ہر معیشت میں مہنگائی کی موجودگی تو امر قدرتی ہے لیکن
مہنگائی کی اوسط کواس طرح بڑھا چڑھا کر پیش کرنا کہ جس سے معیشت آئی سی یو
میں چلی جائے ،اس میں وہاں کے سیاسی عدم استحکام کابڑااہم کردار ہوتا ہے۔
اگرمعیشت میں افراط زر( Inflation ) اپنے اوسط درجے یعنی 5 یا 6 فیصد
سالانہ پر قائم رہے تو حکومت کے لیے زیادہ معاشی چیلنجز پیدا نہیں ہوتے۔
بیسویں صدی میں جنگ عظیم دوم کے بعدجنگ زدہ ملکوں کی معیشت کو اپنے پاؤں پہ
کھڑا کرنے کے لیے بنائے جانے والے عالمی مالیاتی ادارے وجود میں آئے ۔ یہ
ادارے کسی بھی ملک میں بہت چالاکی سے معاشی مسائل پیدا کرتے ہیں پھر گدھ کی
طرح وہاں کی معیشت کے مرنے کا انتظار کرتے ہیں تاکہ اسے نوچ کھائیں۔ غربت
میں پسی تباہ حال ریاستیں ان کا ہدف ہیں ۔ وہاں یہ شیطانی ادارے معیشت کی
بقا کے مسیحا بن کر آتے ہیں۔ یہ وہاں خیر خواہ کا روپ دھار کر معیشت کی
بربادی کا جال بنتے رہتے ہیں۔دنیا میں وہ ریاستیں جو ان اداروں کے چنگل میں
پھنسی انہوں نے اپنی معیشت کا جنازہ نکالا ۔ ان کے ہاں افراط زرآج ہزار کے
ہندسے کو عبور کر چکا ہے۔وہاں جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں اور وہ عالمی کساد
بزاری کے طوفان میں گھری ہوئی ہیں۔ یہ ا دارے اپنا شیطانی شکنجہ تب تک
ڈالتے رہتے ہیں جب تک کہ ان ریاستوں کی معیشت کو کالی قبر کا منھ نہ دکھا
دیں۔
بدقسمتی سے ہمارے ہاں بھی عالمی مالیاتی ادارے(آئی ایم ایف) سے ہر جمہوری
وآمریتی ادوار میں بھاری بھر قرضے لیے گئے لیکن افراط زر کا خاتمہ تو کجا ،
استحکام بھی کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ موجودہ حکومت نے بھی آئی ایم ایف کی
ڈوری پکڑکر باخوشی اس کی شرائط مان لی ہیں ۔اِدھر قرضہ منظورہوا اُدھر
معیشت کا یہ حال ہوا کہ عالمی انٹر بینک میں ڈالر کی اونچی اڑان ہنوزجاری
ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ ڈالر 200 روپے تک جائے گا ،جس سے عوام کے چیخیں نکلیں
گی۔ حکومت سے ڈالر کا سنبھالا جانا ممکن نہیں رہا ۔ وزراء کا کام یہ ہے کہ
عوام کومہنگائی سے ڈرایا جائے۔پاکستان تحریک انصاف جب اقتدار میں آئی توملک
میں مہنگائی کی اوسط 5.84 فیصد تھی ،جسے قدرے بہتر تصور سمجھا جاتا ہے۔
ستمبر 2018 میں5.12 فیصد رہی۔ اکتوبر میں6.78 ، نومبر میں 6.5 ، دسمبر
میں6.17 ، جنوری 2019 میں 7.19 ، فروری میں8.21 ، مارچ میں 9.41 ، اپریل
میں 8.82 فیصد مہنگائی میں اضافہ ہوا۔ اب آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر کے
قرضے کے بعد ملک میں جو مہنگائی آئے گی، وہ خوفناک ہوگی،جسے عام آدمی
برداشت نہیں کر سکے گا۔
آئی ایم ایف نے شیطانی شکنجہ ڈالتے ہوئے ملک کے منافع بخش قومی اداروں کی
نجکاری کی شرط بھی رکھی ہے۔ حکومت ان قومی اداروں کو بجائے ٹھیک کرنے کے
اور بنا کسی جانچ پڑتال کے آئی ایم ایف کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہوئے نجکاری
کی شرط مان لی۔ ان قومی اداروں میں پی آئی اے اور پاکستان ریلوے بھی شامل
ہیں۔ یہ دونوں ادارے ملک کا فخر ہیں۔ ریلوے نے پچھلے پانچ سالوں میں غیر
معمولی ترقی کی۔ 2012-13 اس ا دارے کی سالانہ بچت18.1 بلین تھی ۔ 2013-14
میں ملکی خزانے کو ریلوے نے22.8 بلین کا نفع دیا۔ 2014-15 اس کے منافع میں
اضافہ ہوا جس کی وجہ سے ملکی خزانے کو31.9 بلین کا فائدہ ہوا۔ 2015-16 اچھے
رہے جن میں ریلوے نے 36.6 بلین کی رقم کمائی۔ 2016-17 40.1 بلین اور
2017-18 میں 50.0 بلین کی بچت ہوئی۔ حکومت ان اداروں کو چلا کر انہیں اپنے
پاؤں پر کھڑا کر سکتی ہے۔کیوں کہ عالمی اداروں کا کانٹا ریاست کے گلے میں
پھنس چکا ہے ،جسے نا نگلا جاسکتا ہے ،نا اگلا جاسکتا ہے۔آئی ایم ایف کا یہ
شیطانی شکنجہ اگلے تین سالوں میں مزیدسخت ہوگا۔
حکومت کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے 6 ارب کے پیکج سے عام آدمی کی زندگی
متاثر نہیں ہوگی۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ عام آدمی کی مایوسی حکومت کے غلط
فیصلوں کی وجہ سے دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔ چھوٹے کاروباری حضرات آمدنی ضائع
ہونے کے خوف میں مبتلا ہیں۔ موجودہ مشیر خزانہ کو عوام پہلے بھی پی پی پی
کے دور میں بھگت چکے ہیں۔ یہ معاشی پالیسیوں میں بے رحم انسان سمجھے جاتے
ہیں اور ان سے کسی صورت بھی عوام دوست معاشی پالیسی کی توقع نہیں رکھی
جاسکتی۔پی ٹی آئی کے آنے کے بعدجس تیزی سے افراط زر میں اضافہ ہوا ہے، اس
سے کاروباربہت حد تک متاثر ہو رہے ہیں۔ موجودہ حکومت کا طرز سیاست پہلوں سے
ذرا بھی مختلف نظر نہیں آرہا۔ان حالات میں مہنگائی سے بے زار عوام صرف
دعوؤں سے ملکی معیشت کی امید حیا نہیں رکھ سکتے۔ان کی عقل پہ ماتم نا کریں
تو کیا کریں کہ جس پیکج کو یہ آئی ایم ایف کا آخری پیکج تھوتھو کرکے قبول
کررہے ہیں، کیا معلوم یہ آئی ایم ایف کا ملکی معیشت پرڈالاجانے والا فیصلہ
کن شیطانی حملہ ہو؟
|