وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی جانب سے
پنجاب حکومت سے زبردستی علیحدگی بلکہ طلاق ملنے کے بعد پیپلز پارٹی کے سابق
وزراء نے حضرت علی ہجویری ؒ کے مزار پر شکرانے کے نوافل ادا کئے۔ اس بارے
میں راجہ ریاض پہلے ہی میڈیا اور عوام کو بتا چکے تھے کہ وزارتوں سے فارغ
ہونے کے بعد وہ شکرانے کے نفل پڑھیں گے۔ اگر مختلف اخبارات میں شائع ہونے
والی تصویر دیکھیں تو یہ صاف نظر آرہا ہے کہ سابق وزراء ایک ہی صف میں کھڑے
ہوکر با جماعت نوافل ادا کررہے ہیں اور ان کے آگے کوئی امام نہیں ہے۔ اب یہ
پتہ نہیں کہ راجہ صاحب کی سربراہی میں ان سابق وزراء کو کسی امام کی ضرورت
محسوس نہیں ہوئی تھی یا اس بار بھی کسی ”مولوی“ نے امامت سے معذرت کرلی تھی
(پہلے بھی تقریباً تمام علماء کرام ایک نماز کی امامت سے انکار کرچکے ہیں)
اگر راجہ صاحب کو کوئی اور امام نہیں مل سکا تھا تو وہ اپنے مولانا بابر
اعوان سے ہی رابطہ کرلیتے۔ خیر یہ تو راجہ صاحب اور ان کے رفقاء کا ذاتی
معاملہ تھا کہ وہ شکرانے کے نوافل کب ادا کرتے ہیں، کسی کی امامت میں ادا
کرتے ہیں یا اکیلے لیکن ان کے نوافل سے عوام بڑے پریشان ہیں کہ یہ ”دو نفل“
انہوں نے کہیں عوام کے لئے تو نہیں پڑھ لئے؟ اب یہ حقیقت تو اللہ کی ذات ہی
بہتر جانتی ہے یا فراغت حاصل ہونے والے وزراء، کہ یہ نوافل انہوں نے وزارت
سے فارغ ہونے کی خوشی میں ادا کئے یا وزارتیں دوبارہ حاصل کرنے کے لئے
کیونکہ یہ حقیقت تو سبھی جانتے ہیں کہ وزارتوں اور اقتدار میں کتنا نشہ
ہوتا ہے اور ”چھٹتی نہیں ہے منہ کو یہ کافر لگی ہوئی“ کے مصداق وزارت
چھوڑنا کتنا مشکل کام بلکہ جان جوکھوں کا کام ہے شائد اسی لئے پیپلز پارٹی
والے طعنوں اور معنوں کے باوجود وزارتیں ازخود نہیں چھوڑ رہے تھے کہ کہیں
پیپلز پارٹی میں بھی کوئی یونیفکیشن بلاک نہ بن جائے آخر آگے پیچھے درباری
اور پروٹوکول کسے اچھا نہیں لگتا؟ ویسے کتنا مزا آتا اگر سابق وفاقی وزیر
خارجہ شاہ محمود قریشی بھی حکومت سے علیحدگی کی خوشی میں نوافل ادا کرنے
”چھوٹے سابق وزیروں“ کے ساتھ جا کھڑے ہوتے....؟ ایک ہی صف میں کھڑے ہوجاتے
”محمود“ و ”ریاض“....!
راجہ صاحب نے وزارت سے فارغ ہونے کے بعد شہباز شریف کی ٹوپی پر ہاتھ ڈال
دیا ہے، کہنے کا مطلب یہ کہ شہباز شریف پر جوابی حملہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ
صدر زرداری نہیں بلکہ وہ خود (شہباز شریف) ٹوپی ڈرامہ کر رہے ہیں اور خادم
پنجاب والا ٹوپی ڈرامہ کافی ہوچکا، ان کا مزید کہنا تھا کہ مشرف اور شہباز
شریف کی سوچ میں کوئی فرق نہیں۔ اب پتہ نہیں یہ کس کی ٹوپی کی بات کررہے
ہیں اور ٹوپی کے ساتھ کونسا ڈرامہ کیا جاتا ہے، یہ یا تو شہباز شریف کے علم
میں ہے یا راجہ صاحب جانتے ہوں گے، عوام تو ہمیشہ کی طرح حیران و پریشان
ہیں۔ اور وہ کونسی سوچ ہے جس میں مشرف اور شہباز شریف میں مماثلت پائی جاتی
ہے۔ یہ بھی پتہ نہیں کہ کہیں دونوں کے کاموں میں بھی مماثلت تو نہیں پائی
جاتی، کہیں ایسا تو نہیں کہ مشرف اور شہباز شریف مل کے کوئی میوزیکل بینڈ
کھول لیں، ایک طبلہ بڑا اچھا بجاتا ہے اور دوسرا لہک لہک کر اور راگ لگا کر
نغمے پڑھنے کا شوقین! میاں نواز شریف کو اپنی ”منجی“ کے نیچے بھی ”ڈانگ“
پھیرنے کی ضرورت ہے اور شہباز شریف سے محتاط بھی رہنا چاہئے۔
کیا ہی اچھا ہوتا اگر راجہ صاحب اپنی اور اپنے باقی رفقاء کار کی تین سالہ
کارکردگی پر روشنی ڈالتے اور ایسے کام گنواتے جن سے عوام کے دلوں میں یہ
خیال پیدا ہوتا کہ وہ راجہ صاحب اینڈ کمپنی کی کابینہ میں واپس شمولیت کے
لئے منتیں مانیں اور نوافل ادا کریں۔ کتنا خوبصورت نظارہ ہوتا اگر راجہ
صاحب اپنی پارٹی کی مرکزی حکومت کو یہ بتاتے کہ لاہور میں دہرے قتل کا مجرم
ریمنڈ ڈیوس کسی استثنیٰ کا حقدار نہیں اور وفاقی حکومت اگر ان کے کہنے پر
پہلے دن سے ہی امریکہ اور عدالت کو بتا دیتی کہ ریمنڈ ڈیوس کو کوئی استثنیٰ
حاصل نہیں ہے تو یقیناً عوام راجہ صاحب کے لئے دعائیں مانگ رہے ہوتے، کیا
ہی اچھا ہوتا اگر راجہ صاحب اینڈ کمپنی عبادالرحمان کو کچلنے والی گاڑی کے
ڈرائیور کی گرفتاری کے لئے کوششیں کرتے پائے جاتے اور اگر شہباز شریف اس کے
آڑے آتے تو اس وقت وہ استعفیٰ کا اعلان کردیتے۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر پنجاب
میں مہنگائی، کرپشن اور امن و امان کے مسئلہ پر راجہ صاحب وزارت چھوڑ دیتے
اور ہیرو بن جاتے۔ کتنے خوبصورت لمحات ہوتے وہ جن میں راجہ صاحب شہباز شریف
سے بحث مباحثہ کر رہے ہوتے کہ عبادالرحمان کو کچلنے والوں کو پکڑنے کے لئے
تمام امریکیوں کو امریکہ جانے سے روک دیا جاتا، تمام لوگوں کے نام ای سی
ایل میں ڈال دئے جاتے یا پولیس کے ذریعہ لاہور قونصلیٹ کا گھیراﺅ ہی کرلیا
جاتا تاکہ مجرمان امریکہ فرار نہ ہوسکیں اور اگر شہباز شریف پھر بھی انکار
کردیتے تو راجہ صاحب اپنے ساتھیوں سمیت استعفیٰ دیدیتے۔ اگر ایسا ہوجاتا تو
آج عوام راجہ صاحب کے لئے صفیں باندھ کر اللہ کے حضور کھڑے ہوتے.... ہزاروں
خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے!
ویسے رانا ثناءاللہ تو اپنے روائتی انداز میں کچھ اور ہی باتیں کررہے ہیں،
وہ کہتے ہوئے پائے گئے ہیں کہ راجہ ریاض وزارت کھو جانے کے غم میں مبتلا
ہیں اور اسی بناء پر ذہنی توازن کھو جانے کی وجہ سے بہکی بہکی باتیں کر رہے
ہیں اور یہ کہ راجہ ریاض ہی وزیروں کو فارغ کرنے والی سمری کی منظوری میں
رکاوٹ بنے ہوئے تھے، انہوں نے تو راجہ صاحب کے والد صاحب پر بھی الزامات
عائد کئے ہیں کہ انہیں انگریزوں کی خدمت کے صلہ میں زمینیں ملی تھیں۔ میں
سمجھتا ہوں کہ کسی کو بھی ذاتیات پر کیچڑ نہیں اچھالنا چاہئے اور نہ کسی کا
بھانڈا بیچ بازار میں پھوڑنے کی کوشش کرنی چاہئے کیونکہ یہاں حاجی کوئی بھی
نہیں ہے اور سیاست کے حمام میں سبھی ننگے بھی ہیں۔
ہماری تو دعا ہے کہ اللہ کرے عوام کو بھی کوئی ایسی خوشخبری ملے، کوئی خوشی
ملے، کسی غم سے یا لٹیروں سے نجات ملے، کچھ تو ایسا ہو کہ وہ بھی دو دو نفل
پڑھیں، وہ بھی شکر ادا کریں، کوئی لیڈر ہے جو عوام کے لئے کوئی اچھی خبر دے
سکے....؟ |