جناب سائنس جتنی بھی ترقی کرلے ہم اس کا مقابلہ نہیں کر
سکتے اس سال بھی چاند متنازعہ ہوگیاہے اس لئے ہر سال کی طرح اب کی بار بھی
2 عیدیں ہوں گی کسی عالم ِ دین کو روزوں کی تعدادپر اختلاف ہوا تو پھر تین
عیدیں ہوکررہیں گی وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے بات تو
سچ کہی ہے اور سچی بات ظاہر ہے اکثر اوقات کڑوی لگتی ہے ان کا کہنا تھا کہ
عید اور رمضان کے چاند پر 36 سے40 لاکھ خرچ کرنا کہاں کی عقلمندی ہے۔ ان کا
کہنا ہے کہ علماء کا احترام ہے لیکن پوری دنیا میں ایسے معاملات رضا کارانہ
بنیادوں پر ہوتے ہیں، میں نے رائے دی ہے ہر کسی کا متفق ہونا ضروری نہیں،
عید اور رمضان کے چاند پر 36 سے 40 لاکھ خرچ کرنا کہاں کی عقلمندی ہے، کم
ازکم چاند دیکھنے کا تو معاوضہ نہیں ہونا چاہیے۔ کہ رویت ہلال کمیٹی کے
ممبران چاند تو رضاکارانہ دیکھ لیا کریں، پڑھے لکھے علمائے کرام میری تجویز
کی حمایت کررہے ہیں، چاند دیکھنے کے لیے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے فائدہ
اٹھانا چاہیے،10 سال کا کیلنڈر بن جائے گا تو غیر ضروری اخراجات اور
تنازعات سے بچ جائیں گے۔ پوری دنیا میں ماہرین فلکیات کی خدمات سے استفادہ
کیا جاتاہے ہمارے مرکزو محور سعودی عرب میں روئیت ہلال فلکی حساب کتاب کے
مطابق نہیں ہوتا بلکہ اس کا فیصلہ روئیت ہلال کمیٹی کے اعلان اور سپریم
کورٹ کے فیصلے کے مطابق کیا جاتا ہے۔ اسی لئے وفاقی وزیر سائنس اینڈ
ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے پاکستان میں روئت کا تنازع حل کرنے کے لئے پانچ
رکنی کمیٹی قائم کر دی ہے۔ کمیٹی میں ، سپارکو، محکمہ موسمیات اور سائنس
اینڈ ٹیکنالوجی کے ماہر ین شامل ہونگے۔ ویڈیو بیان میں انہوں نے کہا اگر ہم
جدید ذرائع کو استعمال کر کے اس تنازعے کو حل کر سکتے ہیں تو کیوں نہ کریں
ہم نے پاکستان کا اپنا قمری کیلنڈر تیار کرنے کے لئے کمیٹی قائم کر دی ہے۔
کمیٹی کیلنڈر تیار کر کے کابینہ کے سامنے رکھے گی اور پھر کابینہ فیصلہ کرے
گی کہ اس کو لاگو کرنا ہے یا نہیں اگررویت ہلال کمیٹی چاند دیکھنے کے لئے
دوربین کو استعمال کر سکتی ہے تو ہم جدیدٹیکنالوجی کو استعمال کیوں نہیں کر
سکتے۔ ہم نے اس مقصد کے لئے وزارت سائنس اور ٹیکنالوجی میں پانچ اراکین کی
کمیٹی کے قیام کا فیصلہ کیا ہے اور یہ ماہرین ایڈوانس ٹیکنالوجی کی مدد سے
حتمی جائزہ لیں گے انہوں نے کہا : ہمارے پاس تمام ذرائع موجود ہیں جن کی
مدد سے ہم ایک حتمی تاریخ کا تعین کر سکتے ہیں۔فواد چودھری نے کہا پاکستان
میں رمضان،عید اور محرم میں ہمیشہ تنازع ہوتا ہے جب دوربین سے چاند دیکھا
جا سکتا ہے تو ایڈوانس ٹیکنالوجی کے استعمال میں کیا حرج ہے اس لئے ملک
چلانے کا فیصلہ مولانا پر نہیں چھوڑا جاسکتا ،ٹیکنالوجی ہی پاکستان کو آ گے
لے جاسکتی ہے۔ اب آگے کا سفر مولویوں کا نہیں بلکہ نوجوانوں کا ہے۔ ٹوئیٹر
پر انہوں نے کہا کہ مختلف سیاسی جماعتوں جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام
خاکسار اور جو جید علماء کی جماعتیں تھیں یہ سب قیام پاکستان کے مخالف تھے
ہر بات پر محادبنا لیتی ہیں اس پر چیئرمین رویت ہلال کمیٹی نے اسلامی
کیلنڈر بنانے سے متعلق وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری کے بیان
کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے وزیراعظم سے اپیل کی کہ ’پرجوش وزرا کو تاریخ
پاکستان کا مطالعہ کرائیں‘۔ ’ہر وزیر کو دینی معاملات پر تبصروں کا لائسنس
نہیں ملنا چاہئے، وزیر اعظم پاکستان سے نوٹس لینے کی اپیل کرتا ہوں‘۔کراچی
میں مفتی منیب الرحمان کا کہنا تھا کہ رویت ہلال کمیٹی بنانے کا اعلان وزیر
موصوف کی لاعلمی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔، انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اجلاس
محکمہ موسمیات میں ہوتا ہے، کبھی بھی ایسا نہیں ہوتا کہ کھلے آسمان میں
چاند نظر نہ آتا ہو۔انہوں نے کہا کہوزیر موصوف نے کیلنڈر بنانے کی بات کی
ہے، اگر اعلان کردیں تو انہیں ملک بھر سے ماہرین 100 سال کا کیلنڈربھی بنا
دیں گے اور ان کے لیے جلسہ عام کا بھی انتظام ہوجائے گا کہ وہ اپنا شوق
تقریر پورا کرلیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان سے اپیل کی تھی کہ
دین کے معاملات پر جو متعلقہ وزیر ہیں، وہ بات کریں، ہر وزیر دین کی حساسیت
کو نہیں سمجھتالہٰذا انہیں دینی معاملات پر تبصرہ کرنے کا فری لائسنس نہیں
ملنا چاہیے تحریک پاکستان کے دوران کے تمام سنی علماء حامی تھے اور 1946
میں بنارس میں علما کی سنی کانفرنس منعقد ہوئی تھی، پاکستان کی تاریخ اگر
نصاب میں شامل ہوتی تو وزرا ایسے بیان نہ دیتے‘۔ان کا کہنا تھا کہ ’چند
لوگوں کا حوالہ دے کر علماء کو بدنام کیا جاتا ہے جو زیادتی ہے، اجلاس میں
سپارکو کے نمائندے فنی معاونت کے لیے موجود ہوتے ہیں، ایک باربھی ایسا نہیں
ہواکہ چاند کی غلط رویت ہماری جانب سے بتائی گئی ہو حکومت کو ایسے حساس
ایشو پر غورکرنا چاہیے دینی معاملات کسی وزیر کی صوابدید پر نہیں چھوڑے جا
سکتے۔ جناب سائنس جتنی بھی ترقی کرلے ہم اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے اس سال
بھی چاند متنازعہ ہوگیاہے اس لئے ہر سال کی طرح اب کی بار بھی 2 عیدیں ہوں
گی کسی عالم ِ دین کو روزوں کی تعدادپر اختلاف ہوا تو پھر تین عیدیں
ہوکررہیں گی اور حکومت کسی کا کیا بگاڑ سکتی ہے اگر غورکیا جائے تو یہ جن
لوگوں نے ہرسال دو عیدیں تین عیدیں کروانے کا ٹھیکہ لے رکھاہے یہ در حقیقت
ملک میں فتنہ وفساد کی بنیادہے اس کلچرکو سختی سے کچلنے کی ضرورت ہے اب
دیکھتے ہیں اس سال حکومت کیا کرتی ہے؟ قوم کو یکجہتی متاثرکرنے والوں
کاعلاج کیا جائے۔ |