انڈونیشیا ۰۰۰ کفایت نے لے لی حیات

انڈونیشیا میں عارضی طور پر الیکشن کمیشن نے ہزاروں افراد کو انتخابی خدمات کی انجام دہی کیلئے معمور کیا تھا جن میں سے 270سے زائد افراد گنتی کے دوران ہلاک بتائے جارہے ہیں۔ انڈونیشیا جنوب مشرقی ایشیا میں واقع آبادی کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا اسلامی ملک ہے ، انڈونیشیا کی معیشت کا شمار اس وقت دنیا کی چند ایک کامیاب معیشتوں میں ہوتا ہے۔ انڈونیشیا تقریباً سترہ ہزار سے زائد چھوٹے بڑے جزیروں پر مشتمل ہے اس کا دارالحکومت جکارتہ ہے اور موجودہ صدر جوکو ودودوہیں ۔ 26کروڑ سے زائد آبادی والے اس ملک میں گذشتہ 17؍ اپریل کو عام انتخابات منعقد کئے گئے ۔ذرائع ابلاغ کے مطابق یہ پہلا موقع تھا کہ ملک کے 20کروڑ 60لاکھ افراد نے کم سے کم خرچے کی غرض سے ایک ساتھ صدارتی، قومی اور علاقائی پارلیمانی انتخابات کے لئے بیلٹ پیپرز کے ذریعہ اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا ۔ 19کروڑ 30لاکھ اہل ووٹروں میں سے تقریباً 80فیصد افراد نے آٹھ لاکھ سے زائد پولنگ اسٹیشنوں میں ووٹ کا استعمال کیا۔ اس موقع پر حکومت نے بڑی تعداد میں انتخابی خدمات انجام دینے کیلئے عارضی طور پرہزاروں افراد کوکیا تھا ۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق بتایا جاتا ہے کہ تقریباً 70لاکھ افراد ووٹوں کی گنتی اور نگرانی پر معمور ہیں۔جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہیکہ انڈونیشیا میں منعقد ہونے والے ان انتخابات کی گنتی کرنے والے افراد جن کی عارضی طور پر خدمات حاصل کی گئیں تھیں ان میں سے گذشتہ دنوں 270سے زائد افراد ووٹوں کی گنتی کے دوران ہلاک بتائے جارہے ہیں ۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق ایک اہلکار کا کہنا ہے کہ ان افراد کی ہلاکت گھنٹوں تک ہاتھوں سے لاکھوں بیلٹ پیپرز کی گنتی کرتے ہوئے تھکاوٹ سے ہونے والی بیماریوں کی وجہ سے ہوئی ہے۔ عام انتخابات منعقد کروانے والے الیکشن کمیشن (کے پی یو) کے ایک ترجمان آریف پریو سوسانتو کا کہنا ہے کہ 1878افراد پر مشتمل دوسرا عملہ بھی بیمار پڑگیا ہے ۔ اسکی وجہ یہ بتائی جارہی ہے کہ سخت گرمی میں رات بھر کام کرنے کی توقع رکھی گئی تھی جس نے ان کی صحت کو متاثر کیا۔ بڑی تعداد میں عارضی طور پر خدمات انجام دینے والا عملہ بیمار پڑگیا جنہیں سول ملازمین کے برعکس کام شروع کرنے سے قبل میڈیکل چیک اَپ سے نہیں گزاراگیا۔ نیکئی ایشین ریویو کے مطابق انڈونیشیا کا الیکشن کمیشن ہلاک ہونے والے ہر ورکر کے لواحقین کو 36ملین انڈونیشین روپیہ یعنی 2500ڈالر یا 1930پاؤنڈ معاوضہ دینے کا ارادہ رکھتا ہے جو کم از کم ایک سال کی اجرت بتائی جارہی ہے۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ حکومت نے کم سے کم خرچہ میں صدارتی ، قومی اور علاقائی انتخابات منعقد کرنے کی کوشش کی اور اسکے عارضی عملے سے زیادہ امیدیں باندھی گئیں جس کے لئے ناقدین اسے غیر دانشمندانہ عمل قرار دے رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن (کے پی یو) ووٹوں کی گنتی ختم کرکے 22؍ مئی کو صدارتی اور پارلیمانی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والے امیدواروں کا اعلان کرے گا۔جبکہ نتائج کے اعلان سے قبل ہی صدارتی امیدواروں میں صدر جوکوودودو اور جزبِ اختلاف کے صدارتی امیدوار پرابوو سبیانتو نے انتخابات میں اپنی اپنی جیت کا اعلان کرچکے ہیں، بتایا جارہا ہے کہ اگرچہجلد سے جلد کی جانے والی گنتی ظاہر کرتی ہے کہ صدر جوکوودودو 10فیصد پوائنٹس کے ساتھ انتخابات جیت گئے ہیں۔کامیابی چاہے کسی بھی امیدوار کی ہو لیکن الیکشن کمیشن نے جس طرح عارضی عملے کی خدمات حاصل کرکے ان سے زیادہ سے زیادہ اور جتنا جلد ممکن ہوسکے کام لینے کی کوشش کی ہے جس کی وجہ سے 270سے زائد عارضی عملہ کے افرادتھکاوٹ سے ہونے والی بیماریوں کے سبب ہلاک ہوگئے ہیں یہ سانحہ انڈونیشیاہی نہیں بلکہ ساری دنیا کے لئے ایک بڑا سانحہ ہے ۔

سعودی عرب میں پاکستانی قیدیوں کا مسئلہ
سعودی عرب کی جیلوں میں ہندوستان ، پاکستان، بنگلہ دیش ، افغانستان کے علاوہ دیگر کئی ممالک کے ہزاروں تارکین وطن کسی نہ کسی الزام یا جرم کی وجہ سے جیلوں میں قید و بند کی زندگی گزار رہے ہیں ، ان میں کئی قیدیوں کو سزائے موت بھی سنائی جاچکی ہے جس پر کسی بھی وقت عمل ہوسکتا ہے ۔گذشتہ دنو ں ایک پاکستانی میاں بیوی کوسعودی عرب میں منشیات کی اسمگلنگ کے کیس میں سزائے موت دے دی گئی تھی ۔ذرائع ابلاغ کے مطابق سنہ 2016ء میں فاطمہ اور مصطفی کو انکے ایک جاننے والے نے اپنی ٹراویل ایجنسی کے ذریعہ عمرہ کرنے کا مشورہ دیا ۔فاطمہ کے بھائی کے مطابق انکا پورا خاندان خوش تھا کہ بہن اور بہنوائی عمرہ کی سعادت حاصل کرنے جارہے ہیں کیونکہ یہ لوگ محنت مزدوری کرنے والے غریب خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ان حالات میں عمرہ کرنا اس خاندان کے لئے بہت اہم بات تھی۔فاطمہ اور مصطفی ملتان ایئر پورٹ سے جدہ پہنچ گئے لیکن جانے کے ایک ہفتہ بعد فاطمہ نے انکے بھائی کو فون کرکے بتایا کہ ہمیں منشیات لے جانے کے الزام میں یہاں جیل میں قید کردیا گیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق فاطمہ ملتان ایئر پورٹ پر پہنچنے کے بعد ٹراویل ایجنٹ نے میاں بیوی سے کہا کہ ان کو منشیات لے جانا ہونگی، منع کرنے پر ان کو جان سے مارنے کی دھمکی دی گئی ، فاطمہ کے دو بچے ہیں جن میں سے ایک بیٹا اپنی نانی کے پاس تھا جبکہ بیٹی والدین کے ساتھ گئی تھی۔ سعودی عرب میں فاطمہ اور مصطفی کو الگ الگ جیلوں میں رکھا گیا جبکہ بچی ماں کے ساتھ ہی تھی جو ان دنوں اپنے مامو کے پاس پنجاب کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہ رہے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ گذشتہ ماہ فاطمہ کے افرادِ خاندان کو سعودی عرب کی جیل میں قید ایک خاتون کا فون آیا اور اس نے روتے ہوئے بتایا کہ فاطمہ اور مصطفی کا سرقلم کردیا گیا ہے ، اس واقعہ کے بعد سے عمرہ پر لے جانے والے ایجنٹ اور اس کے ساتھ کام کرنے والوں کا کوئی اتا پتا نہیں چل سکا جبکہ افرادِ خاندان کا کہنا ہیکہ پولیس کو فون کرکے تفتیش کروانے کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا بلکہ ہوسکتا ہے کہ شکایت کنندہ کو ہی جیل بھیج دیا جائے گا ۔ اس قسم کے حالات ایک اسلامی ملک پاکستان کے ہیں جہاں پر عمرہ کے نام پر ٹراویل ایجنٹس معصوم لوگوں کو عمرہ لیجانے کی خوشخبری دیکر منشیات اسمگل کرتے ہیں اور اگر یہ لوگ لیجانے سے انکار کردیں تو انہیں ماردینے کی دھمکی دی جاتی ہے ۔ اب دیکھنا ہے کہ یہ مسئلہ عالمی میڈیا میں آنے کے بعد پاکستانی وزیر اعظم عمران خان ایسے ٹراویل ایجنٹس کے خلاف کس قسم کی کارروائی کرتے ہیں اور بے گناہ معصوم پاکستانیوں کو سعودی جیلوں سے آزاد کرانے کیلئے کس قسم کی کارروائی کرتے ہیں کیونکہ اس سے قبل پاکستانی قیدیوں اور انکے افرادِ خاندان کوفبروری 2019میں اس وقت خوشی کا موقع ملا تھا جب سعودی ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان پاکستانی دورہ پر تھے اور اس وقت پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے سعودی عرب میں قید پاکستانیوں کی رہائی کیلئے کوششکرتے ہوئے ولی عہد کو توجہ دلائی تھی کہ انکی رہائی کیلئے کام کرنا ایک ایسا عمل ہے جس سے خدا بھی خوش ہوگا، جس پر شہزادہ محمد بن سلمان نے سعودی عرب میں قید 2107پاکستانیوں کو رہا کرنے کے احکامات جاری کردیئے تھے، جس کی تصدیق اُس وقت کے پاکستانی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے ایک ٹویٹ کے ذریعہ کی تھی لیکن ابھی تک صرف چند افراد کی رہائی ہی بتائی جارہی ہے جبکہ سمجھا جارہا تھا کہ شہزادہ محمد بن سلمان کے احکامات کے فوراً بعد رہائی کا آغاز ہوجائے گا۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق جسٹس پراجیکٹ پاکستان کا کہنا ہے کہ وزارتِ خارجہ کے لاہور اور سینیٹ میں جمع کرائے گئے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اس وقت سعودی عرب کی جیلوں میں 3300پاکستانی قید ہیں۔ ان میں سے 47فیصد کو منشیات لے جانے کے الزام میں سزائے موت کی سنائی گئی ہے جس میں خواتین بھی شامل ہیں۔ جسٹس پراجیکٹ پاکستان(جے پی پی) کے ایک ترجمان کے مطابق سعودی عرب میں سزائے موت پانے والے پاکستانی قیدیوں کا ریکارڈ منظرِ عام پر نہیں لایا جاتا ، لیکن اس کے باوجود جے پی پی نے گذشتہ پانچ برسوں میں 100سے زائد موت کی سزاؤں کا ریکارڈ جمع کیا ہے جو باقی ممالک کے باشندوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ بتایا جاتاہے ۔یہاں اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ ہندو پاک کے قیدیوں کو اپنی صفائی کیلئے کئی مشکلات درپیش ہوتی ہیں جن میں خصوصی طور پر زبان کا مسئلہ بھی شامل ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ سعودی عرب اور پاکستان نے سنہ 1963ء کے سفارتی تعلقات پر مبنی ویانا کنونشن کے معاہدے پر دستخط کئے تھے۔ اس معاہدے کی شِق 36کے مطابق جب ایک ملک کا شہری کسی دوسرے ملک میں کام کی غرض سے جاتا ہے اور وہاں گرفتار ہوجاتا ہے تو اس صورت میں اسے اپنے سفارتخانہ کو آگاہ کرنے کی اور اس شخص کو قانونی چارہ جوئی کرنے کے حوالے سے تجاویز دینے کی بھی اجازت ہوتی ہے۔لیکن جے پی پی اور ہیومن رائٹس واچ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سعودی نظامِ انصاف میں سنگین خامیاں موجود ہیں ملزموں کو شفاف مقدمے کا حق نہیں ملتا، انہیں طویل عرصے تک بغیر مقدمہ چلائے قید رکھا جاتا ہے ان سے زبردستی اعتراف ناموں پر دستخط کروائے جاتے ہیں،بی بی سی کی رپورٹس کے مطابق بعض پاکستانیوں سے بات چیت کی گئی جس پر ان پاکستانیوں کا کہنا تھا کہ پہلی سماعت پر قاضی انہیں پہلے سے لکھی ہوئی فردِ جرم اور سزا پر مبنی کاغذات پر دستخط کرنے کا حکم دیتے ہیں اگر وہ انکار کردیں تو اگلی سماعت پر وہی کاغذ دوبارہ ان کے سامنے رکھ دیا جاتا ہے۔ اس سے ملزموں کو ڈر رہتا ہے کہ اگر وہ دستخط سے انکار کردیں تو انہیں غیر معینہ مدت تک اسی چکر سے گزرنا پڑے گا۔ سعودی عرب میں شرعی قوانین کے نفاذ کی بات کی جاتی ہے لیکن اس پر کس حد تک عمل ہوتا ہے اس سلسلہ میں کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ کیونکہ کئی سعودی عہدیدار ایسے ہوتے ہیں جنہیں یا تو مکمل قانونی معلومات نہیں ہوتیں یا پھر وہ دوسرے ممالک کے تارکین وطنوں کو کسی نہ کسی طرح سزا دلانا چاہتے ہیں۔ اس اسلامی ملک میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ملزم پر عائد کئے گئے جرم کی مکمل تحقیقات ہو تی اور اسکے بعد جرم ثابت ہونے کی صورت میں مجرم کوجج شرعی فیصلہ کے مطابق سزا کا حکم دیتے۔ بعض پاکستانیوں کا کہنا ہیکہ پاکستان کے سفارتخانہ سے کسی قسم کی مدد کی امید رکھنا وقت ضائع کرنے کی بات ہے، ایک پاکستانی کا کہنا ہے کہ جب انہیں گرفتار کیا گیا تھا تو انکے ساتھی سفارتخانہ سے رجوع ہوئے جس پر انکے ساتھیوں سے کہا گیا کہ اس کو کیا ضرورت تھی سعودی عرب آنے کی۔ خیر۔ایسا نہیں کہ سفارت خانے کے تمام عہدیدار ایسے ہی ہوتے ہیں بلکہ بعض سفارتی عہدیدار اپنے ملک کے ان پریشان حال تارکین وطنوں کی بھرپور مدد بھی کرتے ہیں ۔ خیر فاطمہ اور مصطفی جیسے کتنے بے قصور لوگ آج بھی سعودی عرب کی جیلوں میں منشیات لیجانے کے جرم میں سزائے موت کے منتظر ہیں اس سلسلہ میں پاکستانی حکومت فوراً اپنے ان بے قصور پاکستانیوں کو آزاد کرانے کی کوشش کریں اور ساتھ میں ان منشیات کا کارروبار کرنے والے ٹراویل ایجنٹوں کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کریں تاکہ مستقبل میں معصوم ، بے قصور ، غریب خاندان اس سے بچ سکیں۰۰۰

ترکی میں مزیدباغی فوجیوں کی گرفتاری
ترکی کے پراسیکیوٹر جنرل نے گذشتہ دنوں 2016 میں صدر رجب طیب اردغان کے خلاف ناکام فوجی بغاوت میں ملوث ہونے اور امریکہ میں جلا وطن مذہبی مبلغ فتح اﷲ گولن کی جماعت سے تعلق کے الزام میں 210ترک فوجیوں کی گرفتاری کا حکم دیا ہے۔ذرائع ابلاغ کے مطابق ترک پراسیکیوٹر جنرل کی جانب سے جن فوجیوں کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے گئے ہیں ان میں فضائیہ، نیوی اور بری فوج کے ساتھ ساتھ کوسٹ گارڈ سے بھی تعلق رکھنے والے اہلکار شامل ہیں۔ ذرائع کے مطابق ان میں سے پانچ کرنل کے عہدے، سات لیفٹیننٹ کرنل، 14 میجر اور 33 کیپٹن کے عہدے کے افسران شامل ہیں۔واضح رہے کہ ترک حکومت امریکہ میں خود ساختہ جلا وطنی کی زندگی گزارنے والے مذہبی مبلغ فتح اﷲ گولن اوران کی جماعت پر سنہ 2016 کی ناکام فوجی بغاوت میں ملوث ہونے کا الزام عاید کرتی ہے ۔تین سال قبل پیش آنے والی اس بغاوت کے بعد اب تک رجب طیب اردغان کی حکومت نے 77000افراد جن میں فوج، پولیس، محکمہ تعلیم اور دیگر شعبوں کے اہلکار شامل ہیں کو حراست میں لینے کے بعد ان کے خلاف مقدمات چلائے جارہے ہیں۔ اس دوران فوج اور پولیس کے 15ہزار ملازمین کو برطرف کیا جا چکا ہے۔اب دیکھنا ہے کہ یہ کارروائی ابھی کب تک جاری رہتی ہے ۔ رجب طیب اردغان کو عالمی سطح پر ایک بین الاقوامی مسلم رہنماء کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے ۔ اب دیکھنا ہے کہ ترکی میں انکی جڑیں کتنی مضبوط ہیں اور مستقبل میں ترک عوام انہیں مزید کتنا مضبوط کرتے ہیں۔

ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے اخوان المسلمین پر پابندی
ٹرمپ انتظامیہ نے مصر کی مذہبی و سیاسی جماعت اخوان المسلمین پر پابندی عائد کردی ہے ۔ مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی گذشتہ ماہ اپریل میں امریکہ کے دورے پر تھے۔ اس موقع پر دونوں صدور کے درمیان کئی امور پر بات چیت ہوئی ۔ مصر میں پہلے جمہوری طور پر منتخبہ صدر محمد مرسی کے خلا ف اس وقت کے فوجی سربراہ عبدالفتاح السیسی کی فوجی بغاوت اور پھر انکی جماعت اخوان المسلمین کے خلاف احتجاج کرنے پر شدید کارروائی کی گئی جس میں ہزاروں افراد ہلاک و زخمی ہوچکے تھے اور ہزاروں اخوان المسلمین کے اراکین و عہدیدارں کو حراست میں لے کر کئی الزامات کے تحت سزائے عمر قید و سزائے موت سنائی گئی اور آج بھی کئی اخوان المسلمین مصر کی جیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کررہے ہیں۔موجودہ صدر عبدالفتاح السیسی اخوان المسلمین کے خلاف سخت موقف رکھتے ہیں اور ہوسکتا ہے کہ ان ہی کے کہنے پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اخوان المسلمین پر پابندی عائد کردی ہو۔

مسعود اظہر کا نام عالمی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل
آخر کار اقوام متحدہ نے پاکستانی تنظیم جیشِ محمد کے سربراہ مسعود اظہر کا نام عالمی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کردیاہے۔اس سے قبل امریکہ نے مسعود اظہر کا نام عالمی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کرنے کیلئے قرار داد کا مسودہ اقوام متحدہ کی سکیوریٹی کونسل کے ممبران میں تقسیم کیا تھا۔ پلوامہ میں 14؍ فبروری کو انڈین سیکیوریٹی فورسز پرکئے گئے خودکش حملے کے بعد فرانس اور برطانیہ نے بھی ایک قرارداد پیش کی تھی جسے چین نے ویٹو کردیا تھا۔ لیکن 30؍ اپریل کو چین سے متعلق یہ اطلاعات منظر عام پر آئی تھیں کہ اقوام متحدہ کی سینکشنز کمیٹی نے مسعود اظہر کو دہشت گرد قرار دینے کے بارے میں پیشرفت ہوئی ہے۔ ہندوستان 2016سے مسعود اظہر کو اس فہرست میں شامل کرنے کیلئے لگاتار کوشش کرتا رہا ہے تاہم چین اس کی مخالفت کرتا رہا تھا۔ امریکہ کی جانب سے قرار داد پیش کرنے کی کوششوں کے موقع پر چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان جینگ شوانگ نے کہا تھا کہ اس کا کوئی جواز نہیں ہے اوریہ ایک غلط روایت کو جنم دے گا۔
***
 

Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 352 Articles with 208836 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.