گزشتہ ایک ہفتے سے بیمار شہری سرکاری ہسپتالوں کی
راہداریوں میں ایڑیاں رگڑ رہے ہیں مگر ینگ ڈاکٹرز ہڑتال پر ہیں او پی ڈیز
بند ہیں ۔ مختلف شہروں اور دیہی علاقوں سے مسافت طے کرکے آئے مریض مایوس
لوٹنے پر مجبور ہیں۔ لاہور سمیت پنجاب بھر کے سرکاری ٹیچنگ ہسپتالوں کی
سرکاری حیثیت ختم کرنے کے سلسلے میں گزشتہ دنوں پنجاب اسمبلی سے منظور
کروائے جانے والے مسودہ قانون ایم پی آئی کے خلاف ینگ ڈاکٹر احتجاج کررہے
ہیں ، جہاں ڈاکٹروں سمیت نرسوں اور پیرا میڈیکس سٹاف نے سرکاری ہسپتالوں کی
او پی ڈی کا بائیکاٹ کرتے ہوئے کام بند کررکھا ہے۔ ان حالات میں حکومت کی
نہ جانے کون سی ایسی مجبوری ہے کہ اس کے پاس ینگ ڈاکٹروں کے مسائل سننے اور
ہڑتال ختم کرانے کا بھی وقت نہیں۔ جبکہ عموما ً سرکاری ہسپتالوں سے غریب یا
متوسط طبقے کے مریض رجوع کرتے ہیں، جہاں وہ ایک جانب تو مرض لاحق ہونے کی
وجہ سے سخت پریشان ہوتے ہیں، دوسری جانب ینگ ڈاکٹرز کی آئے روز ہڑتال کے
باعث ہسپتالوں کے آوٹ ڈور بند ہونے سے ان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوجاتا
ہے۔اخبارات کی خبروں کے مطابق گزشتہ دس برس کے دوران 300کے قریب مریض ینگ
ڈاکٹرز کی ہڑتال کے دوران طبی سہولیات نہ ملنے پر موت کے منہ میں چلے گئے۔
صرف 2011 ء میں ہڑتال کی وجہ سے ایمرجنسی ، ان ڈور اور آؤٹ بند ہوئے تو 200
کے قریب مریض وفات پاگئے۔ اس زمانے میں فوج کے ڈاکٹروں نے بھی بعض سرکاری
اسپتالوں میں ڈیوٹیاں سر انجام دی تھیں۔ جبکہ ینگ ڈاکٹرز کی حالیہ ہڑتال
میں ڈاکٹرز نہ ہونے کی وجہ سے سینکڑوں مریضوں کے آپریشن ملتوی کئے گئے ہیں۔
توجہ طلب پہلو یہ ہے کہ مرنے والے کس کو ذمہ دار ٹھہرائیں؟ ڈاکٹر ز جب اپنے
فرض سے غفلت برتتے ہوئے کسی مریض کا علاج کرنے سے انکار کر دیں تو کیا یہ
قتل نہیں؟ اور اس قتل پر 302 کا مقدمہ نہیں بنتا؟ جبکہ ڈاکٹربننے کے بعد
ایک حلف اٹھا یا جاتا ہے جس میں واضع درج ہوتا ہے کہ ہم اپنے مریض کو ہر
حال میں علاج کی سہولیات فراہم کریں گے،چاہے کچھ ہو جائے اس کا علاج کر یں
گے اور علاج سے ہرگز انکار نہیں کریں گے۔ لیکن اس کے باوجود ہر دو چار ماہ
بعد سرکاری ہسپتالوں میں احتجاج کے دوران طبی سہولتوں کی معطلی کا افسوسناک
سلسلہ شروع ہونا کسی بھی مہذب اور انسانی قدروں پر یقین رکھنے والی ریاست
کیلئے کوئی مثبت علامت نہیں۔آئے روز کی ہڑتالوں سے ڈاکٹری جیسے مقدس پیشے
پر حرف آتا ہے،اس طرح ایمرجنسی ،ان ڈور ، آوٹ ڈور سروسزبند کردینا غریب
مریضوں کے ساتھ سراسر ظلم ہے۔غربت کا شکار عام آدمی تو نجی اسپتالوں کے
مہنگے علاج کی سکت ہرگز نہیں رکھتا، سرکاری ہسپتال ہی اس کی امید کاآخری
سہا را ہوتے ہیں۔ ان حالات میں مریضوں اور ان کے لواحقین کا کہنا ہے کہ
ڈاکٹرز اور حکومت مذاکرات کرکے معاملہ حل کریں تا کہ متوسط اور غریب طبقہ
کو علاج کی سہولیات میسر آ سکے۔ جبکہ ینگ ڈاکٹرز ایسویسی ایشن نے مذاکرات
کے لئے بنائی گئی کمیٹی کو مسترد کر دیا ہے ، مذکورہ کمیٹی جس میں کنگ
ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی اور فاطمہ جناح میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلروں
سمیت پی ایم اے کے عہدیدار اور وائی ڈی اے کے عہدیداران شامل تھے ، اور یہ
ینگ ڈاکٹر ایسوسی ایشن کے مطالبات کا جائزہ لینے کے لئے بنائی گئی تھی۔
احتجاجی ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ مذکورہ کمیٹی صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین
راشد کے منظور نظر لوگوں کی ہے جس سے انصاف کی توقع نہیں کی جا سکتی، غیر
جانبدار لوگوں پر مشتمل نئی کمیٹی تشکیل دی جائے، جو ان معاملات کا جائزہ
لے اور حق سچ کی بات کر کے ڈاکٹروں ، نرسوں اور پیرا میڈیکس کو انصاف فراہم
کرے ۔ ینگ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ہمیں کسی بھی صورت ایم آئی ایکٹ منظور
نہیں اورپنجاب سمیت خیبرپختونخواہ میں بھی اس ایکٹ کے خلاف ہڑتال کی جارہی
ہے اور یہ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک ہمارے مطالبات منظور نہیں ہوتے۔ ان
حالات میں کیا ہی اچھا ہوتا کہ حکومتی سطح پر ایسے ٹھوس اقدامات کئے جاتے
جس سے معاملے کے مستقل حل میں مدد ملتی۔ بلاشبہ اپنے مطالبات منوانے کیلئے
آواز اٹھانا ہر شہری اور ہر شعبے سے وابستہ افراد کا حق ہے ، تاہم اس حوالے
سے درمیانی راستہ اور انسان دوست رویہ اپنانا ضروری ہے، منفی ہتھکنڈوں کی
کسی بھی سطح پر حوصلہ افزائی نہیں کی جاسکتی۔
٭……٭……٭ |