وفاقی وزیر ہائوسنگ طارق بشیر چیمہ نے کہا ہے بلدیاتی
ایکٹ اور نئے صوبے کے معاملے پر مسلم لیگ(ق) کو اعتماد میں نہیں لیا گیا تو
ہم کس چیز کے اتحادی ہیں، ہم بہاولپور صوبے کے حامی ہیں، وزیراعظم سے
ملاقات کر کے اُن سے اِس مسئلے پر بات کروں گا، بہاولپور کی ایک تاریخ ہے
اور یہ صوبہ تھا۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ہمارے لئے قابل احترام ہیں،
لیکن اُن کی یہ منطق سمجھ سے بالاتر ہے کہ تین اضلاع کا صوبہ نہیں بن
سکتا،مجھے نہیں پتہ 1985ء سے پہلے کسی نے صوبہ جنوبی پنجاب کے بارے میں شور
مچایا ہو، شاہ محمود سے پوچھوں گا اگر کوئی تاریخ صوبہ جنوبی پنجاب کی ہے
تو بتائیں،وفاقی وزیر کا کہنا تھا ہمارا الحاق وزیراعظم عمران خان سے ہے،
بہاولپور کے جلسے میں انہوں نے صوبہ بہاولپور بحال کرنے کا وعدہ کیا تھا۔
انہوں نے سوال کیا سوئٹزر لینڈ جیسا چھوٹا ملک ہو سکتا ہے تو بہاولپور صوبہ
کیوں نہیں ہو سکتا۔ جنوبی پنجاب کے سیاست دانوں میں کوئی دم ہوتا تو یہ خطہ
محروم نہ رہتا، خطے کے لوگ جنوبی پنجاب کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے، ریفرنڈم
کروا لیں لوگ صوبہ بہاولپور چاہتے ہیں یا نہیں،صوبہ کے لئے کسی کی بھی
حمایت ملی تو ضرور لیں گے اور ہر دروازے پر جائیں گے۔
اگرچہ قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں پارٹیوں کی موجودہ عددی پوزیشن کی
موجودگی میں کسی بھی نئے صوبے کی تشکیل کا کوئی امکان نہیں،کیونکہ کسی بھی
جماعت کے پاس نہ تو قومی اسمبلی میں دوتہائی اکثریت موجود ہے اور نہ ہی
پنجاب اسمبلی میں، یہ جانتے ہوئے بھی اگر نئے صوبے کی بحث آگے بڑھائی جا
رہی ہے، تو اس کا بظاہر مقصد تو یہی ہو سکتا ہے جنوبی پنجاب صوبے کے حامیوں
کو طفل تسلی دی جائے کہ تحریک انصاف نے صوبہ بنانے کا جو وعدہ کیا تھا وہ
اس سے مُکر نہیں گئی، بس مشکل یہ ہے کہ اس کے پاس مطلوبہ اکثریت نہیں،اگر
دوسری جماعتیں تعاون کریں تو یہ اکثریت حاصل ہو سکتی ہے،لیکن مسلم لیگ(ن)
نے تو پنجاب میں دو صوبے(جنوبی پنجاب اور بہاولپور) بنانے کے لئے پہلے ہی
قومی اسمبلی میں بِل پیش کر رکھا ہے، جو قائمہ کمیٹی میں زیر غور ہے۔ اگر
تمام جماعتیں ایک یا دو صوبوں کے معاملے پر اتفاق کر لیں تو بات آگے بڑھ
سکتی ہے،لیکن اگر تینوں بڑی پارلیمانی جماعتیں اپنے اپنے موقف پر ڈٹی رہتی
ہیں اور اس سے دستبردار نہیں ہوتیں تو موجودہ اسمبلیوں کی مدت تک تو کسی
پیش رفت کا کوئی امکان نہیں۔ ویسے آئندہ بھی کیا ضمانت ہے کہ کسی جماعت کو
دوتہائی اکثریت مل جائے گی؟
موجودہ حالات میں پنجاب کو دو صوبوں میں تقسیم کرنے کی تجویز ویسے بھی
تحریک انصاف کے فائدے میں نہیں،کیونکہ اگر کسی کرشمے کے نتیجے میں جنوبی
پنجاب صوبہ بن بھی جاتا ہے تو باقی ماندہ پنجاب سے تحریک انصاف کی حکومت
ختم ہو جائے گی،کیونکہ تقسیم شدہ اسمبلی میں اس کی اکثریت نہیں رہے گی،اِس
لئے تحریک انصاف تو کبھی ایسا نہیں چاہے گی،لیکن مسلم لیگ(ن) یا پیپلزپارٹی
سے اس سلسلے میں تعاون طلب کرنے کی جو بات کی جا رہی ہے وہ شاید یہ تاثر
دینے کے لئے کی جا رہی ہے کہ ہم تو صوبہ بنانے کے لئے تیار ہیں، مسلم لیگ(ن)
ہی تعاون نہیں کر رہی،جبکہ مسلم لیگ(ن) کا موقف ہے شاہ محمود قریشی اِس
معاملے کو خواہ مخواہ اُلجھا رہے ہیں، مسلم لیگ(ن) نے نئے صوبوں کا بِل پیش
کر دیا ہے، تحریک انصاف کیوں اس کی حمایت نہیں کرتی؟
ابھی تک چونکہ بہاولپور صوبے کے مسئلے پر تحریک انصاف میں یکسوئی نہیں ہے
اِس لئے حلیف جماعت مسلم لیگ(ق) کو بھی یہ شکایت ہے کہ اسے اس سلسلے میں
اعتماد میں نہیں لیا گیا،حالانکہ مخلوط حکومتوں میں حلیفوں کو ساتھ لے کر
آگے بڑھا جا سکتا ہے۔یہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ مسلم لیگ(ق) کو ایسی
کوئی شکایت پیدا ہوئی ہے،ماضی میں تین چار بار ایسا ہو چکا ہے۔اب تازہ
شکایت صوبے کے بلدیاتی نظام اور بہاولپور صوبے کے بارے میں سامنے آئی ہے،
اس پر بھی حکومت کوئی نہ کوئی راستہ نکال لے گی۔ بہتر تو یہی ہے کہ حلیفوں
کو مطمئن کرنے کے لئے وزیراعظم خود آگے بڑھیں۔ شاہ محمود قریشی شاید ایسا
نہ کر سکیں،کیونکہ وہ تو بہاولپور صوبے کے بارے میں صاف طور پر کہہ چکے ہیں
کہ تین ضلعوں کا صوبہ نہیں بن سکتا،جبکہ طارق بشیر چیمہ کا موقف ہے یہ نئے
صوبے نہیں، بہاولپور کی بحالی کا معاملہ ہے،جس پر وزیراعظم سے بات کی جائے
گی۔
وفاقی وزیر نے بہاولپور صوبے کے بارے میں ریفرنڈم کرانے کی جو تجویز پیش کی
ہے۔ تحریک انصاف کو اس پر بھی غور کر لینا چاہئے اس سے درست طور پر معلوم
ہو جائے گا کہ اس سلسلے میں عوام کیا چاہتے ہیں،کیونکہ اب تک تو بات
مفروضوں پر ہی ہوتی رہی ہے، آج تک کسی جماعت نے بہاولپور یا جنوبی پنجاب
کو الیکشن ایشو ہی نہیں بنایا،اِس لئے یہ فرض نہیں کیا جا سکتا کہ لوگ صرف
ایک صوبہ چاہتے ہیں یا دو، یا سرے سے کوئی نیا صوبہ چاہتے ہی نہیں اور یہ
مسئلہ چند مخصوص حلقوں نے اپنے مفاد کی خاطر اٹھایا ہوا ہے،اِس لئے ابہام
دور کرنے کے لئے پہلے ریفرنڈم کرا لینا چاہئے، جس کی جزئیات طے کی جا سکتی
ہیں،کسی بھی مسئلے پر ریفرنڈم کرانا جمہوری طرزِ عمل ہے بشرطیکہ سوال براہِ
راست ہو اور بالواسطہ سوال کر کے کسی فیصلے کی من پسند تشریح نہ کی جائے
جیسا کہ ہمارے ہاں دو صدارتی ریفرنڈموں میں ہو چکا ہے۔ ایک ریفرنڈم جنرل
ضیاء الحق نے اپنے اقتدار میں کرایا اور دوسرا ریفرنڈم جنرل پرویز مشرف نے،
اتفاق سے وزیراعظم عمران خان اُس وقت جنرل پرویز مشرف کے ریفرنڈم میں اُن
کے حامی تھے،اِس لئے اب اُن کی اپنی حکومت میں اگر صوبوں کے معاملے پر
ریفرنڈم کرا لیا جائے تو اس سے حکومت کی جمہوریت پسندی بھی سامنے آ جائے
گی اور حکومت کے اندر اِس معاملے میں جو اختلافات ہیں اُن سے بھی نپٹا جا
سکے گا اور ایک حلیف جماعت کی شکایت بھی دور ہو جائے گی، کیونکہ ریفرنڈم کی
تجویز خود وزیر ہائوسنگ نے پیش کی ہے، جو مسلم لیگ(ق) کے سینئر رہنما ہیں،
بصورتِ دیگر اِس مسئلے پر لاحاصل بحث ہی ہوتی رہے گی،جس کا کوئی نتیجہ
سامنے نہیں آئے گا۔ |