باتیں اور حکائتیں

پانچویں مغل بادشاہ شہاب الدین محمدشاہ جہاں کو۔۔۔ کون نہیں جانتا دنیا کے سات عجائب میں شامل ایک عجوبہ تاج محل اسی نے تعمیر کروایا تھا لاہورکا شالامارباغ ،جامعہ مسجد اور لال قلعہ دہلی بھی اسی کے شاہکارہیں شاہ جہاں اپنے بڑے بیٹے داراشکوہ کو اپنا جانشین بنانا چاہتا تھا لیکن دوسرے بیٹے اورنگ زیبؒ عالمگیر نے اپنی فہم و فراست ،بہتر منصوبہ بندی اور جنگی حکمت ِ عملی سے نہ صرف اپنے حریف داراشکوہ کو شکست سے دوچارکردیا اس جنگ میں داراشکوہ مارا گیا بلکہ اورنگ زیبؒ عالمگیر نے اپنے والدشاہ جہاں کو گرفتارکرکے گوالیارکے قلعہ میں قید کردیا اورنگ زیبؒ عالمگیرہرماہ اپنے باپ کی خبر گیری کیلئے اس سے ملنے جایا کرتا تھا ایک مرتبہ ملاقات کے دوران شاہ جہاں نے اپنے بیٹے سے کہا’’اس قید ِ تنہائی سے میں تنگ آگیاہوں وقت ہے کہ گذرتاہی نہیں کچھ بچے قلعہ میں بھیج دیں میں ان کو پڑھا لکھا کر دل لگا لوں گا۔۔۔یہ سن کر اورنگ زیبؒ عالمگیر مسکرایا اور شاہ جہاں کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر جو الفاظ کہے وہ تاریخ بن گئی ۔۔ اورنگ زیبؒ نے کہا ‘‘قید میں بھی بادشاہت کی خو نہیں گئی اب آپ بچوں پر حکومت کرنا چاہتے ہیں‘‘۔۔۔ حقیقتاً حکومت ہے ہی ایسی چیز جس سے دل بھرتا ہی نہیں ۔۔حکومت کے حق اور مخالفت میں لوگ ہی نہیں سوچیں بھی تقسیم ہو جاتی ہیں ہر گھر میں بحث،مباحثہ ہر گھر میں اپوزیشن۔۔۔ پاکستان میں یہی کچھ ہوتا آیاہے اور یہی کچھ ہونے والا ہے -

امام شبعیؒ کا کہناہے میں قاضی شریح کے پاس ملنے گیا ایک عورت اپنے خاوندکے ظلم و ستم کی فریادلے کر آئی جب وہ عدالت کے روبرو اپنا بیان دینے لگی تو اس نے زارو قطار روناشروع کردیا مجھ پر اس کی آہ ہ بکا کا بہت اثرہوامیں نے قاضی شریح سے کہا’’ابو امیہ اس عورت کے رونے سے صاف ظاہر ہوتاہے وہ مظلوم اور بے بس ہے اس کی ضرور مددہونی چاہیے میری یہ بات سن کر قاضی شریح نے کہا اے شبعی!یوسف علیہ السلام کے بھائی بھی ان کو کنویں میں ڈالنے کے بعد روتے ہوئے اپنے باپ کے پاس آئے تھے اس لئے کبھی یک طرفہ فیصلہ نہیں کرنا چاہیے۔

ڈاکٹر طاہرالقادری تو انقلاب نہ لا سکے مایوس، ناامید اور نامرادہوکر کبھی بیرون ملک چلیجاتے ہیں کبھی وطن واپس آجاتے ہیں لیکن ان کے دل میں انقلاب کی جو چنگاریاں سلگ رہی ہیں وہ ہر پاکستانی کے دل اس کی آنچ سلگانا چاہتے ہیں یہی پاکستان کے مسائل کال واحد حل ہے۔ انقلاب ِ فرانس کو کون نہیں جانتا حکمران آج بھی ایسے انقلاب کا سوچتے ہیں تو ان کی نیندیں اڑ جاتی ہیں کہتے ہیں جب فرانس میں انقلاب آیا توپیرس کے بپھرے لوگ چند منٹوں میں25کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے ہر رکاوٹ کو دور کرتے وارسائی میں بادشاہ کے محل تک پہنچ گئے بادشاہ نے حیرانگی سے اینے ایک وزیر باتدبیر سے پوچھا یہ لوگ اتنی جلدی محل تک کیسے آن پہنچے۔وزیر نے برجستہ جواب دیا بادشاہ سلامت۔ یہ لوگ نفرت کے گھوڑے پر سوار تھے ان کے سینے سلگ رہے تھے پاؤں میں انقلاب کا جنون تھا نفرت کی آگ اور انتقام کے گھوڑے بہت تیز دوڑتے ہیں۔

شیخ سعدیؒ کے پاس ایک لڑکی آئی اور کہنے لگی آپ اﷲ کے ایک برگذیدہ بندے ہیں ان نوجوانوں کو سمجھائیں کہ جب لڑکیاں گذرتی ہیں یہ نظریں نیچی رکھا کریں۔۔۔انہوں نے کہا فرض کیا آپ نے ہاتھ میں بغیر ڈھانپے گوشت پکڑاہواہے کتے بھونکیں۔ گوشت کے حصول کیلئے پیچھا کریں تو آ پ کیا کریں گی؟۔ اس نے کہا میں کتوں کو بھگاؤں گی۔ آپ نے پھر پوچھا وہ پھر بھی نہ بھاگیں تو؟۔میں اپنی بھرپورکوشش کروں گی لڑکی نے جواب دیاشیخ سعدیؒ مسکرائے ۔ کہا اس طرح تو تم مشکل میں پڑ جاؤگی۔ اس کا آسان حل یہ ہے کہ گوشت کو کسی کپڑے سے ڈھانپ کر لے جاؤ اس طرح کتے نہیں بھونکیں گے اور پیچھا بھی نہیں کریں گے۔

خالی پیٹ،خالی جیب اور جھوٹا پیار انسان کو زندگی میں وہ سبق سکھا دیتاہے جو بڑے سے بڑا استاد بھی نہیں سکھا سکتا

ایک شخص غصے کا بڑا تیز تھا غصہ میں آپے سے باہر ہو جاتا اور کسی کا لحاظ نہ کرتا اسی وجہ سے اس کا کوئی دوست بننا پسند نہ کرتا حتیٰ کہ گھر والے بھی تنگ تھے اس نے ایک اﷲ والے سے پوچھا میں اس عادت سے تنگ ہوں کیا کروں؟۔ اﷲ والے نے کہا بڑا آسان حل ہے جب بھی تمہیں غصہ آئے درخت میں کیلیں ٹھونک دینا ۔اس نے اس تدبیرپر عمل کیا تو اس کا غصہ کم ہو گیا ایک دن اﷲ والے نے کہا مجھے اس درخت تک لے چلو جہاں تم کیلیں ٹھونکا کرتے تھے۔ وہ انہیں وہاں لے گیا۔انہوں نے کہا اب تم درخت کے تنے سے کیلیں باہر نکالو۔اس شخص نے ایسا ہی کیا کیلیں تو نکل گئیں لیکن درخت میں سوراخ ہوگئے اﷲ والے نے کہا یہ وہ سوراخ ہیں جو تم غصے میں لوگوں کے دلوں میں کرتے تھے یہی وجہ تھی کہ کوئی تمہارا دوست بننا بھی پسند نہیں کرتا تھا۔

خلیفہ ہارون الرشید کے دور میں حضرت بہلولؒ کا بڑا شہرہ تھا ایک دن رو ایک گلی سے گذررہے تھے کہ انہوں نے دیکھا کچھ بچے اخروٹ کھیل رہے ہیں ایک بچہ کھڑا رورہا ہے آپ نے خیال کیا اس کے پاس اخروٹ نہیں ہیں اس لئے رورہاہے۔وہ پاس گئے اس کو پیار سے کہا بیٹا !رومت میں تجھے اخروٹ لے کر دیتاہوں تو بھی کھیل۔ بچے نے روتے روتے سر اوپر اٹھایا حضرت بہلولؒ سے کہا کیا ہم دنیا میں کھیلنے کیلئے آئے ہیں؟۔آپ چونک اٹھے انہیں اس بات کی توقع نہیں تھی کہ ایک بچہ ایسا جواب دے گا۔۔پھر کیا کرنے آئے ہیں حضرت بہلولؒ نے استفسارکی۔اﷲ کی عبادت کرنے۔بچے نے فوراً جواب دیا تم ابھی بہت چھوٹے ہو۔حضرت بہلولؒ نے کہافکر نہ کرو۔ابھی تمہاری اس منزل پرآنے میں کافی دیرہے۔ بچے نے کہا اے بہلولؒ مجھ سے مذاق نہ کر میں نے اپنی ماں کو اکثردیکھاہے وہ جب بھی آگ جلاتی ہے ابتد ا چھوٹی لکڑیاں جلانے سے کرتی ہے بڑی لکڑیاں تو بعدمیں رکھتی ہے مجھے ڈرہے کہیں دوزخ میں پہلے چھوٹے نہ ڈالے جائیں بڑوں کی باری بعد میں نہ آئے ۔ یہ سننا تھا کہ حضرت بہلولؒ بے ہوش کر زمین پر گرگئے۔

ہم مسلمان بھی بڑے عجیب ہیں جو لوگ یہ کہتے ہیں ہم غیرمسلم ہیں انہیں ہم مسلمان بنانے کے لئے تل جاتے ہیں اور جو لوگ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں ان پر کفر کے فتوے لگانے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔

ایک انتہائی افسوس ناک بات بلکہ اسے امت ِ مسلمہ کیلئے لمحہ ٔ فکریہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہم بڑے سے بڑے ایشو پر بھی متحدنہیں ہوتے اس میں بڑی رکاوٹ ذاتی انا اور فرقہ واریت ہے ہم کتنے بدقسمت ہیں کہ حرمت رسول ﷺ کیلئے’’ ایک‘‘ نہیں ہو سکتے۔ عقیدہ ٔ ختم ِ نبوت ﷺ پر بھی مختلف مکاتب ِ فکرنے یکجہتی کا ثبوت نہیں دیا لگتا تھا جو اس سلسلہ میں احتجاج کررہاہے یہ اسی کا مسئلہ ہے سیاستدان سماجی کارکن حتیٰ کو مذہبی جماعتیں سب کے سب اپنی چودھڑاہٹ کیلئے دیڑھ اینٹ کی مسجد بنانے بناتتی رہتی ہیں اس طرز عمل نے مسلمانوں کو بہت نقصان پہچایا ہے مسلمانوں کے بنیادی عقائد پر بھی ہم سب مصلحت کا شکار ہوجاتے ہیں یاپھر یہ خیال کیا جاتاہے ہم کسی کا ساتھ دے کر اسے ہیرو کیوں بنائیں دل کہتاہے جس روز تمام مسلمان متحد ہوکر اپنے ذیشان پیغمبر ﷺکی حرمت کے تحفظ کیلئے اٹھ کھڑے ہوئے کوئی ان کی شان میں ناپاک جسارت کرنے کی جرأت نہیں کر سکے گا۔

چھوٹی سی کہانی پڑھی۔آپ بھی پڑھئے شاید شاید دل و دماغ کو جھنجھوڑ کررکھ دے۔ ایک غریب فیملی 5افرادپر مشتمل تھی باپ اکثر بیماررہتا بالآخر اس کا انتقال ہوگیا پڑوسیوں نے اس کی تدفین کا انتظام کیا کئی روز کھانا بھیجتے رہے پھر بھول گئے 2بیٹے ابھی چھوٹے تھے کام کاج کے قابل نہ تھے وہ گھر کے برتن بیچ بیچ کر گذارا کرنے لگے ایک دو ماہ ایسے تیسے بیت گئے پھر نوبت فاقوں تک جا پہنچی بڑا بیٹا بیمار ہوا خوراک نہ علاج معالجہ۔بسترکا محتاج ہوکررہ گیا ایک دن دوسرے دن کا فاقہ تھا۔ بیوہ کی چار سالہ بیٹی نے ماں سے پوچھا ماں بھائی بیمارپڑا ہے کب مرے گا؟ ماں تڑپ اٹھی اس نے کہا کم بخت تو کیا کہہ رہی ہے؟۔ بچی نے معصومیت سے کہا ابا فوت ہوئے تھے تو پڑوسیوں نے کئی روز کھانا بھیجا تھا بھائی مرا تو پھر کھانا بھیجیں گے۔صدقہ ،خیرات اور کسی کی مدد کرنا صرف ماہ ِ رمضان کا ہی محتاج نہیں آپ کے مال میں غریبوں کا بھی حق ہے براہ ِ کرم اس کالم کو بار بار پڑھیں شاید کسی کے دل میں کوئی اچھی بات ترازو کرلے اور اﷲ نیکی کی توفیق عطا کردے۔
 

Sarwar Siddiqui
About the Author: Sarwar Siddiqui Read More Articles by Sarwar Siddiqui: 462 Articles with 383884 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.