بک ریویو
کتاب کا نام - پاکستانی صحافت کے 24ایڈیٹرز مصنف ضیا شاہد
صفحات 211 قیمت 900/- روپے
پبلشرو ملنے کا پتہ قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل ‘ یثرب کالونی ‘ بینک سٹاف
والٹن روڈ لاہور کینٹ
موبائل نمبر 0300-0515101 ای میل qalamfoundation3@gamil .com
ضیا شاہدصحافتی شعبے میں ایک معتبر نام ہیں ۔ وہ بات چھپ کر یا ڈھکے چھپے
انداز میں کہنے کی بجائے کھل کر بات کرنے کے عادی ہیں ۔ اﷲ تعالی نے انہیں
اتنا حوصلہ دے رکھا کہ وہ حکمرانوں کے سامنے بھی حق بات کہنے سے نہیں
گبھراتے ۔اخبارات و رسائل میں کام کرنے کا وسیع تجربات رکھتے ہیں جبکہ ان
کی کتابوں کی تعداد بھی اب ماشااﷲ ایک درجن سے زاہد ہوچکی ہے ۔ آپ کی مقبول
ترین کتابوں میں ‘ امی جان ‘ گاندھی کے چیلے ‘ سچا اور کھرا لیڈر ‘ باتیں
سیاست دانوں کی ‘نواز شریف میرا دوست ‘ ہنستا کھیلتا عدنان ‘ شامل ہیں ۔ ہر
کتاب پہلی کتابوں سے منفرد اور مواد کے اعتبار سے بہترین تصور کی جاتی ہے ۔
وہ 1945ء میں گڑھی یاسین ضلع شکار پور سندھ میں پیدا ہوئے جہاں ان کے والد
(جان محمد ) اس وقت تحصیل دار کے عہدے پر فائز تھے ۔ والد کے انتقال کے بعد
آپ خاندان کے ہمراہ اپنے آبائی گاؤں جھگیاں عیسی ضلع جالندھر میں جابسے
۔1947ء میں وہاں سے ہجرت کرکے ضلع بہاولنگر میں قیام پذیر ہوئے جہاں ان کے
نانا پہلے سے رہائش پذیر تھے ۔تعلیمی مراحل بہاولنگر ‘ ملتان اور لاہور میں
طے کیے ۔راستے میں حائل ہر ٹھوکر کو اپنے پاؤں کی ٹھوکر سے دور کیا اور
صحافت میں قدم رکھ دیا ۔ ابتدائی ملازمت تو نعیم صدیقی کی ادارت میں شائع
ہونے والے ادبی مجلے" سیارہ" میں کی -بعد ازاں اردو ڈائجسٹ کوبطور مترجم
جائن کیاسات سال وہاں کام کرنے کے بعد آپ مختلف اداروں سے ہوتے ہوئے
روزنامہ جنگ ‘ پہنچے ‘پھریہیں سے اکبر علی بھٹی کی ادارت میں شائع ہونے
والے نئے اخبار "روزنامہ پاکستان "میں بطور ایڈیٹر شامل ہوئے ۔اختلافات کے
بنا کر روزنامہ پاکستان کو خیر باد کہہ کر اپنا اخبار "روزنامہ خبریں"لاہور
سے نکالا جو ا ب بھی پوری آب و تاب کے ساتھ صحافتی آسمان پر درخشاں ستارے
کی حیثیت سے چمک دمک رہا ہے ۔
زیرنظر کتاب میں 24ایڈیٹر (جو مختلف اخبارات و رسائل میں ادارتی ذمہ داریاں
نبھاتے رہے ہیں )کے تفصیلی انٹرویو ز شامل ہیں ان میں عبدالقادر حسن ‘ شورش
ملک ‘ عارف نظامی ‘ نصراﷲ خان ‘ مجیب الرحمن شامی ‘ سعادت خیالی ‘ حمید
اختر ‘ ظہیر کاشمیری ‘ خالد احمد ‘ منو بھائی ‘ عطا الحق قاسمی ‘ مسعود
شورش ‘ شریف فاروق ‘ جمیل اطہر ‘ رفیق ڈوگر ‘ اسداﷲ غالب ‘ ظہور نیازی ‘
مسعود اشعر ‘ ایچ کے برکی ‘ نسیم احمد ‘ سید ضمیر جعفری‘ میر صاحب (
کارٹونسٹ) ‘ جاوید اقبال ( کارٹونسٹ)اور مصنف کتاب ضیا شاہد شامل ہیں ۔
مجیب الرحمان شامی پراظہار خیال کرنے سے پہلے ضیا شاہد کا یہ فقرہ بہت معنی
خیز ہے کہ شامی صاحب پر لکھنا میرے لیے شام کے وقت سورج ڈھونڈنے کے مترادف
ہے کیونکہ میرا اس قدر اختلاف کسی سے نہیں جتنا شامی صاحب سے ہے لیکن کیا
کروں اتنا اتفاق بھی تو کسی کے ساتھ نہیں جتنا شامی صاحب کے ساتھ ہے ۔ خالص
پن اور خلوص شامی صاحب کے اجزائے ترکیبی میں سے دو انتہائی اہم جزو ہیں وہ
اپنی سوچ ‘ فکر ‘نظریئے یا نقطہ نظر کے بارے میں خطرناک حد تک خالص ہیں ۔
سونے سے زیور بنانے کے لیے تھوڑی سی ملاوٹ مجبوری ہوتی ہے لیکن شامی صاحب
اتنا خالص سونا ہیں کہ ان کا زیور نہیں بنایا جا سکتا ۔آپ انہیں سونے کی
کان کہہ لیں لیکن انہیں کان کا جھمکا ماتھے کا جھومر ‘ ہاتھ کا کنگن یاپاؤں
کی پازیب نہیں کہہ سکتے ۔اس ملاوٹی دورمیں شامی صاحب نے اپنے خالص پن کی
خوب حفاظت کی ہے ۔
جسے حق سمجھا ‘یا ضیاء الحق سمجھا اس کے لیے ہر حدود سے گزر گئے جسے ناحق
سمجھا اسکے خلاف پوری طاقت سے ڈٹ گئے ۔ بھٹو دور میں جبکہ ڈیکلریشن پر
ڈیکلریشن منسوخ ہورہے تھے میں مخالف کیمپ کا قلم بردار تھا ۔بے روزگار ہوا
تو یہ برادرم شامی صاحب ہی تھے جنہوں نے کہا میرے ہفت روزہ کے اگلے صفحے
تمہارے ہوئے ۔ میں نے اختلاف کیاتو اپنی طرف سے فٹ نوٹ لگا کر من و عن چھاپ
دیا بالاخر مجھے ریکارڈ پر لانا پڑ ا کہ مجھ میں اور شامی صاحب میں سے ایک
صلاح الدین ایوبی اور دوسرا رچرڈ شیردل ہے ۔ آج اسی صلاح الدین ایوبی یا
رچرڈ شیر دل کی کہانی سنیئے۔موصوف ہوشیار پور کے قریبی گاؤں شام چوراسی میں
پیدا ہوئے۔ وہاں ایک مزار شیخ عبدالغنی شامی کا بھی تھا جو مغلوں کے آخری
دورمیں کھتر ی سے مسلمان ہوئے ۔گلستان بوستان پڑھ رہے تھے کہ کہیں ذکر رسول
ﷺ آگیاتو آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ اسی شب نبی کریم ﷺ کو خواب میں دیکھا
اور اسلام قبول کرلیا ۔
مجیب الرحمان شامی صاحب کے بقول ہمارا خاندان انہی کا سجادہ نشین تھا ۔اپنی
والدہ کی یادداشت کے مطابق میں( مجیب الرحمان شامی) 14 اگست 1945ء کو پیدا
ہوا ۔ دو سال بعد ہی پاکستان معرض وجود میں آگیا ہم ہجرت کرکے پاکپتن ‘ ضلع
ساہیوال آگئے ۔والدضلع کچہری میں ریڈر کی حیثیت سے ملازم تھے انہوں نے اپنی
ٹرانسفر پاکپتن کروا لی ۔یہیں سے میری تعلیم کا آغاز ہوا ۔میٹرک 1960ء
گورنمنٹ ہائی سکول پاکپتن سے کیا ۔ ایف اے کاامتحان میونسپل کالج بورے والہ
سے کیا ۔بعدازاں میں ساہیوال چلاآیا اور گورنمنٹ کالج ساہیوال سٹوڈنٹس
یونین کا صدر منتخب ہوگیا ۔بہترین مقرر کی حیثیت سے مادر ملت یوتھ کمیٹی کے
پلیٹ فارم پر ایوبی آمریت کے خلاف سرگرم عمل رہا۔1964-65میں میں نے بی اے
کا امتحان پاس کرلیا ۔وسائل کی کمی کی بناپر تعلیم جاری نہ رکھ سکا اور میں
دوستوں کے بلاوے پر کراچی چلا گیا وہاں ایس ایم لا کالج میں داخلہ لے
لیا۔ساتھ ساتھ ملازمت کی تلاش بھی جاری رکھی ۔ڈھونڈتے ڈھونڈتے ہم ایک دن
روزنامہ حریت کے دفتر جاپہنچے وہاں میگزین ایڈیٹر اے آر ممتاز سے ملاقات
ہوئی انہوں نے فٹ پاتھ کے منشیوں پر ایک فیچر تیارکرنے کا حکم دیا جب وہ
فیچر پچھلے صفحے پر چھپا تو پسند کیاگیا پھر قلیوں پر فیچر لکھنے کا حکم
ہوا تو میں نے اس قلی کو تلاش کرلیا جس نے مولانا محمد علی جوہر کاسامان اس
وقت اٹھایا تھا جب وہ اپنے مشہور زمانہ مقدمہ بغاوت میں پیشی کے لیے کراچی
آئے تھے ۔وہ فیچر بھی بہت پسند کیاگیا اس طرح ہم صحافی ہوگئے ۔ممتاز صاحب
مجھے انقلاب ماتری (مینجنگ ایڈیٹر حریت ) کے پاس لے گئے اور کہا میں نے
کبھی کسی کی سفارش نہیں کی لیکن یہ لڑکا اپنی سفارش آپ ہے ۔ اس طرح سو روپے
ماہوار کی نوکری مل گئی ۔حریت کے حالات خراب ہوئے تو میں نے سب ایڈیٹر کی
حیثیت سے جنگ اخبار جوائن کرلیا ۔ ( باقی کہانی کتاب میں پڑھیئے کیونکہ
مجیب الرحمان شامی کی زندگی خاصی پیچ و خم سے لبریز ہے۔)
مصنف ایک اور کردار جس کانام عطاالحق قاسمی ہے ان کی زندگی کے نشیب و فراز
سے قارئین کو روشناس کروا رہے ہیں ۔وہ لکھتے ہیں احمد ندیم قاسمی نے مزاحیہ
ادب میں یہ روایت قائم کی کہ اسے طنز و تشنیع سے دور رکھا جائے لیکن عطا ء
الحق قاسمی نے طنزو مزاح کواس طرح شیر و شکر کرنے میں کامیابی حاصل کی کہ
ان کے فقرے دو دھاری تلوار کا حکم رکھتے ہیں ۔یہ بات 1989ء میں وقار
انبالوی نے کی تھی کہ عطاء الحق قاسمی کی تحریروں میں طنزو مزاح میں اصلاح
بھی ہوتی ہے وہ تیس سالوں سے نوائے وقت میں کالم لکھنے کے بعد آجکل جنگ میں
کالم لکھ رہے ہیں ۔ اپنی ابتدائی زندگی کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے
انہوں نے فرمایا میں فروری 1943ء کو امرتسر میں پیدا ہوا ۔ ابتدائی تعلیم
ایم بی پرائمری سکول وزیر آباد سے اور میٹرک‘ ماڈل ہائی سکول ماڈل ٹاؤن
لاہور سے کیا ۔گرایجویشن ایم اے او کالج لاہور سے کی ‘ بعدازاں اورنٹیل
کالج سے ایم اے اردو کاامتحان پاس کیا ۔ 1960سے روزنامہ نوائے وقت میں
"روزن دیوار سے"کے عنوان تحت کالم لکھا شروع کیا ۔ دوسال کے لیے امریکہ
چلاگیا لیکن جب دل چاہا واپس آگیااور نوائے وقت میں 323روپے کی ملازمت
اختیار کرلی ۔اس کے چند ماہ بعد ایم اے او کالج میں لیکچرر شب بھی کرنے
لگا۔نوائے وقت میں 30سال اور بطور لیکچرر پڑھاتے ہوئے مجھے 21سال ہوگئے
۔ایک سوال کے جواب میں عطاء الحق قاسمی نے بتایا کہ میری کتابوں میں روزن
دیوار سے ‘ عطائیے ‘ خندمقر ‘ جرم ظریفی ‘ شرگوشیاں ‘ تجاہل عارفانہ ‘ کالم
والم ‘ حبس معمول ‘ کالم تمام ‘ شوق آوارگی ‘ گوروں کے دیس میں ‘ ملاقاتیں
ادھوری شامل ہیں ۔جبکہ ٹی وی ڈراموں میں ‘اپنے پرائے ‘علی باباچالیس چور ‘
خواجہ اینڈ سن ‘ شیدا ٹلی ‘ شب دیگ ‘ حویلی شامل ہیں ۔آپ کو دو مرتبہ اے پی
این ایس کے بہترین کالم نگار کا ایوارڈ ملا جبکہ تمغہ حسن کارکردگی بھی مل
چکا ہے ۔اپنا ایک ادبی مجلہ "معاصر"بھی شائع کرتے ہیں ( عطاء الحق قاسمی کے
بارے میں باقی معلومات پڑھنے کے لیے کتاب کا سہارالیں )
مصنف ضیا شاہد ‘جمیل اطہر سے ایک ملاقات کا احوال کچھ اس انداز سے لکھتے
ہیں -;
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
مصنف لکھتے ہیں کہ علامہ اقبال ؒ کے اس شعر کی تشریح پر جمیل اطہر
یقیناپورے اترتے نظر آتے ہیں جنہوں نے زمانہ طالب علمی سے ہی صحافت کے
میدان خار زار میں قدم رکھا اور پھر وہ قدم آگے ہی بڑھتے رہے ۔ اس دوران
انہوں نے کئی اخبارات میں مختلف حیثیتوں سے کام کیا اور آج وہ دو اردو
اخبارات (تجارت اور جرات ) کے چیف ایڈیٹر ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ آل پاکستان
نیوز پیپرز سوسائٹی کے جنرل سیکرٹری بھی ہیں ۔اس سے آگے خود جمیل اطہر اپنی
روداد زندگی کچھ یوں بیان فرماتے ہیں ۔
میرے والد ٹوبہ ٹیک سنگھ کے معروف سیاسی کارکن تھے ۔اس کے ساتھ ساتھ صحافت
سے بھی وابستہ تھے میں نے ابتداء میں انہی سے رہنمائی حاصل کی ۔یہ غالبا
1955-56کی بات ہے جب میں نے بطور اخبارفروش عملی زندگی میں قدم رکھا بعد
ازاں فیصل آباد سے شائع ہونے والے اخبار روزنامہ "غریب" کا ٹوبہ ٹیک سنگھ
میں نامہ نگار بنا اس وقت میں میٹرک کا طالب علم تھا ۔ 1958ء کے آخرمیں
روزنامہ آفاق میں بطور سٹاف رپورٹر ملازمت کرلی ۔1962ء میں نوائے وقت سے
بطور رپورٹر وابستہ ہوگیا ۔1980ء میں اپنے اخبار روزنامہ تجارت کا اجرا کیا
ایک سال بعد روزنامہ جرات کو بھی شروع کیا ۔ان دونوں اخبارات کا چیف ایڈیٹر
میں ہوں ۔1991ء میں سی پی این ای کاجنرل سیکرٹری منتخب ہوا ۔جناب جمیل اطہر
کے انٹرویو کے باقی سوالات اور جوابات یہاں اختصار کی خاطرنہیں دیئے جاسکتے
۔ (چنانچہ قارئین کتاب سے رجوع فرمائیں )
اس سے آگے مصنف ایک ایسی شخصیت کا ذکر کرتے ہیں جنہوں نے "منو بھائی"کے نام
سے شہرت پائی لیکن ان کا اصل نام منیر احمد قریشی تھا جبکہ منیراتھتھا ان
کا عرف تھا اور منو بھائی قلمی نام تھا ۔ ضیا شاہد لکھتے ہیں کہ منوبھائی
ایسی پراصرار شخصیت کانام ہے آپ اسے زندگی کے جس مقام پر بھی ملیں وہ آپ کو
حیران کردے گا جوں جوں اس کی زندگی کاراز آپ پر کھلیں گے گویا آپ پر حیرتوں
کی ایک نئی دنیا منکشف ہوگی ایک بالکل نئی زندگی ۔ منو بھائی اپنے زندگی کے
ابتدائی پانچ سال گونگا رہا پھر اچانک بول اٹھا لیکن اس کے لہجے کی لکنت
اور رکاوٹ اس کے اظہار کے مسلسل آڑے آتی رہی ۔گلی محلے میں اسے منیراحمد کی
بجائے منیر ا تھتھا کہاجانے لگا ۔ اسے یہ سب کچھ اچھانہ لگا چنانچہ وہ
خاموش ہوگئے کچھ عرصے بعد جب وہ اپنی ذات کے حصار سے تھوڑا سا باہر نکلے تو
ان کو دوست بنانے کے لیے صرف کتابیں ملیں کیونکہ ان کے دادا غلا م حیدر اور
ماموں شریف کنجاہی دونوں شاعر تھے والد کو بھی ادبی مطالعے کا ذوق تھا ۔
کتاب سے دوستی ایک بالکل نئی دنیا میں لے آئی اور یہ دنیا تھی تخلیق کی
دنیا ۔پھر یہ اسی دنیا کا ہی کمال تھا کہ وزیر آباد کی گلیوں میں بچپن
گزارنے والا منیرا تھتھا مستقبل کا مقبول عام ادیب اور صحافی "منو بھائی"بن
گیا ۔
منوبھائی اپنی ابتدائی زندگی کے بارے میں بتاتے ہیں کہ میرے والد ریلوے میں
اسٹیشن ماسٹرتھے میں نے تیسری جماعت تک وزیر آباد میں پڑھا میٹرک کا امتحان
کیمبل پور(اٹک) میں کیاحسن اتفاق سے وہاں میرے کلاس فیلو شورش ملک ‘ شفقت
تنویر مرزا ‘عنایت الہی ملک ‘ فتح محمد ملک اور زمرد ملک جیسے ادبی ذوق
رکھنے والے لوگ تھے ۔شفقت تنویر مرزا کی میری تاریخ پیدائش اور مقام 6
فروری 1933ء وزیر آباد ہی تھا ۔بعدازاں کالج یونین کے سیکرٹری جنرل ہونے کی
وجہ سے مجھے کالج سے نکال دیاگیا جب نکالے گئے طلبہ بحال ہوگئے تو میں نے
تعلیم جاری رکھنے کی بجائے راولپنڈی کے اخبار "تعمیر"میں ملازمت کرلی ۔یہ
1955کا زمانہ تھا ۔1956ء میں کالم نویسی شروع کی اور رپورٹنگ کا سلسلہ بھی
جاری رکھا ۔منو بھائی کے قلمی نام کے بارے میں وہ لکھتے ہیں کہ ایک بار میں
نے ایک نظم احمدندیم قاسمی کو امروز میں چھپنے کے لیے بھجوائی انہوں نے نظم
تو شائع کردی لیکن نام کی بجائے منوبھائی لکھ دیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ
مجھے گھر میں بہن بھائی "منو بھائی"ہی کے نام سے پکارتے ہیں ۔ (منوبھائی کے
بارے میں مزید باتیں پڑھنے کے لیے کتاب سے رجوع فرمائیں )
یوں تو اس کتاب میں 24ایڈیٹروں کی ذاتی زندگی اور کارہائے نمایاں پر مشتمل
انٹرویوز شامل ہیں لیکن اختصار کی خاطر یہاں میں اب صرف عبدالحمید بٹ
المعروف "میرصاحب"کا مختصر تذکرہ کرنا چاہتا ہوں ۔ جو خود میرے بھی آئیڈیل
رہے ہیں اور میں روزنامہ مشرق میں بہت شوق سے ان کے کارٹون دیکھا کرتا تھا
۔ضیاشاہد‘ میرصاحب کا تعارف کرواتے ہوئے لکھتے ہیں کہ کرتے اور شیروانی میں
ملبوس ‘ سر پر رومی ٹوپی سجائے ‘ اور تنگ پائینچوں والا پاجامے پہنے ہر ایک
کی توجہ کامرکز ۔لوگوں کو دلچسپ حلیئے کی یہ شخصیت بہت اچھی لگتی تھی ۔پہلے
روزنامہ کوہستان پھر مشرق کے ذریعے انہوں نے لوگوں کے دکھوں کی تصویر کشی
کی ۔ سماجی اور سیاسی مسائل کی نقشہ کشی کرنے میں ان کا جواب نہیں تھا۔آگے
عبدالحمید بٹ ( میرصاحب ) خوداپنے ابتدائی حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے
ہیں کہ میں7 جنوری 1914کو سیالکوٹ میں پیدا ہوا ‘ابھی میں چھوٹا ہی تھا کہ
میرے والد کوئٹہ منتقل ہوگئے میں چھٹی تک میں گورنمنٹ سنڈیمن ہائی سکول
کوئٹہ میں پڑھتا رہا۔ وہاں ایک استاد سردار خان ہواکرتے تھے جو ہمیں ڈرائنگ
پڑھاتے تھے وہ اکثر کہاکرتے کوئی اور کام کرو یا نہ کرو ڈرائنگ پر ضرور
توجہ دو ۔یہ انہی کی توجہ کانتیجہ تھا کہ میرا پنسل ورک ساری کلاس سے اچھا
ہوتا ۔پھر ہم سیالکوٹ واپس چلے آئے لیکن ایسا استاد پھر مجھے نہیں مل سکا
۔1949ء میں میں لاہور آگیا یہاں حمیدنظامی کی ادارت میں شائع ہونے والے
اخبار نوائے وقت میں کارٹون بنانے لگا ۔1950میں میرا پہلا کارٹون شائع ہوا
۔نوائے وقت کے بعدکوہستان کا رخ کیا بعدازاں عنایت اﷲ صاحب کے کہنے پر مشرق
میں آگیا اور وہاں میرصاحب کے عنوان کے تحت میرے کارٹون 1963ء سے 1993ء تک
شائع ہوتے رہے ۔میرصاحب کی زندگی کاہر ہر گوشہ ایک طویل داستان رکھتا ہے ۔
جبکہ کتاب میں شامل باقی ماندہ شخصیات بھی اپنی مثال آپ ہیں لیکن جگہ کی
کمی کی بنا پر ان کا یہاں تذکرہ نہیں ہوسکا ۔
قصہ مختصر ضیاشاہد نے جس شخصیت کے بارے میں بھی اس کتاب میں لکھا ہے بہت
خوب لکھاہے وہ بذات خود بہت اچھالکھنے والے ہیں بلکہ کئی صحافتی اداروں کے
چیف ایڈیٹر ہیں ان کے سینے میں کتنے ہی راز دفن ہیں اﷲ تعالی نے انہیں
گفتگو کرنے اورلکھنے کا سلیقہ بہت خوب عطا کررکھا ہے اس لیے یہ کہاجاسکتا
ہے کہ یہ کتاب ان کے دیگر کتابوں میں خوبصورت اضافہ ہے بلکہ یہ کتاب جرنلزم
کے طلبا و طالبا ت کے لیے بہت اہم ہے ۔ طباعت خوبصورت ہے اور قیمت بھی
مناسب ہے اس کتاب کو ہر لائبریری میں ضرور ہونا چاہیئے ۔
****************
|