کوئی پین پنسل ہے تو کسی جگہ لکھ لیجئے کہ امریکہ اور
ایران کی لڑائی کبھی نہیں ہو گی کیوں نہیں ہو گی یہ آدھی دنیا کو پتہ ہے
اور باقی آدھی کو بتانے کی کوشش کر رہا ہوں۔اﷲ جنت بخشے جنرل حمید گل کو
کہا کرتے تھے ایران بہانہ ہے افغانستان ٹھکانہ ہے اور پاکستان نشانہ
ہے۔مجھے اس بات پر مدت سے یقین ہے ہم تو ویسے ہی جھلے بنے رہتے ہیں کہ
ایران ہمارا ہمسایہ ہے برادر ملک ہے ۔برادر تو ہو گا لیکن برادر یوسف کہہ
لیجئے کہ بھائی کو جنگل میں چھوڑ والد کو روتے روتے کہنے آ گئے کہ یوسف ہم
سے بچھڑ گیا۔کنویں میں پھینکے گئے حضرت یوسف پر اﷲ کا کرم تھا جس نے اسے
بچا لیا ۔جب قصہ ء یوسف پڑھتا ہوں تو سوچتا ہوں پاکستان کو برادران سے جو
کچھ ملا اسے معاشی کنویں میں پھینک دیا لیکن اﷲ پر بھروسہ ہے کہ کوئی قافلہ
رکے گا اور اسے باہر نکال لے گا۔میرے نزدیک وہ قافلہ پاکستان کے وہ کروڑ سے
زائد پاکستانی ہیں جو ملک سے باہر رہ رہے ہیں جنہوں نے ہر مشکل وقت میں
ساتھ دے کر اس کا ساتھ دیا۔
میرے ایک دوست نے میری پوسٹ پر لکھا کہ قوم نے تو قرض اتارو ملک سنوارو پر
بھی ساتھ دیا تھا اور ایک سکھی دوست جو امریکہ میں ہوتے ہیں ان کا کہنا تھا
کہ افتخار صاحب ڈالر ریال درہم بینک کے ذریعے منگوانے کی اپیل کیوں کرتے ہو
حکمران کھا جائیں گے۔ان بھولے بادشاہوں کو کون سمجھائے کہ فرق پہلے اور
موجودہ حکمرانوں کا ہے۔اپنے ایک دوست احمد جواد ہیں انہوں نے بھی اپنے کالم
میں لکھا کہ فرق گورننس کا ہے۔دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیجئے کہ کیا اسحق
ڈار اور اسد عمر ایک جیسے تھے یا جو آئی ایم ایفی بھائی ہیں کیا یہ
پاکستانی رقوم کو کھا جائیں گے؟نہیں حضور ایسا ممکن نہیں گرچہ ہم سمجھتے
ہیں کہ پاکستان کے ساتھ ہاتھ ہوا ہے اور اس فراڈ میں عمران خان کی ٹیم کا
کوئی قصور نہیں۔میرا بیٹا نوید کہہ رہا تھا کہ ہم نے آئی ایم ایف کے پاس
جانا ہی تھا تو پہلے چلے جاتے اس کا جواب بھی سن لیں کہ گزشتہ ایک سال میں
جو کوششیں کی گئیں اور جو رقوم دوستوں سے لی گئیں ان کا حجم موجودہ طلب سے
کہیں کم ہے۔آئی ایم ایف کے پاس اگر نو ماہ پہلے جایا جاتا تو شائد ہم اس
مطلوبہ رقم سے تین گنا کے لئے جاتے۔
ایرانی اور امریکی لڑائی کو نورا کشتی سمجھئے خطے میں ٹرمپ اگر کوئی بیڑہ
بھیجے گا تو اس کے کئی اور احداف ہوں گے۔مجھے یہ کہتے ہوئے ججھک ہوتی ہے کہ
میں ایران کے بارے میں کہہ رہا ہوں جس کے چاہنے والے میرے دائیں بائیں ہیں
لیکن سچی بات تو کرنا ہی ہو گی۔ہمیں جتنا دکھ ہندوستان نے دیا ہے اس سے کچھ
کم یا کچھ زیادہ افغانستان اور ایران نے بھی دیا ہے۔ہم رسم دنیا نبھانے کے
لئے جتنا مرضی اعتراف کرتے رہیں کہ دہشت گردی دونوں جانب سے ہوتی آئی ہے
۔کبھی دونوں ملک بیٹھ کر لاشوں کا حساب کر لیں تو پتہ چل جائے گا کہ غم اور
دکھ کس کے بھارے ہیں ۔ضیاء الحق دور میں آئے روز خود کش اور بم دھماکے ہوتے
رہے اس میں کون شامل تھا۔ایران نے اپنے پنجے گاڑ رکھے تھے اﷲ کا کرم ہوا
پاک فوج نے ہر قسم کی دہشت گردی پر قابو پایا ورنہ ہمارے شہر کس قدر
ہولناکیوں کا شکار ہوئے یہ سب کو پتہ پے۔
گلگت پارہ چنار راولپنڈی لاہور کراچی کون کون سے شہر تھے جو آئے روز خون
میں نہ نہائے ہوں۔بلوچستان میں دہشت گردی کی وارداتٰیں کون کراتا رہا۔کل
بھوشن کہاں سے ڈوریں ہلاتا رہا۔سمجھتے سب ہیں کہتا کوئی نہیں۔
پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ چاروں طرف سے دشمنوں میں گھرا ہوا ہے انڈیا
جیسا مکار دشمن افغانستان میں کٹھ پتلی حکمران ایران کے اندر سے لوگ
پاکستان کی داڑھی نوچتے آئے ہیں۔برادر ملک کی اسمبلیوں میں بیٹھے یہودی کیا
ہمیں سکون سے بیٹھنے دیں اصفہاں میں آباد ہزاروں یہودی ہمارے خیر خوا ہوں
گے اور اس کے علاوہ کیا امریکہ ان یہودیوں کو تہس نہس کرنے آئے گا۔ویسے بھی
یہ بحری بیڑے ہمارے کسی کام کے نہیں ہوتے ڈھاکہ فال ہو چکا تھا ہمیں یہ
ڈھارس بندھائی گئی کے ساتواں بحری بیڑہ آ رہا ہے ہم چشم تصور میں اس بیڑے
کی سپیڈ بڑھانے کے لئے گجرانوالے کے محلے باغبانپورے کے ایک احاطے کے مکان
میں منجی پر لیٹے ایکسیلیٹر دباتے تھے کہ وہ جلد از پہنچے اور ہمیں چھڑا
لے۔
کٹ پھنڈ ہمارے مقدر میں لکھ دی گئی ہے۔ہمیں معاشی شکنجے میں کسنے کی کوشش
کی جا رہی ہے۔روپے کی قیمت ڈیڑھ سو کے بدلے ایک ڈالر تک پہنچنے والی ہے۔لوگ
ہمارا تقابل افغانستان ،انڈیا نیپال کی کرنسی سے کر رہے ہیں ۔لیکن افسوس
غیرت و حمیت کا کوئی پیمانہ نہیں جس سے ہمیں دیکھا جائے اور بھانپہ جائے۔دل
پر ہاتھ رکھ کر کہو دوستو کیا ہمارا سماجی مقام ایک بنگلہ دیشی،ایک
نیپالی،ایک ہندی کے برابر ہے؟سوال ہی پیدا نہیں ہوتا جدہ میں رہتے ہوئے جو
نوکر ہم نے رکھے گاڑی دھونے والا بنگالی،گھر میں کام کرنے والی نوکرانی
انڈین نیپالی تو کہیں دور دور تک ہمیں نہیں پہنچ سکتا۔کوئی بات نہیں جب
روپیہ پونے تین کا تھا اس وقت بھی ہمارا سماجی مرتبہ اونچا تھا اور اب
چالیس کا ہے تو پھر بھی۔
جدہ کے عزیزیہ محلے میں پاکستانیوں کے گھر اور گاڑیاں لباس اور اٹھک بیٹھک
دیکھ لینا اور سڑک کے اس پار دفاع المدنی کی بلڈنگ کے پیچھے انڈیں علاقے
میں ہندوستانیوں کی بود و باش رہن سہن دیکھنا
قوم کو اس قدر پریشان کر کے رکھ دیا ہے جیسے دنیا میں مقام و مرتبے صرف
روپے کی قیمت سے طے ہوتے ہیں۔ٹماٹر پیاز پچھلے سال سے سستے ہیں فکر کھائے
جا رہی ہے روپیہ سستا ہو گیا۔با با جتنے امپورٹ آرڈر فیصل آبادیوں کو ملے
ہیں وہ انکاری ہیں اس لئے کہ ٹیکسٹائل شریفی دور میں بنگلہ دیش چلی گئی تھی
اﷲ وہ دن لانے والا ہے وہ بھی واپس ہو گی۔بیس سالوں میں پہلی بار ہوا ہے یو
پی ایس بک رہے ہیں جنریٹروں کا کاروبار ٹھپ ہے۔
ہاں تکلیف یہ ہے کہ ہم نے دنیا کے چودھریوں کی آنکھ میں آنکھ ڈالی ہے بم
بنایا ہے غوری پاس ہے جے ایف تھنڈر بنایا ہے ۔کھاتے تگڑا ہیں پہنتے اچھا
ہیں گاڑی اچھی رکھتے ہیں خیرات سب سے زیادہ دیتے ہیں فقیروں کے لئے گاڑی
میں الگ سے اب دس کی بجائے بیس کا نوٹ رکھتے ہیں تو پھر کسی سے کم کیوں کہا
جائے۔
ایران جانے اور پاکستان جانے ہم نے جو لڑائی لرنی ہے اس کے لئے ہمارے پاس
دنیا کی بہترین فوج ہے یہ کوئی خرم شہر نہیں جو تینتیس مرتبہ عراق کے قبضے
کے بعد ایران کے پاس رہا اﷲ نہ کرے ہماری کوئی دشمن بغلیں مونڈھنے سے اگر
باز نہ آیا تو مونڈھ کے رکھ دیں گے۔
دنیا کو ڈر یہ ہے کہ ایٹمی صلاحیتوں رکھنے والے اس ملک سے کیسے نپٹا جائے
بڑی کوشش کرلی کہ فوج اور عوام کی لڑائی کی جائے بڑے پشتین، سلیم لفافی
زامد میر آئے اور فوج کے خلاف نفرت پھیلانے کی کوشش کی لاہوری گنجوں کی
جوڑی نے بھی کوشش کی مگر اﷲ کے کرم سے اس فوج کو عراق،شام کی فوج نہ بنایا
جا سکا۔
کہتے ہیں غیرت اور حمیت کی دولت پاس ہو تو کوئی مائی کا لعل خودار اور با
حمیت کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔
کر لو بدمعاشیاں چھیڑ لو پاکستان کو اس ملک نے وہ چوہے بار بار دیکھے ہیں
جو لسانیت کے نام پر چھیڑ خانیاں کرتے تھے،کیا حال تھا سوات کا فاٹا کا
،مالم جبہ کاکراچی میں ہوائیں سرکتی تھیں جب کوئی موٹر بائیک آ کر سر پے
کھڑا ہوتا تھا کدھر ہے وہ سانڈھ جس کی آواز کھوتے کی آواز سے بھی بری
تھی۔جو آئے روز بڑھکیں مارا کرتا تھا ہمیں پریشانی کس بات کی ہماری فوج جاگ
رہی ہے ہم اس کے پشتیبان ہیں۔ہمیں ڈر کس کا۔یہ چھیڑ خانیاں بند کریں۔
میں اندر کی بات بتا رہا ہوں ان ڈالر کے ذخیرہ اندوزوں کے جنہوں نے گھروں
میں ڈالر چھپا رکھے ہیں ۔تمہیں خبر بھی نہ ہو گی تو یہ ڈالر آپ کے گلے کا
پھندہ بن جائیں گے۔وقت ہے انہیں مارکیٹ میں لاؤ۔ملک سے ڈالر اچھے ہیں؟سوچ
لیجئے جواری ہر وقت نہیں جیت سکتا اور ہر بار وہ کامیاب نہیں ہوتا ۔میں نے
آپ نے نے زندگی میں جھولی جھاڑتے ہوئے جواریوں کو دیکھا ہے۔سعودی عرب اور
مڈل ایسٹ کے پاکستانیو آپ سے میرا ربع صدی سے زیادہ کا رشتہ ہے۔اس عید پر
ڈالروں کے انبار لگا دو۔گھر بھیجو۔وہ لوگ جنہوں نے مال پانی دبئی میں لگا
رکھا ہے ان سے گزارش ہے یہ وقت ہے پاکستان کی مدد کرنے آگے آئیں۔یہ بھی
سننے میں آ رہا ہے کہ پھر محب وطن مقیم پاکستانیوں سے ان لوگوں کی جائدادوں
کی بابت پوچھا جائے گا جنہوں نے چھپا رکھی ہیں۔بیسیوں کا تو مجھے علم ہے
۔پھر پی ٹی آئی نے اگر یہ کام کیا تو مشکل بن جائے گی۔قوم کا ساتھ دیں
پاکستان کا ساتھ دیں عمران خان کو کامیاب کریں اﷲ نے کیا اچھے دن ضرور آئیں
گے۔ہمیں چاروں طرف نظر رکھنی ہے۔اس پراپوگینڈے میں نہ آئیں کہ کرنسی گرنے
سے ہم گر گئے ہیں۔
نواز شریف اور زرداری منی چینجر کے ذریعے پاکستان کے لوگوں کا گلا گھونپنے
کی مکروہ جسارت کر رہے ہیں کرنے دیں آخر کب تک۔
ایران کی جانب بڑھتے ہوئے بیڑے پر بغلیں نہ بجائیں۔اپنی فوج کا ساتھ دیں
غیرت اور حمیت سے جینے والے کبھی مشکلات سے نہیں ڈرتے۔جس کا ایمان اﷲ پے ہو
اسے ڈر کاہے کا۔
|