شہیدوں کے سردار (سیدنا حضرت حمزہؓ)

جن محترم و مقدس شخصیات کی وجہ سے دین اسلام کو ایک ولولۂ تازہ اور جلوہ نور ملا، اِن میں سیدنا حضرت حمزہؓ کی شخصیت سرفہرست ہے۔ آپؓ حضور نبی کریمﷺ کی نگاہ جوہر شناس کے اولین انتخاب تھے۔ آپؓ سرفروشی و جانبازی کی اقلیم کے سلطان اور بہادری و جاں سپاری، شجاعت و بسالت، عزم و استقلال اور دینی غیرت و حمیت کے پیکر تھے۔ جرأت و جوانمردی آپ کے گھر کی لونڈی تھی۔ شہسوار ایسے کہ جن کے بغیر گھوڑ سواری کا مقابلہ کوئی اہمیت نہ رکھتا۔ آپؓ کی بے پایاں صلاحیتیں دیکھ کر بڑے بڑے عرب جنگجو ورطۂ حیرت میں ڈوب جاتے۔ بار بار پلٹنے اور پلٹ کر جھپٹنے والے شہسواروں کی تمام خوبیاں آپؓ کی ذات میں جمع تھیں۔ جنگ کے دوران آپ فولادی اعصاب کے مالک نظر آتے تھے۔ سپاہیانہ فضائل کی بنا پر آپ خاکستری اونٹ اور شیر کی طرح دشمن پر حملہ کرنے والے تھے۔ ایسے معلوم ہوتا تھا گویا آپ نے چیتے سے سپاہ گری کافن سیکھا ہے۔ چیتے کی سی پھرتی، بہترین دفاعی انداز اور دشمن کو اپنی گرفت میں لانے جیسے سپاہیانہ اوصاف آپ میں نمایاں تھے۔ شیر کے ناموں میں سے ایک نام حمزہؓ بھی ہے، گویا اسی نام کی وجہ سے آپ کو شیر کی بہادری میں سے حصہ ملا تھا۔ آپؓ نے جنگ کے میدان میں قریش کے ان نامور شہ سواروں کو قتل کیا جن کی طاقت اور سپاہ گری پورے عرب میں مشہور تھی۔ مشرکین مکہ کے ہجوم میں اسلام قبول کرنے اور بدر و اُحد کے میدانوں میں داد شجاعت دینے والے اسلام کے مخلص جانباز، مجاہد اور شہید حضرت حمزہؓ پر پوری امت اسلامیہ کو ہمیشہ ہمیشہ ناز رہے گا۔

حضرت حمزہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ 567ء میں مکر مکرمہ کے محلہ مسفلہ میں واقع ایک گھر میں پیدا ہوئے۔ اب اس گھر کو نہایت خوبصورت مسجد میں تبدیل کر دیا گیا ہے، اسے مسجد حمزہؓ کہا جاتا ہے۔ آپؓ عمر میں حضور نبی کریمﷺ سے چار سال بڑے تھے۔ آپؓ کا سلسلہ نسب کچھ اس طرح سے ہے۔ حمزہؓ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب۔ آپؓ کی کنیت ابو یعلیٰ اور ابو عمارہ ہیں۔ آپؓ کا شمار السابقون الاولون اور مہاجرین میں ہوتا ہے جن کے متعلق اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ اﷲ تعالیٰ ان سے راضی ہو گیا اور وہ اﷲ تعالیٰ سے راضی ہو گئے۔ قرآن کی زبان میں سابقون الاولون وہ ہیں جن کی فضیلت بقیہ پوری اُمت اور یہاں تک کہ بعد میں اسلام لانے والے صحابہ کرامؓ سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ آپؓ دین اسلام کے پہلے پرچم بردار ہیں۔ انھیںؓ سید الشہداء بھی کہا جاتا ہے۔ آپؓ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ آپؓ ’اسد اﷲ‘ اور ’اسد الرسولﷺ‘ ہیں۔ اس کے علاوہ آپ کو فاعل الخیرات (نیکیاں کرنے والے) اور کاشف الکربات (مصائب دور کرنے والے) بھی کہا جاتا ہے۔

حضرت حمزہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ قریش کے قبیلہ بنو ہاشم سے تعلق رکھتے ہیں۔ قریش سے تعلق رکھنے کی وجہ سے حضرت حمزہ بن عبدالمطلبؓ قریشی اور اپنے دادا ہاشم بن عبدمنافؓ کی نسبت سے ہاشمی کہلاتے ہیں۔ قریشی و ہاشمی کی یہ دونوں نسبتیں بلاشبہ بہت بڑا اعزاز ہیں کیونکہ حضرت واثلہ بن الاسقع ؓ، حضور نبی اعظمﷺ کا ارشاد روایت کرتے ہیں کہ ’’بلاشبہ اﷲ تعالیٰ نے بنی اسماعیل سے کنانہ کو منتخب فرمایا اور اولادِ کنانہ سے قریش کو پسند فرمایا اور قریش سے بنی ہاشم اور بنی ہاشم سے مجھے چنا ہے۔‘‘ (مسلم شریف الحدیث2276، سنن ترمذی رقم الحدیث 3605، مسند احمد رقم الحدیث 16986) ان دونوں نسبتوں کو نبی مکرمﷺ نے اپنے مفاخر اور امتیازات میں ذکر فرمایا اور دیگر قبائل عرب اور اقوام عالم کو ان کا تابع اور مقتدی قرار دیا۔ ان کی بے ادبی، گستاخی اور توہین کو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ذلت و خواری کا موجب قرار دیا۔ اپنے اوصاف حمیدہ اور فضائل کی وجہ سے سیدنا حضرت حمزہؓ قریش و بنو ہاشم میں اہم ترین مرتبہ و مقام کے مالک ہیں۔

کتب سیرت و تاریخ میں حضرت حمزہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے بچپن اور لڑکپن کا زیادہ تذکرہ نہیں ملتا، البتہ اتنا ضرور پتا چلتا ہے کہ آپؓ کا شمار مکہ مکرمہ کے قوی الجثہ اور بے حد دلیر جوانوں میں ہوتا تھا۔ آپؓ کو شمشیر زنی، نیزہ بازی، گھڑ سواری، تیر اندازی اور پہلوانی کا بہت شوق تھا۔ اس کے علاوہ آپؓ کو ہر قسم کی جنگی مہارت پر عبور حاصل تھا۔ آپ اپنے ہاتھوں میں دو تلواریں پکڑ کر انھیں مہارت سے چلانے، گھمانے اور دشمن پر سبک رفتاری سے حملہ کرنے کے داؤ پیچ کی مشق کیا کرتے تھے۔ صحرا نوردی، سیر و شکار اور جنگلوں میں گھومنا پھرنا آپ کے من پسند مشاغل تھے۔ آپؓ کو شعر و شاعری سے بھی لگاؤ تھا۔ آپؓ بڑے غیور، نڈر، بہادر، جفاکش، سخی، خوش اخلاق، مہمان نواز اور دلنواز تھے۔ آپ پورے مکہ میں ظلم، ناانصافی اور زیادتی کے خلاف لڑنے والے انسان کے طور پر بھی معروف تھے۔ صلہ رحمی، غم خواری اور حسن سلوک و نیکو کاری آپ کی امتیازی خصوصیات تھیں۔ شخصیت میں وضع داری، طرح داری اور متانت و سنجیدگی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ قوت و طاقت کے علاوہ خاندانی شرافت و وجاہت اور خوشحالی و فارغ البالی سے بھی لوگ آپ سے متاثر و مرعوب رہتے تھے۔ اﷲ تعالیٰ نے انھیں حسن کی دولت سے خوب مالا مال کر رکھا تھا۔ خوب صورت پیشانی، دراز قد، چھریرے بدن اور مضبوط بازوؤں کے مالک اس جوانِ رعنا کو حضور خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیﷺ نے ’’سید الشہدا‘‘ کا لقب دے کر ان کے سر پر نہ صرف عظمت و رفعت کا تابناک تاج سجایا بلکہ اسد اﷲ و اسد الرسول کا دلنواز خطاب عطا فرما کر انھیں شرافت و بزرگی کی نعمت لازوال سے بھی مالا مال فرمایا۔

حضرت حمزہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ، حضور نبی کریمﷺ کی عظمت و شان اور فضائل و مناقب سے اچھی طرح واقف تھے۔ وہ نہ صرف آپﷺ کا علمی مرتبہ پہچانتے تھے بلکہ آپﷺ کے ابرار اور صدیق ہونے سے بھی آگاہ تھے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ حضرت حمزہؓ، حضور نبی کریمﷺ کے معصومانہ بچپن، طاہرانہ جوانی اور امانتدارانہ مردانگی کے عینی شاہد تھے۔ بلوغت و شباب کا ایک ایک لمحہ دونوں نے اکٹھے گزارا تھا۔ آپﷺ کے فضائل و مناقب حضرت حمزہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے ایک لمحہ کے لیے بھی اوجھل نہیں ہوئے تھے۔ آپؓ سمجھتے تھے کہ ان کا بھتیجا مکارمِ اخلاق میں بہت بلند مقام پر فائز ہے اور وہ مستقبل میں کوئی امتیازی اور اعلیٰ مقام حاصل کرنے والا ہے۔

حضور نبی کریمﷺ کا چچا ابولہب آپ کا پڑوسی تھا۔ وہ آپ کو اذیت دینے کے لیے اپنے گھر کا پاخانہ اور گندگی آپ کے دروازے پر پھینک دیتا تھا۔ اس کے جواب میں آپﷺ صرف اتنا فرماتے، اے بنو عبدالمطلب! تم کیسے ہمسائے ہو؟ ایک روز حضرت حمزہؓ نے اُسے ایسا کرتے دیکھ لیا تو پاخانہ اُٹھا کر ابولہب کے سر پر ڈال دیا۔ وہ سر جھاڑتا جاتا اور کہتا جاتا صابی، احمق۔ ابولہب پھر خود یہ حرکت کرنے سے باز آ گیا۔ تاہم اس طرح کے لوگوں کے ساتھ مل کر وہ مسلسل سازشیں کرتا رہا۔

یہ نبوت کا دوسرا سال تھا۔ ایک دن نبی مکرمﷺ صفا کی پہاڑی کے نزدیک لوگوں کو دعوت توحید دے رہے تھے۔ اسی اثنا میں ابوجہل کا ادھر سے گزر ہوا۔ اس کے ساتھ اس کے تین دوسرے مشرک ساتھی عدی بن الحمرا، ابن الاصدا و اور اسود بن عبدالاسد بن ہلال بھی تھے۔ اس نے حضور نبی کریمﷺ کو دیکھا تو اس کے سینے میں کینہ و عداوت کی آگ بھڑک اُٹھی۔ اس بدبخت انسان نے ایذا پہنچانے کے لیے نہ صرف آپﷺ کی ذات گرامی پر سب و شتم کے تیر برسانے شروع کر دیے بلکہ دین اسلام کے خلاف یاوہ گوئی بھی شروع کر دی۔ سراپا حلم و وقار آقا کریمﷺ نے اس کا کوئی جواب نہ دیا لیکن اس پر ابو جہل کا غصہ اور تیز ہو گیا۔ اس نے آپﷺ کے سر پر ایک پتھر دے مارا جس سے ایسی چوٹ آئی کہ خون بہہ نکلا۔ دل کا غبار نکال کر ابو جہل صحنِ حرم میں اپنے دوستوں کی محفل میں جا بیٹھا۔ حضورﷺ نے اس کی ہرزہ سرائی اور اذیت رسانی پر کمال ضبط و برداشت اور صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا اور خاموشی سے اپنے گھر تشریف لے گئے۔ بنوتمیم کے رئیس عبداﷲ بن جدعان کا گھر کوہِ صفا کے قریب تھا۔ یہ شخص سیدنا حضرت ابوبکر صدیقؓ کا قریبی رشتہ دار تھا۔ اس کی ایک (آزاد کردہ) لونڈی نے یہ سارا درد ناک واقعہ دیکھا۔ (یہ نہیں معلوم ہو سکا کہ یہ خاتون کافر تھی یا مسلمان) وہ اس واقعہ سے بہت مغموم ہوئی۔ حضرت حمزہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اس دن حسب معمول جنگل میں شکار کے لیے گئے ہوئے تھے۔ آپ چاشت کے وقت ایک کامیاب شکاری کی طرح کمان حائل کیے ہوئے شاداں و فرحاں واپس آ رہے تھے۔ ان کا یہ معمول تھا کہ شکار سے واپسی پر پہلے حرم شریف میں حاضر ہو کر بیت اﷲ شریف کا طواف کرتے، پھر صحن میں قریش کے معززین کی الگ الگ جمی محفلوں میں جاتے اور سب سے مزاج پرسی کرتے۔ اس دن بھی وہ اسی ارادے سے حرم شریف کی طرف جا رہے تھے، جب کوہِ صفا کے پاس سے گزرے تو عبداﷲ بن جدعان کی وہ لونڈی ان کا راستہ روک کر کھڑی ہوگئی جس نے ابو جہل کا ظلم و ستم اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔

’’اے ابو عمارہ! آج آپ کے بھتیجے کے ساتھ ابوالحکم عمرو بن ہشام (ابوجہل) نے بڑا وحشیانہ سلوک کیا ہے …… پہلے ہذیان بکتا رہا، جب حضورﷺ نے خاموشی اختیار کیے رکھی تو ایذا رسانی اور مار پیٹ شروع کر دی۔‘‘ الغرض اس لونڈی نے پورا قصہ گوش گزار کر دیا۔

یہ سنتے ہی حضرت حمزہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی رگِ حمیت و ناموس قرابت پھڑک اُٹھی اور آگ بگولا ہو کر بپھرے ہوئے شیر کی طرح ابوجہل کی تلاش میں نکل پڑے۔ آج تو سب یہ دیکھ کر حیران تھے کہ حضرت حمزہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی کیفیت بالکل بدلی ہوئی ہے۔ انھوں نے کسی سے گفتگو کی نہ کسی کا مزاج پوچھا۔ وہ تو صرف ابوجہل کو تلاش کر رہے تھے تاکہ اسے اپنے بھتیجے سے بدتمیزی کرنے کا مزا چکھا سکیں۔ اسی اثنا میں ان کی نظر ابوجہل پر پڑ گئی جو اس وقت حرم شریف میں اپنے قبیلے کی محفل میں بیٹھا غرور سے گردن اکڑائے اپنا غلیظ کارنامہ سنا رہا تھا۔ حضرت حمزہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ لپک کر اس کے سر پر جا کھڑے ہوئے اور تاریخی جملہ بولا:
’’او سرین پر خوشبو لگانے والے بزدل! تو میرے بھتیجے کو گالی دیتا ہے حالانکہ مَیں بھی اسی کے دین پر ہوں۔‘‘ اس کے بعد اپنی کمان اس زور سے اُس کے سر پر ماری کہ خون کا فوارہ پھوٹ پڑا۔ حضرت حمزہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ غصے سے گرجتے ہوئے مزید بولے۔ ’’تیری یہ جرأت کہ تو میرے بھتیجے کو گالیاں دے حالانکہ میں نے اس کا دین قبول کر لیا ہے۔ اگر تجھ میں ہمت ہے تو آ اور مجھے روک کر دکھا۔ ‘‘

بنو مخزوم کے لوگ اپنے سردار کی اس رسوائی پر سیخ پا ہوگئے۔ وہ حضرت حمزہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے لڑنے کے لیے اٹھے اور بولے: ’’ حمزہؓ ! ہم اس کے سوا کچھ نہیں دیکھتے کہ تم صابی ہو گئے ہو۔ ‘‘ انھوں نے قہر آلود نگاہوں سے انھیں دیکھا اور فرمایا۔
’’تمھارا ناس ہو، جب دین اسلام کی حقانیت مجھ پر ظاہر ہو گئی تو کون سی چیز مجھے اس سے باز رکھ سکتی ہے؟ ہاں! میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد (ﷺ) اﷲ کے رسول ہیں اور جو کچھ وہ کہتے ہیں، وہ سب حق ہے۔ اﷲ کی قسم! اب میں اس سے پھر نہیں سکتا، اگر تم سچے ہو تو مجھے روک کر دیکھ لو۔‘‘

ابو جہل بڑا مکار تھا۔ اسے معلوم تھا کہ حضرت حمزہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جیسے شیر دل سے مقابلہ ان گیدڑوں کے بس کی بات نہیں ہے۔ کئی لوگ مفت میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ اس لیے وہ اپنے ساتھیوں سے مخاطب ہوا۔ ’’ابو عمارہ کو کچھ نہ کہو۔ اﷲ کی قسم! غلطی میری ہے۔ میں نے اس کے بھتیجے سے بد سلوکی کی تھی۔‘‘ یہ سن کر وہ لوگ پیچھے ہٹ گئے اور انھیں حضرت حمزہؓ کو کچھ کہنے کی جرأت نہ ہوئی۔

سیدنا حضرت حمزہؓ اسلام لانے والے سابقون الاولون مردوں میں سے انتالیسویں (39) فرد تھے۔ آپؓ رسول اﷲﷺ کی بعثت کے دوسرے سال مسلمان ہوئے جبکہ بعض سیرت نگاروں کے مطابق آپ نے پانچویں سال اسلام قبول کیا۔ یہاں ایک بات بہت اہم ہے کہ اکثر صحابہ کرامؓ کے قبول اسلام کے واقعات نہایت روح پرور اور ایمان افروز ہیں۔ کچھ ہدایت کے منتظر تھے، لہٰذا ہدایت آئی تو مسلمان ہوگئے۔ کچھ معجزات دیکھ کر مسلمان ہوئے۔ کچھ اﷲ تعالیٰ کے عذاب سے ڈر کر مسلمان ہوئے۔ کچھ بشارتوں کو سن کر حصول جنت کے لیے مسلمان ہوئے۔ کچھ آپﷺ کے صادق و امین اور اولوالعزم کردار کو دیکھ کر مسلمان ہوئے۔ کچھ آیات قرآنی کی تلاوت کا دل میں اثر پا کر مسلمان ہوئے لیکن اﷲ اور اس کے رسولﷺ کے شیر اور شہیدوں کے سردار حضرت حمزہؓ صرف اور صرف حضور نبی کریمﷺ کی عزت و ناموس کے تحفظ کی خاطر مسلمان ہوئے۔ چنانچہ انھیں ’’اوّلین مجاہد تحفظ ناموس رسالتﷺ‘‘ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔

حضرت حمزہؓ امام المجاہدین اور سید الشہداء کے بلند مناصب پر فائز ہیں۔ آپؓ بہت شجاع، دلیر اور شجیع تھے۔ قوت اس بلا کی تھی کہ بڑے سے بڑا شہ زور ان کے مقابلے میں آتا تو اسے پچھاڑ کے رکھ دیتے۔ بنو ہاشم میں کوئی ان کے مقابلے میں بہادر، جری اور نڈر نہ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ خود حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے انھیں اسد اﷲ اور اسد الرسولﷺ کا خطاب دیا تھا۔ اپنے زمانے کے مانے ہوئے پہلوان بھی تھے۔ گھڑسواری میں کمال کی مہارت تھی۔ تلوار بازی میں کوئی ثانی نہیں تھا۔ میدان جنگ میں نکلتے تو دونوں ہاتھوں میں تلواریں ہوتیں اور برق و بلا کی طرح بڑھتے چلے جاتے۔ مقابل پر جھپٹتے تو دونوں تلواریں چلاتے۔ کس کی مجال تھی جو آنکھ ملا سکے۔ حریف انھیں دیکھ کر سہم جاتا اور جب وہ سر پر پہنچ کر وار کرتے تو دشمن کی سٹی گم ہو جاتی۔ جس پر تلوار اٹھاتے، اس کی لاش زمین پر نظر آتی۔ یہ شان آہن پیکر اور فولاد شکن کسی کو نصیب ہوئی نہ کسی کو یہ دم خم ملا۔ آپؓ کی تلوار انتہائی منفرد ،دو دھاری اور انتہائی بھاری تھی جس کا وار رک نہ سکتا تھا۔ اگر سیدھی پڑتی تو ڈھال کوکاٹ دیتی کیونکہ اتنی بھاری تلوار کو روکنا ڈھال کے بس کا کام نہیں اور دودھاری ہونے کی وجہ سے اگر لوٹ آتی تو چلانے والے کو دو لخت کر دیتی تھی۔ آپؓ سے زیادہ زور آور کوئی نہ تھا جو ان کی تلوار واپس پلٹا سکتا اور نہ ہی ان کی تلوار کبھی واپس پلٹتی تھی۔ حقیقت میں آپؓ جیسا نہ کوئی طاقتور تھا اور نہ کوئی بہادر تیغ زن، یہی وجہ ہے کہ آپؓ کی تلوار آپ کے بعد کوئی بھی نہ چلا سکا اور اکثر تو اسے اٹھا بھی نہیں سکتے تھے۔ شمشیر زنی کی ہزاروں برس کی تاریخ میں حضرت حمزہؓ کا کوئی ثانی نہیں ملتا اور ملتا بھی کیسے کہ آپؓ اﷲ اور اس کے رسول پاکﷺ کے شیر تھے۔ مولانا رومیؒ نے ان کی شجاعت کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنی مثنوی میں ان کے شوقِ شہادت کی تصویر کچھ یوں کھینچی ہے کہ حضرت حمزہؓ جوانی میں ہمیشہ زرہ پہن کر لڑا کرتے تھے۔ لیکن بعد شباب سعادت اندوزِ اسلام ہوئے تو زرہ پہننا بالکل ترک کر دیا اور لڑائیوں میں اس طرح شریک ہونے لگے کہ سینہ سامنے سے کھلا ہوتا اور دونوں ہاتھوں سے تلوار چلا رہے ہوتے۔ لوگوں نے پوچھا کہ اے عم رسول، اے صف شکن مجاہد، اے جوانمردوں کے سردار، کیا آپ نے اﷲ کا حکم نہیں سنا کہ جان بوجھ کر ہلاکت میں نہ پڑو۔ پھر آپ احتیاط سے کیوں کام نہیں لیتے۔ جب آپ جوان تھے اور مضبوط و طاقتور، اس زمانے میں تو آپ کبھی زرہ کے بغیر لڑائی میں شامل نہیں ہوتے تھے اور اب جبکہ آپ بوڑھے ہو گئے ہیں تو آپ اپنی جان کی حفاظت اور احتیاط کے تقاضوں سے کیوں بے پروا ہو گئے ہیں۔ بھلا تلوار کس کا لحاظ کرتی ہے اور تیر کس کی رعایت کرتا ہے۔ ہم کو تو یہ پسند نہیں کہ آپ جیسا شیر دل بہادر اور شجاع اپنی بے احتیاطی کی بدولت دشمن کے ہاتھوں قتل ہو جائے۔

حضرت حمزہؓ نے ان کی باتیں سن کر فرمایا کہ جب میں جوان تھا تو سمجھتا تھا کہ موت انسان کو اس دنیا کے عیش و آرام سے محروم کر دیتی ہے، اس لیے کیوں خواہ مخواہ موت کی جانب رغبت کروں اور اژدہے کے منہ میں جاؤں۔ یہی وجہ تھی کہ میں اپنی جان کی حفاظت کے لیے زرہ پہنتا تھا لیکن جب سے اپنے برگزیدہ بھتیجے کے ہاتھ پر ایمان لایا ہوں، انﷺ کے فیضان سے میرے خیالات بدل گئے ہیں اور موت مجھے عزیز ہو گئی ہے۔ اب مجھے اس دنیائے فانی سے مطلق کوئی لگاؤ نہیں رہا اور موت مجھ کو جنت کی کنجی معلوم ہوتی ہے۔ زرہ تو وہ پہنے جس کے لیے موت کوئی دہشت ناک چیز ہو، جس کو تم موت کہتے ہو، وہ میرے لیے ابدی زندگی ہے۔
غافل سمجھے ہے موت کو اختتام زندگی
ہے یہ شام زندگی صبح دوام زندگی
غزوۂ بدر میں حضرت حمزہؓ اس شان سے لڑ رہے تھے کہ دستار پر شترمرغ کی کلغی تھی اور دونوں ہاتھوں سے تلوار چلا رہے تھے۔ جس طرف بڑھتے تھے، کفار کی صفیں الٹ جاتی تھیں۔ اس دن ان کے ہاتھ سے بہت سے مشرکین ہلاک اور زخمی ہوئے جن میں ابوجہل کے خاندان کا ایک جنگجو اسود بن عبدلاسد بن ہلال مخزومی بھی تھا۔ اس جنگ میں حضرت حمزہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا مقابلہ عتبہ سے، حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا ولید سے اور حضرت عبیدہ بن الحارث رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا مقابلہ شیبہ سے ہوا۔ حضرت حمزہؓ اور حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہم نے تو پہلے ہی وار میں اپنے اپنے حریف کو جہنم رسید کر دیا، لیکن شیبہ اور عبیدہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ دیر تک لڑتے رہے، یہاں تک کہ دونوں زخمی ہو گئے۔ حضرت عبیدہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ شدید زخمی ہو گئے۔ حضرت حمزہؓ اور حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہم نے یہ صورتِ حال دیکھی تو دونوں نے ایک ساتھ حملہ کر کے شیبہ کو ڈھیر کر دیا۔

جنگ احد میں حضرت حمزہؓ بپھرے ہوئے شیر کی طرح دشمن پر اس طرح حملہ آور تھے کہ ان کے سامنے بڑے بڑے سورما پیٹھ دکھا رہے تھے۔ مشرکین پر لرزہ طاری تھا کہ کس شیر سے ان کا پالا پڑا ہے۔ حضرت حمزہؓ اس شان سے لڑ رہے تھے کہ دو دستی تلواریں چلاتے جاتے اور کہتے جاتے تھے۔ انا اسد اللّٰہ و اسد رسولہ میں اﷲ تعالیٰ کا شیر ہوں اور میں رسول اﷲ کا شیر ہوں۔ حضرت حمزہؓ میدان جنگ میں چومکھی لڑائی کے بے حد ماہر تھے۔ آپؓ کے سامنے کوئی مشرک جنگجو دم نہیں مارتا تھا۔ آپ مشرکین کے جنگجوؤں کو اپنے مقابلہ میں یوں چکرا دیتے تھے جیسے ہوا اپنے آگے خشک پتے کو چکر دیتی ہے۔ اس لیے بڑے بڑے سورما آپ کو دیکھتے ہی ہیبت زدہ ہو جاتے۔ غزوہ احد میں مشرکین کے علمبرداروں کو ڈھیر کرنے کے علاوہ بھی آپ نے بڑے زبردست کارنامے انجام دیے۔ جبیر بن مطعم کا حبشی غلام ابو دسمہ وحشی بن حرب ایک چٹان کی اوٹ میں گھات لگائے ان کے انتظار میں بیٹھا تھا کہ کب حضرت حمزہؓ اس کی زد میں آئیں اور وہ اپنا ہتھیار ان پر پھینکے۔ وحشی کو جبیر بن مطعم نے اپنے چچا طعیمہ بن عدی کا انتقام لینے کے لیے حضرت حمزہؓ کے قتل پر مامور کیا تھا اور اس کام کے صلے میں اسے آزاد کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ طعیمہ بن عدی کو حضرت حمزہؓ نے بدر میں قتل کیا تھا۔ وحشی بن حرب فنِ حربہ میں بڑا ماہر اور مشاق تھا۔ وہ اپنے چھوٹے نیزے (جس کو حربہ کہتے ہیں اور یہ حبشیوں کا ایک خاص ہتھیار ہوتا ہے) سے وار کرتا تو شاذ و نادر ہی اس کا شکار بچ پاتا۔ جنگ شروع ہو چکی تھی۔ فریقین ایک دوسرے پر حملے کر رہے تھے۔ اتفاق سے وحشی کو جلد ہی وار کرنے کا موقع مل گیا۔ حضرت حمزہؓ دیوانہ وار آگے بڑھے جا رہے تھے کہ یکایک ان کا پاؤں پھسلا اور وہ پیٹھ کے بل زمین پر گر پڑے۔ اسی وقت وحشی نے تاک کر اپنا چھوٹا سا نیزہ تانا، حبشیوں کی طرح نیزے کو اونچے بازو پر تولا، توازن کیا اور اپنی پوری قوت سے حضرت حمزہؓ کے جسم میں ترازو کر دیا جو ناف میں لگا اور پار ہوگیا۔ حضرت حمزہؓ نے شدید زخمی ہونے کے باوجود اٹھ کر اس پر حملہ کرنا چاہا، مگر وہ ایک گڑھے میں لڑکھڑا کر گر پڑے۔ اس کے باوجود آگے بڑھنے کی کوشش کی لیکن دوسرے ہی لمحے حضرت حمزہؓ الرفیق الاعلےٰ سے جا ملے اور شہادت عظمیٰ کے عظیم درجے پر فائز ہو گئے۔ بہادری اور جوانمردی کی انتہا دیکھئے کہ آخری وقت میں بھی آپ کے قدم آگے ہی بڑھے، پیچھے نہیں ہٹے۔ حضرت حمزہؓ نے بروز ہفتہ 15 شوال 3 ہجری بمطابق 23 مارچ 625ء کو جام شہادت نوش کیا۔ اس وقت آپؓ کی عمر 57 یا 59 سال تھی۔ خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را

جبل احد کے دامن میں قبلہ کی طرف تقریباً 70 مربع گز ایک چار دیواری میں کئی شہدائے احد کی قبور واقع ہیں۔ اس چار دیواری میں لوہے کا بڑا سلاخوں والا گیٹ لگا ہوا ہے۔ اس دروازہ کے سامنے تقریباً بیس گز کے فاصلے پر دو قبور حضرت سیدنا حمزہؓ اور عبداﷲؓ بن جحش کی ہیں۔ پھر ان قبور کے بعد ایک اندرونی چار دیواری جو بڑی چار دیواری کے اندر شمالی جانب ہے، میں حضرت مصعب بن عمیرؓ کے علاوہ دیگر شہدائے احد مدفون ہیں۔ سید الشہداء حضرت حمزہؓ کی قبر مبارک ایک ایسے شہید شہیر کی لحد ہے کہ ان کی شہادت بے مثال تھی جسے دیکھ کر حضور رسالت مآبؐ کا دل بھر آیا تھا اور آنکھ نم آلود ہو گئی تھی۔ یہ مدفن زیارت گاہ اہل عزم و ہمت ہے۔ یہ مزار منبع جذب و کیف ہے اور یہ حضرت حمزہؓ کی آخری آرام گاہ ہے جنھوں نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ہر مصیبت اور راحت میں مدد کی تھی۔ اپنی شجاعت اور شمشیرزنی سے اسلامی قوت میں اضافہ کیا تھا۔

یہ بات نہایت اہم اور مستند ہے کہ حضرت حمزہؓ روحانی طور پر مدینہ کے والی اور حاکم ہیں، یہی وجہ ہے کہ مدینہ طیبہ میں آج بھی کہیں جھگڑا ہو جائے اور دونوں فریق کسی نتیجہ پر نہ پہنچیں تو اس دوران اگر ایک فریق اپنی صفائی میں حضرت حمزہؓ کا نام لے لے تو دوسرا فریق فوراً حضرت حمزہؓ کے احترام میں اپنے موقف سے دستبردار ہو جاتا ہے اور یوں معاملہ طے پا جاتا ہے۔

اہل مدینہ کا قول ہے: ’’من ارادان یستشفع عند رسول اللّٰہ (ﷺ) فلیستشفع بعمہؓ‘‘ جو چاہے کہ رسول اکرمﷺ کے یہاں کسی کا واسطہ لائے، اسے چاہیے کہ انﷺ کے عم اکرمؓ کا واسطہ لائے۔ چنانچہ اہل مدینہ کا قدیم سے یہ طریقہ چلا آ رہا ہے کہ جب کسی پر کوئی مصیبت پڑتی یا کوئی کسی مشکل میں گھِر جاتا ہے تو وہ سید الشہدا حضرت حمزہؓ کی بارگاہ میں فریاد لے کر حاضر ہو جاتا ہے اور یوں عرض کرتا ہے ’’اے نبی کریمﷺ کے محبوب چچا! میں اس حالت میں نہایت مشکلات میں گرفتار ہوں، اپنے رؤف و رحیم بھتیجے حضرت محمد مصطفیﷺ کی بارگاہ میں میری سفارش فرمائیں تاکہ میری مصیبت دور اور مشکل حل ہو جائے۔ پھر وہ سیدھا حرم نبوی شریف میں مواجہہ شریف کے سامنے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بارگاہ میں حاضر ہو کر سلام عرض کر کے التجا کرتا ہے۔ چنانچہ اﷲ کے فضل و کرم سے اس فریادی کی مشکل حل ہو جاتی ہے اور وہ اپنی مراد حاصل کر لیتا ہے۔

اے سید الشہدا، اے فاعل الخیرات، اے کاشف الکربات، اے ذاب عن وجہ رسول اﷲﷺ، آپ پر تاقیامت لاکھوں سلام
اَے صبا اَے پیکِ دُور افتادگاں
اشکِ ما بَر خاکِ پاکِ اُو رَساں

اے بادِصبا! اے دور افتادہ لوگوں کی قاصد! ہمارے آنسوؤں کا ہدیہ سید الشہدا حضرت حمزہؓ کے مرقد مقدس تک پہنچا دے۔
 

Mateen Khalid
About the Author: Mateen Khalid Read More Articles by Mateen Khalid: 17 Articles with 27964 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.