وزیراعظم عمران خان نے مودی کی جیت کی خواہش ظاہر
کی ۔اب نریندر مودی دوبارہ اقتدار میں آرہے ہیں۔ تا ہم پاک بھارت بات چیت
اور مسلہ کشمیر کے حل کی راہیں ہموار ہو نے کے بارے میں کچھ کہنا قبل از
وقت ہو گا۔عمران خان کی خواہش کے دوران بھارت میں چھ ہفتے تک جاری رہنے
والے انتخابی عمل کے بعدرائے عامہ کے جائزوں میں نریندر مودی کو اکثریت
ملنے کی پیش گوئی کی گئی ۔ جو درست ثابت ہوئی۔ابتدائی انتخابی نتائج کے
رحجان کے مطابق پنجاب، کیرالا، تامل ناڈو ، مغربی بنگال، آندھرا پردیش،
اڑیسہ کو چھوڑ کربی جے پی اور اس کا اتحاد این ڈی اے دہلی کی طرح کئی
ریاستوں میں کلین سویپکر رہا ہے ۔ مودی لہر اور زعفرانی نسل پرستی نے ہندو
انتہا پسندی کو عروج پر پہنچا دیا ہے اور مودی دوسری بار بھارت کے وزیر
اعظم بن رہے ہیں۔ کانگریس کی کارکردگی توقع سے کم رہی ۔پنجاب اور کیرالا کے
بغیر راہل گاندھی اور پریانکا گاندھی کا کہیں جادو نہ چل سکا۔ ملک کی سب سے
بڑی ریاست اترپردیش(یو پی) میں مہا گٹھ بندھن، جو بہوجن سماج پارٹی کی
سربراہ مایا وتی اور سماج وادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو نے بنایا تھا،
بھارتیہ جنتا پارٹی کو ہرانے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ یو پی میں پارلیمان
کی 80 نشستیں ہیں اور حکومت بنانے میں اس کا اہم کردار ہوتا ہے۔ مودی کے
دوبارہ اقتدار میں آنے پر بعض خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے جن میں سر
فہرست ملک میں ہندو انتہا پسندی کی بڑھتی لہر کو تقویت ملنا شامل ہے۔ مودی
حکومت کے گذشتہ پانچ برسوں میں مسلمانوں، نچلے طبقے کے ہندوؤں اور عیسائیوں
پر حملے ہوئے ۔ مسلمان ہندوؤں کے تشدد کا نشانہ بنے۔ گاؤ کشی کے خلاف چلائی
جانے والی کٹر ہندوؤں کی مہم کے نتیجے میں درجنوں مسلمانوں کو بے دردی سے
شہید کیا گیا۔ اترپردیش کے ہزاروں مسلمان اس وقت روزگار سے محروم ہو گئے جب
ریاست کے کٹر ہندو وزیراعلیٰ یوگی ادتیہ ناتھ نے سیکڑوں گاؤ خانے بند کرنے
کا اعلان کیا۔مودی کے دوبارہ آنے سے 20 کروڑ مسلمان تشویش میں ہوں گے جو
سمجھتے ہیں کہ بھارتیہ جنتا پارٹی آر ایس ایس کے ایجنڈے کے تحت انہیں دوسرے
درجے کے شہری بنا کر بنیادی حقوق سے محروم کرنے کی راہ پر گامزن ہے۔سیاسی
مبصر نعیمہ احمد مہجور کے مطابق اب مسلم پرسنل لا بورڈ میں مداخلت کرکے ان
سے نہ صرف مذہبی آزادی چھینی جائے گی۔ تین طلاق کا قانون بنا کر مسلمان
مردوں کو پہلے ہی عتاب کا شکار بنایا جا رہا ہے۔ مسلمانوں کو خدشہ ہے کہ
مودی اب یکساں سول کوڈ لاگو کرکے ہندوستان میں مسلمان اقلیت کو ختم کرنا
چاہتے ہیں۔ مودی کی جماعت بی جے پی میں بیشتر کارکن اونچے طبقے کے ہندو ہیں
جنہوں نے بسا اوقات نچلے طبقے سے وابستہ ہندوؤں یعنی دلتوں کو آئین کے تحت
ملنے والی مراعات کو ختم کرنے کی کئی بار دھمکی دی اور بعض ریاستوں میں
انہیں تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔ دلتوں کو مودی کی دوبارہ جیت پر خاصی
پریشانی لاحق ہے حالانکہ انہوں نے 2014 کے انتخابات میں مودی کو یہ جان کر
ووٹ دیا تھا کہ وہ ان کے لیے بہتر معیشت اور معاشرت کے لیے ٹھوس اقدامات
کریں گے جس کا انہوں نے انتخابی مہم کے دوران وعدہ بھی کیا تھا لیکن نوٹ
بندی اور جی ایس ٹی کے اقدامات کے بعد بیشتر دلت بے روزگار ہو گئے اور چمڑے
کی صنعت میں ابتری کے کارن کسمپرسی کی حالت میں ہیں۔
گجرات سے نمودار ہونے والے مودی کے دور اقتدار میں کئی ادارے سپریم کورٹ،
الیکشن کمیشن، قومی سلامتی ادارہ اور قومی تفتیشی بیورو قابل ذکر ہیں، اپنی
افادیت کھو بیٹھے۔ اپوزیشن جماعتوں کے علاوہ عوام کا ایک بڑا طبقہ محسوس کر
رہا ہے کہ مودی کے دوبارہ آنے سے ان اداروں کی رہی سہی ساکھ بھی متاثر
ہوگی۔الیکشن کمیشن پر مودی کے حق میں کام کرنے کے الزامات لگائیگئے۔ مودی
حکوت کی کشمیر پالیسی کی وجہ سے ریاست میں زمینی صورتحال انتہائی تشویشناک
ہے۔ قابض فورسز کومجاہدین کوشہید کرنے کی کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے۔ حریت کے
رہنماؤں کے خلاف کالا دھن سفید کرنے سے لے کر ملک دشمن سرگرمیاں چلانے کے
درجنوں مقدمات درج کیے گئے ہیں۔بعض رہنماؤں کو گرفتار، تو بعض کو گھروں میں
نظر بند رکھا گیا ہے۔ میڈیا پر سخت پابندیاں اور نوجوانوں کو ہراساں کرنے
کا عمل جاری رکھنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ مودی کے واپس آنے سے آرٹیکل 370 اور
آرٹیکل 35 ایختم کرکے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی پوزیشن کو ختم کرنے کا
خدشہ پیدا ہو گیا ہے تاکہ جموں و کشمیر میں غیر مسلموں کو بسا کر اس کے
اکثریتی کردار کو ختم کیا جا سکے۔ امیروں کے لیے کئی ایسے اقدامات کئے گئے
جن کی وجہ سے متوسط یا غریبی کی سطح سے نیچے زندگی گزارنے والے کروڑوں عوام
معاشی طور پر مزید کمزور ہو گئے ہیں۔ 70 کے بعد پہلی بار ملک میں بے
روزگاروں کی تعداد بے تحاشا بڑھ گئی ہے۔ جی ایس ٹی کے لاگو کرنے سے نہ صرف
چھوٹی صنعتیں بند ہو چکی ہیں بلکہ اپوزیشن کے مطابق ڈھائی کروڑ افراد
روزگار سے محروم بھی ہو گئے ہیں۔ مودی کی خارجہ پالیسی بھارت کی سابقہ
حکومتوں کی پالسیوں کے برعکس رہی ہے۔چھوٹے ملکوں جیسے نیپال بھوٹان یا سری
لنکا میں وہ چین کے اثر کو زائل کرنے میں ابھی تک ناکام نظر آرہے
ہیں۔پاکستان کے خلاف شدید بیانات دے کر یا بالاکوٹ میں حملہ کرکے مودی نے
قومی سطح پر ہندو جذبات کو ابھارنے کی بھرپور کوشش کی جس کے نتیجے میں
انہیں ہندوؤں کی اکثریت نے ووٹ دیا حالانکہ بہتر معیشت کا ان کا وعدہ ابھی
تک پورا نہیں ہوا ہے۔
کرغزستان میں شنگھائی تعاون تنظیم کے پلیٹ فارم پر پاک بھارت وزرائے خارجہ
شاہ محمود قریشی اور سشما سوراج نے شرکت کی اور پھر کرٖغز صدر کی ضیافت میں
دونوں ایک دوسرے کے پہلو میں بیٹھ گئے۔ غیر رسمی بات چیت کی۔ اس کے باوجود
خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ مودی کے دوبارہ آنے سے کشیدگی مزید بڑھ جائیگی
تاہم یہ بھی امکان ہے کہ امریکی دباؤ کے تحت مودی کو پاکستان کے ساتھ کشمیر
پر بات چیت کرنے پر آمادہ کیا جا سکے گا جس کو پاکستان نے افغانستان میں
طالبان کے ساتھ مفاہمت پیدا کرنے کے معاملے سے جوڑ دیا ہے اور جس کی ابتدا
آزاد کشمیری مجاہدین کے دفاترسر بمہر کرنے سے ہوئی ہے۔ لوگوں نے ہندتوا کو
ووٹ دے کر ’بھارت راشٹر‘ بنانے کا آر ایس ایس کا خواب پورا کیا ہے اور نئے
بھارت میں سیکیولر نواز، اقلیتوں یا اعتدال پسندوں کے لیے جگہ مزید تنگ ہو
جائے گی جو شاید ہندوستانی آئین میں تبدیلی، صدارتی نظام کی شروعات اور
مسلمانوں کے اخراج کا اشارہ دیتی ہے۔ سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر سمیت
عالمی حالات پر نظر رکھنے والے سمجھتے ہیں کہ مودی پاکستان سے تعلقات کی
بہتری اور مسلہ کشمیر کے حل میں تاخیری حربے اور ہندو انتہاپسندی کو فروغ
دینے میں دلچسپی لیتے ہیں۔ |