قرآن کریم : پارہ14 ( رُبَمَا ) خلاصہ

رُبَمَا

رُبَمَا ‘ قرآن کریم کا چودھواں (14) پارہ ہے ۔ یہ پارہ دو سورتوں سُوْرَۃ الْحِجْرَاورسُوْرَۃ النَّحْلِپرمشتمل ہے ۔ پہلے سُوْرَۃ الْحِجْر پھر سُوْرَۃ النَّحْلِ کا خلاصہ بیان کیا جائے گا ۔ عربی کے لفظ رُبَمَا کا مطب ہے ’’کسی وقت‘‘، آیت میں یہ لفظ اس طرح استعمال ہوا ہے ’’کسی وقت کافر چاہیں گے کاش کہ وہ مسلمان ہوتے‘‘ ۔

سُوْرَۃ الْحِجْر

سُوْرَۃ الْحِجْرمکی سورۃ ہے ، قرآن میں آیات کی ترتیب کے اعتبار سے یہ15 ویں سورۃ ہے جب کہ نزو لی ترتیب میں 54 نمبر پر ہے ۔ اس میں 6رکو ، 99آیات مشتمل ہیں ۔ اس کے اساسی موضوعات میں وادیِ حجر والے ہیں ، حجر وادی مدینہ اور شام کے درمیان میں واقع ہے ، اہل حجر قوم ِثمودبھی کہلاتی ہے ۔ اس سورۃ کی پہلی آیت جو ایک سطر پر مشتمل ہے ۔

سُوْرَۃ الْحِجْر کا آغاز کافروں کی اس خواہش سے ہوتا ہے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ قیامت کے د ن جب کفار سخت عذاب کی شدت اور ہولناکی دیکھیں گے تو اس وقت ان کی یہ خواہش اور تمنا و آرزو ہوگی کہ کاش وہ مسلمان ہوتے لیکن اس وقت ان کی یہ خواہش بے سود ہوگی ۔ جواب میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا آیت 5-2 میں ’’اے نبیﷺ انہیں چھوڑ دیجئے وہ کھائیں اور پیئیں اور فائدہ اٹھائیں اور جھوٹی امید انہیں غفلت میں ڈالے رکھے پھر جلد ان کو معلوم ہوجائے گا، اور ہم نے جس بستی کو بھی ہلاک کیا ہے اس کی تباہی کے لیے لکھی میعاد مقرر تھی، کوئی امت اپنے مقرر وقت سے نہ آگے جا سکتی ہے اور نہ پیچھے‘‘ ۔ اللہ کا رسول انہیں ایمان لانے کی دعوت دیتا ہے تو وہ ان کے بارے میں نازیبا کلمات ادا کرتے ہیں یعنی مجنون اور دیوانہ کہتے ہیں اور دعوت حق کا انکار اور استہزا کا وہی رویہ اختیار کرتے ہیں جو گزشتہ قوموں کا طریقہ تھا ۔ اللہ نے قرآن کریم کی حفاظت کا ذمہّ از خود لے رکھا ہے ، جب کے پہلے نازل ہونے والی آسمانی کتب کی حفاظت ان کے حاملین کی تھی، جس کا نتیجہ سامنے ہے کہ وہ کتب انسانی دست بُرد سے محفوظ نہ رہ سکیں جب کہ قرآن کریم صدیاں گزرجانے بعد بھی ہر طرح کے تغیر و تبدل اور کمی بیشی سے پاک اور محفوظ ہے اور انشاء اللہ ہمیشہ محفوظ رہے گا ۔ دنیا میں ہر جگہ قرآن کے حافظ ، حتیٰ کہ چھوٹے بچے اور بچیاں قرآن حفظ کرلیتے ہیں ، یہ قرآن کریم کا عظیم معجزہ ہے ۔ شہاب ثاقت کا ذکر ہے فرمایا اللہ نے آیت17 میں ’’ہم نے آسمان میں ستارے بنائے اور اسے ناظرین کے لیے زینت دی، اور ہم نے انہیں ہر شیطان مردود سے محفوظ رکھا مگر جو چوری چھپے سنے تو چمکتا شہاب یعنی دہکتا شعلہ اس کا پیچھا کرتا ہے‘‘ ۔ اس کا یہ مطلب ہے ہ شیاطین آسمانوں پر چوری چھپے باتیں سننے کے لیے جاتے ہیں جن پر شہاب ثاقت (دہکتا شعلہ) ٹوٹ کر گرتے ہیں ، کچھ تو جل مرجاتے ہیں اور کچھ بچ جاتے ہیں اور بعض سن آتے ہیں ۔ اس کے بعد زمین کے پھیلانے، پہاڑوں ، مختلف اشیاء کے اگانے، معاش کے اسباب پیدا کرنے، ہوائیں ، بارش برسانے، زندگی اور موت کا ذکر ہے ۔ توحید اور کائینات کی تخلیق کے بعد اپنی مخلوق کے پیدا کرنے کا ذکر ہے فرمایا اللہ نے آی27-26 میں ’’ہم نے انسان کو سڑے گارے کی کھنکھنات مٹی سے تخلیق کیا ، جنوں کو ہم نے سخت حرارت والی آگ سے تخلیق کیا‘‘ ۔ جن کو جن اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ آنکھوں سے نظر نہیں آتے، سورحمٰن میں جنات کی تخلیق بتلائی گئی ہے ۔ جب انسان کی تخلیق عمل میں آگئی اس کہ جسم میں روح پھونک دی گئی تو اللہ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ اسے سجدہ کریں ، سب فرشتے اکھٹے سجدہ میں چلے گئے سوائے ابلیس ، اللہ نے جواب طلب کیا تو کہا ابلیس نے ’’ میں بشر کو سجدہ کروں جسے تو نے سڑے گارے کی کھنکھناتی مٹی سے پیدا کیا ۔ اللہ نے فرمایا : پھر تو یہاں سے نکل جا ، بلا شبہ تو مردود ہے ۔ اور کہاکہ بلاشبہ تجھ پر یوم جزا تک لعنت رہے گی‘‘ ۔ اس کے بعد شیطان کا اللہ سے انسان کو گمراہ کرنے کی مہلت کا ملنا شامل ہے ۔ آیت39 میں ابلیس اللہ سے کہا ’’میرے رب! مجھ کو تیرے گمراہ کرنے کے سبب یقینا میں ان لوگوں کے لیے زمین میں گناہ خوش نما بنادوں گا اور ان سب کو گمراہ کروں گا‘‘ ۔ اللہ نے اسے مہلت تو دے دی لیکن آیت 43 میں اللہ نے فرمایا ’’بے شک میرے بندوں پر تیرا کوئی زور نہیں ‘‘ ۔ شیطان مردود تجھے جو کچھ کرنا ہے تو کر لے جو میرے بندے ہیں ان پر تو تیرا کوئی داوَ نہیں چلے گا ۔ اس کے بعد اللہ نے جہنم اور اہل جہنم کے بعد جنت اور اہل جنت کا تذکرہ کیا ، مقصد جنت میں جانے کی ترغیب ہے ۔

اس کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر ہے، اس واقعہ کی تفصیل سورۃ ابراہیم میں بھی آچکی ہے ۔ یعنی انسانی شکل میں نورانی فرشتوں کا اللہ پیغام لانا، آپ کو بیٹے کی خوشخبری سنانا، جب کہ آپ کی عمر120سال تھی اور آپ کی شریک حیات بھی بوڑھی تھیں ، بظاہر یہ ممکن نہ تھا لیکن اللہ ہر بات کا اختیار اوراس کے لیے ہر چیز ممکن ہے، فرشتوں نے خوش خبری سنائی تو انہوں نے تعجب کا اظہار کیا، فرشتوں نے کہا ، آیت 55 میں ’’ہم آپ کو سچی خوشخبری سنارہے ہیں پس آپ مایوس نہ ہوں ‘‘ ۔ جوا ب میں کہا ’’اللہ کی رحمت سے مایوس ہونا تو صرف گمراہوں کا کام ہے‘‘ ۔ فرشتے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد حضرت لوط علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ا ن سے اپنے اہل و عیال کے ساتھ بستی چھوڑ کر چلے جانے کا کہا اس لیے کہ لوط کی قوم برائی میں حد سے آگے نکل گئی تھی ۔ حضرت لوط نے اپنی قوم سے کہا کہ ’’بے شک یہ لوگ میرے مہمان ہیں اس لیے تم مجھے رسوا نہ کرو اور اللہ سے ڈرو اور مجھے ذلیل نہ کرو، یہ میری قوم کی بیٹیاں ہیں ان سے نکاح کرلواگر تم کچھ کرنے والے ہو ۔ لیکن وہ رائے راست پر نہ آئے ۔ اللہ نے ان پر عذاب اور ان کے وجود سے زمین کو پاک کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا ۔ ایسا ہی ہوا ، پھر سورج نکلتے انہیں ایک چنگھاڑ نے آپکڑا ۔ آیت 74 میں کہا گیا کہ ’’پھر ہم نے اس بستی کے اوپر والے حصے کو اس کے نیچے اس کے نیچے والا حصہ کردیا اور ان پر پتھربرسائے‘‘ ۔ حضرت لوط کا یہ واقعہ بھی سابقہ سورتوں میں تفصیل سے آچکا ہے ۔ حضرت لوط کے بعد حضرت صالح علیہ السلام کاقصہ ہے ۔ حجر کے رہنے والے حضرت صالح علیہ السلام کی قوم تھی، وہ بھی ظلم اور زیادتی کی راہ پر بہت آگے نکل چکی تھی، اس کی ہدایت کے لیے اللہ نے حضرت صالح کو پیغمبر بناکر بھیجا، متعدد معجزات بھی اس قوم کو دکھائے گئے لیکن حجر والوں ( ثمود) نے رسولوں کی تکذیب کی ، اہل ثمود پہاڑوں میں رہا کرتے تھے، اللہ نے انہیں اپنی نشانیاں دیں ، لیکن وہ نہ مانیں ، پہاڑ سے اونٹنی نکلنے کا معزہ اور پھر اس اونٹنی پر اس قوم کی زیادتی، اسے ہلاک کردینا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ حجر کے باسیوں پر اللہ کا عذاب نازل ہوا اور وہ ہلاک ہوکر نشان عبرت بن گئے ۔ سورہ حجر کی آیت 87 میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’بے شک ہم نے آپ کو بار با دہرائی جانے والی سات آیات اور قرآن عظیم دیا‘‘ ۔ اس آیت میں عربی لفظ ’’سَبْعًا مِّن الْمَثَانِی ‘‘سے مراد مفسرین کے نذدیک سورہَ فاتحہ ہے جس کی سات آیتیں ہیں ور جو ہر نماز اور نماز کی ہر رکعت میں بار بار پڑھی جاتی ہے ، مثانی کے معنی بار بار دہرانے کے لیے گئے ہیں ۔ مختلف احادیث سے بھی اسی کی تائید ہوتی ہے ۔ ایک حدیث میں فرمایا رسول اللہ ﷺ نے :یہ سبع مثانی اور قرآن عظیم ہے ، صحیح البخاری کی ایک حدیث ہے ’’سورہَ فاتحہ قرآن کا ایک جز ہے ، اللہ نے فرمایا کہ ہم نے سورہ فاتحہ اور قرآن عظیم جیسی نعمتیں آپ کو عطا کی ہیں ۔ سورہ حجر کی آخری آیت میں فرمایا اللہ نے اپنے نبی رسول ﷺ سے ’’آپ اپنے رب کی حمدکی تسبیح کریں اور سجدہ گزاروں میں ہوجائیں اور آپ اپنے رب کی عبادت کریں حتیٰ کہ آپ کے پاس یقین (موت) آجائے‘‘ ۔ اس کے بعد سُوْرَۃ النَّحْل شروع ہوتی ہے ۔

سُوْرَۃ النَّحْل

سُوْرَۃ النَّحْلمکی سورۃ ہے ، قرآن میں آیات کی ترتیب کے اعتبار سے یہ16 ویں سورۃ ہے جب کہ نزو لی ترتیب میں 70 نمبر پر ہے ۔ اس میں 16رکو جب کہ 128آیات ہیں ۔ نحل شہد کی مکھی کو کہتے ہیں ۔ اس سورہ میں شہد کی مکھی کا ذکر آیا ہے اس مناسبت سے اس کا نام سورہ النحل ہے ۔ اسے ’’سورہ نعم ‘‘ بھی کہا جاتا ہے ۔ اس لیے کہ اس میں کثرت کے ساتھ اللہ کی نعمتیں مذکور ہیں ۔ اس سورۃ میں پانچ بنیادی موضوعات بیان ہوئے ہیں ان میں توحید، رسالت ،شہد کی مکھی ، جامع آیت اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تعریف ۔

سورہ کا آغاز توحید اور قرآن کریم کی عظمت سے ہوتا ہے ۔ اولین آیت میں فرمایا گیا ’’اللہ تعالیٰ کا حکم آپہنچا، اب اس کی جلدی نہ مچاوَ ۔ تمام پاکی اس کے لیے ہے وہ برتر ہے اس سب سے جنہیں یہ اللہ کے نزدیک شریک بتلاتے ہیں ‘‘ ۔ اللہ کے سو ا کوئی معبود نہیں ، فرمایا اللہ نے آیت 3 میں ،’’ لوگوں کو آگاہ کردو کہ میرے سوا اور کوئی معبود نہیں ، پس تم مجھ سے ڈرو‘‘ ۔ پھر زمین فرش اور آسمان کو چھت بنایا انسان کو نطفے سے پیدا کیا، چوپائے پیدا کیے جن سے نفع بھی ہے اور وہ اپنے مالک کے لیے فخر و جمال کا باعث بھی ہوتے ہیں ، گھوڑے، خچر، اور گدھے پیدا کیے جو بار برداری کے کام آتے ہیں اور ان میں نونق اور زینت بھی ہوتی ہے ۔ آیت 7 میں کہا گیا ’’اور ان میں سے بعض کو تم کھاتے بھی ہو، پھر کہا گیا کہ ’وہ تمہارا بوجھ اٹھا اکر ان شہروں تک لے جاتے ہیں جہاں تم جسمانی مشفت کے بغیر نہیں پہچ پاتے تھے، بے شک تمہارا رب شفقت والا ، بہت رحم کرنے والا ہے‘‘ ۔ بارش وہی پیدا کرتا ہے وہ اسی پانی سے تمہارے لیے کھیتی اگاتا ہے ، پھر اس بارش سے زیتون، کھجور ، انگور اور دوسرے بہت سارے میوہ جات اور غلے وہی پیدا کرتا ہے ۔ رات اور دن سورج اور چاند کو اسی نے انسان کی خدمت میں لگارکھا ہے ۔ دریا بھی اسی نے انسان کے بس میں کردیے ہیں کہ وہ نکالے اس میں سے تازہ گوشت (اشارہ مچھلی کی جانب ہے)، دریا سے اپنے پہننے کے یورات بھی نکال سکو، کشتیا ں پانی کو چیرتی ہوئی چلتی ہیں ، نہریں اور راہیں ،سمندر کو مسخر کردیا تاکہ تم اس میں سے تر تازہ مچھلی کا گوشت کھاوَ، بنادی ، ستاروں سے بھی لوگ راہ حاصل کرتے ہیں ،کائینات میں پیدا کی جانے والے وہ تمام اشیاء جو انسانوں کو فائدہ پہنچاتی ہیں ان کا ذکر ایک ایک کر کے کیا گیا ہے ۔ توحید ہی اصل اساس ہے جس کی بار بار دعوت دی گئی، غیر اللہ کو پکار نے سے منع کیا گیا، کہا گیا کہ وہ معبود جنہیں تم نے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے وہ کچھ پیدا نہیں کرسکتے ، وہ تو خود پیدا کردہ ہے، وہ تو مردے ہیں ، زندہ نہیں ہیں ، ان کو تو اتنا بھی نہیں معلوم کہ دوبارہ کب اٹھائے جائیں گے، اس لیے ان جھوٹے اور خود ساختہ معبودوں کو چھوڑ کر ایک اللہ کو پکارو آیت 18 میں کہا گیا ’’اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو تم اسے نہیں کرسکتے، بیشک اللہ بڑا بخشنے والا مہر بان ہے‘‘ ۔ نیک اور بد کی تفریق بیان کی گئی ہے ، اللہ کو برحق ماننے والوں لیے راحت ، فرشتوں کا سلام کرنا، شہادت دینے کاذکرہے، جب کہ برے اور نافرمانوں کے لیے فرشتوں کا ان کے ساتھ سخت سلوک کا ذکر ہے ۔ مشرکین مکہ کو تنبیہ کی گئی کہ تم سے پہلے لوگوں نے اللہ کے نبیوں کو جھٹلایا ، وقت کے نبی کی دعوت کہ اللہ کی عبادت نہ کر، ورنہ تمہار ا انجا م بھی تباہ کن ہوگا، مشرکین مکہ خصوصاً بنو تمیم کے لوگ ’بیٹی‘ کو بڑا عار سمجھتے تھے، بیٹی کی ولادت کی خوشخبری سن کر ان کے چہرے سیاہ ہوجاتے اور وہ اسے زندہ درگور کرنے کا سوچتے ، جب کہ اسلام نے بیٹی کو رحمت قرار دیا اور دوسری بدبختی ان کی یہ تھی کہ وہ فرشتوں کو اللہ کی بیٹی قرار دیتے جو کہ انتہائی جہالت اور شرک ہے ۔ جانوروں سے فائدہ اٹھانے کا ذکر ہے اور یہ بھی کہاکہ گوبر اور خون کے درمیان سے خالص میٹھا دودھ نکالتے ہیں ۔ یہ بھی اللہ ہی کی قدرت کا ایک کرشمہ ہے ۔

اللہ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت شہد بھی ہے ۔ یہ آیت تو شہد کی مکھی کے نام پرہی ہے ۔ اس میں شہیدکی مکھی اللہ کے حکم سے شہد بنانے کے سارے مرحلے کو کس طرح سر انجام دیتی ہے جس سے شہد بنتا ہے، اس میں تمام انسانوں کے لیے قدرتی شفا ہے ۔ شہد کی مکھیاں اللہ کے حکم سے حیرت انگیز کام کرتی ہیں ، انسانی عقل حیران ہے، چھتا بنانے کا عمل، مختلف ذمہ داریوں کی تقسیم، دور دراز سے درختوں ، باغات، فصلو ں ، پھولوں سے قطرہ قطرہ شہد کا حصول، ان کا ہر عمل قابل تعریف ہوتاہے، ان کے بنائے ہوئے چھتے میں بیس سے تیس ہزار تک خانے ہوتے ہیں ، یہ خانے مسدس ہوتے ہیں وار آج کے کسی جدید ترین آلہ سے اگر ان کی پیمائش کی جائے تو ان میں بال برابر بھی فرق نہیں ہوگا، پھر چھتے میں شہد کا جمع کرنے کا خانہ الگ، بچے دینے کے لیے خانہ الگ، اور فضلہ کے لیے جگہ الگ، ہزروں مکھیوں پر ایک ملکہ مکھی حکمرانی کرتی ہے ۔ اس مملکت میں اسی کی حکمرانی چلتی ہے، اسی کے حکیم سے دیگر مکھیاں اپنے اپنے کام سر انجام دیتیں ہیں ، کس نے کیا کام کرنا ہے ملکہ اسے تفویض کرتی ہے، ان میں سے بعض مکھیاں چوکیداری کا فریضہ بھی انجا م دیتی ہیں ، بعض انڈوں کی حفاظت کرتی ہیں ، بعض نابالغ اور چھوٹی مکھیوں کی دیکھ بھال، بعض چھتے کی تعمیر، تراش خراش کا کام کرتی ہیں ، شہد کی تلاش میں سرگرداں مکھیاں الگ جو اطلاع دیتی ہیں کہ فلاں جگہ سے شہد مل سکتا ہے، مکھیاں اس کے بتائے ہوئے راستہ پر جاکر آسانی سے اپنا مقصد پورا کرلیتی ہیں ۔ جس پھول سے شہد حاصل کیا جاچکا ہوتا ہے ، جو مکھی یہ کام کرتی ہے اس پھول کے باہر واضح نشانی چھوڑ دیتی ہے تاکہ کوئی دوسری مکھی بلاوجہ اس پھول سے شہدحاصل کرنے میں اپناوقت ضائع نہ کرے، اللہ کی قدرت اگر کوئی شہید کی مکھی کسی گندگی پر یا زہریلی جگہ بیٹھ جائے اور چھتے میں آئے تو چیکنگ کا کام پر مامور مکھی اسے اندر داخل ہونے نہیں دیتیں ، اللہ تعالی نے فرمایا آیت68-69 میں ’’پھر ہر قسم کے پھلوں اور پھولوں سے کھارس جوس پھر اپنے رب کی آسان کی ہوئی راہوں پر چل ، ان کے پیٹوں سے مختلف رنگوں کا شرب (شہد) نکلتا ہے او میں لوگوں کے لیے شفا ہے، پھر فرمایا کہ بے شک سوچنے والوں کے لیے اس میں نشانیاں ہیں ‘‘ ۔ انسان کی ضعیفی کا ذکر کرتے ہوئے آیت 70 میں کہا گیا کہ جب انسان طبعی عمر سے تجاوز کرجاتا ہے تو پھر اس کا حافظہ بھی کمزورہوجاتا ہے اور بعض دفعہ عقل بھی ماوَف اور وہ نادان بچے کی طرح ہوجاتا ہے ۔ یہی ارذل العمر ہے جسے نبیﷺ نے بھی پناہ مانگی ہے ۔ سورۃنحل میں وہ جامع ترین آیت بھی ہے جس کے بارے میں کہا گیا کہ قرآن کریم کی یہ آیت خیر و شر کی سب سے زیادہ جامع ہے ۔ آیت90قرآن کی جامع آیت کہی جاتی ہے جس میں تین باتوں کا حکم دیا گیا ہے اور تین باتوں سے منع کیاگیا ہے ۔ جن باتوں کا حکیم دیا گی ان میں عدل، احسان اور قرابت داروں کو دینے کا حکم ہے اور فحشاء (یعنی قول اور عمل ) منکر (ہر وہ عمل جس سے شریعت نے منع کیا ہے) اور بخی (حد سے تجاوز کرجانا جیسے تکبر، ظلم اور حسد وغیرہ) سے منع کیا گیا ہے ۔ غیب کے علم کے بارے میں آیت 77 میں کہا اللہ تعالیٰ نے فرمایا’’اور اللہ ہی کے پاس آسمانوں اور زمین کا غیب ہے، اور قیامت کا معاملہ تو بس آنکھ جھپکنے کی طرح ہے بلکہ اس سے بھی قریب تر، بے شک الہ ہر زیز پر خوب قادر ہے‘‘ ۔ انسان پیدائش کے حوالے سے آیت 78 میں کہا گیا کہ اور اللہ تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے اس حل میں نکالا کہ تم کچھ علم نہیں رکھتے تھے، اور اسی نے تمہارے کان، آنکھیں اور دل بنائے تاکہ تم شکر کرو‘‘ ۔ انسان کی ضرورت اور رہن سہن ، کھانے پینے کی تما سہولیات کا ذکر کیا گیا ۔ جس طرح جنت میں اہل ایمان کے درجات مختلف ہوں گے اسی طرح جہنم میں کفار کے عذاب میں تفوت ہوگا، جو گمراہ ہونے کے دوسروں کی گمراہی کا سبب بنے ہوں گے ان کا عذاب دوسروں کی نسبت شدید تر ہوگا ۔ اللہ کا عہد پورا کرنے کی ہدایت کی گئی ہے ۔ اللہ نے کہا آیت 97 میں جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ فنا ہوجائے گا، جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ ہمیشہ باتی رہنے والا ہے اور جن لوگوں نے صبر کی ہم ضرور انہیں ان کا اجر وثواب ان بہترین اعمال کے بدلے میں دیں گے جو وہ کرتے تھے، جس نے نیک عمل کیے، مرد ہو یا عورت ، جب کہ مومن ہو تو ہم ضرور اسے پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے ‘‘ ۔ رسول اکرم ﷺ کی زبان کے بارے میں بھی مشرکین طرح طرح کی باتیں کیا کرتے تھے ۔ اللہ نے جواب میں فرمایا کہ یہ جس آدمی یا آدمیوں کا نام لیتے ہیں وہ تو عربی زبان بھی فصاحت کے ساتھ نہیں بول سکتے جبکہ قرآن تو ایسی صاف عربی زبان میں ہے جو فصاحت و بلاغت اور اعجازِ بیان میں بے مثل ہے اور چیلنج کے باوجود اس کی مثال ایک سورت بھی بنا ر پیش نہیں کی جاسکتی، دنیا بھر کے فصحاء و بلغاء اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہیں ۔ عرب اس شخص کو عجمی (گونگا) کہتے ہیں جو فصیح و بلیغ زبان بولنے سے قاصر ہو اور غیر عربی کو بھی عجمی کہا جاتا ہے کہ عجمی زبانیں بھی فصاحت و بلاغت میں عربی زبان کا مقابلہ نہیں کرسکتیں ۔ حرام و حلال کا ذکر ہے، تبلیغ و دعوت کے اصول آیت 125 میں بیان کیے گئے ہیں ، فرمایا اللہ تعالیٰ نے ’’اے نبی ﷺ اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھے وعظ کے ساتھ دعوت دیجئے اور ان سے احسن طریقے سے بحث کیجئے‘‘ ۔ آخر میں صبر کی تلقین کرتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا ’’اے نبی ! آپ صبر کریں ، اور آپ کا صبر کرنا بھی اللہ کی توفیق سے ہے اور ان کفار پر غم نہ کھائیں اور نہ آپ اس پر تنگی میں مبتلا ہوں جو وہ مکر، سازشیں کرتے ہیں ، پھر کہا کہ بلا شبہ اللہ ان کے ساتھ ہے جنہوں نے پرہیز گاری کی اور وہ احسان کرتے ہوں ۔ (14 رمضان المبارک 1440ھ ، 20 مئی2019ء)

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 865 Articles with 1436972 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More