ان سے ملئے ، یہ کردار کے غازی ہیں۔ ان کا
کہنا ہے کہ ” ایک مسلمان صرف اللہ کے حضور ہی سر جھکاتا ہے ۔ ریمنڈ ڈیوس کے
معاملہ میں امریکا کے آگے مَیں کیسے سرنگوں ہوسکتا تھا؟“ انکشاف کا بہت بہت
شکریہ مسٹر شاہ محمود قریشی! آ پ کی قوم کو واقعی معلوم نہ تھا کہ ایک
مسلمان صرف اللہ کے حضور سر جھکاتا ہے ۔ وہ تو اب تک یہ دیکھتے چلے آرہے
تھے کہ مسلمان دولت ، شہرت ، جاہ ومنصب اور مخدومیت سمیت ہر چمکنے والی چیز
کا غلام ہوسکتا ہے ۔ وہ کسی کے آگے بھی صرف سر نہیں ، کمر بھی ٹیڑھی کرسکتا
ہے ۔ بھیک لینے کے لیے وہ کسی بھی چوکھٹ پر دستِ سوال پھیلا سکتا ہے ۔
انسانیت کے مجرم ، بے درد قاتل اور خون خوار درندوں سے دوستی کی پینگیں
بڑھا سکتا ہے ۔ ڈرون حملوں پر خاموش رہ سکتا ہے ، عافیہ صدیقی کے معاملہ پر
مصلحتوں کا لحاف اوڑھ سکتا ہے اور ....
ابتداء میں ہم بھی یہی سمجھے تھے کہ ریمنڈ ڈیوس کے معاملہ کو طول دے کر
موجودہ پوزیشن تک پہنچانے ، اس کو جال میں مضبوطی کے ساتھ کسنے اور فرار کا
راستہ نہ دینے میں شاہ محمود کا بھی کردار رہا ہے اور عین ممکن ہے کہ کسی
حد تک رہا بھی ہو ، مگر وزارت کا قلم دان ہاتھ سے نکل جانے کے بعد وہ جس
طرح سیاسی مہم پر چل نکلے ہیں، اس سے کسی اور ہی کھیل کی بو محسوس ہوتی ہے
۔ ریمنڈ کے معاملہ میں اگر سب سے زیادہ قابلِ تحسین کردار کسی کا رہا ہے تو
وہ پنحاب حکومت ہے ، مگر شاہ محمود کے ہلے گلے نے بے چاری پنجاب حکومت کے
کردار کو دھندلا دیا ہے ۔ اس سے محسوس ہوتا ہے کہ شاہ محمود کی معطلی وفاقی
حکومت کی ایک چال ہے جو اس نے اپنی حریف پنجاب حکومت کے خلاف چلی ہے اور
مخدوم شاہ محمود قریشی بھی اس کھیل کا شعوری حصہ ہیں کیونکہ اب تک ان کا
کردار قوم کے لیے ایک پر اسرار معمہ بنا ہوا ہے ۔ نہ وہ کھل کر اپنی پارٹی
پر تنقید کرتے ہیں اور نہ ہی اس سے علیحدگی کا برملا اعلان کر رہے ہیں ۔
انہیں اپنی پوزیشن کو واضح کرنا چاہئے کہ آیا وہ واقعی کردار کے غازی ہیں
یا گفتار کے غازی بنے ہوئے ہیں ؟ریمنڈ کے معاملہ میں فی الواقع ان کا کوئی
قابلِ تعریف کردار رہا بھی ہے یا محض پنجاب حکومت کو نیچا دکھانے کے لیے
کھیلے گئے کھیل کا حصہ ہیں ؟ان کو واضح کرنا چاہئے کہ آیا وہ پیپلز پارٹی
کو اس کی احسان فراموشی کی بناء پر فراموش کرچکے ہیں یا اپنی پارٹی کے لیے
ہی تاش کے ایک باحفاظت رکھے گئے پتہ اور شطرنج کی سنبھال کر رکھی گئی ایک
نرد ہیں ؟ان کی آئندہ ہمدردیاں کن کے ساتھ ہوں گی ؟ محسوس تو یہی ہوتا ہے
کہ وہ پیپلز پارٹی کا حصہ ہیں اور پیپلز پارٹی کا ووٹ بینک محفوظ رکھنے کے
لیے ایک نپا تلا کردار ادا کر رہے ہیں۔ان کے حق میں نعرے لگانے والے اور
ملتان بھر کے چوراہوں کو بینرز سے سجا دینے والے ظاہر ہے کہ نون لیگ کے
جیالے تو نہیں ہوسکتے اور نہ ہی شاہ محمود کے صرف ذاتی تعلق دار ہوسکتے ہیں
، ضرور یہ پی پی پی کے منچلے ہی ہیں جو اگر ڈیوس کے معاملہ میں پنجاب حکومت
کی بجائے شاہ محمود کے کردار کو سراہ رہے ہیں تو اتنا کچھ حاصل کرلینا بھی
پی پی کی کچھ کم کامیابی نہیں۔ یہ صورتِ حال پی پی کے حق میں ہی بہتر ہے ۔
شاہ محمود جیسی قیمتی چڑیا کو نہ تو پی پی اپنے ہاتھ سے نکا ل سکتی ہے اور
نہ ہی مخدوم صاحب ہی اس کے لیے آمادہ اور پر عزم نظر آتے ہیں ۔ ان کا تازہ
بیا ن ملاحظہ کیجئے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ آ ج کل کسی خاص مشن پر
ہیں۔ریمنڈ کے معاملہ میں پنجاب حکومت کے کردار کے حوالہ سے جب ان سے سوال
کیا گیا تو ارشاد فرمایا کہ ” آپ پنجاب حکومت کی کیا بات کرتے ہیں ، پنجاب
حکومت نے ہی تو سارا معاملہ خراب کیا ہے ۔ اس نے قومی مفاد پر مقامی سیاست
کو ترجیح دی ہے ۔“ پنجاب حکومت سے ہمار کوئی قلبی وابستگی نہیں اور نہ ہی
ہم اس کو غیرت وحمیت کا قطب مینار سمھتے ہیں ۔ ہماری نظر میں ڈیوس کیس کے
اندر پنجاب حکومت کا کردار بھی شکوک وشبہات سے ماوراء نہیں ۔ اگر اس کے
خلاف مقدمہ درج کرانے کا فوری اور جرات مندانہ فیصلہ پنجاب حکومت نے سیاسی
مفادات کے لیے کیا ہے تو یہ عین ممکن ہے اور ”سیاست زادوں “ سے بالکل بعید
نہیں۔ اگر نون لیگ وفاق میں بر سرِ اقتدر ہوتی تو اس معاملہ میں اس کا
کردار بھی پی پی کی طرح مبہم اور مصالحانہ ہوتا ۔ شریف برادران اگر اب بھی
اقتدار میں آجائیں تو ڈرون حملوں ، عافیہ صدیقی کیس اور دہشت گردی کے خلاف
جنگ میں ممکن ہے کہ ان کا مؤقف پی پی کے مقابلہ میں قدرے بہتر ثابت ہو ،
مگر ان سے کسی معجزاتی تبدیلی کی توقع رکھنا سراسر نادانی اور خود فریبی ہے
۔ فی الجملہ قومی ایشوز پر ان کی ٹون بھی وہی ہوگی کہ جناب ! یہ ڈکٹیٹر کے
بوئے ہوئے کانٹے ہیں اور یہ سب ہمیں ورثہ میں ملا ہے ۔ انہی کے عہد ِاقتدار
میں ہی پہلے ، امریکا نوازی اور بے حمیتی پر مبنی کئی اقدامات کیے گئے جن
کی ایک فہرست مرتب کی جاسکتی ہے ۔ مگر مخدوم جی ! آپ بھی جان لیجئے کہ
کردار کے کسی غازی کو کبھی بھی اپنے کردار کے ڈونگرے برسانے کی ضرورت نہیں
ہوتی ۔ یہ معمہ آپ خود ہی حل کردیں تو اچھا ہے کہ آپ ہی کے عہدِ وزارت میں
پہلے بھی کئی مواقع ایسے آئے جب آپ کے اجلے کردار اور غیرت مند ضمیر کو چوں
وچرا کرنا چاہئے تھا ، مگر قوم چیختی رہی اور آپ کانوں میں روئیاں ڈال کر
پڑے رہے ۔ یہ ” کردار ‘ کا جن صرف ریمنڈ ڈیوس کے معاملہ میں ہی نمودار کیوں
ہوا ہے ؟ پہلے یہ کہا بکل مار کے بیٹھا رہا ہے ؟ اشکالات آپ خود ہی حل
کردیں ورنہ لوگ بہت باتیں بنا رہے ہیں۔
دوسری طرف میاں صاحب کی عقل وفرست کو بھی داد دینے کو جی چاہتا ہے کہ ان کو
محض تین سال کے ” قلیل عرصہ “ میں احساس ہوگیا ہے کہ لوگ بھوک سے مر رہے
ہیں اور مسٹر زرداری ان کے ساتھ ٹوپی ڈرامہ کھیل رہے ہیں ۔ آپ کا بھی بہت
شکریہ میاں صاحب! ہمارے اندازے کے مطابق تو اندر کی بات کچھ یوں ہے کہ
ریمنڈ کے معاملہ پر میاں صاحب اپنی مقبولیت کی جو توقعات باندھے بیٹھے تھے
، پی پی نے بڑی زہریلی چال چل کر ان توقعات پر پانی پھیر دیا ہے ۔ میاں
صاحب کے اچانک بپھر جانے کا سبب یہی ہے ۔ ممکن ہے کہ حقیقتِ حال ایسی نہ ہو،
لیکن لگتا کچھ یوں ہی ہے ۔ |