حامی تو حامی ہوتے ہیں اور مخالف برائے مخالفت۔ کم از کم
پاکستان میں تو یہی رواج ہے کہ اپنے سیاسی رہنما کی ہر بات اچھی ہوتی ہے۔
وہ اگر کچھ غلط بھی کرے تو حامی کا کام ہے اس کی مکمل حمایت کرنا۔ اور
مخالف کا کام ہے کہ مخالف سیاسی رہنما کے اچھے کام کی بھی کسی غلط اقدام کی
طرح مخالفت کرنا۔اہمیت اس بات کی ہوتی ہے کہ غیر جانبدار افراد و شخصیات کس
کے موقف کو درست قرار دیتے ہیں۔
نواز شریف نے وزیر اعظم کی حیثیت سے معاملات افہام و تفہیم سے چلانے کی
پوری کوشش کی لیکن انہیں بھی اندازہ نہیں تھا کہ پارلیمنٹ کو ربڑ سٹیمپ
بنائے رکھنے اور ملکی فیصلوں میں غیر متعلق قرار دینے کی داعی قوتیں اتنا
آگے چلی جائیں گی کہ جس سے بدترین سیاسی تخریب کاری کے ذریعے ملک کو یوں
عدم استحکام کا شکار کیا جائے گا کہ اقتصادی بحران سے دوچار کرتے ہوئے ملک
میں غیر یقینی اور انتشار کو ہوا دینے کے سازشانہ اقدامات کئے جائیں گے۔
ملک پر نئے انداز کے اس قبضے کو مضبوط بنانے کے لئے سیاسی سازش اور ملک پر
غاصبانہ قبضے کے منصوبے پر مرحلہ وار عملدرآمد کیا گیا ۔ اس صورتحال کا
منظر نامہ اب واضح ہو کر سامنے آ چکا ہے۔
پیپلز پارٹی نے بارہا کھلے پیغامات دیئے کہ ان کاوجود تسلیم کرنے کی صورت
،وہ بھی موجودہ قائم کردہ نظام کے ساتھ کام کرنے کو تیار ہیں لیکن سیاسی
بنیادوں پر کی جانے والی سرکاری تادیبی کاروائیوں نے پیپلز پارٹی کی قیادت
کو ملک میں قائم کردہ نظام اورحکومت کی سخت مخالفت کے اظہار پر مجبور ہونا
ہی پڑا۔اسی سوچ کے پیرو کار مسلم لیگ(ن) میں بھی نظر آنے لگے کہ نئی
صورتحال میں قبولیت کے اظہار کے ساتھ نئے نظام اور حکومت سے تعاون کی راہ
اپنائی جائے۔
نواز شریف کی ضمانت پر رہائی کے بعد افواہیں گردش کرنے لگیں اور حکومت کی
طرف سے بھی '' ڈیل یا ڈھیل'' کو قبول نہ کرنے کے بیانات سے یوں محسوس ہونے
لگا کہ شایدنیا نظام اور حکومت کے تشکیل کاروں سے معاملات طے کئے جا سکتے
ہیں۔ شہباز شریف کی لندن روانگی اور نواز شریف کی ضمانت پر رہائی سے ان
افواہوں کو مزید تقویت حاصل ہوئی کہ نواز شریف بھی '' ڈیل '' کر کے لندن
چلے جائیں گے اور پھر واپس نہیں آئیں گے تا کہ ملک میں'من مانی 'پر مبنی
نئے سیاسی ماحول کو تقویت پہنچائی جا سکے۔ لیکن نواز شریف کی ہنستے ہوئے
ایک جلوس کے ساتھ جیل واپسی کے عمل میں اسٹیبلشمنٹ کی پریشانی کے واضح
اظہار سے یہ صورتحال سامنے آئی کہ نہ تو نواز شریف کو توڑا جا سکا ہے اور
نہ ہی نواز شریف نے ہتھیار ڈالے ہیں۔
اسٹیبلشمنٹ کو نواز شریف کے ان حامیوں سے کوئی خطرہ محسوس نہیں ہوتا جو
نواز شریف سے شخصی محبت کے نعرے لگاتے ہیں۔ خوفزدگی کا عالم اہل عقل و دانش
، معتبراہل قلم کی اس حمایت سے ہے جو وہ ملک کے بہترین مفاد میں ، ملک کو
حقیقی طور پر آئین کے دائرہ کار کے مطابق چلانے ،دفاع و خارجہ امور سمیت
تما م پالیسیوں میں پارلیمنٹ کی حقیقی بالادستی اور اداروں کو اپنے اپنے
آئینی دائرہ کار میں رکھے جانے کے مطالبے کی وجہ سے نواز شریف کے موقف کی
حمایت رکھتے ہیں۔
ملک کے نئے نظام اور حکومت کو جتنا مضبوط ظاہر کیا جا رہا ہے اتنی ہی اس کی
کمزوری نمایاں ہو کر سامنے آ رہی ہے۔ ملک میں سرکاری جبر اور خوف کے
ہتھیاروں سے میڈیا کو مکمل طور پر کنٹرول کرنے کے باوجود سوشل میڈیا اور
میڈیا ویب سائٹس کے پلیٹ فارم سے ہونے والے آزادی اظہار کو دبایا اور
خوفزدہ نہیں کیا جا سکاہے۔اخبارات اور نجی ٹی وی چینلز کو مکمل کنٹرول میں
لانے کے باوجود سوشل میڈیا ،نیوز ویب سائٹس کے ذریعے اہل عقل و دانش،اہل
قلم کی غیر جانبدارانہ اور ملک و عوام کے وسیع تر مفاد میں آئین و پارلیمنٹ
کی حقیقی بالادستی کی مضبوط آواز نواز شریف کے مطالبے سے ہم آہنگ نظر آتی
ہے ۔کیونکہ اس کے علاوہ دیگر راستے ماضی کے ناکام تجربات کے اعادے کے طور
پر ہی دیکھے جا رہے ہیں جن کے تباہ کن اور ہولناک نتائج نہ تو عوام اور نہ
ہی ملک کی لئے برداشت کئے جانے کی سکت باقی ہے۔
ملک میں سیاسی مخالفت کو ملک دشمنی سے تعبیر کرتے ہوئے طاقت کی بنیاد پر
سزایاب کرنے کی کاروائی ملک و عوام کے لئے سنگین ترین صورتحال اور بھیانک
نتائج کا پیش خیمہ ہو سکتی ہے۔ ملک میں سیاست کو ما تحت ، تابعدار اور
کمزور رکھنے اور سیاسی معاملات طاقت کی بنیاد پر طے کرنے کی کاروائیاں
پاکستان کی جڑوں پر حملے کے مترادف ہو سکتی ہے۔ یہ سیاست کا ہی اعجاز ہوتا
ہے کہ بدترین مخالفین اور ملک کے منافی روئیہ اپنانے والوں کو بھی قومی
دھارے میں واپس لایا جا سکتا ہے ۔لیکن ایسا بااختیار سیاست ہی کر سکتی
ہے،ماتحت اور کمزور سیاست نہیں۔
نواز شریف کے موقف کو ملک کے اہل عقل و دانش،معتبراہل قلم کی حمایت حاصل
ہے۔یہ حمایت اس لئے اور اس وقت تک ہے جب تک نواز شریف ملک کی غاصب قوت کے
خلاف پارلیمنٹ کی بالادستی کے عزم پر قائم ہیں۔ نواز شریف کوجیل کی قید
قبول ہے لیکن عوامی بالادستی کے اس مطالبے سے دستبردار ہونے کو آمادہ نہیں
جو پاکستان کے استحکام ،ترقی اوربقا کے لئے ناگزیر ہے۔ پاکستان کے اہم عقل
و دانش ، معتبراہل قلم پاکستان کو آئین کے مطابق حقیقی طور پر چلانے کی
وکالت ملک کے وسیع تر مفاد میں کر رہے ہیں اور اسی سے نواز شریف کو وہ
حمایت حاصل ہو جاتی ہے جو اسٹیبلشمنٹ کے مفتوحہ پاکستان کے منصوبوں کو
ناکامی سے ہمکنار کر سکتی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اپنے کمزور موقف کی دلیل سے وکالت
نہیں کر پا رہی جبکہ نواز شریف کا بیانیہ مضبوط دلائل اوروسیع حمایت کا
حامل ہے۔ |