حال ہی میں کراچی اور اندرون سندھ میں انٹرمیڈیٹ کے پیپرز
سوشل میڈیا پر لیک ہونے کا معاملہ والدین، اساتذہ اور میڈیا کے درمیان زیر
بحث رہا ہے۔
|
|
والدین کہتے ہیں کہ اعلیٰ تعلیمی بورڈ کے امتحانات میں نقل مافیا کی بڑھتی
ہوئی بدعنوانی خطرے کی گھنٹی ہے جو اس جانب بھی توجہ دلاتی ہے کہ سندھ میں
تعلیمی اور تدریسی نظام شدید بگاڑ کا شکار ہے۔
دوسری جانب طلبہ کا کہنا ہے کہ فیس بک پر مختلف چیٹنگ گروپس میں لیکڈ پیپرز
شیئر کیے جا رہے ہیں۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ ایسے واٹس ایپ گروپس بھی اس
وقت حرکت میں ہیں جو خاص طور پر نقل اور لیکڈ پیپرز کے لیے بنائے گئے ہیں۔
نقل مافیا ایک سرطان؟
کراچی ساؤتھ میں موجود ایک نجی کالج میں اردو کی پروفیسر کا کہنا ہے کہ نقل
مافیا پاکستان کے تعلیمی نظام کے لیے ایک ایسا سرطان بن چکا ہے جس کا علاج
نہ تو سندھ حکومت کے پاس ہے اور نہ ہی یہ معاملہ اعلیٰ تعلیمی بورڈز کی
دسترس میں ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس کرپشن میں بورڈ کے اہلکار و اعلیٰ افسران، سیاسی
پارٹیاں، کوچنگ سینٹرز اور پرائیوٹ سکولوں کے اساتذہ و انتظامیہ شامل ہیں۔
کورنگی کے علاقے میں موجود کالج میں لیکچررشپ کے فرائض انجام دینے والی ایک
خاتون نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ معاملات اب کسی کے ہاتھ میں نہیں۔ ’سوشل
میڈیا اور موبائل کے دور میں جہاں کسی بھی نوعیت کی خبر صیغہ راز میں رکھنے
پر بڑے سے بڑے شعبوں کا اختیار نہیں، نقل مافیا سے نمٹنا ناممکن ہو گیا ہے۔‘
|
|
انٹرمیڈیٹ بورڈ کے امتحانات کے شروع کے پرچے آوٹ ہونے کے بعد سندھ کے وزیر
تعلیم سردار علی شاہ نے سندھ میں تعلیمی نظام میں بڑھتی ہوئی بدعنوانی کا
نوٹس لینے کی یقین دہانی کرائی۔
اس سلسلے میں ترجمان صوبائی وزیر تعلیم سعید میمن نے بی بی سی سے بات کرتے
ہوئے کہا کہ سندھ بھر میں کاپی اور چیٹنگ میں ملوث 140 سے زیادہ افراد کو
عہدوں سے معطل کر دیا گیا ہے جن میں ناظم امتحانات، ہیڈ ماسٹر اور کنٹرولر
شامل ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ان تمام افراد کی تنخواہیں روک لی گئی ہیں اور انھیں کسی
بھی صورت بحال نہیں کیا جائے گا۔ انھوں نے یہ بھی کہا ہے انکوائری کمیشن کے
مطابق چھ ٹیمیں تشکیل دی گئیں جنھوں نے تمام اضلاع میں نگرانی کے فرائض
انجام دیے۔ کچھ علاقوں میں طلبہ موبائل فون کے ذریعے چیٹنگ کرتے ہوئے پکڑے
گئے جس کے نتیجے میں اس امتحانی مرکز کے تمام ٹیچرز اور نگران کو معطل کر
دیا گیا۔
’ہم سندھ میں سنہ 2020 تک بہتر نظام تعلیم رائج کرنے کا پورا لائحہ عمل
تیار کر چکے ہیں اور پرامید ہیں کہ امتحانوں میں بدعنوانی اور کرپشن کا جلد
از جلد خاتمہ کرسکیں گے۔ انھوں نے کہا اس لائحہ عمل کے مطابق نصاب کی
تبدیلی، اوپن گراؤنڈ امتحانات، امتحانی مراکز پر سی سی ٹی وی کیمرے اور
موبائل جیمرز کی تنصیب شامل ہے۔‘
|
|
نقل مافیا کے حربے
ہر سال سندھ سیکنڈری اور انٹرمیڈیٹ بورڈ کے زیر انتظام میٹرک اور انٹرمیڈیٹ
کے امتحانات ہونے سے پہلے پرچہ لیک ہونے کی خبر نے معمول کی صورت اختیار کر
لی ہے۔
کراچی کے ایک پرائیوٹ کالج کی پرنسپل نے بتایا کہ پرچہ امتحانی مراکز
پہنچنے سے پہلے ہی سوشل میڈیا پر وائرل ہو جاتا ہے۔ ’انٹرمیڈیٹ کا 29 اپریل
کو ہونے والا کیمسٹری کا پرچہ امتحان سے ایک گھنٹہ پہلے نقل مافیا نے سوشل
میڈیا اور واٹس ایپ پلیٹ فارمز پر شیئر کرنا شروع کردیا تھا۔‘
انھوں نے یہ بھی بتایا کہ پرچہ سوشل میڈیا پر آتا ہے لیکن اس وقت تک طلبہ
امتحانی مراکز پہنچ چکے ہوتے ہیں، تاہم کچھ طلبہ و طالبات موبائل فون کے
زریعے آخری وقت میں سوالات دیکھ لیتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ ان ڈیوٹی
آفیسرز اور نگران امتحان ہیں جن کو امتحان سے ایک گھنٹہ پہلے پیپر فراہم
کردیا جاتا ہے۔ ’امتحانی مراکز پر اس لیے موبائل فون پر پابندی ہونی چاہیے
کیونکہ سوشل میڈیا نقل مافیا کا ایک طاقتور حربہ ہے۔‘
گیارہویں جماعت کی طالب علم سائرہ کے والدین کا کہنا تھا کہ جو بچے سارا
سال محنت کرتے ہیں، ان کے ساتھ بہت زیادتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہم حکومت
سندھ سے اپیل کرتے ہیں کہ ان افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔‘
انٹرمیڈیٹ کامرس گروپ کی طالبہ حوریہ زیدی نے بتایا کہ سوشل میڈیا پر ایسے
بہت سے اکاونٹ ہیں جن پر میٹرک اور گیارھویں جماعت کے کیمسٹری، فیزکس،
مطالعہ پاکستان کے پرچے امتحان سے 50 منٹ سے ایک گھنٹہ پہلے حل شدہ جوابات
کہ ساتھ پوسٹ کردیے گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی نظر میں ایسے طلبہ بھی
ہیں جن کو ان کے اساتذہ نے واٹس ایپ کے ذریعے پرچے فراہم کیے۔
سوشل میڈیا پر امتحانی پرچے لیک ہونے کے حوالے سے ترجمان سندھ حکومت کا
کہنا تھا کہ پرچے لیک ہونا سندھ بورڈ کی نااہلی کو ظاہر کرتا ہے۔ انھوں نے
کہا کہ مستقبل میں امتحانات کے عمل میں مزید سختی کی جائے گی اور امتحانات
کے عمل کو بہتر بنانے کیلیے تھرڈ پارٹی سے مدد لی جائے گی جن میں آئی بی اے
اور دیگر یونیورسٹیز کی انتظامیہ شامل ہو سکتی ہیں۔
کراچی ضلع وسطی میں امتحانی مرکز پر تعینات نگران امتحان نے بتایا کہ
امتحانات کے دوران نقل مافیہ ایک کمرے میں نقل کرانے کے لاکھوں روپے لیتی
ہے۔
|
|
سندھ میں نقل مافیا کیوں سرگرم ہے؟
کراچی سلطان آباد کے علاقہ میں موجود ایجوکیشن کارڈینیٹر نے بتایا کہ نقل
مافیا کراچی میں اس لیے بھی سر گرم ہے کیونکہ طلبہ و طالبات کا رجحان نقل
کی جانب مائل ہے۔ انھوں نے کہا کہ پہلے ان کا سکول امتحانی مرکز بنایا جاتا
تھا لیکن اے این پی اور پیپلز پارٹی کے ورکرز ہم پر دباؤ ڈالتے تھے کہ ان
کے امیدواروں کو نقل کرائی جائے۔
انھوں نے کہا کہ ہم نے سیکنڈری بورڈ سے گزارش کی کہ سکول کو مرکز نہ بنایا
جائے۔ ’یہاں ہر کوئی پیسے دے کر اپنی سہولت اور مفاد کے مطابق امتحانی مرکز
بنوا سکتا ہے تاکہ نقل کرائی جا سکے۔‘
|
|
|
|
ترجمان سندھ حکومت تعلیم نے سیاسی پارٹیوں کے دباؤ سے متعلق سوال کے جواب
میں کہا کہ سندھ حکومت نے سب سے زیادہ سکولوں اور کالجوں پر کریک ڈاون
لاڑکانہ میں کیا جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ اگر حکومت کا کوئی بھی کارکن کسی
بھی بدعنوانی میں ملوث نظر آیا تو اس کے خلاف بھی سخت کارروائی کی جائے گی۔
اساتذہ کے مطابق سندھ میں بڑھتی ہوئی نقل مافیا کی کرپشن کی ایک بڑی وجہ
سندھ حکومت کی لاپرواہی ہے۔ سندھ میں قائم ہونے والی کسی بھی حکومت نے اس
مافیا سے نمٹنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے جبکہ خیبر پختونخوا اور پنجاب
کی حکومتوں نے نقل مافیا کو جڑ سے اکھاڑنا اپنی ترجیحات میں شامل کیا۔
پچھلی دہائی میں مسلم لیگ حکومت کے کچھ ممبران جب نقل کے معاملے میں ملوث
پائے گئے تو ان سے استعفیٰ طلب کرلیا گیا۔
میڈیا پر پابندی
میٹرک اور نویں جماعت کے امتحانات میں نقل اور پرچے لیک ہونے کے معاملے کے
بعد بورڈ آف انٹرمیڈیٹ ایجوکیشن نے کالجز میں میڈیا کوریج پر مکمل پابندی
عائد کردی ہے۔
امتحانی مراکز کی صورتحال دکھانے پر بھی بورڈ کی جانب سے پابندی عائد کی
گئی ہے۔
اس حوالے سے چیئرمین انٹرمیڈیٹ بورڈ انعام احمد نے بی بی سی سے بات کرتے
ہوئے کہا کہ ان کے نزدیک امتحان دینے والے بچے بچیوں کی اجازت کے بغیر انکی
تصاویر اخباروں اور چینلز پر شائع کرنا ایک غیراخلاقی اور غیر قانونی عمل
ہے۔
ان کا کہنا تھا بورڈ کی امتحان کی نگرانی کرنے والی ٹیمز کو اکثر امتحانات
کے دوران طلبہ کی جانب سے نقل کی اجازت نہ دینے پر دھمکیاں ملتی ہیں، ہم اس
کی درخواست پولیس اسٹیشن میں جمع بھی کراتے ہیں لیکن کبھی کوئی مثبت جواب
نہیں ملتا۔
چیئرمین بورڈ نے بتایا ’کراچی میں امتحانات کا عمل پر امن طریقے سے جاری ہے،
امتحان کی کاپیاں 9 بجے سینٹرز پر پہنچا دی جاتی ہیں جسکے بعد ان کو گن کر
50 اور 100 کے سیٹ بنائے جاتے ہیں۔ زیادہ تر پیپر سوشل میڈیا پر 9 بجے ہی
لیک ہوتے ہیں جس میں بورڈ کا عمل دخل نہیں۔ اگر کوئی کہے کہ پیپر ایک گھنٹہ
پہلے لیک ہوا ہے تو وہ غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں۔‘
|
|
انھوں نے یہ بھی کہا کہ امتحانی کمرے میں موبائل فون کے استعمال پر سخت
پابندی ہے اور جو لوگ ان افواہوں کو پھیلا رہے ہیں ان کے اپنے مقاصد ہیں
اور ان میں سے ایک مقصد بورڈ کو بدنام کرنا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ سوشل میڈیا پر ان تمام افراد کا ڈیٹا بورڈ نے جمع کرلیا
ہے جو پرچوں کی آدھا گھنٹہ پہلے کی گئی لیکیج میں ملوث ہیں اور جلد ان پر
سائبر کرائم کے قوانین کے تحت کاروائی کی درخوست جمع کرائی جائے گی۔
بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن کے مطابق اس سال 215800 امیدوار امتحانات میں
بیٹھیں گے۔ ان امتحانات کے لیے کراچی میں 188 سینٹرز بنائے گئے ہیں جن میں
سے 59 حساس قرار دئے گئے ہیں۔
|