جو بھی کریں ، مگر یاد رہے !

 ماہ صیام اپنی رحمتوں ،برکتوں اور فضیلتوں کے ساتھ مومنوں پر سایہ فگن ہے ۔ ایک طرف مسلمان عبادات اور نیک اعمال سرانجام دینے میں اپنے شب و روز وقف کر چکے ہیں جبکہ دوسری طرف سورج آگ برسا رہا ہے اورمہنگائی کا پہاڑ لا وا بن کر بہہ نکلا ہے جوکہ عوام الناس کے احساسات، خواہشات اور امیدوں کو جھلسا رہا ہے مگر کرتا دھرتا بے پرواہ ہیں کہ’’ اندھیر نگری چوپٹ راج، ٹکے سیر بھاجی ٹکے سیر کھاجا‘‘ کے مصداق وزراء اور مشیران کی فوج ظفر موج تلخ حقائق کو ذرائع ابلاغ کی کارستانی قرار دیکر اپنی نا اہلیوں کو چھپا رہی ہے اور جہاں دلائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہاں یہ کہہ کر جان چھڑوا لیتے ہیں کہ یہ سب سیکھتے سیکھتے ایک دن سیکھ جائیں گے لیکن کچھ لوگ اتنے نا اہل ہوتے ہیں کہ وہ تھوک بھی پھینکتے ہیں تو پاؤں پر ہی گرتی ہے، چار پانچ کرتے رہتے ہیں مگر ہوتے تھالی کے بینگن ہیں ۔اب جیسے جیسے موسمی درجہ حرارت بڑھ رہا ہے ویسے ویسے ملکی سیاست کے درجہ حرارت میں بھی شدت آتی جا رہی ہے ۔اپوزیشن ’’مہنگائی بند کرو ‘‘ کارڈ کھیل کر عوامی حمایت اور ہمدردی حاصل کرنے میں کسی حد تک کامیاب ہو چکی ہے ۔عوام بھی مسلسل کرپشن بیانات کے واویلوں ، دو نہیں ایک پاکستان کے کھوکھلے نعروں اور اشرافیہ کے ہاتھوں آئین و قانون کے غل غپاڑوں کو دیکھ کر تبدیلی سرکار سے بد ظن ہو رہے ہیں۔ عدم اعتماد کی ایسی ہوا چلی ہے کہ ہرکوئی کہہ اٹھا ہے کہ :
بنے ہیں اہلِ ہوس، مدعی بھی منصف بھی
کسے وکیل کریں ، کس سے منصفی چاہیں

قانون کی حاکمیت کا اندازہ اس سے لگا لیں کہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کو العزیزیہ ریفرینس مقدمے میں طبی بنیادوں پر ملنے والے ڈیڑھ ماہ کے ریلیف کی مدت مکمل ہونے پر میاں نوازشریف کو ’’آئی لو یو ‘‘ کے پرجوش نعروں اور بھنگڑوں کے درمیان کوٹ لکھپت جیل منتقل کر دیا گیا ہے جبکہ میاں صاحب کو بد عنوانی کے ایک مقدمے میں سات سال قید با مشقت ، 25 ملین ڈالر ز جرمانہ اور دس سال نا اہلی کی سزا کا سامنا ہے لیکن بوجہ علالت انھیں مارچ میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے علاج کے لیے چھ ہفتوں کی ضمانت منظور کرتے ہوئے جیل سے رہا کر دیا تھا مگر ضمانت کی مدت ختم ہوتے ہی سابق وزیراعظم کی طرف سے ضمانت میں توسیع کی درخواست کی گئی اور علاج کے لیے لندن جانے کی اجازت مانگی گئی تھی جسے مسترد کر دیا گیا اور مزید توسیع نہیں دی گئی جبکہ قانونی ماہرین کے مطابق میاں صاحب طبی بنیادوں پر دوبارہ اپیل دائر کر سکتے ہیں اور ریلیف بھی مل سکتا ہے ۔

بلا شبہ صاحب سلامت ہوں تو آج ریلیف نہیں ملا کل مل جائے گا ویسے بھی جس ڈرامائی انداز میں یہ جیل منتقلی عمل میں آئی ہے وہ بھی اپنی مثال آپ ہے کہ کوٹ لکھپت جیل کا عملہ میاں صاحب کو لینے جاتی عمراء پہنچا تو انھوں نے گھر سے باہر آنے اور ساتھ جانے سے انکار کر دیا اور حکم صادر ہوا کہ : ’’ ہم جلوس کی شکل میں جیل جانے کا ارادہ رکھتے ہیں ‘‘ ۔اس کے بعد پارٹی رہنماؤں اور کارکنان کی بڑی تعداد نے اظہار یکجہتی میں پرجوش نعروں اور بھنگڑوں میں ن لیگ کے قائد کو ریلی کی شکل میں کوٹ لکھپت جیل پہنچایا۔ اس سب ڈھیل ڈرامے میں مقررہ وقت بھی نکل گیا مگر جیل حکام کو میاں صاحب کو وصول کرنا پڑا کیونکہ انھیں دو ہی چیزوں سے غرض ہے’’ آرڈر اور چائے پانی ‘‘چونکہ غریب کے پاس یہ دونوں چیزیں نہیں ہوتیں تو وہ تھانہ در تھانہ بھٹکتا سسکتا رہتا ہے مگرداد رسی نہیں ہوتی ۔۔دور مت جائیں نشوا اور عصمت کیس ہی دیکھ لیں ۔۔ آغاز سے انجام تک دل دہل جاتا ہے مگر زنجیر عدل میں جنبش نہ ہوئی ۔۔ بلکہ میڈیا مرحومین کے والدین کی دہائی اور پولیس کی لاپروائی دکھاتا رہتا ہے لیکن۔۔نتیجہ ندارد !پولیس کے بھی اپنے مسائل ہیں کہتے ہیں کہ ایک نوجوان نیا نیا پولیس میں بھرتی ہوا تو اس کی ڈیوٹی جیل میں لگی ۔اس کو جیلر نے بتایا کہ چونکہ ہماری تنخواہ کم ہے اس لیے اوپر کی آمدنی مجبوری ہے اور ہم اسے رشوت نہیں بلکہ ’’چائے پانی ‘‘ کہتے ہیں ۔ساتھ ہی کہا کہ فلاں قیدی فوت ہوگیا ہے اس کی لاش لیکر اس کے گھر والوں کو دے آؤ اور ساتھ چائے پانی لے آنا ۔ نوجوان نے کہا :’’اتنی افسوسناک خبر سنا کر چائے پانی کیسے مانگونگا ‘‘؟ جیلر نے پرانے پولیس والے کو بلایا کہا اس کے ساتھ جاؤ اس کی بھی ٹریننگ ہو جائے ۔جب یہ لاش لیکر متعلقہ گھر پہنچے تو تجربہ کار پولیس والے نے اس قیدی کے گھر والوں سے کہا :’’دیکھیں جی اس بندے کو چار سال کی قید ہوئی تھی ،ابھی دو سال ہی گزرے اور یہ مر گیا ۔۔۔اب باقی کی دو سال کی سزا پوری کرنے کے لیے بندہ دو یا پھر چائے پانی نکالو ‘‘۔

آپ روحانیت کی بات کرتے ہیں اور حیوانیت کے خاتمے کے لیے ابھی تک کوئی ٹھوس اقدام کیوں نہیں کیا گیا ؟ تنخواہوں کے مسائل کیوں حل نہیں کئے جا رہے ؟ اس درجہ ہوس اور بھوک ننگ کا تدارک کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کیوں نہیں کئے جاتے ؟نشوا کیس کا مجرم احاطہ عدالت سے فرار ہو گیا اور سب دیکھتے رہ گئے ۔۔ یہ سب گورکھ دھندا کیا ہے ؟کیا قانون صرف غریب کے لیے ہے ؟ جناب وزیراعظم کے ہوائی قلعے مستند اقتدار پر براجمان ہو تے ہی ہوا ہو گئے ہیں ۔سیاسی اکھاڑ پچھاڑ نے مملکت کا شیرازہ بکھیر دیا ہے ۔جو نظر آرہا ہے وہ اس قدر الجھا ہوا ہے کہ ناقابل بیان ہے کہ معاشرتی عدم برداشت اور ذہنی بیماریوں میں اضافہ ہو رہاہے چونکہ لوٹ کھسوٹ کا یہ عالم ہے کہ ہر کوئی سوچتا ہے کہ :تجھے پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو۔۔!

درج بالا نا اہلیوں اور عوام کی عدم دلچسپی کو بھانپتے ہوئے میاں شہباز شریف نے صدر مسلم لیگ ن کی حیثیت سے لند ن سے ن لیگ کی تنظیم نو کا علامیہ جاری کردیا ہے اور قیادت نو نے تحریک انصاف کی ناقص کارکردگی اور گڈ گورننس کے فقدان کو ہر فورم پر اٹھانا شروع کر دیا ہے حالانکہ اپنی کار کردگی اور ڈھٹائی کا یہ عالم رہاہے کہ ایک انتہائی نالائق بچے کی ماں نے اپنے بیٹے سے کہا :’’ بیٹا ! تم نے کبھی کوئی ایسا کام نہیں کیاکہ جس سے میرا سر بلند ہو جائے ‘‘۔بچہ ڈھٹائی سے بولا : امی ! آپ تو نا شکری ہیں ،ایک دفعہ میں نے آپ کے سر کے نیچے تکیہ رکھا تھا ‘‘۔بہر حال ن لیگ نے اپنے علامیے میں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کوپارٹی کا سینئر نائب صدر اور مریم نواز کو نائب صدر مقرر کر دیا ہے اور دیگر عہدوں کو بھی وفاداران کے حوالے کرتے ہوئے پارٹی قائدین منظر سے غائب ہو چکے ہیں کہ میاں نواز شریف جیل اور میاں شہباز شریف لندن جا چکے ہیں ۔ ایسے میں یہ کہنا مشکل نہیں کہ میاں صاحبان نے پارٹی قیادت اپنی بیٹی مریم نواز کو سونپ دی ہے جو کہ پہلے ہی سیاسی زعماؤں کے مطابق گذشتہ پانچ برس سے پارٹی کے سیاہ و سفید کی مالک تھیں اور ان کی جلد بازیوں کے سبب ہی شریف خاندان انتشار اور مشکلات کاشکار ہوا ہے ۔لہذا اس نامزدگی پرجہاں ن لیگ کی صفوں میں تحفظات پائے جاتے ہیں وہاں سیاسی ماہرین بھی حیران ہیں کہ میاں شہباز شریف جو کہ ن لیگ میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں ان کا منظر سے غائب ہونا یونہی نہیں ہو سکتا ۔۔!یقینا کوئی ایسی ڈیل یا ڈھیل طے پا گئی ہے جس کی وجہ سے دوسرے درجے کی قیادت کو پارٹی سونپ دی گئی ہے اور نامزد رہنما ہی نہیں بلکہ درباری، خوشامدی اور نواز میڈیابھی متحرک ہو چکا ہے لیکن تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی نے بھی اس معاملے کو ہر فورم پر اٹھانے کا علان کر تے ہوئے کہا ہے کہ تحریک انصاف قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتی ہے اور مریم نواز کی نامزدگی سپریم کورٹ کے فیصلے کی توہین ہے ۔اس کے جواب میں ن لیگ نے جہانگیر ترین پر سوال اٹھا دیا ہے ۔ اب جہانگیر ترین تو انصاف لانڈری کے سربراہ ہیں تو ان پر سوال اٹھ ہی نہیں سکتا ۔۔جب بھی دوسری جماعتوں کے رہنما اور عہدے داران تحریک انصاف میں شامل ہو تے ہیں اور جناب عمران خان ان کو سرعام سراہتے ہیں تو مجھے وہ لڑکی یاد آجاتی ہے جو مولوی صاحب کے پاس گئی اورپوچھا : ’’اگر میں کسی لڑکے سے محبت کروں تو کیا گناہ ہوگا ؟‘‘ مولوی صاحب چیخ کر بولے :’’ارے توبہ کرو ، سیدھی دوزخ میں جاؤگی ‘‘۔ لڑکی نے دوبارہ پوچھا :’’ اگر میں آپ سے محبت کروں تو ؟‘‘ مولوی مسکرا کر بولا :’’بہت شریر ہو جنت جانے کا ارادہ رکھتی ہو ‘‘۔تو ۔۔تحریک انصاف تو ابھی تک اپنی کابینہ ہی فائنل نہیں کر سکی بلکہ اپنی صفوں میں ماضی کے حکمرانوں کے وفاداران کو شامل کر لیا ہے اور اپنے جانثاروں کو یوں نکا ل باہر کیا ہے جیسے دودھ سے مکھی نکالی جاتی ہے ایسے میں سیاسی اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا کچھ نہیں کہا جا سکتاکیونکہ سیاسی تاریخ ایسے بے شمار واقعات سے بھری پڑی ہے کہ کل کے معتوب ہی آج کے محبوب حکمران ٹھہرے ۔

تاہم مجموعی صورتحال یہ ہے کہ میاں نواز شریف اپنے بیانیے پر ڈٹے ہوئے ہیں جبکہ چھوٹا بھائی صلح جوئی کا پیامبر نظر آرہا ہے ۔ جاتی امراء سے کوٹ لکھپت جیل تک سٹریٹ شو نے بھی ن لیگ کے تن مردہ میں جان ڈال دی ہے ۔بلاول بھی متحرک ہے جبکہ دوسری طرف برسر اقتدار حکومت نے سیاسی میدان کو کھیل کا میدان بنا رکھا ہے یہی وجہ ہے کہ دہشت گردی بھی سر اٹھا رہی ہے داتا دربارسانحہ ماہ رمضان میں انتہائی افسوسناک اور قابل مذمت ہے جوکہ سیکیورٹی اداروں اور حکومتی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے ۔سب سے زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ دشمن ہماری صفوں میں گھس کر حملہ آور ہو اور کامیاب بھی ہو جائے اور ہم یہی راگ آلاپتے رہیں کہ رمضان المبارک میں فول پروف سیکیورٹی کے انتظامات کئے گئے ہیں اور ہماری تخریب کاروں اور انتہا پسندوں پر کڑی نظر ہے ۔۔جبکہ معلوم ہوتا ہے کہ نظر تو بس عوامی جیبوں پر ہے کہ اب یہ خبر گرم ہے کہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات مکمل ہو گئے ہیں ۔پاکستان نے آئی ایم ایف کے سامنے گھٹنے ٹیک دئیے ہیں اور کڑی شرائط ماننے کا فیصلہ کر لیا ہے جس کے بعد گیس اور بجلی’’ مزید‘‘ مہنگی ہو جائے گی ، خوراک سمیت تمام چیزوں پر سبسڈیزاور ٹیکس چھوٹ ختم کردی جائے گی ۔ایسے میں عوام پر مہنگائی کا جو بم گرے گا وہ کسی طور بھی قابل برداشت نہیں ہوگا ۔سوال تو یہ ہے کہ جناب عمران خان نے بارہا کنٹینر پر اپنے خطابات میں کہا تھا کہ مہنگائی میں اضافہ لمحہ فکریہ ہے ،جب حکمران کرپشن کرتے ہیں تو اشیائے ضروریہ عوامی پہنچ سے دور ہو جاتی ہیں، جس سے ملک و قوم تباہ ہو جاتے ہیں ۔اس لیے سڑکوں پر نکلو اور اپنے حق کے لیے آواز اٹھا ؤ کیونکہ اگر میں حکومت میں آگیا تومیں آئی ایم ایف کے پاس جانے سے پہلے خود کشی کو ترجیح دونگا۔ تو ۔۔ غریبوں کے مسیحا سے عوام پوچھ رہے ہیں کہ عام آدمی ہی مہنگائی کی زد میں کیوں ہے ؟ ہم آئی ایم ایف کے پاس کیوں گئے ہیں اور اگر گئے ہیں تو ساری شرائط کیوں مانی ہیں ؟ وہ لوٹی ہوئی دولت کہاں ہے جسے واپس لا کر ملکی مسائل کو حل کرنے کا دعوی کیا گیا تھا ؟اب کرپٹ کسے کہنا ہے اور کس کے سامنے آواز اٹھانی ہے ۔۔؟جو بھی کریں مگر یاد رہے کہ’’ کاٹھ کی ہنڈیا بار بار نہیں چڑھتی ‘‘جو دل میں رہا وہی باقی رہا ورنہ کئی آئے کئی گئے ۔۔!

Roqiya Ghazal
About the Author: Roqiya Ghazal Read More Articles by Roqiya Ghazal: 127 Articles with 102877 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.