ایک عرصہ سے پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی ایک معمول
بن گئی ہے خیبر پی کے اور بلوچستان دہشت گردوں کے خاص ہدف ہیں کسی پاکستانی
بچے سے بھی پوچھ لیں وہ ترت جواب دے گا کہ اس دہشت گردی کے واقعاتمیں بھارت
ملوث ہے ،افغانستان سے بھی پاکستان پر حملے کئے جاتے ہیں، دہشت گرد ایران
کی سر زمین بھی استعمال کرہے ہیں خاص طورپر بلوچستان میں ایک سوچی سمجھی
سازش کے تحت حالات خراب کئے جارہے ہیں ان باتوں کا بہت سے باخبر لوگ۔محب ِ
وطن پاکستانی اورعوام کی اکثریت کو بخوبی پتہ ہے یہ سب کے سب علم ِ نجوم
جانتے ہیں نہ ان کو دلوں کے بھیدمعلوم ہے سیدھی سی بات یہ ہے کہ بھارت نے
آج تک پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا اور انڈیا میں کسی بھی پارٹی کی
حکومت ہو صدر مسلمان ہو یا وزیر ِ اعظم سکھ یا پھر ہندو۔۔اس نے پاکستان کو
ہمیشہ اپنی تعصب کی عینک سے ہی دیکھا ہے ہمارے بیشتر رہنما یہ تو اکثرکہتے
ہیں کہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں بیرونی ہاتھ کو نظر انداز نہیں
کیا جا سکتا کچھ پاکستان دشمن طاقتیں ہمارے ملک کا امن بربادکرنا چاہتی ہیں
ان سے پوری قوم کو خبرداررہنے کی ضرورت ہے لیکن کھل کر بھارت کا نام لینے
سے وہ گھبراتے ہیں یا شرماتے ہیں ۔کیا یہ بھی عجیب بات نہیں کہ ہم اپنے
ظاہری دشمن کا نام لینے سے کنی کتراتے ہیں وہ دشمن جس نے پاکستان کو دو لخت
کرڈالا۔وہ دشمن ملک جس وزیر ِ اعظم اندارا گاندھی نے سقوط ِ ڈھاکہ کے وقت
بڑے غرور سے کہا تھا ’’ہم نے دو مسلمانوں کا دو قومی نظریہ سمندر میں ڈبو
ڈالا‘‘۔وہ دشمن ملک جو آج بھی اپنے دریاؤں پر ڈیم بناکر عالمی قوانین کا
تمسخر اڑارہاہے تاکہ پاکستان کو بنجر بنا ڈالے ۔یہ بھی بھارت کی دشمنی کا
ہی ایک انداز ہے کہ جب اس کے ندی نالوں میں طغیانی آجاتی ہے تو وہ پاکستانی
دریاؤں میں پانی چھوڑ دیتاہے جس سے پاکستان میں سیلاب آ جانے سے قیامت ِ
صغریٰ بپاہو جاتی ہے۔یہ وہی دشمن ملک ہے جس نے آج تک اقوام ِ متحدہ کی
قراردادوں کا احترام نہیں کیاوادی ٔ کشمیر میں ظلم وبربریت کا بازار گرم ہے
اور ایک لاکھ کشمیری مسلمان اپنے خطہ کی آزادی کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ
پیش کرچکے ہیں مگر بھارت نے ان کو حق ِخودارادیت دینے سے انکار کردیاہے یہ
سب حقائق تاریخ کے سینے پر رستے ہوئے ناسورکی مانندہیں۔یہ بھی حقیقت ہے کہ
بھارت میں کوئی حادثہ،دہشت گردی یا کوئی خوفناک واقعہ رونما ہو جائے بھارتی
نیتا فٹا فٹ پاکستان پرالزام لگانا شاید اپنا مذہبی فریضہ سمجھتے ہیں۔۔۔ان
تمام تر حقائق کی روشنی میں یہ عجیب بات نہیں ہمارے سابقہ کچھ حکمران بھارت
سے دوستی کیلئے مرے جارہے تھے ان دنوں بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے کی
باتیں ہورہی تھیں اور ہمارے کچھ نام نہاد دانشور پاک و ہند کی تقسیم کے سرے
ہی خلاف ہیں اور وہ بارڈر کو ایک لکیر کا درجہ دیتے ہیں ان کا خیال ہے کہ
یہ دونوں ممالک کے درمیان یہ لکیرکا فرق بھی ختم ہو جانا چاہیے اس لئے وہ
ہر وقت امن کی آشا کا ورد کرتے رہتے ہیں۔ان لوگوں کو شایدیہ معلوم نہیں کہ
پاکستان کے قیام کیلئے کتنی قربانیاں دی گئی تھیں کتنے ہزار لوگوں کو
گاجرمولی کی طرح کاٹ دیا گیا ۔کتنی عفت مآب بیٹیوں کی عصمت کو تار تار کیا
گیا بلوائیوں نے کمسن بچوں کے لاشوں کو نیزے کی انی یا کرپان کی نوک
پرلہراتے پھرتے۔ رقص کیاکاش قیام ِ پاکستا ن کے وقت ایک نئے ملک میں آنے کا
تصور لئے جن بچے، بوڑھوں ،جوانوں ،بیٹیوں اور بہنوں پاکستانیوں کو بے رحمی
سے ٹوٹے ٹوٹے کیا گیا امرتسرسے آنے والی اس لہولہان ٹرین کو اسی حالت میں
لاہور کے عجائب گھر رکھدیا جاتاتو آج کی نسل ،نام نہاد دانشوروں اوربھارت
کی محبت میں راگ الاپنے والوں کو بخوبی علم ہو جاتا کہ پاکستان کیسے
بنا؟۔یہ بھی کہا جارہا ہے کہ پاکستان کے حالات خراب کرنے،طے شدہ
امورکومتنازعہ بنانے اور قومی اتفاق رائے میں رخنہ ڈالنے میں ہمارے پڑوسی
ملک کا بہت بڑا کردارہے شنیدہے کہ کالاباغ ڈیم پر چاروں صوبوں میں اتفاق و
مفاہمت نہ ہونے میں بھی بھارت کا کلیدی کردارہے یہاں تک کہا جارہا ہے کہ
کالا باغ ڈیم کے ایشوپر بھارت کئی پاکستانی سیاستدانوں کی مالی معاونت کر
رہاہے۔ اس صورت ِ حال میں ان حقائق نے کچھ نئے سوالات کو جنم دیاہے ۔کہ
پاکستانی حکومتیں اس در اندازی پر بھارتی حکومت سے باقاعدہ احتجاج کیوں
نہیں کرتیں؟ ۔ دوسرا حالات بہتر بنانے کیلئے پاکستانی حکومت نے کیا اقدامات
کئے ہیں اس سے قوم کو باخبر کیا جائے۔تیسراپاکستان میں انتہا پسندی و دہشت
گردی میں جو قوتیں ملوث ہیں یا ہمارے ملک میں جو انکے آلہ ٔ کارہیں ان کے
بارے کیاحکمت ِ عملی طے کی گئی ہے اس پر ٹھنڈے دل و دماغ سے ٹھوس منصوبہ
بندی کئے بغیر پائیدار امن کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا یہ سارے حقائق
بتانے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ ہم لٹھ پکڑ کر انڈیاکی درگت بنا ڈالیں حکومت
اور صرف پاکستان کی حکومت کو یہ حق ہے بلکہ اس کا فرض ہے کہ پاکستان کے
مفادات کیلئے جو ہو سکے کرے تمام قو می معاملات میں قوم کو اعتماد میں لینے
کی روایت ڈالنی چاہیے۔ایک اور بات یہ ہے کہ ہم پاکستانی سب ہمسایہ ممالک کے
ساتھ پرامن لیکن باوقار تعلقات برابری کی بنیادپر چاہتے ہیں ہمارا مؤقف یہ
ہے کہ دنیا بھر کے تمام ممالک ہماری آزادی وخود مختاری کااحترام کریں
پاکستان دوسروں سے متعلق ایسے ہی جذبات رکھتاہے۔قوم کو آج یہ طے کرناہوگا
کہ ہم پاکستان کو آگ کا دریا نہیں بننے دینگے اس کی خاطر ہم قربانی کیلئے
خودکو تیارکرنے کی ضرورت ہے لیکن حکمرانوں کو بھی اپنی اداؤں پر
غورکرناہوگا طالبان پاکستان کی سا لمیت پر حملہ کررہے ہیں دہشتگردی کے
ناسورکو سختی سے کچل دینا چاہیے وطن ِ عزیز میں دہشت گردوں کے ظلم دیکھ کر
احتجاج بھی نہ کرنا عقل سے بعیدہے
ظلم سہہ کر کڑھتے رہنا ،ہے کام منافق کا
اگر تجھ پر ظلم ہوا ہے رولا ڈال، دہائی دے |