اتائیت کا ناسور !جراحی کا منتظر

مملکت خداداد کے چھوٹے بڑے شہروں قرب و جوار کے دیہی علاقوں میں جس بہتات کے ساتھ اتائی کلینک ہسپتال دواخانے اور پروڈکشن یونٹس کام کررہے ہیں اور انسانوں کو موت کی وادی میں دھکیل رہے ہیں سابقہ و موجودہ حکومتوں کی نااہلی اور مجرمانہ غفلت کا منہ بولتا ثبوت ہیں چھوٹے شہروں میں جہاں اگر کہا جائے کہ لٹریسی ریٹ کی کمی روزگارکے مسائل قوت خرید کی کمی کی وجہ سے اتائیت پنپ رہی ہے تو کسی حد تک درست ہے کہ درج بالا عوامل کی بنا پر مریض اور ان کے لواحقین’ جیب ’کی وجہ سے انکی طرف مائل و راغب ہوجاتے ہیں لیکن کراچی لاہور اسلام آبادفیصل آباد گوجرانوالہ ملتان وغیرہ میں جہاں لٹریسی ریٹ کے ساتھ ساتھ روزگار اور وسائل موجود ہیں وہاں پر بھی اتائیت کاناسور کسی طرح کم ہونے میں نہیں آرہا ہے اور آئے روزنشوا صبانور حنین جیسے دوچار افسوسناک واقعات میں اتائی بالفاظ دیگر مستنداتائی انسانی زندگی کا موت سے سودا کرتے دکھائی دیتے ہیں لیکن ان کے خلاف کوئی تادیبی کاروائی قانونی جنگ یا اخلاقی مار کا کوئی عمل دکھائی نہیں دیتا۔

سابق چیف جسٹس آف پاکستان کا یہ اقدام تو قابل تحسین تھا ہی کہ اتائیت کے ناسور کو معاشرے سے ختم کردیا جائے تاکہ انسانی جانوں کے ضیاع اور ان پر بے جا تجربات کو روکا جاسکے۔ جب سے سپریم کورٹ سے یہ ہدایات آئیں کہ پولیس کی مدد سے ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ اتائیوں کے خلاف کارروائی کرے تو اس وقت سے چھوٹے افسر سے لے کر بڑے افسر تک سب کی دوڑیں لگ گئیں سب اس طرح کام میں جت گئے یوں معلوم ہوتا تھاکہ ان کی زندگی کا مقصد ازل سے یہی تھا اور ابد تک یہی ہے بہرحال ہل چل مچی جس کے یقینا بہتر اور دوررس نتائج بھی ضرور حاصل ہوئے اور عوام اس سے مستفید بھی ہوئے لیکن اس قسم کی پریکٹس کے دوران چند چیزیں مشاہدے میں آئی ہیں اور آرہی ہیں جن کا احاطہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں

سب سے پہلی قباحت سیاسی مداخلت ہے جس کی وجہ سے تحصیل وضلعی انتظامیہ بے بس و مجبور دکھائی دیتی ہے ادھر کسی اتائی کو پکڑا جاتا ہے کلینک سیل کیا جاتا ہے ادھر ایم این اے ایم پی اے چیئرمین و کسی افسر کا فون پہنچ جاتا ہے اور متعلقہ افسر اپنے کئے پر پانی پھیرتا ہوا واپسی کی راہ لینے پر مجبور ہوجاتا ہے اور بالفرض محال اگر کوئی ’حکم عدولی‘ کی جسارت کرتا ہے تو اسے طرح طرح سے بری طرح بھگتنا پڑتا ہے گذشتہ چند روز کی پریکٹس میں یہ معاملات اکثر و بیشتر دیکھنے میں آئے ہیں کہ قاضی اپنے آپ کو مجرم اور مجرم اپنے آپ کو فاتح محسوس کررہاہوتا ہے ایسا بھی ہوا کہ سیاسی مداخلت سے بچنے کیلئے افسران کو اپنے موبائل فونز کچھ وقت کیلئے بند بھی کرنا پڑے تاکہ احکامات کی اگاڑی اورگھوڑے کی پچھاڑی سے بچا جاسکے تو اس قسم کی صورت حال سے بچنے کیلئے اعلی سطح پر کوئی لائحہ عمل مرتب کیا جانا ضروری ہے تاکہ افسر کی عزت نفس بھی مجروح نہ ہو اور غلط کار کو اس کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑے

دوسرا مسئلہ پولیس کی ڈائریکٹ انوالومنٹ کا ہے جیسے ہی آرڈر ملے پولیس نے اپنے دیگر تمام امور پس پشت ڈالتے ہوئے بیلٹس کس لیں اور وہ تمام کلینکس، پولی کلینکس، میٹرنٹی ہومز، دکانات، کریانہ شاپس ، پیسٹی سائیڈ شاپس میں چلائے جانے والے کلینکس پر دھاوا بول دیا اور ادویات ڈاکٹرزاور بعض جگہوں پر تو مریضوں کو بھی ’قبضے ‘میں لے لیا ۔یہاں پر بھی مقصد ڈیوٹی انجام دینے، فرائض پورا کرنے اور احکامات کی پیروی نہ تھا بلکہ ان اقدامات کا آوٹ پٹ تھا جس کے نتیجے میں ہزاروں لاکھوں روپے کی ’روزی‘ کا ہاتھ لگنا تھا لا محالہ ان پکڑے گئے کلینکس اور ان کے مالکان جو یقینا موت بانٹ رہے ہیں ان کو چھوڑنا تو تھا ہی چند ایک کو چھوڑ کر تمام نے مک مکا کے بعد چلے جانا تھا اور ہوا بھی یہی ہے کہ چند غیر معروف اور نذرانہ نہ دینے والوں کو سرکاری مہمان بھی بنایا اور خانہ پری کیلئے مقدمات کا اندراج بھی کیا گیا کئی معاملات بھی ایسا بھی ہوا کہ استغاثہ کے بعد بھی گرفتار شدہ ملزمان کو چھوڑ دیا گیا۔ یہ پریکٹس بھی انتہائی نامناست دکھائی دیتی ایک طرف تو پولیس وسائل اورنفری کی کمی کا رونا رو کر اپنی کوتاہیوں پر پردہ ڈال رہی ہوتی ہے لیکن دوسری طرف اس قسم کے اموور بلاتعطل بجاری بھی رہتے ہیں اس کو بھی سدھارنے کی اشد ضرورت ہے جبکہ اس سسٹم میں پولیس کی ڈائریکٹ رسائی پر بھی نظر ثانی کی ضرورت ہے تاکہ اس کا رروائی کو کافی حد تک بدعنوانی سے بچایا جاسکے

تیسرا مسئلہ اتائیوں سے سرکاری ادویات کی برامدگی کا ہے جو کہ اپنے تئیں انتہائی سیرئس مسئلہ ہے یہ کہ کارروائی کے دوران چیک کئے گئے نام نہاد کلینکس اور ہسپتالوں سے سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں کو دی جانے والی ادویات کا وافر مقدار میں برامد ہونا ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ناٹ فار سیل کی مہر کی حامل ادویات اتنی مقدار میں کسب طرح ان اتائیوں کے کلینکس پر پہنچتی ہیں یہ وہ قیمتی ادویات ہوتی ہیں جنہیں غریب آدمی بازار سے خریدنے کی استطاعت و سکت نہیں رکھتا اور ہسپتال سے انہیں موجود نہ ہونے کا کہہ کر ٹرخا دیا جاتا ہے لیکن یہ دشمن جان اتائی عملہ سے مل کر کوڑیوں کے بھاؤ خرید لیتے ہیں اور اپنے’ مذبحہ خانے‘ میں فروخت کرتے ہیں اس کا سد باب بھی ضروری ہے اور بعض جگہوں پر تو ایم ایس اور سی ای او کی براہ راست ملی بھگت کے ثبوت بھی موجود ہیں

چوتھا مشورہ ،تجویز درخواست یا کچھ بھی سمجھ لیا جائے وہ یہ ہے کہ ان کوالیفائیڈ اتائیوں کو خلاف بھی گھیرا تنگ کیا جائے جو چائنا رشیا ملائیشیا انڈونیشیا سری لنکا سے ایم بی بی ایس کی نام نہاد ڈگریاں لے کر آجاتے ہیں اور یہ ننانوے فیصد وہ افراد ہیں جو صرف پیسے کے بل پر ڈاکٹر بن جاتے ہیں ان میں غریب گھر کا کوئی بھی بچہ شامل نہیں ہوتا اور ان کے پاس میڈیکل اور میڈیسن کے حوالے سے کوئی علم نہیں ہوتا ان میں سے اکثریت کو تو ستھیٹوسکوپ کا بھی صحیح طریقے سے استعمال کا ادراک نہیں ہوتا کہ وہ کیا بول رہا ہے اس کے باوجود یہ لوگ سرکاری و غیر سرکاری ہسپتالوں اور اداروں میں سند یافتہ ڈاکٹر بن کر انسانیت سے کھلواڑ کررہے ہوتے ہیں یہ بھی دراصل اتائی ہیں بلکہ کوالیفائیڈ اتائی ہیں اور ان اتائیوں نے زیادہ خطرناک ہیں سابقہ معلومات اور معمولات کی بنیاد پر بھی ان کی جانچ پرکھ کی جائے تو مسائل اور پیچیدگیوں کے اضافے میں ان کی اکثریت شامل ہوتی ہے مریضوں کے ساتھ ناروا رویہ اور ناسائشتگی ان کا خاصہ ہوتا ہے مسیحائی کا دور دور تک شائبہ نہیں ہوتا صرف پیسے بنانے کی مشین کے طور پر اپنے امور چلانے پر توجہ ہوتی ہے جو کہ لمحہ فکریہ ہے لہذا ان کے حوالے سے بھی لائحہ عمل مرتب کرنا وقت کی اہم ضرورت اور حساسیت کا تقاضا ہے حکومت پاکستان اور متعلقہ ادارے اس سلسلے میں بھی کوئی ٹھوس لائحہ عمل مرتب کریں تاکہ انسانیت کے اس’ باضابطہ قتل عام‘کو روکا جاسکے تاکہ حقیقی طور پر اتائیت کے ناسور کو جڑ سے ختم کیا جاسکے
 

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

liaquat ali mughal
About the Author: liaquat ali mughal Read More Articles by liaquat ali mughal: 238 Articles with 192343 views me,working as lecturer in govt. degree college kahror pacca in computer science from 2000 to till now... View More