پاکستان کے خلاف گھناؤنی سازشوں کا سلسلہ جاری ہے۔ داتا
دربار گیٹ 2 پر گذشتہ روز پولیس اہلکاروں کو خودکُش حملے میں نشانہ بنایا
گیا، جس میں پولیس ایلیٹ فورس کے اہلکاروں سمیت عام شہری بھی جاں بحق اور
زخمی ہوئے۔ داتا دربار پر ہونے والا یہ دہشت گردی کا دوسرا واقعہ ہے، اس سے
قبل جولائی2010 کے حملے میں 50 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ اس واقعے
کی ٹائمنگ بڑی معنی خیز ہے، کیونکہ جس وقت میڈیا میں آسیہ مسیح کے بیرون
ملک جانے کی سرکاری تصدیق کی جارہی تھی تو داتار دربار دھماکے کی اطلاع سے
آسیہ مسیح کی خبر دب گئی۔ اب اس حوالے سے مختلف قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں۔
اس سے قبل وزیراعظم غیر ملکی میڈیا کو یقین دہانی کراچکے تھے کہ آسیہ مسیح
کو جلد بیرون ملک بھیج دیا جائے گا۔ واضح رہے کہ آسیہ مسیح کو مبینہ توہین
رسالت ﷺ کیس میں ٹرائل کورٹ اور ہائی کورٹ کی جانب سے سزائے موت ملنے و
توثیق کے بعد سپریم کورٹ نے عدم شواہد کی بنا پر رہائی کا حکم دیا تھا۔ اس
کی رہائی کے معاملے پر طویل مذاکرات ہوچکے ہیں۔ اس لیے سپریم کورٹ سے رہائی
کے حکم کے بعد آسیہ مسیح کے بیرون ملک جانے کی خبریں پہلے ہی آچکی تھیں،
تاہم سرکاری تصدیق پہلی بار کی گئی۔ داتا دربار دھماکے اور آسیہ مسیح کے
بیرون ملک جانے کی خبر کا آپس میں کیا کوئی تعلق ہے، اس حوالے سے قانون
نافذ کرنے والے ہی بہتر تفتیش کرسکتے ہیں کہ آیا یہ خبر کو خبر کے ذریعے
دبانے کا پرانا طریقہ تھا یا پھر داتا دربار واقعے کے کچھ اور محرکات ہیں۔
اس حوالے سے قیاس آرائی کرنے سے قبل ضروری ہے کہ تفتیشی اداروں کی تحقیقات
کا انتظار کیا جائے۔
پاکستان کو اب بھی دہشت گردی کا سامنا ہے اور امن دشمنوں کے ساتھ جنگ جاری
ہے۔ پاکستان اپنی مخصوص جغرافیائی انفرادیت کی وجہ سے ہمیشہ خطرات کا شکار
رہا ہے۔ اس حوالے سے ہمیں یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کے خلاف
دہشت گردی کی مذموم سازشوں کا خاتمہ کیوں نہیں ہورہا۔ ایک رائے جو وزن کے
اعتبار سے قابل غور ہے۔ وہ یہ کہ مخصوص عالمی قوتیں پاکستان کو توڑنا چاہتی
ہیں۔ یہ رائے سابق امریکی صدر اوباما دور حکومت میں سامنے آئی تھی کہ عالمی
قوت کا ایجنڈا ہے وسطی ایشیائی ممالک کے درمیان توانائی کے کوریڈور کو تباہ
کردیا جائے۔ یہ کوریڈورعراق، ایران اور دیگر تیل پیدا کرنے والے ممالک پر
مشتمل تھا، کیونکہ اس کوریڈور سے چین کو پائپ لائن کے ذریعے تیل فراہم کیا
جاسکتا ہے۔ منصوبہ بندی یہ تھی کہ عراق سے پائپ لائن شروع ہوسکتی ہے جو
پاکستان کے ذریعے کوہ ہمالیہ اور کشمیر سے گزرتے ہوئے چین جاسکتی ہے۔ اس
طرح چین کو تیل مل جائے گا اور چینی معیشت مڈل ایسٹ تک پہنچ جائے گی۔ اور
اس سے امریکا کو بُری طریقے سے نقصان پہنچے گا۔ اس منصوبہ بندی پر عمل
درآمد کو، عراق پر امریکی حملے اور پھر بدترین خانہ جنگی کے بعد داعش اور
بھیانک خونریز بم دھماکوں نے کامیاب بنایا۔ عراق میں فرقہ وارانہ بنیادوں
پر تباہی ہوئی اور مسلح جنگجوؤں نے پورے عراق کو تباہ و برباد کرنے میں
کوئی کسر نہ چھوڑی۔ فی الوقت بے امن عراق سے تیل کی پائپ لائن کا منصوبہ
ممکن نہیں رہا، لیکن پاکستان کو (خدانخواستہ) تباہی سے دوچار کرنے کے دوسرے
ایجنڈے پر اب بھی کام جاری ہے۔ تباہی پلان کا دوسرا ایجنڈا یہ بتایا گیاکہ
پاکستان اور افغانستان میں سول وار کرائی جائے۔ افغانستان میں تو جنگ جاری
ہے، اس لیے خصوصاً مختلف جنگی اقسام میں سول وار کو بھی پاکستان تک
پہنچادیا جائے۔
ایجنڈے کے دوسرے حصّے کے تحت افغانستان پر خودساختہ نائن الیون واقعے کے
بعد حملہ کردیا گیا۔ 18 برس سے جاری جنگ کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ امریکی
جنگ کی وجہ سے پاکستان بھی دہشت گردی کی لپیٹ میں آگیا اور ایک عشرے تک اس
کا کوئی شہر دہشت گردوں کے شر سے محفوظ نہیں تھا۔ دہشت گردی کا خصوصی نشانہ
مساجد، امام بارگاہیں، عوامی مقامات اور سرکاری ادارے تھے، اس کے ساتھ فرقہ
وارانہ ٹارگٹ کلنگ بھی کی جاتی تھی، جس کا واضح مقصد فرقہ وارانہ، لسانی،
صوبائی و قومیت کی بنیادوں پر خانہ جنگی کی راہ ہموار کرنا اور سیکیورٹی
اداروں پر عدم اعتماد کی سازش کرنا تھا، تاکہ عدم استحکام کی فضا پیدا ہو
اور امن دشمنوں کو اپنا ایجنڈا کامیاب کرنے کا مذموم موقع میسر آسکے۔
پاکستان کا ایٹمی طاقت ہونا ملک دشمن کے براہ راست حملے کی مذموم سازش کے
راستے میں حائل ہے، اس لیے سازشی منصوبے کے لیے مذموم طریقہ اپنایا گیا کہ
سب سے پہلے افغانستان اور پاکستان میں رہنے والے پختونوں میں نام نہاد گروپ
بنائے جائیں۔ جس طرح بلوچستان اور سندھ میں نام نہاد قوم پرستی کا کارڈ
علیحدگی پسندی کے لیے استعمال کیا جارہا ہے، اسی طرح پشتون قوم میں بھی
پھوٹ ڈلوا دی جائے۔ سندھ اور بلوچستان میں نام نہاد قوم پرستوں کی طرح
پختون بیلٹ میں بھی انتشار (نام نہاد آزادی کی تحریک) پیدا کرکے پاکستان کو
(خدانخواستہ) تین یا 4 ٹکڑوں میں تقسیم کردیا جائے۔ یہی فارمولا پاکستان،
افغانستان کے ساتھ ایران کے خلاف بھی استعمال کیا جائے، جس کے لیے ایران
میں موجود بلوچ علیحدگی پسند گروپ و ترقی پسندوں کو استعمال کیا جائے۔
دوسری جنگِ عظیم کے بعد مشرق وسطیٰ میں بنی سرحدوں کی وجہ سے بہت ساری
قومیتیں تقسیم ہوئیں۔ خصوصاً کُردوں کی علیحدہ ریاست کے لیے تحریک چل رہی
ہے۔ موصل اور اربل اور اس کے اردگرد کے علاقے، مشرقی شام کے کُرد علاقے اور
ترکی کے مشرقی علاقے داعش کے خاتمے کے بعد کُرد عناصر الگ ریاست چاہتے ہیں۔
اسی طرح جنوبی اور شمالی افغانستان کی تقسیم کا منصوبہ بھی سامنے آچکا ہے۔
گو اس وقت افغان طالبان کا امریکا سے مذاکراتی عمل جاری ہے، لیکن انتقال
اقتدار کا فارمولا افغانستان کے تمام اسٹیک ہولڈر کے لیے متفقہ نہ ہونے کی
صورت میں خانہ جنگی میں شدّت کے خدشات موجود ہیں۔ ایران اور امریکا کے
درمیان کشیدگی میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ ابراہام لنکن نامی بیڑا خلیج
فارس میں تعینات کردیا گیا ہے۔ ایران نے بھی ایٹمی معاہدے کی پاسداری پر
عمل درآمد نہ کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے یورینیم کی اعلیٰ سطح پر افزودگی کی
دھمکی دے دی ہے۔
پاکستان میں فرقہ وارانہ دہشت گردی کے تحت مخصوص کمیونٹیز کو نشانہ بنانے
کی کوشش کی جاتی رہی ہے، اس کے ساتھ مسلکی بنیادوں پر بھی کئی مزارات،
عوامی مقامات و جلسہ گاہ سمیت معروف شخصیات کو نشانہ بنانے کی سازشیں جاری
ہیں۔ پاکستان نے دشوار طلب مرحلے کے بعد بڑے واقعات پر 80فیصد قابو پالیا
ہے، تاہم دہشت گردی کے خلاف جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔ طویل المدتی عالمی
سازشی ایجنڈے میں پہلے امریکا کا جنگی اتحادی بننے کی پاداش میں پاکستان کو
ناقابل تلافی جانی و مالی نقصان پہنچایا جاتا رہا۔ اب چین کے منصوبے ون
بیلٹ ون روڈ میں پاکستان کے اسٹرٹیجک پارٹنر بننے پر عالمی طاقتیں وطن عزیز
کے خلاف مذموم سازشوں میں ملوث ہیں۔ داتا دربار گیٹ 2 پر دہشت گردی کے
واقعے کے تانے بانے مخصوص مفادات کے حصول سے ملتے ہیں۔ اس حوالے سے
پاکستانی عوام کو عالمی طاقتوں کی سازش کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ایک سوچے
سمجھے منصوبے کے تحت ملک میں دوبارہ بے امنی پیدا کرنے کی سازشوں کو نام
نہاد قوم پرستوں و مسلکی اختلافات کے ساتھ جوڑا جارہا ہے۔ پاکستان کے وجود
کو (خدانخواستہ) نقصان پہنچانے کے لیے نام نہاد قوم پرستی اور مسلکی
اختلافات میں تشدد سمیت سیاسی عدم استحکام جس طرح ملکی معیشت کو دیمک کی
طرح چاٹ چکا ہے، اگر اس کا بروقت سدباب نہ کیا گیا تو ملک دشمن عناصر کے
مذموم ایجنڈے سے ملک و قوم کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اس لیے
پاکستانی عوام کو جذباتیت کے بجائے ہوش مندی سے کام لینے کی ضرورت ہے کہ
دہشت گردی کے خلاف جنگ ابھی جاری ہے۔
|