معاشرے میں پھیلی بہت سی بیماریاں ایسی بھی ہوتی ہیں جو
صرف لوگوں کی صحت کے لیے ہی نہیں بلکہ پاکستان کی نیک نامی کے لیے بھی بہت
بڑاخطرہ ہوتی ہیں جو ملک گیروباء بن کر پھیلنے میں جنگل میں آگ کی طرح کام
کرتی ہیں ،اور ان میں سے کچھ بیماریاں تو ایسی بھی ہوتی ہیں کہ جن کے بہتر
علاج کے لیے نہ تو کوئی ادویات مارکیٹ میں موجود ہوتی ہیں اور نہ ہی کسی
قسم کا مدافتی انجیکشن موجود ہوتاہے،کچھ عر صہ قبل ایک نجی نیوز چینل پر
ایک خبر نشر ہوئی ہے کہ جھنگ کے ایک ہسپتال میں مختلف ٹیسٹوں کی آڑ میں
بیماریاں پھیلانے کا انکشاف ہوا ہے ،معلوم ہوا کہ اس ہسپتال میں ٹیسٹ کے
لیے استعمال شدہ ایکوپیمنٹ دوبارہ استعمال ہوتے ہیں،جبکہ صوبہ سندھ میں
توپاکستان کے قومی اخبارات اور نیوز چینلوں پر تو ہم روزانہ کے حساب سے ہی
ایسی خبریں پڑھتے اور دیکھتے رہتے ہیں ،اسی طرح سڑک کنارے بیٹھے حجام بھی
بیمار یاں پھیلانے میں اپنا بھرپور کرداراداکررہے ہوتے ہیں یعنی ایک ہی
بلیڈ کو کئی کئی افراد پر استعمال کیا جاتاہے اکثر سڑک کنارے بیٹھے ان
حجاموں کے پاس جہاں غریب اور مزدورطبقہ آکر بیٹھتاہے وہاں بہت سے پڑھے لکھے
لوگ بھی شیشے کی دکانوں میں بیٹھے سیلونوں کا جب خرچہ نہیں اٹھاپاتے تو ان
ہی حجاموں کے ٹھیلوں کا رخ کرتے ہیں،ہم یہ نہیں کہتے کہ ان غریب حجاموں کو
اپنے روزگار سے اٹھادیا جائے بلکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ ان حجاموں کو ایک ہی
بلیڈسے کئی گاہکوں کی حجامت بنانے سے روکا جائے اور ا نہیں صفائی کا خیال
رکھنے کا پابند بنایاجائے ،اسی طرح فیکٹریوں سے نکلنے والے زہریلے پانی سے
سبزیوں کی کاشت کاکرنا،گاڑیوں اور فیکٹریوں کا دھواں اور جابجا پھیلے کچرے
کے باعث بھی تیزی سے مختلف بیماریاں سامنے آرہی ہیں جن میں سے بعض بیماریوں
کی تشخیص سے بہت سے ڈاکٹرزبھی لاعلم نظرآتے ہیں جہاں وہ خود علاج کرنے کے
بجائے کسی اور مقام پر مریض کو علاج کروانے کا مشورہ دیدیتے ہیں ،اب ہم زرا
صوبہ سندھ کا رخ کرتے ہیں جہاں ہیضہ ،جلدی بیماریاں اور پیٹ کے مختلف امراض
کا پکا ڈیرہ لگاہواہے ہم دیکھتے ہیں کہ آئے روز درجنوں پھول سے بچے بے
غذائی قلت اور بہتر نشو نما نہ ہونے کے باعث کھلنے سے پہلے ہی مرجھاجاتے
ہیں یہ اندرون سندھ کے وہ لوگ ہیں جہاں پر کوئی گھر شاید ہی ایسا ہوجس کا
بچہ کسی نہ کسی بیماری یا پھر غذائی قلت کے باعث اس دنیا سے نہ چلاگیاہو
یہاں کے بہت سے ہسپتال اور صحت کے مراکز ایسے بھی ہیں جومقامی وڈیروں کی
اوطاقوں میں تبدیل ہوچکے ہیں،یاپھر ان جگوں پر گدھے اور گھوڑے باندھ رکھے
ہوتے ہیں، اگرکوئی ڈسٹرکٹ یاتعلقہ ہسپتال موجود بھی ہوتاہے تو ان طبی مراکز
میں ڈاکٹرزہی موجود نہیں ہوتے اگر ڈاکٹرہوتونرسزاسٹاف یادیگر میڈیکل اسٹاف
موجود نہیں ہوتااور ایسے ہسپتالوں میں ایمبولینس تک موجود نہیں ہوتی ،لوگ
اپنے مریضوں کو گدھا گاڑیوں اور چنگ چی رکشوں میں لاتے ہیں جن میں سے اکثر
توبروقت علاج نہ ہونے پر راستے میں ہی دم توڑجاتے ہیں یہاں تک کہ ایک ایک
بیڈ پر کئی کئی بیمار بچے اور بڑے لیٹے ہوتے ہیں اور اگر کسی مریض کوجگہ
نہیں ملتی تووہ ہسپتال کے گیٹ پر ہی لیٹ جاتے ہیں ایسی روزانہ خبریں ہمیں
سننے کو ملتی ہیں کہ بہت سی مائیں تو اپنے بچے بھی ہسپتالوں کے گیٹ پر ہی
جنم دے ڈالتی ہیں یہ ایک ایسا المیہ ہے جسے بیان کرتے ہوئے بھی شرم محسوس
ہوتی ہے مگریہ شرم کسی لکھنے والے یا پڑھنے والے کی بجائے جب تک ان حکام
بالا کونہیں آجاتی جو سالانہ اربوں روپے کا بجٹ صحت اور صفائی کے نام
پرمنظورتو کروالیتے ہیں مگر وہ پیسہ کہاں جاتاہے آج تک کسی کو معلوم ہی
نہیں ہوسکاہے یقیناًیہ رحم اور شرم ایسے ہی لوگوں کے حصے میں آتی ہے ۔اب ہم
سندھ میں حالیہ دنوں میں آنے والی ایک ایسی نامراد بیماری کازکر کرتے ہیں
جس کا نام ایڈزہے جس سے پاکستان کی عوام کو ہی نہیں بلکہ اس کے گرین
پاسپورٹ کو بھی شدید خطرہ لاحق ہوچکاہے،ٍٍیہ تو سب ہی جانتے ہونگے کہ ایچ
آئی وی ایک ایسا وائرس ہے جسے اگر بروقت کنٹرول نہ کیا جائے توایہ ایک
نہایت ہی مہلک مرض ایڈز میں تبدیل ہوجاتاہے ،لاڑکانہ کی تحصیل رتوڈیرومیں
جب16 بچوں کے خون کے نمونے ایچ آئی وی کی تشخیص کے لیے لیبارٹری میں لائے
جاتے ہیں تو ان میں سے13 بچوں ایچ آئی وی وائرس ملنے کی تصدیق ہوئی اور
حیرت انگیز طور پر ان بچوں کی عمریں 4ماہ سے 8 سال تک بتائی جاتی ہے ،سندھ
کے ایک ہسپتال میں کام کرنے والے ایچ آئی وی کے کے ڈاکٹر کے انکشاف کے
مطابق سندھ بھر میں تیزی سے پھیلنے والا یہ مرض اندازاً ایک لاکھ سے زائد
لوگوں میں موجود ہے اور اس کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہاہے اور اس
ڈسٹرکٹ ہیلتھ افسر نے میڈیا کے سامنے ایدز پھیلنے کی وجہ ایک ہی سرنج یا
میڈیکل آلات کے استعمال کو قرار دیاہے ۔سندھ میں ایڈز کی وباء کے بعد بننے
والی جے آئی ٹی نے مبینہ طورپر ایچ آئی وی پھیلانے کے جرم میں گرفتار
ڈاکٹرسے تحقیقات کا آغاز کیا ہواہے اس پر کچھ لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ یہ
وباء گرفتار ڈاکٹرنے انتقاماً پھیلائی ہے ممکن ہے یہ بات درست ہو مگر اس
قدر تیزی سے سندھ بھر میں ایڈز کا پھیلنا کسی ایک شخص کی نہیں بلکہ ایک
مخصوص گروپ یامافیا کی کارستانی ضرور ہوسکتی یا پھر اسے محکمہ صحت کی غفلت
کہیں تو زیادہ بہتر ہوگا،یہ امر نہاہت افسوس ناک ہے کہ پاکستان میں اس وقت
ایڈز کے رجسٹرڈ مریضوں کی تعداد 23ہزار بتائی جاتی ہے جبکہ نیشنل
ایڈزکنٹرول پروگرام کے مطابق ایسے مریضوں کی تعداد165000ہے یعنی ان میں سے
صرف 23775لوگ ایسے ہیں جومتعلقہ سینٹرز میں اپنی بیمار ی کی رجسٹریشن
کرواچکے ہیں یعنی باقی بڑی تعداد میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اس بیماری میں
مبتلا ہیں اور اپنا علاج کروائے بغیر اپنے اردگرد کے لوگوں کے لیے بھی خطرہ
بنے ہوئے ہیں ،اس کے علاوہ ایسے مریضوں کی تعداد پانچ ہزار سے زائد بتائی
جاتی ہے جو انجیکشن کے زریعے ڈرگ لینے سے اس مرض میں مبتلا ہوئے جن کے علاج
کے لیے ہنگامی اقدمات کی ضرورت ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ جس تیزی سے یہ مرض
بڑھ رہاہے اس میں سندھ ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان میں ہی اس مرض کے بچاؤ کے
سینٹرز کا بننا بہت ضروری ہے جب کہ پورے ملک میں اس وقت اس وقت
35سینٹرزموجود ہیں جو کہ مریضوں کی تعداد کے مطابق بہت کم ہیں ۔وقتی طور ہم
دیکھتے ہیں کہ کسی بھی ایشو کے میڈیا میں اچھلنے کے بعد حکومت حرکت میں
آجاتی ہے اور اردگرد کے کچھ اضلاع میں بیٹھے اتائی ڈاکٹروں کے کلینک سیل
کردیے جاتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ کچھ غیر معیاری لیبارٹریز پر بھی تالے
لگ جاتے ہیں ،مگر یہ سب کچھ وقتی ہوتاہے اس کے بعد جیسے ہی کوئی نیا ایشو
چلتاہے یہ لوگ سب کچھ بھول کر پھر سے ان گھناونے جرائم میں لگ جاتے ہیں اور
اس طرح عوام کی زندگیوں سے کھیلنے کا سلسلہ جاری رہتاہے ۔ایسا لگتاہے کہ سب
کے سب ہی اپنے اپنے سیاسی مفادات کے حصول کے کیے ایک دوسرے کے خلاف صف
آراہے اور عوام کا کوئی پرسان حال نہیں ہے ،اس ساری صورتحال میں حکومت اور
متعلقہ انتظامیہ ہی سب سے بڑی ذمہ دار ہوتی ہے تمام تر وسائل اور پاور ہونے
کے باوجود اگر عوام بدحال ہے عوام زیادتیوں کا شکار ہے اور انصاف کے لیے
پریس کلبوں کے باہر کھڑی ہوکر خود پر اور اپنے بچوں پر مٹی کا تیل چھڑک کر
آگ لگارہی ہے تو اس بات کو سمجھ لینا چاہیے کہ ان پر مسلط حکمرانوں کو اس
سے کوئی غرض نہیں ہے کہ عوام جی رہی ہے یا پھر مررہی ہے ۔ایسے میں معاملہ
صحت کا ہو ،تعلیم کا ہو اور دیگر بنیادی نوعیت کے مسائل کاصوبائی حکومت کی
ناقص کارکردگی اور انتطامیہ کی نااہلی پر ہی تنقید کی جاسکتی ہے ، سوال یہ
پیدا ہوتا ہے کہ سندھ میں عوام سے ہونے والی زیادتیوں کا الزام کس کو دیا
جائے ا؟ور سندھ میں صحت وصفائی کی ناقص صورتحال کازمہ دار آخرکس کو ٹہرایا
جائے ؟۔ کیونکہ ایچ آئی وی پھیلنے کی خبریں صرف پاکستان میں ہی نہیں دکھائی
جارہی ہیں بلکہ اس سے دنیا بھر میں پاکستان کی بدنامی ہورہی ہے اس سے بین
الالقوامی سطح پر بیرون ممالک جانے والے پاکستانیوں کا شک کی نگاہ سے دیکھا
جاسکتاہے کہ کہیں یہ ایچ آئی وی کے وائرس کے ساتھ تو نہیں ان کے ملک میں
جارہاہے ؟۔اس طرح بہت ممالک پاکستانیوں پر یہ شرائط بھی لگاسکتے ہیں ان کے
ممالک میں آنے سے پہلے ان کے پاس ایچ آئی وی کا ٹیسٹ ہونا بہت ضروری ہے ،
لہذا ہمیں ایک لمحے کے لیے سوچنا ہوگا کہ صوبائی حکومت کی یہ لاپرواہی ہمیں
کہاں لیکر جارہی ہے ۔آپ کی فیڈ بیک کاانتظارہے گا۔ |