بے نامی اکاؤنٹس اور جائیدادوں کو سفید کرنے کی اسکیم

دین اسلام میں مال ودولت کے حصول کے لئے حلال طریقہ اختیار کرنے پر زور دیا گیا ہے ، حلال مال وہ ہی کہلاتا ہے جسے کمانے کے لئے حلال زرائع اختیار کیئے گئے ہوں ، ناپ تول میں کمی ،رشوت، جھوٹ بول کر کمایا گیا مال حلال کو بھی حرام بنا دیتا ہے، ارشاد باری تعالی ہے"اے ایمان والو!اپنے مال آپس میں باطل طریقہ سے مت کھاؤ"،حدیث پاک میں ہے کہ " جس شخص نے ظالمانہ طورپرکسی سے زمین کا ایک بالشت حصہ لے لیا،قیامت کے روزاﷲ تعالی سات زمینوں کابوجھ اس کے گلے میں ڈال دے گاـ" ،ایک اور جگہ ارشاد فرمایا " جس شخص کاگوشت پوست ظلم اورسودسے پلے بڑھے،اس کے لیے جہنم کی آگ ہی زیادہ بہترہے" ،سانچ کے قارئین کرام ! کوئی بھی سرمایہ دار یا شخص اپنی دولت یا اثاثوں کو اس لیئے چھپاتا ہے کہ وہ حکومت اور لوگوں کو بتانا نہیں چاہتا کہ اُس کے پاس اتنی دولت کیسے آئی یا اُس نے اتنی دولت کیسے کمائی ،حکومت کے عوام کی فلاح کے لئے کیے گئے اقدامات کو موثر بنانے کے لئے اور نظام حکومت چلانے کے لئے زکوۃ اورٹیکس کا نظام رائج کیا جاتا ہے موجودہ دور میں ٹیکس کا نظام کسی بھی ملک کی سماجی اور معاشی پالیسیوں پر بہت گہرے اثرات مرتب کرتا ہے،جمہوری فلاحی مملکت میں امراء سے ٹیکس وصول کر کے غریب یا کم آمدنی والے افراد پر رقم خرچ کی جاتی ہے اس سے دولت کی مساویانہ تقسیم ممکن ہوتی ہے اورٹیکسوں سے جمع رقم سے معاشرے میں غریب بیواؤں ،یتیموں ،اقلیتوں ،معذوروں اور بے روزگاروں کی مدد بھی ممکن ہوتی ہے ،وطن عزیز پاکستان میں اکہتر سالوں میں آنے والی حکومتوں کے سربراہان نے جہاں قرضوں کا بوجھ عوام پر ڈالا وہیں ٹیکسوں کی رقم کو اپنے آرام و آسائش پر خرچ کیا جبکہ یہاں ٹیکسوں کا نظام بھی کچھ ایسا ترتیب دیا گیا ہے کہ جابرانہ نظام کے ذریعے امیر افراد امیر تر اور غریب افراد غریب تربنتے گئے جس سے معاشی اور سماجی مسائل بڑھتے چلے گئے ، بیرونی قرضوں کو حاصل کرنے کے لئے عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ بڑھا دیا جاتا ہے جس سے غریب اپنی مختصر سی آمدن میں سے بھی ٹیکس اداکرتاہے جب کہ امیر قانونی پچیدگیوں کا سہارا لے کر ٹیکس سے بچ نکلتا ہے ، گزشتہ روز پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے کالادھن سفید کرنے کی اسکیم منظور کی جس کے تحت نقد رقوم بینک میں جمع کراکے 4 فیصد ٹیکس کی ادائیگی کر کے اور رئیل اسٹیٹ FBR ویلیو کی ڈیڑھ گناقیمت پر 1.5 فیصد ٹیکس دے کر کلیئر کروائے جاسکتی ہیں جبکہ بیرون ملک اثاثے وطن نہ لانے کی صورت میں 2 فیصد مزید ٹیکس دینا ہوگا، ٹیکس ایمنسٹی ا سکیم پر اپوزیشن خاص طور پر پاکستان مسلم لیگ (ن) کا کہنا ہے کہ اس طرح کی ا سکیم پر سابقہ حکومتوں پر پی ٹی آئی کا موقف انتہائی سخت مخالفانہ ہوتا تھا جبکہ اب خود پی ٹی آئی کی حکومت وہ ہی کچھ کرکے اسکو انتہائی ضروری قرار دینے کا جواز تلاش کررہی ہے حکومت کی ٹیکس ایمنسٹی ا سکیم میں کہا گیا ہے کہ یہ اسکیم 30جون 2019تک کے لیے ہوگی جس کے تحت کالے دھن اوربے نامی اثاثوں کو بھی سفید کرایا جاسکے گا،بے نامی اثاثے رکھنے والوں کے لیے یہ آخری موقع ہے اس کے بعد سخت کارروائی ہوگی‘اسکیم کے تحت رئیل اسٹیٹ کے علاوہ اندرون اور بیرون ملک غیر ظاہر شدہ اثاثہ جات کو 4فیصد شرح ٹیکس کی ادائیگی پر سفید کرایا جاسکے گانقد رقومات کو بنک اکاؤنٹس میں رکھ کر ڈکلیئر کرایا جاسکے گا رئیل اسٹیٹ ( پراپرٹی ) ایف بی آر ویلیوکی ڈیڑھ گنا قیمت پر 1.5فیصد کی شرح سے ٹیکس کی ادائیگی پر ڈکلیئر ہو گی ، بیرون ملک دولت کو ملک کے اندر لانا ہوگا اور بیرون ملک اثاثہ جات ملک میں نہ لانے کی صورت میں دوفیصد مزید ٹیکس جمع کرانا ہوگا اور ان کے لیے مجموعی ٹیکس کی شرح 6فیصد ہو گی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم سے فائدہ اٹھانے والوں کو ہر صورت ٹیکس فائلر بننا ہوگا ڈاکومینٹیشن کو بہترکرنے کے لیے کتابوں میں اثاثہ جات کو لانے کی اجازت ہوگی اور اپنے اثاثوں اور بیلنس شیٹ کو دوبارہ بنا سکیں گے ایسے تاجر جو سیلز ٹیکس کے نظام سے باہر ہیں ان کو بھی شامل کیا گیا ہے وہ اس اسکیم سے استفادہ کر کے اپنی پرانی سیلز ٹیکس کی ذمہ داریوں سے مبرا ہو سکیں گے ،مشیرخزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کا کہنا ہے کہ پاکستان کی معیشت میں کچھ بڑے نقائص ہیں جنہیں دورنہ کیاتوپھر آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑ سکتا ہے آئندہ ساڑھے چار سال میں ٹیکس نظام کو وسیع کیاجائے گا مشیرخزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ اوروزیرمملکت ریونیوحماداظہار نے وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعدایف بی آر ہیڈ کوارٹرز میں چیئرمین ایف بی آرشبرزیدی اور معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے مزید کہا کہ اسکیم سے ماضی و حال میں عوامی عہدے رکھنے وا لے لوگ اوران کے زیر کفالت افراد مستفید نہیں ہو سکیں گے جبکہ سرکاری عہدہ رکھنے والے اور ان کے زیرکفالت افراد بھی سکیم سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے اسکیم کا مقصد ریونیو جمع کرنا نہیں معیشت کو دستاویزی بنانا ہے بیل آوٹ پیکج کے نتیجے میں بجلی اورگیس کی قیمت کا بوجھ غریب عوام پر پڑنے نہیں دیا جائے گاآئندہ بجٹ میں بجلی کی مد میں 216 ارب روپے کی سبسڈی دی جائیگی ،مشیرخزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کا یہ بھی کہنا تھا کہ ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کا بنیادی مقصد ریونیو اکٹھا کرنا نہیں بلکہ اثاثوں کو معیشت میں شامل کر کے اُنہیں فعال کرنا ہے انہوں نے کہا کہ کوشش کی ہے کہ یہ اسکیم بہت آسان ہو تاکہ لوگوں کو دقت نہ ہو اور اس پر عملدرآمد بھی آسان ہوکیونکہ اس کے پیچھے فلسفہ لوگوں کو ڈرانا دھمکانا نہیں بلکہ قانونی معیشت میں حصہ ڈالنے کے لیے حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ سانچ کے قارئین کرام ! مشیرخزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس سکیم کے تحت پاکستان کے اندر اور باہر تمام اثاثے ظاہر کرنا ہوں گے اور ریئل اسٹیٹ کے علاوہ دیگر تمام اثاثوں کو 4 فیصد کی شرح دے کر اثاثے ظاہر کیا جاسکتا ہے نقد رقم جو روپے یا ڈالر کی صورت میں ملک کے اندر یا بیرون ملک بے نامی اکاؤنٹس میں پڑی ہوں ظاہر کرنے پر 4فیصد کی شرح سے ٹیکس ادا کرنا ہو گا ملک یا بیرون ملک موجود نقد اثاثے ظاہر کرنے پر شرط یہ ہے کہ انہیں کسی بینک اکاؤنٹ میں رکھا جائے جبکہ ریئل اسٹیٹ کے معاملے میں اس کی قیمت ایف بی آر کی مقرر کردہ قیمت سے ڈیڑھ فیصد زیادہ ہوگی تاکہ وہ مارکیٹ کی قیمت کے قریب آسکے۔ اس موقع پر ایک مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر ایف بی آر کے مطابق کسی پراپرٹی کی قیمت 10 لاکھ روپے ہے تو اسے 15 لاکھ پر سفید کیا جائے گا اور اس پر ڈیڑھ فیصد ادا کرنا پڑے گا عبدالحفیظ شیخ نے کہاکہ پاکستان سے بیرون ملک لے جائے گئے پیسوں کو اگر سفید کرنا ہے تو اسے بھی کیا جاسکے گا اور انہیں 4 فیصد دینا ہوگا اور رقم کو پاکستان میں لاکر یہاں کے بینک اکاؤنٹ میں رکھنا پڑے گا، تاہم وہ اگر پاکستان میں پیسے نہیں لانا چاہتے اور بیرون ملک ہی اسے سفید کروا کر رکھنا چاہتے ہیں تو ٹیکس کی شرح 6فی صد ہو گی انہوں نے کہا کہ موجودہ سکیم سابق سکیموں سے مختلف ہے، ملک میں بے نامی قانون منظور ہوا ہے، اس کے تحت اگر کوئی اثاثے ظاہر نہیں کرتا تو تمام اثاثے ضبط کیے جاسکتے ہیں اور لوگ جیل بھی جاسکتے ہیں، لہٰذا موجودہ سکیم میں بے نامی اکاؤنٹس اورجائیدادوں کو سفید کرنے کی مہلت دی جارہی ہے، 28ممالک میں ڈیڑھ لاکھ اکاؤنٹس کا پتہ لگا لیا گیاہے، سانچ کے قارئین کرام ! یہ بے نامی اکاؤنٹس اور جائیدادوں کو سفید کرنے کی اسکیم کس حد تک کامیاب ہوتی ہے اس کے لئے ہمیں چند ماہ کا انتظار کرنا ہوگا ٭

Muhammad Mazhar Rasheed
About the Author: Muhammad Mazhar Rasheed Read More Articles by Muhammad Mazhar Rasheed: 88 Articles with 71778 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.