قرآن کریم : پارہ13 ( وَمَآ اُبَرِّیَ ُ ) خلاصہ

وَمَآ اُبَرِّیَ ُقرآن کریم کا تیرھواں (13) پارہ ہے ۔ سُوْرَۃ یُوْسُفجوسابقہ پارہ سے شروع ہوئی تھی وہ جاری رہے گی،یہاں اس سورۃ کی 59آیات کا خلاصہ بیان ہوگا ۔ پھر سُوْرَۃ الرَّعْدِ اور سُوْرَۃ اِبْرٰھِیْمَ کا مختصر خلاصہ بیان کیا جائے گا ۔

سابقہ پارہ میں سُوْرَۃیوسفکے تحت حضرت یوسف علیہ السلام کا قصہ جاری تھا، آیت 51-52 میں بتایا گیا کہ مصر کے بادشاہ نے پوچھا اپنی بیوی سے حضرت یوسف علیہ السلام کو پھسلانے کے بارے میں ، اس نے جواب دیا ’’حاشاللہ ! نہیں پائی ہم نے اُس میں ذرا بھی برائی ، بولی عزیز کی بیوی اب کھل کر سامنے آگیا ہے حق ، میں نے ہی اس کو پُھسلانے کی کوشش کی تھی (پھسلانے سے مراد غلط کام کی جانب راغب کرنے کی کوشش) اور واقع یہ ہے کہ وہ بالکل سچا ہے‘‘ ۔ آخری آیت میں اللہ نے کہا کہ ’’اللہ نہیں کامیاب ہونے دیتا کوئی چال خیانت کرنے والوں کی‘‘ ۔ جب بادشاہ ِ مصر (ریان بن ولید ) پر حضرت یوسف علیہ السلام کے علم و فضل کے ساتھ ان کے کردار کی رفعت اور پاک دامنی واضح ہوگئی تو اس نے حکم دیا انہیں میرے سامنے پیش کرو میں انہیں اپنے لیے منتخب کروں ، یعنی اپنا مصاحب اور مشیر خاص بنانا چاہتا ہوں ۔ اس پر حضرت یوسف علیہ السلام نے کہا کہ’’ مامور کردو مجھے ملک کے خزانوں پر ، بے شک میں حفاظت کرنے والا ہوں اور علم بھی رکھتا ہوں ‘‘ ۔ پھر بادشاہِ مصر حضرت یوسف علیہ السلام کا ایسا فرمابردار ہوگیا کہ جو وہ کہتے بادشاہ وہی کرتا ۔ یہ حضرت یوسف علیہ السلام کی سچائی، ثابت قدمی، نیک نیتی، ایمانداری اور سب سے بڑھ کر اللہ کی خاص عنایت تھی کہ مصر کے دربار میں جہاں انہیں قیدی بنانے کے احکامات دے کر قید کردیا گیاتھا وہ پوری حکومت کے تمام کاموں میں سیاہ و سفید کے مالک تھے ۔ اب بادشاہ کے خواب اور حضرت یوسف علیہ السلام کی تعبیر کے مطابق مصر میں خوشحالی کے بعد قحط سالی شروع ہوگی، اس قحط سالی نے پورے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، لیکن حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنی حکمت اور حسن تدبیر سے ایسے اقدامات کیے کہ غلہ کی فراوانی ہوگئی، لوگ دور دور سے غلہ کے حصول کے لیے آرہے تھے ، یہ خبر شہر کنعان (یہ وہ شہر تھا جس میں حضرت یوسف کے ماں باپ اور بھائی رہا کرتے تھے) تک بھی پہنچ گئی، چنانچہ برادران یوسف بھی غلے کے حصول کے لے دربار شاہی میں پہنچے ، جہاں حضرت یوسف علیہ السلام تشریف فرما تھے جنہیں یہ بھائی تو نہ پہچان سکے لیکن حضرت یوسف علیہ السلام نے انہیں پہچان لیا، ان سے تفصیل پوچھی تو انہوں نے سب کچھ بتا دیا ، ان بھائیوں نے ایک بھائی کے بارے میں بتایا کہ وہ جنگل میں ہلاک ہوگیا ایک سوتیلا بھائی گھر پر ہے، باقی دس بھائی ہم یہاں موجودد ہیں ،(حضرت یوسف علیہ السلا اور بنیامین سگے بھائی تھے) حضرت یوسف علیہ السلام نے ان سے کہا کہ آئندہ جب آنا تو اس بھائی کو (بنیامین) بھی لیتے آنا، یہ ان کا سوتیلہ بھائی تھ ،یہ بھی کہا یوسف علیہ السلام نے کہ اگر اسے نہ لائے تو غلہ نہیں ملے گا، آئندہ سال باپ نے بعض مجبوریوں کے باعث بنیا مین کو بھی ان بھائیوں کے ساتھ کردیا ۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں کو تاکید کی کہ تم سب ایک دروازہ سے داخل مت ہونا بلکہ الگ الگ جگہ سے اندر داخل ہونا،اس کی وجہ ایک ساتھ گیارہ بھائیوں کا ہونا ان پر نذر لگنے کی وجہ تھی، گیاروں بھائی دربار میں غلہ لینے کی غرض سے پہنچے، حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے سگے بھائی بنیامین کو پہچان لیا ، لیکن ان سے کچھ نہیں کہا، حضرت یوسف علیہ السلام کی خواہش تھی کہ اپنے بھائی کو اپنے پاس رکھیں ، کیسے، کیا ترکیب ہو، اللہ حکمت والا ہے، حضرت یوسف علیہ السلام نے سب کو غلہ دیدیا، اس وقت ایک فردکو اتنا غلہ دیا جاتا کہ وہ ایک اونٹنی پر لدا ہوتا، گویا غلہ کے ساتھ ایک اونٹ بھی دیا جایا کرت)، تاکہ ضرورت مند اپنا غلہ آسانی سے اپنے ساتھ لے جاسکیں ، اس وقت سفر کے لیے اونٹ بہترین سواری تھی، حضرت یوسف علیہ السلا ام نے ایک ترکیب یہ کی کہ بنیامین کے غلہ اور سامان اس طرح رکھا کہ اسے اس کا علم نہ ہوا، اور اس کے غلے میں اپنا ایک پیالہ بھی رکھ دیا ۔ قافلہ جانے لگا توشور ہوا کہ بادشاہ کا پیالہ چوری ہوگیا ہے، اب تلاشی لی گئی تو وہ پیالہ بنیامین کے سامان سے بر آمد ہوا ، اس وقت کے قانو ن کے مطابق چوری کرنے والے کو قید ہونا تھا، ادھر دس کے دس بھائی اس بات پر پریشان تھے کہ اب جب ہم اپنے ایک بھائی کے بغیر گھر جائیں گے تو تاریخ پھر دھراتی دکھائی دے گی، جیسا کہ ہم نے اپنے بھائی یوسف کے ساتھ کیا تھا ۔ انہوں نے بہت کوشش کی کہ بادشاہ ان کے بھائی بنیامین کی جگہ کسی دوسرے بھائی کو روک لیں لیکن حضرت یوسف علیہ السلام کا مقصد تو بنیامین کو ہی روکنا تھا ۔ بڑے بھائی نے شرط لگا دی کہ وہ اس وقت تک مصر سے نہیں جائے گا، جب تک بنیامین کو ساتھ جانے دیں یا والد صاحب یعنی حضرت یعقوب علیہ السلام اس بات کی اجاذت دیں کہ وہ بنیا مین کے بغیر واپس گھر لوٹ آئیں ،اس کی وجہ وہ شرمندگی تھی کہ وہ پہلے ایک بھائی یوسف کو اپنے ہمراہ جنگل لے گئے تھے، پھر وہ بھائی واپس نہیں آیا،اب اگر وہ بنیامین کے بغیر جاتے ہیں تو باپ کو کیا منہ دکھائیں گے ۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے بہت ہی عاجزی، انکساری،بے چارگی، منت سماجت، خوشامد درآمد ، نیاز مندی و نیاز آگہی سے التجا کی کہ وہ ہمارے بھائی کو آزاد کر کے ہم پراحسان فرمائیں ، انہوں نے اپنے باپ کے بڑھاپے ، ضعف اور بیٹے کی جدائی کے صدمے کا بھی ذکر کیا جس سے یوسف کا دل بھر آیا ، آنکھیں نم ناک ہوگئیں اور وہ انکشاف حال پر مجبور ہوگئے، تاہم بھائیوں کی زیادتیوں کے ذکر کے ساتھ ہی اخلاق کریمانہ کا بھی اظہار فرمایادیا کہ یہ کام تم نے ایسی حالت میں کیا جب تم جاہل اور نادان تھے ۔ بھائیوں نے جب عزیز مصر کی زبانی اس یوسف کا تذکرہ سنا جسے انہوں نے بچپن میں کنعان کے ایک تاریک کنویں میں پھینک دیا تھا تو وہ حیران ہوئے اور یوسف کو غور سے دیکھتے ہوئے سوچنے لگے کہ کہیں ہم سے ہم کلام کرنے والا شخص یوسف ہی تو نہیں ۔ آخر انہوں نے پوچھ ہی لیاکہ کہیں تم ہی تو یوسف نہیں ;238; حضرت یوسف علیہ السلام نے اقرار واعتراف کے ساتھ اللہ کے احسان کا ذکر اور صبر و تقویٰ کے نتاءج حسنہ بھی بیان کر کے بتلا دیا کہ تم نے میرے ساتھ جو کرنا چاہا کیا لیکن یہ اللہ تعالیٰ کا فضل و احسان ہے کہ اس نے نہ صرف یہ کہ کنویں سے نجات عطا فرمائی بلکہ مصر کی فرماں روائی بھی عطا فرکردی اور یہ نتیجہ ہے اس صبر اور تقویٰ کا جس کی توفیق اللہ تعالیٰ نے مجھے دی ۔ بھائیوں نے اپنے بھائی کہ یہ شان دیکھی تو نادم بھی ہوئے ، اپنی غلطی اور کوتاہی کا اعتراف بھی کیا ۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے بھی پیغمبرانہ عفو ودرگزر سے کام لیتے ہوئے فرمادیا کہ جو ہوا سو ہوا ۔ آج تمہیں کوئی سرزنش اور ملامت نہیں کی جائے گی ۔ آیت 93’’ میں کہا حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں سے ’’تم میری یہ قمیض لے جاوَ اور اسے میرے باپ کے چہرے پر ڈال دو وہ بینا ہو جائیں گے اور تم اپنے تمام اہل و عیال کو میرے پاس لے آوَ‘‘ ۔ پھر جب وہ قمیض یعقوب علیہ السلام کے چہرہ پر ڈالی تووہ بینا ہوگئے ۔ آیت 96 میں کہا ’’ یعقوب علیہ السلام نے: کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ بے شک میں اللہ کی طرف سے وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے ‘‘ ۔ بیٹے بھی باپ کے سامنے شرمسار ہوئے اور باپ سے معافی کے طلب گار بھی، آیت99 میں کہا گیا کہ جب وہ حضرت یوسف علیہ السلام کے پاس پہنچے تو انہوں نے اپنے ماں باپ کو اپنے پاس جگہ دی اور کہا تم مصر میں داخل ہوجاوَ ، اور اس نے اپنے ماں باپ کو تخت پر اونچا بٹھایا سب اس کے شکر گزار ہوئے ۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے کہا اے میرے ابا جان ! یہ میرے پہلے خواب کی تعبیر ہے، میرے رب نے اسے سچا کردیا ہے،انہوں نے اللہ سے دعا کی آیت 101 میں اس طرح ’’اے میرے رب! تو نے مجھے کچھ حکومت دی ہے اور مجھے خوابوں کی تعبیر سکھائی ، اے آسمان والے ! توہی دنیا اور آخرت میں میرا کارساز ہے ، تو مجھے اسلام پر موت دے صالحین کے ساتھ ‘‘ ۔ یہ بھی اخلاق کریمانا کا ایک نمونہ ہے کہ بھائیوں کو ذرا مورد الزام نہیں ٹہرایا اور شیطان کو اس کارستانی کا باعث قرار دیا ۔ ان واقعات کے ذکر سے اللہ تعالیٰ پچھلے واقعات سے آگاہ فرمارہا ہے تاکہ لوگ ان سے عبرت پکڑیں اور پیغمبروں کا راستہ اختیار کر کے نجاب ابدی کے مستحق بن جائیں ۔ سورہ یوسف کی آخری آیت111 میں فرمایا اللہ تعالیٰ نے ’’یقینا ان قصوں میں عقل والوں کے لیے عبرت ہے ، یہ قرآن گھڑی ہوئی کتات نہیں بلکہ اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق اور ہر چیز کی تفصیل ہے اور ایمان لانے والوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے‘‘ ۔

سُوْرَۃُ الرَّعْد

سُوْرَۃُ الرَّعْد مدنی سورۃ ہے ، قرآن میں آیات کی ترتیب کے اعتبار سے یہ 13 ویں سورۃ ہے جب کہ نزو لی ترتیب میں 96 نمبر پر ہے ۔ یہ سورۃ میں 6رکو جب کہ 43آیات ہیں ، رعد سے مراد ہے گرج، اسی منابت سے اس سُوْرَۃُ الرَّعْد کہا گیا ۔ اس کے اساسی موضوعات میں قرآن کی حقانیت، توحید، رسالت، قیامت اور متقین کی آٹھ صفات اور اشقیاء کی تین علامات شامل ہیں ۔

سُوْرَۃُ الرَّعْدکی ابتداء حروفِ مقطعات سے ہوئی ہے، پھر کہا گیا یہ آیات ہیں کتاب الٰہی کی اور جوکچھ نازل کیا گیا تمہارے رب کی طرف سے عین حق ہے‘‘ ۔ فرمایا ’’یہ اللہ ہی ہے کہ جس نے بلند کیا آسمانوں کو بغیر ستونوں کے جیسا کہ تم دیکھتے ہو پھر وہ جلوہ فرماہوا اپنے تختِ سلطنت پر اور پابند بنایا اس نے ایک قانون کا آفتاب و مہتاب کو ، ہر ایک چل رہا ہے ایک وقت مقررہ تک کے لیے ہر کام کی تدبیر وہی کررہا ہے، کھول کھول کر بیان کرتا ہے نشانیاں ، شاید کہ تم رب سے ملاقات کا یقین کر لو‘‘، اس کے بعد کہا کہ ’’اور وہی ہے جس نے پھیلا یا زمین کو اور گاڑ رکھے ہے اس میں پہاڑوں کے لنگر اور جاری کردیے دریا اور پیدا کیے ہر طرح کے پھلوں ،پیدا کیے اس زمین میں جوڑے قسم قسم کے، ڈھانپتا ہے وہ رات کو دن پر بے شک اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرتے ہیں ‘‘ ۔ گویا یہاں اللہ کے وجود اور اس کی وحدانیت کا بیان ہے ، مکمل کائینات اس مالک کی پیدا کردہ ہے، جس نے اس کائینات کو مختلف چیزوں سے مزین کیا ہے جیسے آسمان، زمین، چاند ، ستارے، سورج، دن، رات، کھانے پینے کی بے شمار نعمتیں ، پہاڑ، دریایہاں تک کے موت اور زندگی کا وہی مالک ہے ۔ کہا گیا کہ کائینات کا نظام قیامت کی حقیقت ثابت کرتا ہے ۔ مشرکین جو اللہ کو کائینات کا خالق تو مانتے تھے لیکن مرنے کے بعد دوباہ زندہ ہونے کے انکاری تھے ، آیت 5 میں فرمایا اللہ نے ’’تعجب کے قابل ہے یہ بات کہ جب ہوجائیں گے ہم مٹی تو کیا ہم پیدا کیے جائیں گے از سرِنو;238; یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے کفر کیا اپنے رب کے ساتھ اور یہی لوگ ہیں کہ پڑے ہوں گے طوق ان کی گردنوں میں اور یہ لوگ جہنمی ہیں ، یہ اس میں ہمیشہ رہیں گے‘‘ ۔ خالقِ کائینات نے انسانوں کی حفاظت کے لیے فرشتے مقرر کر رکھے ہیں ۔

متقیوں اور اہل ایمان کی آٹھ صفات آیت24-20 میں یہ بیان کی گئیں ہیں ۔ ان میں وفاداری، اللہ کے عہد کو پورا کرتے ہیں اور عہد شکنی کے مرتکب نہیں ہوتے، صلہ رحمی ، جن رشتوں کو اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا انہیں جوڑے رکھتے ہیں ، اپنے رب سے ڈرتے ہیں یعنی خوف خدا ان کے دل میں ہوتا ہے، آخرت کا خوف رکھتے ہیں ، اللہ کی رضا کے لیے صبر کرتے ہیں ، نماز کی پابندی کرتے ہیں ، صدقہ خیرات کرتے ہیں ، برائی کا جواب بھلائی اور اچھائی سے دیتے ہیں ۔ اس کے مقابلے میں اشقیاء کی تین نمایاں علامات میں ’اللہ کے عہد کو توڑتے ہیں ، اللہ نے جن رشتوں کو باقی رکھنے کا حکم دیا ہے وہ انہیں ختم کرتے ہیں اور وہ زمین میں فساد پھیلاتے ہیں ۔ مشرکین آپﷺ کے بارے میں کہتے ،کہ یہ کیسے رسول ہیں کہ ا ن کی بیویاں ہیں اور یہ شادی بھی کرتے ہیں ، تو ان کو اللہ تعالیٰ نے جواب دیا کہ آپ ﷺ سے پہلے جتنے رسول آئے وہ سب بشر تھے سب کی بیویاں اور اولادتھی پھر کافرو کو تنبیہ کی گئی کہ وہ سنبھل جائیں ورنہ ان کے لیے برا وقت آکر رہے گا ۔ سورہ رعد کے آخری آیات میں اللہ نے عرب کی سرزمین میں مشرکین پر بتدریج تنگ ہونے اور اسلام کو غلبہ و عروج حاصل ہونے کی بات کی ہے ۔ آخر میں کہا ’’آپ کہہ دیجئے : میرے اور تمہارے درمیان اللہ ہی گواہ کافی ہے، اوروہ شخص بھی جس کے پاس کتاب کا علم ہے‘‘ ۔

سُوْرَۃُ اِبْرٰھِیمْ

سُوْرَۃُ اِبْرٰھِیمْ مکی سورۃ ہے ، قرآن میں آیات کی ترتیب کے اعتبار سے یہ14 ویں سورۃ ہے جب کہ نزو لی ترتیب میں 72 نمبر پر ہے ۔ یہ سورۃ7رکو جب کہ52آیات پر مشتمل ہے ۔ اس سورۃ میں حضرت ابراہیم علیہ السلا م کا ذکر ہے اس مناسبت سے اس کا نام سُوْرَۃُ اِبْرٰھِیمْ ہے ۔ سورۃ کی ابتداء حروفِ مقطعات سے ہوئی ہے ۔ عام طور پر جن سورتوں کا آ غاز حروف مقطعات سے ہوتا ہے اس سورۃ کے ابتدا ء میں قرآن کی حقانیت کا بیان ہوتا ہے اور کافروں کے لیے مشکل حالات اور عذاب نازل ہونے کی باتیں ہوتی ہیں ۔ سُوْرَۃُ اِبْرٰھِیمْ میں بھی توحید ، رسالت قیامت اور کچھ دعائیں بیان کی گئی ہیں ۔ ابتدائی آیت میں فرمایا اللہ نے ’’ یہ ایک کتا ب ہے جسے نازل کیا ہے ہم نے تمہاری طرف تاکہ نکالوتم انسانوں کو تاریکیوں سے روشنی کی طرف، اُن کے رب کی توفیق سے، اس کے راستے کی طرف جو زبردست ہے اور نہایت قابل تعریف ہے ۔ اللہ مالک ہے ہر اس چیز کا جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے اور تباہی ہے کافروں کے لیے سخت عذاب کی وجہ سے ‘‘ ۔ انبیا ء بھیجنے کا تذکرہ کرتے ہوئے موسیٰ علیہ السلام کواپنی نشانیاں دے کر بھیجنے کا کہا تاکہ وہ اپنی قوم کو تاریکیوں سے نکالیں روشنی کی جانب، اور انہیں تاریخ کے سبق آموز واقعات یاد دلائے گئے ہیں ۔ لیکن موسیٰ کی قوم نے نافرمانی کی ۔ ، اسی طرح سابقہ

قوموں کے بارے میں اللہ نے آیت9 میں یاد دلایا، ’’کیاتمہارے پاس تم سے پہلے لوگوں کی خبریں نہیں آئیں جن میں قوم نوح، عاد ، ثموداور ان دیگر جنہیں سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کوئی نہیں جانتا تھا ان کے پاس ان کے رسول معجزے لائے لیکن انہوں نے اپنے ہاتھ منہ میں دبا لیے اور صاف کہہ دیا کہ جو کچھ تمہیں دے کر بھیجا گیا ہے ہم اس کے منکر ہیں اور جس چیز کی طرف تم ہ میں بلارہے ہوہ میں تو اس میں بڑا بھاری شبہ ہے‘‘ ۔ کافروں اور مشرکین نے ہر دور میں اللہ کے بھیجے ہوئے رسولوں کی مخالفت کی، ان کی باتیں ماننے سے انکار کیا ، طرح طرح کی دھمکیاں دیں ، یہ بھی کہا کہ ہم انہی ملک بدر کردیں گے یا پھر وہ اپنے پرانے مذہب میں واپس لوٹ آئیں ۔ اس پر اللہ نے آیت 13نازل فرمائی جس میں کہا گیا کہ ’’ہم ان ظالموں کو ہی غارت کردیں گے‘‘ ۔ قیامت کے دن کا ذکر ہے ، فرمایا اللہ اس پر قادر ہے کہ وہ تمہیں ہلاک کر کے ، تمہیں تمہاری جگہ نئی مخلوق پیدا کردے، یہ بات اللہ نے دیگر سورتوں جیسے سورۃ فاطر، سورہ محمد ، سورہ المائدہ میں بھی بیان کی ہے ۔ یعنی سب میدان محشر میں اللہ کے رو برو ہوں گے، کوئی کہیں چھپ نہ سکے گا ۔ اس کے ساتھ ہی تمام ایمان لانے اور نیک عمل کرنے والوں کو جنت میں داخل کرنے کی بشارت بھی دی ۔ اللہ نے پاکیزہ بات کی مثال ایک پاکیزہ درخت جس کی جڑ مضبوط ، جس کی ٹہنیاں آسمان میں ہیں ، جو پھل دار ہے سے دی جب کہ ناپاک بات کی مثال گندے درخت سے دی جوزمین کے کچھ ہی اوپر سے اکھاڑ دیا جاتا ہے ۔

حضرت ابراہیم علیہ السلا کی دعا کا ذکر ہے ۔ ابراہیم علیہ السلام نے اللہ سے شہر (شہر سے مراد مکہ المکرمہ ہے) کو امن والا بنانے ، اولاد کو بت پرستی سے پناہ دینے، اپنی تابعداری کرنے والا بنانے، یہی نہیں بلکہ حضرت ابرہیم علیہ السلام نے نافرمانی کرنے والوں کو معاف کرنے کی دعا بھی کی ۔ اپنی بخشش، اپنے والدین کی بخشش ، دیگر مومنوں کی بخشش کی دعا کی، اس کے بعد حضرت ابرہیم نے اللہ سے فرمایا کہ میں نے اپنی کچھ اولاد اس بے کھیتی کی وادی میں تیرے حرمت والے گھر (خانہ کعبہ کے ارد گرد) کے پاس بسائی ہے ۔ اے پرور دگار یہ اس لیے کہ وہ نماز قائم کریں ، انہیں پھلوں کی روزیاں عنایت فرما ‘‘ ۔ حضرت ابرہیم علیہ السلام کے آٹھ صلبی بیٹے تھے ، جن میں سے صرف حضرت اسماعیل علیہ السلا کو مکہ المکرمہ میں بسایا تھا ۔ پھر آیت 39 میں کہا کہ ’’اللہ ہے جس نے مجھے بڑھاپے میں اسماعیل اور اسحاق علیہما السلام عطا فرمائے ‘‘ ۔ آخر میں روز قیامت کاحا ل بیان کیا گیا ہے ۔ سورۃ ابراہیم کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس کا آغاز کلام مجید کی عظمت سے ہوا اور اس کا اختتام بھی اس کے مقصد نزول سے ہوا، سورۃ52 جو پارہ 13کی آخری سورۃ بھی ہے میں کہا گیا کہ ’’یہ قرآن تمام لوگوں کے لیے ایک پیغام ہے تاکہ اس کے ذریعہ سے وہ ہوشیار ہوجائیں اور بخوبی جان لیں کہ بے شک اللہ ہی معبودِ واحد ہے ، تاکہ عقل مند نصیحت حاصل کریں ‘‘ ۔ (13 رمضان المبارک 1440ھ،19مئی2019ء)
 

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 865 Articles with 1437124 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More