عمران خا ن کو اپنے وزیر ِ اعظم بننے کا اتنا یقین تھا کہ
انہوں نے اقتدار میں آنے سے پہلے ہی 100دنوں کی ترجیحات کا باقاعدہ اعلان
کردیاتھا جس کے لئے مدینہ کی ریاست کو ایک سمبل کے طورپر پیش کیا گیا اس
وقت عمران خان نے کہا تھا انسان اور جانور کے معاشرے میں فرق یہ ہوتاہے کہ
جانور کے معاشرے میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس والی مثال ہوتی ہے، جبکہ
انسان کے معاشرے میں رحم اور عدل و انصاف ہوتا ہے، قانون کی نظر میں امیر و
غریب برابر ہوتا ہے۔ 700برس تک مسلمانوں نے دنیا پر امامت کی، چھوٹے سے
طبقے کیلئے سارا پاکستان ہے۔ وہ قانون سے بالاتر ہیں، اور علاج بھی باہر سے
کرواتے ہیں، مجھے کیوں نکالا کا مطلب ہے کہ تمہاری جرات کیسے ہوئی کہ مجھے
نکالا،اربوں روپے چوری کرکے آپ کہتے ہیں مجھے کیوں نکالا، حکومت نے قرضے
لیئے ہیں وہ واپس کیسے کئے جائیں گے، پاکستان میں8لاکھ لوگ ٹیکس دیتے ہیں
جو 22کروڑ لوگوں کا بوجھ اٹھا رہے ہیں۔ عمران خان نے کہا کہ مغربی ممالک
میں جانورہم سے بہتر زندگی گزار رہے ہیں، مجھے کیوں نکالا کا مطلب ہے کہ
معاشرہ کتنی پستی میں جاچکا ہے۔ 100دن کی ترجیحات میں تعلیم کا پلان موجود
ہے، 25لاکھ بچے دینی مدارس میں ہیں، ان کیلئے کسی نہیں سوچا ، ان کیلئے کسی
نہیں سوچا کہ وہ مستقبل میں کس شعبے میں جائیں گے، اسپتال میں عام آدمی کا
علاج کیسے کرنا ہے، ہم سول سروس میں ریفارمز کریں گے، ہم بیوروکریسی کو غیر
سیاسی کریں گے، سزا اور جزا کے بغیرا دارہ ختم ہوجاتا ہے، حکومت کی پالیسی
یہ ہے کہ نچلے طبقے کو اوپر لاناہے، کینسر اسپتال بنانا اور چلانا مشکل کام
ہے ، دنیا کے ترقی پذیر ممالک میں بہت کم ایسے اسپتال ہیں، شوکت خانم
اسپتال میں غریب آدمی کو دنیا کا بہترین اسپتال مل رہا ہے۔ انہوں نے دعوےٰ
کہا تھاکہ ہمارے پاس ہر فیلڈ کو درست کرنے کیلئے ماہرین موجود ہیں۔ سزااور
جزا کے بغیر ادارے تباہ ہوجاتے ہیں سب سے بہترین کو اوپر لایا جاتا ہے، ہم
نے سرکاری محکموں میں سزا اور جزاء کو لاگو کرنا ہے۔ 1960کی دہائی میں
پاکستان نے بہت ترقی کی، اس کی وجہ سول سروس تھی، اس وقت بہترین ٹیلنٹ سول
سروس میں آتا تھا، منگلا اور تربیلا ڈیم جیسے پراجیکٹ 1960میں شروع ہوئے،
سی پیک سے زیادہ باہر اپنے والے پاکستانی پاکستان کو مدد کرسکتے ہیں، غربت
کا خاتمہ میں اورسیز پاکستانی بہت مددگار ہوں گے۔ ماضی میں ہر حکمران لمبی
لمبی چھوڑتارہاہے قوم کو عمران خان سے بہت امیدیں تھیں لیکن ان کے تمام
دعوے ٹھس ہوگئے حالانکہ اس وقت بھی اور آج بھی عمران خان یہی کہتے رہے ہیں
کہ مہاتیر محمد نے ملائشیاء کو بدلا تھا، رجب طیب اردوان ترکی کو آگے لے کر
گیا ہمارے حکمرانوں نے کیا ظلم کیادینا کے سب سے بڑی زرخیز علاقہ ساہیوال
میں کول پاور اسٹیشن بنایادیا اب سمندر سے ساہیوال تک کوئلہ لایا جائے گا
یہ بات تو تحریک ِ انصاف کے سربراہ بجا طورپردرست کہی ہے اس پاور اسٹیشن کے
ماحول پر بھی اثرات پڑیں گے ساری دنیا میں کوئلہ کے پلانٹس بند ہورہے ہیں
لیکن نوازشریف حکومت نے کول پلانٹ بناکراتنا بڑا ظلم کیاہے کہ انہیں یہ
دھرتی کبھی معاف نہیں کرے گی ۔نواز شریف ہر جگہ جا کر کہتے رہے ہیں کہ یہاں
موٹروے بنادوں گا وہاں موٹروے بنا دوں گا، موٹروے بنانے کو بہت بڑی کامیابی
سمجھی جارہی ہے۔ کیا مہاتیر محمد اور نیلسن منڈیلاسڑکوں کے افتتاح کے فیتے
کاٹتے تھے؟ ۔ تحریک انصاف کے رہنما اور عجلت میں مستعقی ہونے والے وزیر ِ
خزانہ اسد عمر نے یہ کہا تھا ہم قرض کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں ،جب یہ
حکومت آئی تو400ارب کا خسارہ تھا جو بڑھتے بڑھتے 1100ارب ہو گیاہے، عوام پر
ٹیکس کا بوجھ بہت زیادہ ڈالا گیا،ترقی کرنے کیلئے ہمیں پیداواری سیکٹر میں
ٹیکس کا بوجھ کم کرنا ہے ہماری حکومت پہلے 100دن میں چار نئے سیاحتی مقامات
کا اعلان کرے گی، اپنی حکومت کے 5سال میں ایک کروڑنئی نوکریاں پیداکریں گے،
حکومت کے آتے ہی ایک باصلاحیت چیئرمین ایف بی آر لایاجائیگا۔ 50 لاکھ
گھربنائے جائیں گے اور یہ گھر حکومت نہیں پبلک سیکٹر ہی بنائے گے۔ہاوسنگ
اورٹورازم کوفروغ دینے سے روزگارکے مواقع پیداہوں گے جن سے زرمبادلہ اور
نوکریوں کے مواقع پیدا ہوں گے ۔ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھاپی ٹی آئی
حکومت کاپہلااقدام فاٹاکاخیبر پختونخوا میں انضمام ہوگا انگریزکے کالے
قانون ایف سی آرکو فی الفور ختم کریں گے،بلوچستان کے دکھی دل لوگوں پرمرہم
رکھیں گے اورناراض لوگوں کو قومی دھارے میں شامل کریں گے،کراچی میں پبلک
ٹرانسپورٹ لائیں گے،کراچی میں شہری حکومت کوبااختیار کریں گے، انتظامی
بنیادوں پرجنوبی پنجاب صوبہ بنائیں گے فاٹا کے لوگوں کو خیبرپختونخوا کی
اسمبلی میں سیٹیں دی جائیں گی،فاٹا کے عوام کیلئے روزگارکے مواقع پیدا کئے
جائیں گے۔ بلوچستان پاکستان کا مستقبل ہے، بلوچستان کے ساتھ وعدے تو بہت
ہوتے ہیں لیکن پورے نہیں ہوتے محروم اضلاع کو ایک اکنامک پیکج دیں گے ،ہیلتھ
کیئر پروگرام متعارف کرائیں گے۔آج کراچی میں کچرااٹھانے والاکوئی
نہیں،کراچی پانی کی بوند بوندکو ترس رہا ہے،وہاں 10 گھنٹے لوڈشیڈنگ ہورہی
ہے کراچی میں قبضہ مافیا کیخلاف کریک ڈاون کاارادہ رکھتے ہیں،کراچی میں
ہاؤسنگ سکیم کے تحت سستے گھردینے کاارادہ رکھتے ہیں،کراچی میں پبلک
ٹرانسپورٹ لائیں گے،کراچی میں شہری حکومت کوبااختیار کریں گے،کراچی کے
اداروں کو سیاست سے پاک کیا جائے گا۔ تحریک انصاف کے رہنما جہانگیرترین نے
کہا تھا تحقیق کے بغیرزراعت کاشعبہ ترقی نہیں کرسکتا، زراعت سے متعلق
ایمرجنسی نافذکریں گے،پی ٹی آئی کی حکومت آنے کے بعد100 دن کے اندر اندر
زراعت پرٹارگٹڈسبسڈی دی جائیگی،چھوٹے کاشتکاروں کوقرضے دیئے جائیں گے فروٹ
اورسبزیوں کی منڈیوں میں اضافہ کیاجائیگااورویئرہاوس میں پڑی گندم کوبینک
ہاوس کے ذریعے فنانس کیاجائیگا ہم پاکستان کو فلاحی پاکستان بنائیں گے اور
ہمارا نظریہ مدینہ کی ریاست کا نظریہ ہے۔ عام آدمی کا کہناہے کہ منشور تو
ہرپارٹی کا اچھا ہوتاہے ہر سیاستدان ملکی ترقی اورعوام کی فلاح وبہبود
کیلئے بلندبانگ دعوے کرتاہے عمران خان کی ترجیحات بھی اچھی ہیں لیکن
100دنوں کی ترجیحات میں ایسا کچھ نہیں کیا گیاجس کی مثال دی جا سکے بظاہر
یوں لگتاہے موجودہ حکومت ہر محاذپر ناکام ہو گئی ہے غریب تو غریب اب تو عام
آدمی کی بھی چیخیں نکل رہی ہیں کہ قیمتوں میں مسلسل ہوشربا اضافہ
ہوتاجارہاہے ، سرکاری اعداد و شمار میں بھی اعتراف کیاگیاہے کہ ملک میں
مہنگائی 5 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ماہانہ بنیادوں پر مہنگائی
میں9.41 فیصد اضافہ ہورہاہے عوام کو ریلیف دینے کی بجائے ان کو معاشی
بدحالی کی طرف دھکیل دیا گیاہے اس سے بڑی حکومتی اد اروں کی اورکیا نااہلی
ہوگی مہنگائی کیوں ہوتی ہے؟ اور کنٹرول کیوں نہیں ہورہی؟ ایک تو اس کا
سیدھا سادا جواب یہ ہے کہ افراط ِ زر بڑھنے سے چیزیں مہنگی ہونا یقینی بات
ہے دوسرا کسی بھی معاملے میں چیک اینڈ بیلنس نہ ہونا بھی مہنگائی کا بڑاسبب
ہے دونوں صورتوں میں ساری ذمہ دار ی حکومت کی ہے جس نے عوام کو حالات کے
رحم وکرم پر بے سہارا چھوڑ دیاہے اب سوال یہ ہے کہ ایسے اقدامات کے نتیجہ
میں پاکستان ایک فلاحی مملکت بنے گا؟ مخالفین کی بات نہ کریں وہ تو ہے ہی
مخالف کوئی غیرجانبداربھی آٹھ نو ماہ کی حکومت کی کارکردگی کا تجزیہ کرے تو
وہ بھی تحریک ِ انصاف کی حکومت کی ترجیحات کا بخیہ اڈھیرکررکھ دے گا تبدیلی
سرکارکی کارکردگی کاپوسٹ مارٹم کیا گیا تو بہت سے سوال اٹھیں گے حکومت کس
کس کا جواب دیگی |