اسلام ایک لبرل دین ہے

 آج عالم دنیا کی بڑی قوتوں میں مفادات کے ٹکراؤ کی جنگ ہے ۔ اس جنگ میں ہر اس ہتھیار کا استحمال با خوبی کیا جاتاہے جو جنگ کو جیتنے میں کارآمد ثابت ہو سکے۔ان ہتھیا رمیں جذبات ، حا لا ت اور مذاہب سر فہرست ہیں۔کبھی ایک کبھی دوسرا اور کبھی تیسرا مفادات کے سوداگروں نے جب چاہا ان کو ڈھال بنا کر مفادات حا صل کرنے کی کوشش کی ۔ دنیا تہذیبوں کی آما جگا ہ ہے ۔اس میں چھوٹی بڑی تہذیبیں ہر دور اور ہر معاشرے میں موجود رہی ہیں ۔اسلامی ، قدیم یونانی ، رومی ،عراقی ہندو ، چینی اور مغربی تہذیب وہ بڑے نام ہیں جن کی تفصیل سے تاریخ سے بھری پڑی ہے ۔ یہ انسا ن کے وجود سے لے کر تا قیامت جاری رہیں گئی ۔ تمام تہذیبیں اپنے اثرات و نتائج کے اعتبار سے اپنے آپ کو برقرار رکھتی ہیں ۔چونکہ ہر تہذیب کے اثرات دوسری تہذیب سے مختلف ہوتی ہیں لہذا ہر گروہ انسانی کی نیچر نے اپنی تہذیب کو اپنے لیے مفید اور اچھا قرار دیا ہے ۔ان تہذیبوں کی وجہ سے جنگ و جدل کا سامنا کیا ۔دنیا کے ہر طاقتور گروہ نے اپنی تہذیب کو معیاری قرار دیتے ہوئے اسکے کے فروغ کی ہر ممکن کوشش کی ہے چاہے وہ دوسرے گروہ پسند ہے یا نہیں ۔ہر طاقتور قوم ، ہر فاتح اور ہر غالب گروہ کی تہذیب نے غلبہ حا صل کیا ۔جس کے نتیجے میں اس گروہ کا فلسفہ حیات ، نظام حیات ،نظام زندگی ، قوانین اور ضابطے معیارات خیر و شر ، سکہ رائج وقت کی حثیت میں مقبول ہوئے اور معیار فکر و عمل قرار پائے ہیں ۔اس طرح بنوں نوع انسان بھی مختلف تہذیبی تجربوں سے مسلسل گزرتا چلا آ یا ہے ۔ یہاں تک کہ اب عالمگیر تہذیب کا دور دورہ ہے جو مختلف علاقائی اور گروہی تہذیبوں کے اختلاف کے باوجود پوری انسانیت کو اپنی انسانیت کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہیں ۔ مغرب مادی تہذیب کا علمبردار ہے جس کا مطلب ہے مذہب ،روحانیت ،اخلاق اور شرافت سب سے بے نیاز ہو کر ترقی کے عمل پر کار بند ہے ۔یہ ایسا نقطہ نظر ہے جو مذاہب عالم کو قطعا گوارا نہیں ہے ۔لہذا انسان زات دو بڑے گروہوں میں تقسیم ہی نہیں ہو گئی بلکہ شدید نزاع کا شکار ہے ۔ اس بنا پر ماضی میں بھی انسانوں کا کشت و خون ہوا ہے اور آئندہ بھی شدید خطرہ ہے ۔مادی تہذیب نے انسا ن کو صرف مادی حثیت سے دیکھا اور جانا ہے لہذا اس کا دائرہ عمل بھی انسان کی مادی ضروریات تک محدود ہے جبکہ مذہب انسان کو مادیت اور روحانیت کا ہر دو مجموعہ سمجھتا ہے ۔اس کے نزدیک انسان کی حقیقی ترقی دونوں شعبوں کی ترقی کا نام ہے ۔اگر چہ اکثرمذاہب نے مادیت کے برعکس صرف روحانیت پر توجہ مرکوز کی ہے اور مادیت کے برعکس ایک دوسری انتہا پر نکل گئے ہیں لیکن مادیت کی طرح وہ بھی ایک متوازن اور مفید طریقہ ثابت نہیں ہوا ۔لیکن جہاں تک اسلام کا تعلق ہے تو وہ ہر گز افراط وتفریق کا شکار نہیں ہوا اس نے انسان کی جامع حثیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس کو مادیت اور روحانیت دونوں کا مرکب قرار دیا ہے ۔اور دونوں شعبوں کی مساوی ترقی کو اپنایا ہے اسلا م کے نزدیک انسانی شخصیت کا ارتقا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک مادیت اور روحانیت دونوں کو برابر اہمیت نہ دی جائے ۔ جہاں انسان کو بنیادی ضروریت روٹی کپڑے اور مکان اور دوا کی ضرورت ہے وہاں حق صداقت ،عدل وانصاف اور نیکی اور پرہیز گاری کی بھی ضرورت ہے ۔انسان نہ صرف مادی حیوان بن کر ترقی کر سکتا ہے اور نہ صرف تارک دنیا بن کر روحانیت پر زندہ رہ سکتا ہے اگر انسان صرف مادی ضروریات کی فراہمی میں مصروف کی فراہمی میں مصروف ہو جائے تو شیطان بن جاتا ہے اور اگر صرف ورحانیت کو اپنا لے تو فرشتہ بن جاتا ہے ۔ وہ نہ صرف شیطان ہے نہ فرشتہ بلکہ انسان ہے ۔اس کی انسانی حثیت اسی وقت برقرار رہ سکتی ہے جب وہ مادیت اور روحانیت دونوں کی ترقی کا طالب ہو گا۔اسلامی تہذیب جن اصول و نظریات کو پیش کرتی ہے وہ انسانوں کے درمیان عدل و انصاف اتفاق واتحاد اور وحدت ویگانگت کو فروغ دینے کا یقینی زریعہ ہے ۔مثلا تصور توحید جو اسلامی تہذیب کا بنیادی نقطہ ہے انسان پر انسان کی حاکمیت کی جڑ کو کا ٹ دیتا ہے جو مسائل کی اصل جڑ ہے ۔ جو مسائل کی اصل جڑ ہے سب انسانوں کو خدائے واحد کی بندگی میں داخل ہو جانے کی دعوت اس بات کا اعلان ہے کہ اب انسانوں کی نہیں بلکہ اصول اقوانین کی حکمرانی ہو گئی ۔انسانی عصبیت اور جہل کی بنا پر مسلط ہونے والے تمام ضابطے کالعدم قرار پایئں گئے ۔ اسلامی تہذیب کے دو صرف اصول مساوات اور روداری ایسے نایاب اصول ہیں کہ دنیا بھر کی قدیم و جدید تہذیبیں اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہیں ۔اصول مساوات تمام ہم مسلک لوگوں کو ایک واحدت میں اس طرح پرو دیتا ہے گویا وہ ایک آہنی دیوار اور مضبوط قلعہ ہے اور غیر مسلک لوگوں کی عزت و توقیر بقا و حفاظت کی یقینی ضمانت فراہم کرتا ہے ان دونوں حقیقتوں پر نظر رکھنے والے ہزار ہا تعصبات ک باوجود اس بات کو ماننے پر مجبور پائے گئے کہ انہیں برملا کہنا پڑا ہے کہ نفرتوں کی ماری ہوئی دنیا میں صرف اسلام ہی اس قابل ہے کہ انسانیت کو تباہی اور بربادی سے بچا سکتا ہے ۔اسلام نے علم کو زندگی کی بقا و ترقی کی بنیاد بنا کر عالم انسانیت میں ایک مثبت عظیم انقلاب برپا کیا ہے اس کے بعد ہی یہ ممکن ہوا ہے کہ دنیا اندھیروں سے پیچھا چھڑ اکر ترقی کی روشن شاہراہ پر تیز رفتاری سے گامزن ہوئی ۔لیکن ان تمام فیوض و برکات کے نظر آنے کے باوجود اگر پھر بھی کسی نے دوسرا راستہ چنا تو اس کو کھلی چھوٹ دے دی گئی ۔مگر اس فراخ دلی کے ساتھ کہ اس کے احترام آدمیت میں سرموہ فرق نہیں آیا اس کے حقوق انسانی زرا بھر بھی پامال نہیں کیے گئے اس کو کسی بدامنی و انتشار کی نذر نہیں ہونے دیا گیا ۔نسانی تہذیب ایک بہت بڑا عطیہ خدا وندی ہے انسانی مصائب و مشکلات کے حل کی واحد ضمانت اور تعمیر و ترقی کا یقینی راستہ ہے-

Zabir Malik
About the Author: Zabir Malik Read More Articles by Zabir Malik: 8 Articles with 5689 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.