بلٹ ٹرین یا گولی کی رفتار سے چلنے والی ٹرین کا سفر دنیا
کے لئے آئیندہ کئی برسوں تک خواب رہے گا۔حقیقی بلٹ ٹرین وہ ہو گی جو گولی
کی رفتار سے چلے گی۔ گولی کی رفتار 2ہزار7سو 43کلو میٹر فی گھنٹہ ہے۔ تا ہم
دنیا بلٹ ٹرین نام کی حد تک خواب کی تکمیلنصف صدی پہلے کر چکی تھی۔جب جرمنی
نے 250کلو میٹر فی گھنٹہ رفتار والی دنیا کی پہلی بلٹ ٹرین 1964میں تیار
کی۔اس وقت پاکستان اور بھارت دوسری جنگ کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ اب
جاپان400کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار تک چلنے والی دنیا کی تیز ترین بلٹ
ٹرین تیار کر رہا ہے۔ چین میں 350کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے بغیر
ڈرائیور چلنے والی بلٹ ٹرین تیار ہو رہی ہے۔ پاکستان میں 110کلو میٹر فی
گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی ٹرین کو بلٹ ٹرین قرار دیا جا رہا ہے اور
مستقبل میں چین کے اشتراک سے 160کلو میٹر فی گھنٹہ چلنے والی ٹرین کو تیز
ترین بلٹ ٹرین کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ یہی حال بھارت کا بھی ہے جہاں
سب سے تیز رفتار ٹرین 180کلو میٹر فی گھنٹہ چلتی ہے جس کا نام بلٹ ٹرین
رکھا گیا ہے۔ ہم اس دور میں زندہ ہیں جب پاکستان میں کروڑوں لوگ اس وقت ٹچ
موبائل کے مزے لے رہے ہیں۔پاکستان ٹیلی کام اتھارٹی پی ٹی اے کے مطابق
جنوری 2018میں یہاں موبائل صارفین کی تعداد14کروڑ 40لاکھ تھی۔ ہم سمجھتے
ہیں کہ ہم دنیا کے ماڈرن دور میں زندہ ہیں۔ جب کہ یہ سب ٹیکنالوجی آئی فون،
سام سنگ، نوکیا، سمیت درجنوں برانڈز کی دین ہے۔سمارٹ فونز برانڈ ز میں سے
ایک بھی پاکستانی نہیں۔ جس پر ہم بجا طور پر فخر کر سکیں۔ اس کی صاف وجہ ہے
کہ ہم سائینس و ٹیکنالوجی کے میدان میں بہت پیچھے تو کجا ، اس میدان میں
ابھی تک اترے بھی نہیں۔ کیوں کہ ہمارا نظام تعلیم ہمیں اس کے لئے بالکل بھی
تیار اور رہنمائی نہیں کرتا۔ ہم احساس کم تری یا برتری کے کشممکش کے درمیان
جھول رہے ہیں۔ فواد چوھدری ہمارے آج کے وزیر با تدبیر ہیں۔ جن کو سائینس و
ٹیکنالوجی کا اہم قلمدان دیا گیا ہے۔ ان سے کیا شکوہ ، ان سے پہلے کے وزراء
بھی کوئی تیر نہ مار سکے۔ اسی لئے ہمارے پاس آئی فون یا کوئی براند ہے تو
ہمیں اس پر ناز اور نخرہ ہو گا۔ کیوں کہ ہم اپنی نہیں بلکی غیر ملکی تشہیر
کر رہے ہیں۔ ہمارا سرمایہ ملک سے باہر جا رہا ہے۔ دنیا سییک دم رابطے پر ہم
مطمئن ہیں۔ اسی طرح زمینی رابطوں کا حال ہے۔ ہمارے وزیر ریلوے کئی برسوں سے
بلٹ ٹرین کی خوشخبری سنا کر عوام کو بے وقوف بنا رہے ہیں۔ یہاں جو جتنا
باتونی اور مسخرہ ہے، اس کا اتنا ہی طوطا بولتا ہے۔ مگر بجائے اس کے ہر شاخ
پر الو بولتا نظر آتا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ پاکستان کی سب سے تیز رفتار
ٹرین پشاور تا کراچی کے درمیان دوڑتی ہے جس کی رفتار 160کلو میٹر فی گھنٹہ
بتائی گئی ہے۔ اس رفتار کی ٹرینوں کو یہاں بلٹ ٹرین کا نام دیا جا رہا ہے۔
ہر انسان چاہتا ہے کہ اس کا سفر تیز رفتار، سستا، محفوظ اور آرام دہ ہو۔
انسان وقت کے ساتھ دوڑ لگانا چاہتا ہے۔ وہ تیز ترقی کے خواب دیکھتا ہے۔ مگر
یہ ایک فرد کے کرنے کا کام بالکل نہیں۔ یہ کام سٹیٹ کا ہے۔ اس کے اداروں کا
ہے۔ نظام کا ہے۔ جس کی ترقی اور بہتری پر توجہ کے بجائے ہم سیاسی مخالفین
کو کوسنے اور انہیں ہی سب برائیوں کی جڑ قرار دینے میں وقت برباد کر دیتے
ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پہلے سب غلط تھا، آپ نے کیا اچھا کیا۔ کون سا تیر چلا
لیا۔ کس میدان میں کون سے بہتری لائی۔ یہ سمجھا جا رہا تھا کہ پی ٹی آئی کے
پاس شیڈو حکومت کی ٹیم موجود ہے۔ ہر میدان کے ماہرین موجود ہیں۔ تاثر یہی
دیا گیا تھا۔ مگر یہ سب جھوٹ اور فریب کے سوا کچھ نہ تھا۔ عملی میدان میں
یہ حکومت کم عرصہ ہی سہی، اس میں بھی کچھ نہ کر سکی۔ یہی حشر عوام کے لئے
سفری سہولیات کا ہے۔ اعلانات ہوئے مگر ابھی تک اسلام آباد مظفر آباد ٹرین
سروس کی پہلی اینٹ رکھنی دور کی بات ہے، اس جانب کاغذے ٹرین بھی نہ چلی۔
وزیراعظم صاحب کو مہنگائی کا احساس ہے مگر مشکل فیصلے کرنا پڑ رہے ہیں۔ ان
کا خیال ہے کہ مہنگائی سے متاثر صرف 25فیصد لوگ ہوں گے، 75فی صد پر کوئی
اثر نہ پڑے گا۔ مگر اس کا الٹ ہے۔ 90فی صد لوگ اس مہنگائی کی سونامی کا
شکار ہیں۔ شاید یہی سونامی تھی جس کی خوشخبری دی جا رہی تھی۔
پاکستان ریلوے نے اسلام آباد مظفر آباد ریلوے لائن سمیت گوادر کو وسط ایشیا
سے ملانے والی کئی لائینوں کی تعمیر کی تجویز پیش کی ہے۔ جس کی کبھی منظور
کا بھی اعلان کیا گیا۔ مگر تا حال اس پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ اس وقت
پاکستان کے انڈیا ور ایران کے ساتھ ریل رابطے ہیں۔ جب کہ پاکستان دوست
ممالک کے ساتھ ریلوے رابطوں کی منصوبہ بندی کر رہا تھا۔ افغانستان، ترکی
اور ترکمانستان کے ساتھ ریل رابطے استوار کرنے کی فزیبلٹی بھی تیار ہو رہی
تھی۔کراچی پشاور، کوٹری اٹک، روہڑی چمن، کوئٹہ تفتان اور ٹیکسلا خنجراب
ریلوے رابطوں کو تیز کرنے کی جانب بھی کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔ مگر
وزیر ریلوے بلٹ ٹرینوں کے اعلانات کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ 20سے زیادہ
ریلوے لنک لائینں بھی بہتری کی طلب گار ہیں۔ رسالپور اور مغل پورہ ریلوے
ورکشاپوں کی بدحالی کی خبریں بھی میڈیا پر آ رہی ہیں۔ جہاں لوکوموٹیوز
کوچوں کی تیاری پر توجہ دینے کے بجائے بیان بازی پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔
سکھر، خانیوال، کوہاٹ، شاہین آباد اور کوٹری کی کنکریٹ سلیپر فیکٹریا ں کس
حال میں ہیں، اس بارے میں حکام خاموش ہیں۔
73ہزار سے زیادہ ملازم پاکستان ریلوے میں کام کر رہے ہیں۔ ریلوے کی ترقی
اور عوام کو آرام دہ ، سستا، محفوظ اور تیز سفر فراہم کرنا حکام کا کام ہے۔
اگر وہ اس میں ناکام ہیں تو اس میں قصور عوام کا نہیں بلکہ حکام کی
پالیسیوں کا ہے۔ ترقی کے بجائے ریلوے کے خسارے کا ڈھنڈورہ پیٹ کر حکومت
اپنی ذمہ داریوں سے راہ فرار اختیار کر رہی ہے۔ پاکستان ریلوے پر کبھی عوام
اعتماد کرتے تھے، مگر دو گھنٹے کا سفر 24گھنٹے میں ہو گا تو لوگوں کے
اعتماد کو ٹھیس پہنچے گی۔ وقت اور عوام کے آرام کا خیال نہ رکھا جائے گا ،
بدنظمی ہو گی تو لوگ ریلوے پر کیسے اعتماد کریں گے۔ اس لئے حکومت خسارے کا
رونا رونے کے بجائے ریلوے کے نظام میں بہتری لانے پر توجہ دے، اپنی
پالیسیوں پر غور کرے۔ اگر حکام محنت اور سنجیدہ ہوں اور عوام کی سفری
سہولیات پر توجہ دیں تو پاکستان ریلوے کامیاب ریلوے بن سکتا ہے۔ عوام کا
اعتماد بحال ہو سکتا ہے۔ بلٹ ٹرینوں کا دھوکہکھانے کے بجائے مسافر دستیاب
سہولیات میں بہتری چاہتے ہیں۔ اس کے ساتھ جدید ٹیکنالوجی متعارف کرانے کی
طرف بھی توجہ دی جائے تو یہ سونے پہ سہاگہ ہو گا۔
|