تبدیلی کے 23 سال

تحریر: مہک سہیل ،کراچی
پچھلے دنوں وزیراعظم عمران خان نے اپنے کئی ساتھیوں کو فارغ کردیا۔ اب پاکستان میں عظیم ترتبدیلی اور معاشی انقلاب کے لیے ڈاکٹر حفیظ شیخ کو اسد عمر کی جگہ ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ انتخابات کے دوران اسد عمر پی ٹی آئی کے پوسٹر بوائے تھے۔اسد عمر کو ملکی معیشت کی صورتحال کے بارے میں بخوبی علم تھا کہ کرنٹ اور تجارتی خسارہ میں ریکارڈ اضافہ، ایکسپورٹس میں کمی، امپورٹس میں اضافہ، زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی، روپے کی قدر پر دباؤ، قرضوں میں بے انتہا اضافہ اور اْن کی ادائیگیاں وہ چیلنجز ہیں جن کو اْن کی ٹیم کو آکر ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا ہے لیکن اِس سلسلے میں کوئی ہوم ورک نہیں کیا گیا اس وقت اگر اپنی تمام توانائیاں اور صلاحیتیں سابق حکمرانوں پر تنقید کرنے میں ضائع کرنے کے بجائے نئے منصوبے بنانے، مہنگائی پر قابو پانے، تعلیم کو عام کرنے، روپیہ کی قدر میں اضافہ کرنے، نئی اور جدید درسگاہیں قائم کرنے اور خصوصی طور پر اْن غلطیوں کا اعادہ نہ کرنے میں استعمال کریں جو سابقہ حکمرانوں نے کی ہیں تو حکومت کو شاید اسٹیبل کیا جاسکتا ہے۔رمضان کی آمد پر ہی اشیائے ضروریہ کی قیمتیں اس وقت عوام کی دسترس سے باہر ہو چکی ہیں۔ دوسری طرف اربوں روپے کے قرضوں کی ادائیگی، زرمبادلہ کے ذخائر کی سطح محض 15ہزار ارب ڈالر پر آنے سے مالی سال2019-20کا سخت ترین بجٹ درپیش ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس تبدیلی سے نیا پاکستان بنایاجا سکے گا ؟حکومت میں ایسے لوگ آگئے ہیں جو نہ تو ریاست کے اْمور چلانے کا تجربہ رکھتے ہیں نہ عوام کو زندگی کی بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کی صلاحیت،آج عوام کے مسائل نہایت گمبھیر ہو چکے ہیں، قومی سلامتی کو ہولناک چیلنجز درپیش ہیں اور پورا نظامِ حکومت کچھ بگڑتا دکھائی دیے رہا ہے۔ پاکستان کے ذمہ واجب الادا غیر ملکی قرضوں کا جو حجم جولائی 2018میں 28ہزار ارب روپے تھا وہ اب سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین سے مزید حاصل شدہ قرضوں کے بعد بڑھ کر 30ہزار ارب سے تجاوز کر گیا ہے جس میں سے جاپان کو اس ماہ 157.45ملین ڈالر، اگلے ماہ 194.60ملین، فرانس کو اس ماہ 78ملین، جرمنی کو 45.2اور امریکہ کو 61ملین، کْل ملا کر 2.5ارب ڈالر کا کمرشل قرضہ چکانا ہے۔ ان چند ماہ میں بد انتظامی و بد امنی میں اضافہ ہوا ہے مہنگائی کی شدت میں اضافہ ہو اہے۔ ادویات کی قیمتیں بڑھی ہیں۔ نہ بڑھتی قیمتوں کی کوئی روک تھام ہے، نہ معیشت کا کوئی نظام ہے۔ نہ اسٹاک مارکیٹ کی تنزلی کی وجہ بیان کی جا رہی ہے، نہ برآمدات میں اضافہ ہو رہا ہے نہ درآمدات میں کمی ،نہ ڈھائی کروڑ بچے اسکول گئے ہیں نہ انہیں اسکول نصیب ہوئے ہیں، نہ اسپتال تعمیر ہوئے ہیں، نہ پولیس کا نظام بدل گیا ہے، نہ اقربا پروری ختم ہوئی ہے ، نہ باہر سے لوگوں نے آکر پاکستان میں ملازمتیں شروع کر دی ہیں نہ سبز پاسپورٹ کو عزت ملی ہے نہ فی الحال ایک کروڑ نوکریاں دستیاب ہوئی ہیں نہ پچاس لاکھ گھر بنے ہیں۔اب بات کی جائے آئی ایم یف کی تو اس کے لئے گزشتہ 9ماہ سے سخت مشکل مذاکرات چل رہے ہیں جن میں آئی ایم ایف کی طرف سے پیش کی گئی شرائط میں توانائی کی قیمتوں میں مزید اضافہ، ڈالر کی قیمت کے تعین میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو مکمل اختیارات دینے، انکم ٹیکس کے اہداف اور شرح میں اضافہ، قابلِ ٹیکس آمدنی کی چھوٹ کی شرح میں کمی، چھوٹے دکانداروں پر فکسڈ ٹیکس، نیپرا اور اوگرا کو توانائی کی قیمتوں میں اضافے کیلئے خود مختاری دینا، بجلی اور گیس کے لائن لاسز میں کمی شامل ہیں۔پاکستان کی معیشت کو سدھارنے کیلئے آئی ایم ایف اور عالمی بینک ( ورلڈ بینک ) صرف یہ شرائط عائد کرتے ہیں کہ پاکستان کے عوام پر زیادہ سے زیادہ ٹیکس عائد کیے جائیں۔ بجلی، گیس اور پٹرول کے نرخ برھائے جائیں۔ ان شرائط پر عمل درآمد کرنے سے پاکستان کو ایک یا دو کھرب کی اضافی آمدنی ہوتی ہے لیکن یہ ایک یا دو کھرب پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ یا پاک بھارت سرحد پر کشیدگی کی وجہ سے اضافی اخراجات میں چلے جاتے ہیں۔ یہ پیسے نہ تو قرضوں کی ادائیگی میں خرچ ہوتے ہیں اور نہ ہی عوام کی فلاح و بہبود، روزگار کی فراہمی یا انفر اسٹرکچر کی تعمیر میں صرف کیے جاتے ہیں۔ اس لیے عوام پر ٹیکسوں کا اضافی بوجھ پاکستان کی معیشت کو بحران سے نکالنے، قرضوں کی ادائیگی یا عوام کی فلاح و بہبود میں مددگار ثابت نہیں ہوتا۔ عوام کو جتنا بھی لوٹاجائے، عوام وہی کھڑی نظر آتی ہے ان پر ٹیکسوں کا بوجھ ڈالنے کا کوئی فائدہ ہی نہیں ہے۔حکومت کا یہ خیال تھا کہ روپے کی قدر کم کرنے سے ملکی ایکسپورٹس بڑھے گی لیکن ایسا نہ ہوا اور روپے کی قدر میں 35فیصد کمی کے باوجود ملکی ایکسپورٹس ایک فیصد بھی نہ بڑھ سکی۔اسد عمر عالمی بینک اور آئی ایم ایف کو اپنی حکومت کا معاشی بحالی کے روڈ میپ سے مطمئن کرنے میں بھی ناکام رہے، جس کی وجہ سے عمران خان کو ایسے شخص کو وزارت خزانہ کا ذمہ دار بنانا پڑا جو اگرچہ پیپلزپارٹی کے وزیر خزانہ رہ چکے ہیں مگر عالمی مالیاتی اداروں میں اچھا اثر ورسوخ رکھتے ہیں تاہم پی ٹی آئی کے اہم رہنما اسد عمر کو وفاقی وزیر خزانہ کی حیثیت سے اچانک ہٹانے، اہم وفاقی وزراء کے قلمدانوں میں ردوبدل اور اْن کے نئے عہدے لینے سے انکار نے سیاسی حلقوں میں ہلچل مچا دی ہے اب سب خبردار ہوگئی کہ کہ اگلا نمبر انکا نہ ہوجائے۔ اِس وقت حکومت کو بجٹ، ایمنسٹی اور FATFجیسے اہم چیلنجز کا سامنا ہے حکومت کو 1600ارب روپے کے گردشی قرضوں، خسارے میں چلنے والے حکومتی اداروں اسٹیل ملز، پی آئی اے، ریلوے اور واپڈا کو چلانے کیلئے سالانہ 500ارب روپے اور ایکسپورٹرز کے کئی سالوں سے رکے ہوئے 300ارب روپے کی ادائیگیاں کرنا ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ زرمبادلہ کے ذخائر 20ارب ڈالر کی سطح پر لانا، روپے کی قدر مستحکم رکھنا، قرضوں اور سود کی ادائیگیاں، ایکسپورٹس میں اضافہ، ریونیو کی وصولی کا ہدف پورا کرنا، آئی ایم ایف سے 6سے 8ارب ڈالر کے نئے قرضے موزوں شرائط پر لینا، پاکستان کو FATFکی گرے لسٹ سے بلیک لسٹ میں جانے سے روکنا اور معاشی سرگرمیوں کی بحالی کیلئے نئی ایمنسٹی اسکیم کا اعلان نئے مشیر خزانہ کو درپیش سنگین چیلنجز ہیں جسے نظر انداذ کرکے حکومت آگے نہیں چل سکتی حکومت جو اب تک پرفارم کرسکی اور نہ ہی عوام کو ریلیف دے سکی اس کا اپنی مدت پوری کرنا مشکل نظر آتا ہے، دوسری طرف تحریکِ انصاف کے رہنماؤں میں اختلافات کی خبروں نے عوام میں تذبذب اور غیریقینی کی صورتحال پیدا کردی ہے، جو تحریک انصاف کے حق میں ہے نہ ملک و ملت کے مفاد میں۔

Talha Khan
About the Author: Talha Khan Read More Articles by Talha Khan: 60 Articles with 41363 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.