles by Waseem Aslam: 4 Articles with 4688 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.