یوں تو بہت سے لکھاری اس پر لکھ رہے ہیں لیکن میں نے سوچا
کہ کیوں نہ میں بھی اس پر لکھ دوں کہ وطن کی مٹی کا کچھ تو قرض اترے۔ یہ
جانتے ہوۓ بھی کہ یہ ممکن نہیں مگر پھر بھی۔آج کل بہت زور و شور سے حقیقت
میں تو نہیں مگر میڈیا اور خاص کر سوشل میڈیا پر پی ٹی ایم کے لیۓ تحریک
چلائ جا رہی ہے کہ بس اب حد ہو گئی ہے ۔ پی ٹی ایم کے مطالبات پورے کیۓ
جائیں اور انہیں دیوار سے نہ لگایا جاۓ اور انہیں دھمکی نہ دی جاۓ وغیرہ
وغیرہ۔ غرض یہ کہ جتنے منہ اتنی باتیں ۔کچھ بڑے عالم و فاضل مثالوں اور
تاریخ سے سمجھا اور ڈرا رہے ہیں۔حالانکہ تاریخ میں بھی جب بھی ہم نے مات
کھائ یا نقصان اٹھایا ہے اس میں بھی اصل ہاتھ اس وقت کے ایسے ہی عالم و
فاضل لوگوں کا رہا ہے جو نہ کچھ کرتے ہیں نہ کرنے دیتے ہیں اور اپنی انا
اور ضد یا پھر بیرونی امداد کی خاطر ایسا ماحول بنانا یا ایسا وقت لانا
چاہتے ہیں کہ معاملات ہاتھ سے نکل جائیں اور پھر یہ ہی عالم و فاضل لوگ اس
کا سارا الزام ریاست اور پاک افواج پر ڈال دیں اور خود بری وذمہ ہو جائیں
اور پاک افواج اس خراب صورت حال سے ملک و قوم کو نکالنے کے لیۓ جانوں کا
نذرانہ بھی دیں اور پاک افواج ان جھوٹے الزامات کا بوجھ بھی اٹھائیں
حالانکہ جب پاک فوج شیخ مجیب کو گرفتار کرنے جاتی ہے تو شیخ مجیب جانتے تھے
کہ انہوں نے ریاست کی رٹ کو چیلنج کیا ہے اور دنیا کی ہر ریاست اس پر ایکشن
لیتی ہے لہذا وہ خود اپنا سوٹ کیس تیار کر کے بیٹھے تھے اور گرفتاری کا
انتظار کر رہے تھے یعنی خود شیخ مجیب کی نظر میں ان کی گرفتاری بلکل درست
تھی لیکن اس وقت کے عالم و فاضل چیخ رہے تھے کہ گرفتاری غلط ہے خیر اس صحیح
غلط کی بحث میں پڑے بغیر مدعا یہ ہے کہ پاک فوج نے ان کے سوٹ کیس سمیت
انہیں عزت سے قانونی طریقے سے گرفتار اور بعد میں رہا کیا مگر بنگلہ دیش
بننے کے بعد شیخ مجیب کی اپنی فوج جب انہیں گرفتار کرنے گئ تو شیخ مجیب
سمیت ان پورے گھرانے کو ایک ہی وقت میں فائرنگ کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا۔
پاک افواج کے اس کردار اور وہاں مشرقی پاکستان میں دی جانے والی قربانیوں
کو ان عالم و فاضلوں نے تاریخ کے پنوں میں رقم نہیں ہونے دیا ۔رہ گئیں تو
بس دشنام طرازیاںذرا آگے بڑھتے ہیں تو پڑوس کے ملک افغانستان میں سویت
یونین چڑھائ کرتا ہے اور وہاں اپنی حمایتی حکومت کو تقویت دینے کے نام پر
اپنی گرفت مضبوط کر لیتا ہے۔بھائیو یہ وقت ہے سرد جنگ کا جس میں دو سپر
پاور ایک دوسرے سے نبرد آزما ہیں یعنی ایک سویت یونین اور دوسرا امریکہ۔اب
جس جگہ دونو ں کی جنگ چھڑی ہے وہ ملک پاکستان کے پڑوس میں ہے۔ جو لوگ عالمی
سیاست اور بین الاقوامی تعلقات سے ذر ا بھی آگاہی رکھتے ہیں وہ یہ اچھی طرح
جانتے ہیں کہ پاکستان اس ماحول میں کسی طرح لاتعلق رہنے کی پالیسی پر عمل
پیرا نہیں رہ سکتااور اگر ابھی پاکستان لاتعلق رہا تو خود پاکستان دونوں
جانب سے خطرات سے بری طرح گھر جاۓ گا لہذا پاکستان کو کسی ایک کا تو ساتھ
دینا ہی ہوگااور اب ذرا پاکستان کی قیادت کی دور اندیشی دیکھۓ کہ صحیح وقت
میں صحیح ملک کا انتخاب کیا اور ملک و قوم کی حفاظت کو یقینی بنایا اور عام
آدمی بھی یہ جانتا ہے کہ جب جان لیوا بیماری سے بچنے کے لیۓ اینٹی بائیوٹک
کھائ جاتی ہے تو انفیکشن تو دور ہو جاتا ہے مگر سائیڈ افیکٹس ضرور ہوتے ہیں
بلکل اسی طرح اس جنگ میں پاک افواج نے ملک و قوم کی جان تو بچالی مگر اس
جنگ کے بھی کچھ سائیڈ افیکٹس ہوۓ جیسے افغان مہاجرین کا مسئلہ۔کلاشنکوف
کلچر۔نشے کا کلچر ۔دہشت گردی وغیرہ وغیرہ اور ان سائیڈ افیکٹس کا بھی پاک
فوج نے ایک طویل عرصے تک جواںمردی سے مقابلہ کیا اور آج تک کر رہی ہے اور
کافی حد تک ان سائیڈ افیکٹس پر بھی قابو پا لیا مگر اس ملک کے عالم و فاضل
آج تک اس جنگ کو سائیڈافیکٹس کی وجہ سےپاکستان کی غلطی ہی گردانتے چلے آرہے
ہیں اور آج تک ان کو یہ نہیں معلوم کہ عالمی سیاست کا تجزیہ کنویں میں بیٹھ
کر نہیں ہو سکتا بلکہ کبھی کبھی تو ان کے تجزیے پر گمان ہوتا ہے کہ یہ ان
کا اپنا تجزیہ ہے ہی نہیں۔آج بھی ان کا یہ ہی وطیرہ ہے کہ انٹیلکچول کا روپ
دھار کے صورت حال پر بغلیں بجاتے نکل پڑے ہیں اور آگ بھڑکا کر اپنی اور
آقاؤں کے لئے روٹی پکانے کا سوچ رہے ہیں۔مگر یہ نہیں جانتے کہ قوم میں بھی
کم از کم اتنا شعور تو آچکا ہے کہ وہ اب ہر الزام اپنی پاک افواج پر نہ خود
دھرنے کو تیار ہے نہ کسی کو دھرنے دینے کی روادار۔رہی بات موجودہ صورت حال
کی تو پاکستان کے پختون جانتے ہیں کہ پاکستان کی بنیادوں میں پختونوں کے
آباؤاجداد کا لہو ہے۔پاک افواج کی ضرورت بھی پیش نہیں آۓ گی اور پختون قوم
خود ہی اس سازش اور شورش کا قلع قمع کر دے گی جس طرح پختونوں کے آباؤاجداد
نے ساٹھ کی دہائ میں اسی طرح کی سازش کا قلع قمع کیا تھا اور ہمیشہ کی طرح
خود ہی ملک کا تحفظ کریں گے۔ پاک افواج پر عالم و فاضل الزام عائد کرتے
رہیں کیوں کہ بغیر دلیل کے بات کرنا سب سے آسان کام ہے اور پاکستان میں تو
سب سے آسان کیوں کہ اس ملک کی حفاظت پر ایک ویل ڈسپلن فوج مامور ہے اور وہ
آخری حد تک طاقت کے استعمال سے اجتناب کرتی ہے۔
|