ملک میں دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے گزشتہ تین چار عشرے سے
جو اقدامات کیے جارہے ہیں ،گزشتہ پانچ سال کے اس آخری چھ مہینوں میں انہیں
کئی طرح سے نقصان پہنچانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے ،حالانکہ ارباب اقتدار نے
دہشت گردی کو نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا سے ختم کرنے کے لیے بلند وبالا
باتیں کی ہیں اوراس میں کامیابی ملنے کا دعویٰ نہ صرف وزیراعظم نریندرمودی
ہی نہیں بلکہ بی جے پی کی لیڈرشپ کرتی رہی ہے ،لیکن حال میں ان کے زیراثر
تفتیشی ایجنسیوں کی کمزور پیروی نے ان کے نعروںکوکھوکھلاثابت کردیا ہے،ابھی
سمجھوتہ ایکسپریس کے قصورواروں کے بری ہونے کا رونا رویا جارہا تھا کہ
مہاراشٹر کے پاورلوم کے لیے مشہورشہر مالیگاﺅں بم دھماکہ کی ضمانت پر رہا
ملزم سادھوی پرگیہ کو ریاست مدھیہ پردیش کے شہر بھوپال سے بی جے پی کا لوک
سبھا کے لیے امیدوار بنادیا گیا ہے ،جس نے ممبئی حملہ میں شہید ہوئے اے ٹی
ایس چیف ہیمنت کرکرے کو کوسنا شروع کیا ہے اور مودی ،امت شاہ سمیت پوری بی
جے پی لیڈران نے اس کے ’شراپ ‘والے بیان سے کنارہ کرلیا ،لیکن درپردہ اس کی
مظلومیت کا بہانہ کرتے ہوئے ’ ہاں میں ہاں ملاتے‘نظرآئے ۔الیکشن کمیشن نے
72گھنٹے کی پابندی لگا کر زبان بندی کی ،لیکن تیر تو کمان سے نکل چکا ہے-
دراصل بی جے پی کی لیڈرشپ لوک سبھا انتخابات کے چار مراحل ہونے کے بعد
بوکھلائی ہوئی نظرآرہی ہے،اترپردیش میں سماج وادی پارٹی (ایس پی) اور بہوجن
سماج پارٹی (ایس پی)اتحاد کے بعد ووٹنگ پیٹرن بن گیا ہے ،اس سے ان کے ہوش
اڑگئے ہیں،ان کی امید بہار اور مہاراشٹر پر بھی گہری ہیں،مغربی بنگال میں
بھی بی جے پی نے پوری طاقت جھونک دی ہے۔مگر مہاراشٹرمیں جو لوک سبھا کی
48نشستوں کے حساب سے ملک میں دوسرے نمبر پر کانگریس اور این سی پی اتحاد کے
ساتھ ساتھ مہاراشٹر نونرمان سینا (ایم این ایس) صدرراج ٹھاکرے نے الیکشن
میں ایک بھی امیدواربنا اتارے ،بی جے پی ۔شیوسینا محاذ کے خلاف ریاست بھر
میں جلسے کرکے ان کی نیند اڑادی ہے ،ہاں اس کا کتنا نقصان برسراقتدار محاذ
کو پہنچے گا ،اس کا پتہ 23مئی کو چل جائے گا ،لیکن شہری علاقوںاور خصوصاً
ممبئی،پونے اور تھانے میں رائے دہندگان نے جس انداز میں رائے حق دہی
کااستعمال کیا ہے کہ اس نے فی الحال سیاسی پنڈتوں کو سوچنے پر مجبور کردیا
ہے ،ممبئی شہر میں اس مرتبہ کے لوک سبھا الیکشن میں جھوپڑابستیوں کے بجائے
متوسط طبقہ نے گھر سے نکل کر ووٹ دیا ہے جوکہ ایک خوش آئند بات ہے۔یہاں
ہلکا سا فیصد بھی بڑھا ہے،ایم این ایس سربراہ راج ٹھاکرے نے بالکل اپنے
چچااور شیوسینا سربراہ بال ٹھاکرے کے نقش قدم پر چلتے ہوئے یہ سب کچھ کیاہے
،انہوںنے 1980میں یہی حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے اندرا گاندھی کی حمایت کی
تھی اور کانگریس نے شاندار کامیابی حاصل کی تھی۔راج نے اپنے جلسوںمیں مودی
،امت شاہ کے ساتھ ساتھ شہید ہیمنت کرکرے کونشانہ بنانے والی سادھوی کو بھی
نہیں بخشا ،بلکہ ریاست کے بی جے پی لیڈران ان کے ’اسٹائل‘سے اتنے پریشان
ہوئے کہ الیکشن کمیشن کے درپر پڑے نظرآئے اور راج ٹھاکرے کا رونا روتے رہے۔
راج ٹھاکرے نے اپنے جلسوں میں بدعنوانی ،جی ایس ٹی ،بدعنوانی اور دہشت گردی
کے ساتھ سادھوی پرگیہ کی امیدواری جیسے معاملات کو بھی شامل رکھا اور عوام
کے درمیان ان معاملات کو اٹھایا ،ان میں سادھوی اور دیگر دہشت گردانہ حملوں
کے ملزمین کو بھی نشانہ بنایا ہے۔انہوںنے ایسے ایسے دلائل پیش کیے کہ بی جے
پی والوںکی چیخ نکل گئی ،خیر ہم بات کررہے تھے،دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کے
بی جے پی کے کھوکھلے نعرے کی ،پڑوسی ملک پاکستان اور دنیا سے دہشت گردی کے
خاتمہ کے لیے بڑی بڑی باتیں کرنے والی بی جے پی کی قیادت میں مرکزی حکومت
کی تفتیشی اور سلامتی کی ایجنسیاں مالیگاﺅںب م دھماکہ ،مکہ مسجد دھماکہ ،سمجھوتہ
ایکسپریس اور دیگر وارداتوں میں ملوث سنگھ پریوار سے مبینہ طورپر قریب
ملزمین کو مرکزی ایجسنیوں کے تحت عدالتوں سے بری کروارہی ہے،ابھی گزشتہ
ہفتہ ہی عشرت جہاں فرضی انکاﺅنٹر کے ملزمین بنجارا اور امین جیسے اعلیٰ
افسروںکو مقدمہ سے ڈسچارج کرنے کی این آئی اے کی درخواست کو عدالت نے تسلیم
کرلیا ہے۔
حال میں سوامی اسیمانند کو سمجھوتہ ایکسپریس ٹرین بم دھماکہ اور حیدرآباد
کی مکہ مسجد بم دھماکہ میں ملوث سوامی اسیمانندکو بھی این آئی اے عدالت بری
کردی اور اس کے لیے ججوں نے جو ریمارکس دیا ہے وہ ہمارے لیے کے لیے شرمناک
ہے کہ تفتیشی ایجنسیوں نے ان کے خلاف ثبوتوں کو عدالت کے روبروپیش ہی نہیں
کیا ہے۔بلکہ عدالت کو پاکستان کے ملوث ہونے کے سلسلہ میں گمراہ کیا جاتا
رہا ۔کئی اہم ترین باتو ںکو نظرانداز کیا گیا ۔ فروری 2007کو دہلی سے
پاکستان جانے والی سمجھوتہ ایکسپریس میں ریاست ہریانہ میں دھماکہ ہوا تھا ،جس
کے نتیجے میں 68افراد لقمہ اجل بن گئے تھے۔
ہریانہ پولیس کی ایس آئی ٹی نے ابتدائی جانچ سے پاکستان اور سیمی پر شک کی
سوئی گئی ،لیکن ایک سوٹ کیس بھی ٹرین کی بوگی سے برآمد کیا گیا جوکی
تحقیقات کے بعد پولیس کی جانچ ایم پی کے شہر اندورپہنچی ،اس وقت
ہندوانتہاپسند گروپ کے ملوث ہونے کی ہلکی ہلکی علامتیں سامنے آنے لگی تھیں
،لیکن سنیل جوشی ،رام جی کلسانگرااور سنیل ڈانگے کے نام واضح نہیں ہوئے ،ان
پر پردہ مالیگاﺅں 2008کے بم ھماکوں کے بعد ہٹا ،جوشی کو قتل کیا جاچکا
تھا۔ہیمنت کرکرے نے بم نصب کرنے والی سادھوی پرگیہ کی اسکوٹر کی تحقیق کے
بعد اس نیٹ ورک کا پتہ لگانے میں کامیابی حاصل کی ،اسی درمیان مکہ مسجد
معاملہ میں بھی سی بی آئی نے تحقیقات شروع کی اور سنیل جوشی کا نام سامنے
آیا۔کئی زاویے سے تحقیقات کے بعد نومبر 2010میں اسیمانند کو گرفتار کرلیا
گیا ،این آئی اے نے ان معاملات کو اپنے زیرنگرانی لے لیا اور مختلف تفتیشی
ایجنسیوں کا بھی یہی کہنا تھا،اسیمانند کا ایک اقبالیہ بیان بھی سامنے آیا
جس میں انہوںنے دھماکے میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا تھا،جس میں ایک قیدی
مسلم لڑکے کی خدمات سے متاثر ہونے پر اپنا بیان دیا تھا۔ بی جے پی کا ایک
طبقہ عدلیہ کے احترام کا دعویٰ کرتے ہوئے ’اگرمگر‘ کرتا رہتا ہے اور ججوں
کو بھی نہیںبخشتا ہے ،ساتھ ساتھ تحقیقاتی افسروںکو بھی کوسنے سے نہیں چوکتا
ہے ،اگر بی جے پی اور اس کی ہمنوا تنظیموں کو ایسا لگتا ہے تو ان کی پارٹی
اقتدار میں اور ان اعلیٰ افسران کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی جاتی
ہے۔دراصل انہیں اس بات کا پتہ ہونا چاہئے کہ این آئی اے کو رٹ پہلے ہی
اجمیر شریف بم دھماکہ میں آرایس ایس کے تین سابق پرچارک کو سزا سنا چکی
ہے،جبکہ مالیگاﺅں بم دھماکہ مقدمہ زیرسماعت ہے ،اس موقع پر سمجھوتہ
ایکسپریس بم دھماکہ کے مقدمہ کی سماعت کرنے والے جج کا کہنا تھا کہ ہر ایک
فریق اپنے طورپر فیصلہ کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے جوکہ ایک خطرناک عمل ہے
،ان باتوں پر غوکریں تو محسوس ہوتا ہے کہ سیاسی مفاد کے لیے ہر کوئی اپنا
موقف رکھنا چاہتا ہے ،جس کے سبب دہشت گردی کو شکست فاش دینا ممکن نہیں
ہے۔اس لیے ارباب اقتدار کا نعرہ کھوکھلا نظرآرہا ہے اور ان پر یہ محاورہ
”منہ میں رام اور بغل میں چھری“ بالکل معقول اورمناسب لگ رہا ہے۔ |