روزگارِ سفیر‘ سفارتی بنجارے کی کہانی /کرامت اللہ غوری

13اپریل کو انجمن ترقی اردو پاکستان نے پاکستان کے سابق سفارتکار کرامت اللہ غوری اور ان کی بیگم پروین سلطانہ صبا کو اردو باغ میں مدعو کیا، جہا ں کرامت اللہ غوری کی کتاب ”روزگارِ سفیر“ (کہانی ایک سفارتی بنجارے کی جس نے پاکستان کی تاریخ کو قریب سے دیکھا)اور ان کی کے شعری مجموعے ”موجِ صبا“ کی تعارفی تقریب منعقدہوئی،راقم نے بھی اس تقریب میں شرکت کی،کرامت اللہ غوری کو سننے کا موقع ملا جنہوں نے اپنی خود نوشت’روزگارِ سفیر‘ کے عنوان سے لکھی۔ غوری صاحب کی یہ دوسری تصنیف ہے اس سے قبل ان کی کتاب ”بارِ شناسائی“ شائع ہوچکی ہے۔وہ سفارت کار رہے اس حوالے سے انہوں نے خود کو سفارتی بنجارہ کہا،اب وہ کینیڈا کے باسی ہیں۔معمول کے مطابق مقررین کی تقاریر غور سے سنیں اور کچھ نوٹس بھی لیے تاکہ کتاب پر کچھ لکھنے میں سہولت ہو۔ ابھی روداد اور کتاب پر کچھ لکھنے کے تانے بانے بن ہی رہا تھا کہ غوری صاحب کے پڑوسی مزاحیہ شاعر خالد عزیز کا طنز و مزاح سے بھر پور شعری مجموعہ ’بیگم نامہ‘ آگیا، ساتھ ہی ’سلسلہ ادبی فورم‘ جس کا میں سر پرست بھی ہوں کے مرتضیٰ شریف صاحب کی جانب سے اس پر کچھ لکھنے کی فرمائش بھی آگئی، چنانچہ بیگم نامہ پرکچھ لکھا، اس کے مطالعہ کے دوران بیگم نامہ میں غوری صاحب کی بیگم پروین سلطانہ صبا کے تعریفی قظعات اور خود غوری صاحب کا تعریف نامہ بھی پڑھنے کو ملا۔ اس نے میری مشکل کو اور بھی آسان کردیا۔ ’روزگار سفیر‘ پر لکھنا شروع کیا تھاتو جو نوٹس تقریب اجراء میں لیے تھے وہ ناکافی محسوس ہوئے۔ مرتضیٰ صاحب سے اس موضوع پر بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ غوری صاحب انہیں ’روزگارِ سفیر‘کا ایک نسخہ دے گئے ہیں۔ بس تو جناب ہم نے مرتضیٰ صاحب سے چند دنوں کے لیے ’روزگار سفیر‘ ہمیں دے دینے کی فرمائش کی جو انہوں نے خوشی سے قبول بھی کر لی اور کچھ دیر بعد ہی ہمارا ڈرائیورکتاب لے کربھی آگیا۔اب وہ کتاب ہمارے پاس ہے، کتاب لے کر واپس کرنے والوں کے بارے میں بعض ادیبوں نے بڑے سخت قسم کے رمارکس دئے ہیں، لیکن ہم یہ کتاب مرتضیٰ شریف کو واپس کردیں گے، تاکہ آئندہ بھی منہ رہے ان سے کچھ مانگنے کا۔اب ہماری مشکل آسان ہوچکی تھی۔ہم سفارتی بنجارے کی کتھا کا پوسٹ مارٹم آسانی سے کرسکتے تھے۔ کتاب کی زیارت تو ہم تقریب میں بھی کرچکے تھے بلکہ ہم نے اس کے سرِورق کی ایک تصویر بھی بنا لی تھی، اس غرض سے کہ روداد میں مقررین کے بجائے کتاب کی تصویر لگادی جائے گی۔
اب ہماری یہ تحریرکئی چیزوں کا مرکب ہوگی ایک تقریب رونمائی، دوسرا کتاب اور صاحب کتاب کا مختصر تعارف۔پہلے کچھ تقریب کا مختصر حال ہوجائے۔ انجمن ترقی اردو پاکستان تعارف کی محتاج نہیں، اردو ادب کے فروغ و ترقی میں انجمن بابائے اردو مولوی عبدالحق سے آج تک ترقی کے مدارج آہستہ آہستہ طے کرتی چلی آرہی ہے۔ بے شمار کتابیں، جریدہ’قومی زبان‘ اورجریدہ’اردو کی باقاعدہ اشاعت قابل تعریف عمل ہے۔ انجمن کے قیام کی جگہ چاند بی بی روڈ جو بعد میں بابائے اردو روڈ کہلائی ہے،یہ قدیم کراچی لیاری کا علاقہ نانک واڑہ ہے، صدر ٹاون کی حدود میں واوقع ہے،قیام پاکستان کے بعد انجمن کا سفر اسی جگہ سے شروع ہوا، انجمن کے بانی بابائے اردو مولودی عبدالحق اسی جگہ ابدی نیند سو رہے ہیں، چاند بی بی روڈ سے انجمن گلشن اقبال بلاک 7 کے ایک بنگلے میں منتقل ہوئی اور کئی سال اس نے اسی بنگلے میں گزارے اس دوران ذمہ داران نے انجمن کے لیے مستقل عمارت کی منصوبہ بندی کی اور ایک پلاٹ گلستان جوہر، جامعہ کراچی اور جامعہ این ای ڈی کے سامنے حاصل کر لیا، پھر نئی عمارت ”اردو باغ“ کے نام سے تعمیر ہوگئی اور انجمن اس عمارت میں منتقل بھی ہوگئی۔ غوری صاحب کی کتاب ’روزگار سفیر‘ کی تقریب ِرونمائی انجمن کی نئی عمارت اور نئی منتظمہ کے زیر اہتمام منعقد ہوئی،تبدیلی لانے والے احباب کی جانب سے یہ پہلی تقریب تھی، نئی منتظمہ کو چند دن ہی ہوئے تھے،ڈاکٹر فاطمہ حسن کی جگہ معروف کالم نگار و کہانی نگار زاہدہ حنا معتمد اعزازی کے مرتبے پر فائز ہوئیں، صدر، خازن بھی تبدیل ہوئے۔ ڈاکٹر فاطمہ حسن کی انجمن کے لیے خدمات ہیں وہ ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ البتہ تبدیلی کا عمل اگرشفاف ہوتا تو اچھا تھا، جانے والا صدر نئے صدر کو کرسیئ صدارت پر بیٹھاتا، خازن اپنے ہاتھوں سے خزانے کی چابی نئے خازن کو دیتا، کس قدر اچھا معلوم ہوتا۔ بس جانے والی معتمد نے نئی معتمد کو اپنے جگہ سونپی۔ اللہ کرے بہتری اور تبدیلی کا عمل جاری و ساری رہے۔نئی معتمد زاہدہ حنا نے غوری صاحب اور ان کی بیگم کا تعارف کرایا، ان کا کہنا تھا کہ اس کتاب سے ایک سفیر کی زندگی کا اندازہ ہوتا ہے۔ سمیر افروز نے اپنے خطاب میں کتاب اور صاحب کتاب کی خوبیاں بیان کی، ان کاکہنا تھا کہ یہ ایک کامیاب شخص کی ڈائری ہے، اس میں ادیبوں اور شاعروں سے مصنف کی ملاقات کا ذکر بھی ہے۔ یہ غوری صاحب کی آپ بیتی بھی ہے، اس میں انہوں نے اپنے اساتذہ کو بھی یاد رکھا ہے۔ ڈاکٹر فاطمہ حسن نے اپنے خطاب میں خوشگوار تبدیلی کا ذکر کیا، نئی منتظمہ کے اراکین کو ان کے ناموں سے مخاطب کیا، اور کہایہ نئی منتظمہ کا تعارف بھی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ غوری صاحب کی یہ دوسری کتاب ہے، یہ خود نوشت ہ نہیں بلکہ پاکستان کی سیاسی تاریخ ہے، انہوں نے اپنی خود نوشت کا آغاز کراچی کینٹ اسٹیشن سے کیا۔اس کتاب میں مصنف نے اپنی یادیں رقم کی ہیں، یہ کتاب معلومات کا خزانہ ہے۔ عقیل عباس جعفری صاحب نے اپنے خطاب میں کہا کہ یہ ایک خود نوشت ہے جس کا آغاز دہلی سے ہوتا ہے،غوری صاحب سفارت کے شعبہ میں گئے اور پاکستا ن کی نمائندگی کی۔ وہ عراق میں بھی تعینات ہوئے، انہوں نے راجہ صاحب محمود آباد کی تعمیر کردہ عمارت کا ذکر بھی کیا، ابن انشاء کے حوالے سے غلط فہمی کا ذکر بھی کیاگیا۔ غوری صاحب کی بیگم پروین سلطانہ صبا نے اپنا کلام نذر قارئین کیا۔
کرامت اللہ غوری صاحب نے تفصیلی گفتگو کی، انجمن کا شکریہ ادا کیا، انہوں نے بتایا کہ انہوں نے 36سال سفیر کے حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ ان کے افسانوں، شاعری، کہانیوں کا مجموعہ شائع ہوچکا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے تجزیہ نگاری اور کالم نگاری بھی کی اور ٹائم آف انڈیا اخبار میں ان کی تحریریں شائع ہوچکی ہیں۔انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ کنیڈا میں مستقل مقیم ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انہو ں نے پہلا کالم اس وقت لکھا تھا جب چین نے اپنا پہلا ایٹمی دھماکہ کیا، ڈان اخبار نے انہیں کالم لکھنے کے 80/-روپے ادا کیے تھے جو اس وقت بہت اہمیت رکھتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ وہ دلی والے اور گنگا جمنا تہذیب کی پیداوار ہیں۔ وہ اس سے قبل ایک کتاب ”بارِشناسائی“ لکھ چکے ہیں جو شخصی خاکوں اور تذکروں پر مبنی ہے، یہ کتاب دہلی سے شائع ہوئی تھی بعد میں اس کے کئی ایڈیشن پاکستان سے بھی شائع ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک سفیر کی یادوں کا سفر ہے۔اس میں نجی زندگی کا احوال بھی ہے، پیشہ ورانہ زندگی کی تفصیل بھی، سفارت کاری کے واقعات اور حالات ہیں، کراچی میں بیتے ماہ وسال کا ذکر ہے، بس کچھ ادبی رنگ و روپ دینے کی کوشش کی ہے۔ تقریب کے اختتام پر صدر محفل پروفیسر ڈاکٹر جعفر احمد نے بھی خطاب کیا، انجمن کے نئے صدر واجد جواد نے مہمانون کا شکریہ ادا کیا۔

اب آتے ہیں تحریر کے دوسرے حصے کی جانب یعنی روزگارِ سفیر پر، ’روزگار سفیر‘ میرے ہاتھوں میں ہے، بڑا سائز 973صفحات پر مشتمل، خوشنما کور، مکمل عنوان ’روزگار سفیر۔ کہانی ایک سفارتی بنجارے کی جس نے پاکستان کی سیاسی تاریخ کو قریب سے دیکھا“، کراچی سے اٹلانٹس اس کی اشاعت کا ذمہ دار ہے، سرِورق آشا فاروق نے ڈیزائن کیا جب کہ دیدہ ریزی کے لیے آسیہ عزیز کا نام لکھا ہے،کتاب کا عنوان غوری صاحب کے لکھنے کے مطابق عقیل عباس جعفری کا تجویز کردہ ہے، مارچ2019ء میں شائع ہوئی۔انتساب اول کے لیے لکھتے ہیں ’ابا اور اماں کے نام جنہوں نے مجھے جنم دیا اور اپنی کرامت ودیعت کی‘انتساب دوم ’اپنے درویش اساتذہ مرزا ارشاد بیگ، مرزا اسحاق بیگ اور صبا متھراوی کے نام جن کے فیضِ نظر نے مجھے کرامت بنایا‘، انتساب ِ آخر ’اپنی بینا کے نام، جس کے ساتھ نے میری کرامتؔ کو آشکار کیا... اسی پہ ختم ہے قصہ میری کرامتؔ کا!‘، پیش لفظ یا تعارف کراچی کی جانی پہچانی ادبی شخصیت راشد اشرف کا تحریر کردہ ہے، غوری صاحب کے بقول یادداشتیں لکھنے کی تحریک دینے والے بھی راشد شریف ہی ہیں، پہلے صفحہ پر یہ شعر درج ہے ؎
اڑتے پرندے دیکھ کے میں نے سفر کیا
اور خود کو ایک عمر یونہی در بدر کیا
ابتدائی صفحات میں ایک یہ شعر بھی درج ہے ؎
سنوتو غور سے سننا یہ داستا ن میری
کہ ایک عمر کا قصہ سنانے والا ہوں

واقعی یہ خود نوشت غوری صاحب کی ایک عمر کی داستان ہے۔ داستانیں اور خود نوشت تو ابتدا ہی سے لکھی جارہی ہیں۔ بے شمار شاعروں، ادیبوں، لکھاریوں، حکمرانوں، سیاست دانوں، سفیروں، بیوروکریٹس اور دیگر نے لکھیں ہیں۔ مقبول بھی ہوئیں۔ کرامت اللہ غوری سفارت کے شعبہ سے وابستہ رہے، طویل وقت گزارا، ملکوں ملکوں اپنی سفارت کاری کے جوہر دکھائے، پاکستان کا نام بلند کیا۔ سرکار کی ملازمت سے ریٹائر ہوئے تو اپنی دنیا پاکستان سے باہر کینیڈا میں بسالی لیکن انہوں نے قلم قبیلے سے خود کو جوڑے رکھا۔ غوری صاحب معروف شاعر شادؔ عظیم آبادی کی غزل کا یہ شعر ہوگئے ؎
ڈھونڈوں کے اگر ملکوں ملکوں، ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
تعبیر ہے جس کی حسرت و غم، اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم

غوری صاحب وطن سے دور تو جا بسے لیکن ان کا دل پاکستان کے لیے دھڑکتا ہے۔ سو شل میڈیا پر وہ ملکی حالات اور واقعات پر اپنی رائے بسا اوقات دکھ درد کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔دیار غیر میں بیٹھ کر انہوں نے خود نوشت وہ بھی اس قدر ضخیم لکھی، یہ ثابت کردیا کہ وہ تھے تو کینیڈا میں لیکن ان کی سوچوں میں پاکستان تھا، ہے اور رہے گا۔ کرامت اللہ غوری کا تعلق دہلی سے ہے جو کبھی دلی تھی، دلی والوں کا ذکردلی کے شعرو ادب کے ذکرکے بغیر ادھورا ہے اور دلی کے اجڑنے کی داستان کا ذکر آئے تو لکھنؤ کا ذکر بھی لازمی ہے۔ اس لیے کہ جب دلی اجڑی تو شاعروں اور ادیبوں نے دلی سے لکھنؤ کا رخ کیا۔ اردو شاعری کی اساس دلی اور لکھنؤ دبستان ہیں۔ دبستانِ دلی کی شاعری میں سوز وگداز، درد مندی، غم والم، تصوف، حسن و جمال، احساسات ِ حسن، خوبصورت تشبیہات، شگفتگی و ترنم،خلوص، سادگی، صداقت، خطابیہ انداز پایا جاتا ہے۔ جب کہ دبستان لکھنؤ کی اپنی ایک شناخت ہے،انفرادیت ہے،دلی کا ذکر ہو تو وہ میر تقی میرؔ اور دلی کے اجڑنے کی داستان کے بغیر ادھورا ادھورا سا لگتا ہے۔ میرؔ دلی کی کاھِش پزیری کا حال اپنی آنکھوں سے دیکھتے رہے۔ وہ ایک حساس دل لیے ہوئے تھے ان واقعات سے الگ تھلگ کیسے رہ سکتے تھے۔ دلی کے اجڑنے کی داستان رقم کی۔ میرؔ نے کہا ؎
کیا بود و باش پوچھو ہو پو رپ کے ساکنوں
ہم کو غریب جان کر ہنس ہنس پکار کے
دلی جو ایک شہر تھا عالم انتخاب رہتے
تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے
جس کو فلک نے لوٹ کے ویران کردیا
ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے

شاعر مشرق علامہ اقبال ؔ نے دہلی کے بارے میں یہ خوبصورت شعر کہے ؎
اے جہاں آباد ! اے گہوارہئ علم و ہنر
ہیں سراپا نالہئ خاموش تِرے بامو در
ذرہ ذرہ میں ترے خوابیدہ ہیں شمس و قمر
یوں تو پوشیدہ ہیں ترے خاک میں لاکھوں گہر
دفن تجھ میں کوئی فخر روز گار ایسا بھی ہے
تجھ میں پنہاں کوئی موتی آبدار ایسا بھی ہے

کرامت اللہ غوری کا خمیر دلی کی مٹی سے گوندھا گیا، ان میں دہلی والوں کی علمیت، قابلیت، شعری فکر،ادبی چاشنی کا ہونا قدرتی عمل تھا جو ان کی تحریر سے صاف عیاں ہے۔ خود نوشت میں ان کا قلم بے خوف و خطرچلتادکھائی دیتا ہے۔وہ صاف گو، بے باک، سچائی سے بات کہنے میں کسی مصلحت کے قائل نہیں، جو بات سچ سمجھتے ہیں اسے کھلے کھلے الفاظ میں صاف صاف کہہ دیتے ہیں۔ صاف گوئی کی مثالیں ان کی خود نوشت میں تو بے شمار ملتی ہیں۔ ۶۲اپریل ۹۱۰۲ء کو انہوں نے سوشل میڈیا(فیس بک) پر اپنی ٹائم لائن پر لکھا”عام طور سے بلی تھیلے سے باہر آتی ہے لیکن پاکستان میں بہت موٹا تھیلا نکلا ہے۔ ناپاک نواز کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اس کا علاج نہیں ہوسکتا لہٰذا عدالت علیہ اس ناپاک کو اس کے فرنگی آقاؤں کے چرنوں جاکر مرنے کی اجاذت دیدے۔مٹی ملی وہیں پہ جہاں کا خمیر تھا“۔ گویا وہ تیر و نشتر چلانے میں پس و پیش سے کام نہیں لیتے۔بہ وجود اس کے کہ وہ نواز شریف کے دور اقتدار میں سفیر رہے ہوں گے۔ لکھاری ہونے کے جوہر پہلے ’بارِ شناسائی‘ میں دکھائے اس کے بعد اپنی خود نوشت ’روزگارِ سفیر‘میں واضح ہیں۔

کرامت اللہ غوری کی کتاب پر لکھنے کے حوالے سے میں نے سوشل میڈیا پر بھی غوری صاحب کو کھنگالا، شاید کوئی نئی بات مل جائے، ایک تو ان کی صاف گوئی اور بیباکی سے لکھے گئے طنز، ان کی شاعری کے علاوہ مجھے ان کا ایک انٹر ویو جو انہوں نے مدیحہ انور کواپنی کتاب بار شنائی کے حوالے سے دیا تھا۔اس سے علم ہوا کہ اس کتاب میں پاکستانی شخصیات کے بارے میں اپنے تجربات اور تاثرات قلم بند کیے ہیں۔ غوری صاحب کے مطابق حکیم محمد سعید جیسی شخصیات روز روز نہیں پیدا ہوتیں۔ بہت درست بات کی غوری صاحب نے۔ حکیم محمد سعید سے میرا بھی گہرا تعلق ہے، مجھے ان کے ساتھ کچھ کام کرنے کا موقع ملا ان کی شہادت کے بعد میرے پی ایچ ڈی کو موضوع ہی حکیم محمد سعید تھے۔ میں نے حکیم صاحب کی شخصیت، کتاب اور کتب خانوں سے محبت، پاکستان میں کتب خانوں کی ترقی کے لیے ان کی جدوجہد پر تحقیق کی، میں حکیم سعید پر پی ایچ ڈی کرنے والا پہلا محقق ہوں۔ غوری صاحب اچھے نثرنگار ہی نہیں وہ شاعر ی بھی خوب کرتے ہیں۔ شعری ذوق یقینا انہیں دہلی کی سرزمین سے ورثہ میں ملاہے۔ وہ خوش قسمت ہیں کہ انہیں دو شاعر بیگمات نصیب ہوئیں۔پہلی بیگم عابدہ مرحومہ بھی شاعر ہ تھیں اور موجودہ بیگم پروین سلطانہ صبا بھی شاعرہ ہیں۔ ان کا شعری مجموعہ ”موجِ صبا“ حال ہی میں شائع ہوا ہے۔ گویا باہر کا ماحول سفارت، ملکوں ملکوں سیر و سیاحت، گھر کا ماحول شاعرانہ پھر دلی سے نسبت ایسی صورت میں غوری صاحب بھلا کیسے شاعر ی نہ کرتے، بہت ممکن ہے کہ ان کی شاعرانہ طبیعت نے شاعرات بیگمات کا انتخاب کیا ہو۔ ان کی ایک غزل ؎
میری امید کا ساحل وہی ہے
کہ میری ذات کا قائل وہی ہے
اس نے مجھ کو اپنی سمت کھینچا
عمل میرا سہی، عامل وہی ہے
زمیں سے تافلک پا یا اس کو
کہ میری کھوج کا حامل وہی ہے
جو اپنے آپ میں اس کو نہ پائے
مری فرہنگ میں جاہل وہی ہے
بشر سے اب بھی امیدیں ہیں اس کو
بشر کی فکر میں کامل وہی ہے
کرامتؔ کیوں نہ اس کو مان لیتا
کہ میرے حال پر مائل وہی ہے

اپنی خود نوشت لکھنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے غوری صاحب نے لکھا کہ ”اپنی سوانح خود قلمبند کرنے کی ضرورت یوں محسوس ہوئی کہ اول تو میرے سوا یہ کام اور کوئی نہیں کرسکتا تھا اور کرنے کی ضرورت کوئی محسوس کرتا بھی کیوں، کہ بقول غالبؔ، ہم نہ کہی کہ دانا ہیں نہ ہی کسی ہنر میں یکتا ئے روزگار ہیں! روزگارِ سفیر لکھنے کی تحریک صرف اور صرف اس وجہ سے ہوئی کہ میں نے پاکستان کے وجود میں آنے کے ساتھ ہی آنکھ کھولی... پیدا تو میں پاکستان بننے سے پہلے ہوچکا تھا لیکن شعوری حیات کا سفر پاکستان بننے کے ساتھ ہی جاری ہے۔ اپنی فکر کے اعتبار سے میں پاکستان کے ساتھ جڑواں ہوں... سو پاکستان کی فکر شعور کی آنکھ کھولنے کے بعد سے میرے وجود میں DNAکی طرح سے جاگزیں ہے...اور اسی فکر نے مجھے اپنی داستان لکھنے پر اکسایا کہ میں پاکستان سے پیوستہ اپنے سفرِ حیات کی باتیں اور تجربے اس نسل کے لیے بھی، جس کا میں خود نمائندہ ہوں، محفوظ کرلوں.. اور بعد کو آنے والی نسلوں کے لیے بھی ایک ایسا دستاویزی حوالہ چھوڑجاؤں جس سے وہ بوقتِ ضرورت استفادہ کرسکیں“۔ غوری صاحب کی صاف گوئی اور بے باکی کی ایک مثال کتاب کے صفحہ ۹۱۳ پر اس طرح درج ہے ”ہمارے واجد بھائی نے تو یہ ریکارڈ بنایا کہ بے نظیر کے نا گہاں قتل کے بعد جب آصف علی زرداری ان کی جعلی وصیت کا سہارا لے کر پاکستان کے منصب صدارت پر فائز ہوئے تو واجد بھائی برطانوی شہریت رکھنے کے باوجود دوبارہ پھر سے لند میں ہائی کمشنر ہوگئے“۔ آگے لکھتے ہیں کہ”واجد بھائی کے پہلی بار ہائی کمشنر بننے پر ہمیں حیرت نہیں ہوئی تھی کہ بھٹو خاندان کے ساتھ ان کی غیر مشروط وفاداری کا کچھ تو انعام ملنا ہی تھا۔ کیا ہوا جو پدرِ بزرگوار پاکستان بننے والی مسلم لیگ کے نام ور ستارے اور مجاہد تھے۔ بیٹے نے باپ کے ورثے کو اپنے پاؤں کی بیڑی نہیں بننے دیا اور اپنا ناطہ اس ذوالفقار علی بھٹو سے جوڑلیا جس نے قائدا عظم کے پاکستان کو دولخت کرنے کے بعد اس کی رکھ پر اپنے اقتدار کا تخت بچھایا تھا۔ بھٹو کی پاکستان دشمنی تو بہر حال اسے پھانسی کے پھندے تک لے گئی لیکن شکر ہے کہ واجد بھائی کی بھٹو خاندان سے وفاداری نے انہیں ان کے سرمائے پر سود در سود ادا کیا“۔

’روزگار سفیر‘ میں غوری صاحب نے اپنے منتوں اور مرادوں سے سات بہنوں کے بعد پیدا ہونے کی داستان بیان کی ہے، اپنے ابا اور اماں کے بارے میں تفصیل سے لکھا ہے۔یہ نئے وطن پاکستان میں آمد کی داستان ہے، کراچی میں زندگی کی شروعات کا حسین اور دلچسپ تذکرہ ہے،اسکول سے کالج تک کی کہانی ہے، اساتذہ کا ذکر، ڈی جے کالج میں داخلے کی تفصیل، لالوکھیت، ناظم آباد، گولی مارجیسے علاقوں میں مہاجریں کی آباد کاری میں اپنے ابا کی جدوجہد اور دلچسپی کا حال ہے۔امریکی اسکالر شپ کے حصول کا ذکر ہے جس کے تحت وہ بیروت تعلیم حاصل کرنے گئے، سرزمین فراعنہ سے ارضِ مقدس تک کاحال تفصیل سے لکھا ہے۔ غوری صاحب نے واپس پاکستان آکر استاد کی حیثیت سے خدمات کا آغاز کیا، اس حوالے سے نسیم اللہ صاحب کا ذکر بہت ہی احترام سے کیا ہے جنہوں نے انہیں اسکول مدرس کے حیثیت سے ملازمت میں مدد کی، اسکول میں مدرس کی حیثیت سے خدمات کے ساتھ ساتھ تعلیم کا جاری رکھنا، جامعہ کراچی میں تعلیم حاصل کرنے کی داستان جو شہر سے بارہ میل پرے... تھی۔ بین الا قوامی تعلقات میں ایم کرنے کے ساتھ ساتھ ساقی فاروقی سے دوستی کا قصہ، اسی دوران انکم ٹیکس کے محکمے میں انسپکٹر کی ملازمت کو حصول، عالیؔجی کا ذکرجو انکم ٹیکس میں ملازم تھے۔ ملازم تو ڈاکٹر جمیل جالبی بھی اسی محکمے میں تھے، بعد میں جامعہ کراچی کے وائس چانسلر پھر مقتدرہ قومی زبان کے صدر بھی بننے نوے سے زیادہ کتابیں لکھیں اور کتابیں بھی سب تحقیقی، وہ یہاں اس وجہ سے یاد آگئے کہ انہوں نے چند دن قبل ہی داعی اجل کو لبیک کہااور ہم نے ان کے لیے منعقد ہونے والے تعزیتی اجلاس میں شرکت کی۔ غوری صاحب کی پہلی شریک سفر جامعہ کراچی میں ان کے شریک جامعہ بھی تھیں کا ذکر بھی ہے۔ دونوں نے جامعہ میں کوئی اسٹیج ڈرامہ کیا تھا، پھرعابدہ ان کی زندگی کے ڈرامے کی ساتھی بھی بن گئیں۔ غوری صاحب کے بقول عابدہ نے انہیں پہلی بار یونیورسٹی کی لائبریری میں دیکھا تھا، جامعہ کراچی کی مرکزی لائبریری کتابیں پڑھنے، نوٹس بنانے کے ساتھ ساتھ دوستی کا مرکز ہواکرتی تھی اور شاید آج بھی ہے، خاص طور پر اس کی زمینی منزل سے اوپری منزل پر جاتی سلائیڈ نما سیڑھیاں اور ان سلائیڈ نما سیڑھیوں کے نیچے جوڑی جوڑی کے بیٹھنے کا انداز، سرسبز و شاداب لان اور ہرے بھرے درختوں کے نیچے غیر نصابی سرگرمیاں بہت مشہور ہیں۔ہمارے دور میں بھی ایسا ہی کچھ ہوا کرتا تھا۔جامعہ کراچی کی اس مرکزی لائبریری کے زیر سزایہ نا معلوم کتنے لوگوں نے زندگی ساتھ گزارنے کے عہد و پیما کیے ہونگے، بے شمار جوڑے بن بھی گئے ہوں گے۔ غور صاحب نے درست لکھا کہ جوڑے آسمانوں میں بنتے ہیں لیکن جامعہ کراچی کی یہ لائبریری اور اس کا پر کشش ماحول جوڑے بنانے میں بہت ممد و معاون ثابت ہوتا چلا آرہا ہے۔ لائبریری خدمات کے ساتھ ساتھ اس کا یہ فیض بھی اپنے جگہ جاری و ساری ہے۔اس حسین ماحول کو ہم نے بھی قریب سے دیکھا، ماسٹرز کرنے کے بعد ہماری عملی زندگی کا آغاز اسی لائبریری میں ریسرچ اسسٹنٹ کی حیثیت سے ہوا تھا۔

انکم ٹیکس شعبہ کے بعد PIIAمیں ملازمت جہاں تحقیق جیسا کام، غوری صاحب کی خواہشات کے عین مطابق تھا انہیں مل گیا۔پھر پیرس روانگی، واپسی پرجامعہ کراچی کے انٹر نیشنل ریلینز شعبہ میں استاد کی حیثیت سے تقرری اور پھر سی ایس ایس (CSS)کے امتحان میں کامیاب ہونا اور فارن سروس کا انتخاب کرنا شامل ہے۔ فارن سروس میں ان کا تقرر ۴۲ اکتوبر ۶۶۹۱ء کو عمل میں آیا۔ شادی ۴ نومبر ۷۶۹۱ء کو عابدہ بانو رضوی سے ہوئی جو جامعہ کراچی میں ان کی کلاس فیلو تھیں۔ محبت تمام چیزوں سے ماورا اور عشق توفیق ہوتا ہے جسے مل جائے۔ بقول فراقؔ گورکھپوری ؎
کوئی سمجھے تو ایک بات کہوں
عشق توفیق ہے، گناہ نہیں

غوری صاحب مسلک کے اعتبار سے سنی اور عابدہ بانو اہل تشیع تھیں۔ غوری صاحب کی صاف گوئی یہاں بھی ظاہر ہوئی، شادی کے وقت دلھن کی جانب سے مولانا صاحب اس سوال کے جواب میں کہ تم اسے روکوگے تو نہیں اگر وہ مجلس کرنا چاہے یا نوحہ و ماتم زاری کرے؟ اس کے جواب میں غوری صاحب نے جواب میں کہا ”مولاناا گر اسے سینہ کوبی کر کے سکون ملے گا تو میں اسے منع نہیں کرونگا۔ وہ مجلس کرنا چاہے گی تو میں اس کے ساتھ ہوں گا۔ میں اس کے دکھ درد کا بھی اتنا ہی ساتھی رہوں گا جتنا خوشی میں“۔ ایسا ہی ہوا، دونوں ایک دوسرے کے دکھ درد کے ساتھی رہے۔ شادی کے بعد غوری صاحب کی پوسٹنگ نیویارک میں کونسلیٹ جنرل آف پاکستان میں وائس کاؤنسل کی حیثیت سے ہوگئی۔ آغا شاہی صاحب کے ساتھ گزرے لمحات کا ذکر بہت تفصیل سے کیا گیا ہے۔ بیچنگ میں سفار ت خانے کے منسٹر اور نائب سفیر ہوئے، منیلا،بیونس آئرس، ارجنٹائن میں سفیر رہے۔ جب پاکستان دو لخت ہوا غوری صاحب منیلہ میں سفیر تھے۔ کویت میں بھی ان کی زندگی کا ایک چوتھائی حصہ ساڑے آٹھ سال دومختلف ادوار میں وہا ں گزرا۔خود نوشت کا ۳۲واں باب’اسلام آباد، بھٹو اور ضیاء الحق‘کے عنوان سے ہے۔بھٹو صاحب کے حوالے سے وہ اپنی کتاب کے صفحہ۰۷۵پر لکھتے ہیں کہ ”فائلوں پر بھٹو صاحب کے کٹیلے، تیز دھار جملے اگر عید قرباں کی یاد دلاتے تھے تو ان کی رنگ برنگی پنسلوں کے استعمال سے کاغذ پر ہولی کا سما لگتا تھا۔ مقصد واضح تھا اور وہ اپنے ماتحت کام کرنے والوں کو اپنے انداز میں گائے بہ گائے یہ جتاتے رہتے تھے کہ پاکستان میں صرف ان کے نام کا سکہ چل رہا تھا اور کسی غلام کو ایک لمحہ کے لیے بھی یہ نہیں بھولنا چاہیے تھا کہ مطلق العنان حاکم کے فرمان سے سرتابی ناقابل معافی تھی“۔ کویت میں اپنی سفیری کی داستان لکھی۔ وہ ۳۲ستمبر ۱۸۹۲ء میں جاپان میں کونسلر مقرر ہوئے، یہ وہ زمانہ تھا جب غلام اسحٰق خان وزیر خزانہ تھے، جاپان کے بعد چین میں سفارت خانے سے وابستہ ہوگئے، اندرا گاندھی کا قتل ہوا تو وہ چین میں تھے۔ کتاب کا باب ۷۲’اسلام آباد۔ مارشل لا سے جمہوریت تک‘کے سفر پر مبنی ہے۔اس وقت یہ اسلام آباد واپس آچکے تھے۔ یہ دور ضیا ء الحق کا تھا، اس دوران اوجھڑی کمپ کو واقعہ رونما ہوا تھا، اسلام آباد سے یہ بنجارہ الجزائر کے لیے رو بہ پرواز ہوا، الجزائر سے پھر ۹۱دسمبر ۱۹۹۱ء کوکویت کا رخ کیا اور پھر عراق ان کا مسکن ٹہرااور عراق کے بعد ترکی غوری صاحب کی سفارت کا آخری پڑاؤ تھا۔

غوری صاحب نے حرفِ آخر میں لکھا کہ ”میں نے پاکستان کی فارن سروس کے لیے کیوں ضد کی تھی؟ اس لیے کہ میری دانست میں سفارتکاری ہی ایک ایسا صاف ستھرا کام تھا جس پر ہمارے دقیانوسی جاگیردارانہ کلچر کا آسیب نہیں“۔ روزگار سفیر ایک ایسے بنجارے کی کہانی ہے کہ جس نے ایک اسکول ٹیچر کی حیثیت سے اپنے سفر کا آغاز کیا، محکمہ انکم ٹیکس میں ملازمت کی، لیکن وہا دل نہ لگا، بلکہ محکمے انکم ٹیکس سے وابستہ حالات غوری صاحب کے مزاج کا حصہ نہ تھے،وہ جامعہ کراچی میں بھی استاد رہے، ماسٹر کیا، اسکالر شپ پر باہر گئے، اعلیٰ تعلیم حاصل کی واپس آئے سی ایس ایس کے بعد پاکستان کی فارن سروس میں اپنی زندگی کے بہترین ماہ وسال خدمت کرتے گزارے۔ پاکستان کا یہ بنجارہ جہاں جہاں بھی گیا پاکستان کا نام روشن کیا، لیکن افسوس اس قدر ٹیلنٹد فرد ریٹائر منٹ کے بعد اپنے ملک میں رہ کر ملک کی فلاح و بہبود کے لیے کچھ کرتا غوری صاحب ہی کیا بیشتر پاکستانی دیارِ غیر میں باقی ماندہ زندگی گزارنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ لیکن جن کے ہاتھ میں قلم ہے، یادداشت ان کا ساتھ دے رہی ہو وہ اپنے تجربات اور مشاہدات قلم بند کر دیں تاکہ نئی نسل ان سے مستفید ہوسکے۔ غوری صاحب کی یہ ضخیم خودنوشت پاکستان کی سیاسی تاریخ بھی ہے، یہ ایک ادبی، معلوماتی اور علمی دستاویز ہے۔ مکمل کتاب دلچسپ دستاویز ہے، خود نوشت ہے، اسلوب سیدھا سادہ اور عام فہم ہے۔ غوری صاحب نے اس کی تدوین میں جس قدر عرق ریزی کی ہے وہ کوئی معمولی بات نہیں، ان کی یادداشت، حوصلہ اور ہمت قابل تعریف ہے۔ المختصر’روزگارِ سفیر‘ کے روپ میں غوری صاحب کی نجی زندگی اور طویل سفارتی سفر کی داستان چھم چھم کرتی چلی آئی ہے۔(۳ مئی ۹۱۰۲ء)
 

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1277480 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More