زکوٰۃ ایک اہم فریضہ


میمونہ رحمت، راولپنڈی
رمضان المبارک میں جہاں دیگر عبادات میں مسلمانوں میں جوش و خروش پایا جاتا ہے وہیں صدقہ و زکوٰۃ بھی عموماََ لوگ رمضان المبارک میں ہی زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ زکوٰۃ دین اسلام کا چوتھا رکن ہے اور ہر عاقل، بالغ ، آزاد اور صاحب نصاب مسلمان پرفرض ہے جب کہ صاحب نصاب ہوے ایک سال کا عرصہ گزر جائے (قمری سال)۔ کسی بھی شخص کے پاس ساڑھے سات تولہ سونا ، ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی قیمت کے برابر تجارتی مال یا ملکی،غیر ملکی کرنسی موجود ہو تو وہ صاحب نصاب ہوگا اور اس پر مال کا اڑھائی فیصد اداکرنا واجب ہوگا۔ زکوٰۃ میں پیسے دینا ہی ضروری نہیں بلکہ جتنے روپے زکوٰۃ کے بنتے ہیں ان کا راشن، کپڑا، کتابیں وغیرہ بھی لے کر مستحق کو دیا جا سکتا ہے۔

اکثر گھرانوں میں یہ رواج ہے کہ گھر کے سربراہ نے زکوٰۃ ادا کردی تو باقی صاحب نصاب گھر والوں کا کہنا ہے کہ جی ہمارے گھر کی زکوٰۃ ادا ہو گئی ہے تو یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ زکوٰۃ بھی نماز، روزہ ، حج اور قربانی کی طرح ایک انفرادی فریضہ ہے ۔ جن زیورات کی مالک عورت خود ہے خواہ وہ میکے سے ملے ہیں یا شوہر نے دیے ہیں ان زیورات کی زکوٰۃ عورت پر فرض ہے ہاں اگرشوہر نے صرف پہننے کو دیے ہوں یعنی ان زیورات کا مالک نہیں بنایا تو ان کی زکوٰۃ مرد کے ذمے ہے۔ کرایہ پر دیے گئے مکانات، دکانیں، گاڑیاں وغیرہ سے حاصل ہونے والی آ مدنی اگر بقدر نصاب ہے اور اس پر سال گزر جائے تو زکوٰۃ واجب ہوگی۔

دیہات میں اکثرلوگوں کے پاس مویشی ہوتے ہیں ان کے لیے یہ ہے کہ اگر تو وہ مویشی مفت چارہ کھاتے ہیں مطلب خودرو پودے کھاتے ہیں تو ان پر مقرر شرح سے سال گزرنے پر زکوٰۃ کی وصولی ہوگی لیکن اگر سال کا زیادہ حصہ ان کو قیمتی چارہ ڈالا جائے تو وہ زکوٰۃ سے مستثنیٰ ہیں۔ بارانی زمین سے حاصل ہونے والی پیداوار کا دسواں حصہ جب کہ قیمتاََ سیراب ہونے والی زمین کی پیداوار کا بیسواں حصہ زکوٰۃ ہوگا۔زکوٰۃ کا جو مستحق ہے اسی کو زکوٰۃ دینا ضروری ہے اور جو زکوٰۃ کا مستحق نہیں ہے اگر اس کو دے دی تو ادائیگی نہیں ہو گی۔

رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’بے شک اﷲ تعالیٰ نے زکوٰۃکے مستحق کو کسی نبی کی مرضی پر چھوڑا ہے اور نہ ہی نبی کے علاوہ کسی اور کی مرضی پر بلکہ خود ہی فیصلہ فرما دیا ہے اور اس کے آٹھ حصے کر دیے ہیں‘‘۔ (ابوداؤد: ۱۶۳، عن زیادبن حارث رضی اﷲ عنہ)

مستحقین زکوٰۃ کے بارے اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’زکوٰۃ تو صرف ان لوگوں کے لیے ہے جو محتاج اور مسکین ہوں اور جو اس کی تحصیل پر مقرر ہیں اور مؤلفتہ القلوب اور گردنیں آزاد کرنے میں اور قرض داروں کو اور اﷲ کی راہ میں اور مسافر کو، یہ ٹھہرایا ہوا ہے اﷲ کی طرف سے اور اﷲ علم و حکمت والا ہے‘‘۔ (سورۃ التوبہ آیت نمبر ۶۰)

اپنے مال و اسباب کا جائزہ لیجیے اور اگر آپ کے پاس کم از کم پینتالیس سے سینتالیس ہزار بینک میں یا ضرورت سے زائدپڑے ہوے ہیں اور ان کو سال ہو گیا ہے تو آپ صاحب نصاب ہیں، اس بابرکت ماہ میں زکوٰۃ اداکر کے اپنا مال پاک کیجیے ۔ اگر ہمارے معاشرے میں ہر صاحب نصاب شخص زکوٰۃ ادا کرنے لگے تو یقین مانیے ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ زکوٰۃ کے مستحقین ڈھونڈنے سے بھی نہ ملیں گے۔
 

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1031703 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.