بھارت میں ایک مرتبہ پھر بھارتی انتہا پسند جماعت کی
حکومت قائم ہوگئی ہے۔ لوک سبھا کے انتخابات میں واضح اکثریت کے ساتھ بی جے
پی کامیاب ہوئی نریندر مودی 71کے بعد دوسرے وزیر اعظم ہیں جو متواتر وزرات
اعظمیٰ کے عہدے پر فائزہونگے ۔ بھارت میں دنیا کے سب سے بڑے اور طویل
انتخابی عمل میں 542نشستوں پر بی جے پی اور کانگریس نے اپنے اتحادی جماعتوں
کے ساتھ مقابلہ کیا ۔ علاقائی طور پر اثر رسوخ رکھنے والی سیاسی جماعتوں نے
بھی انتخابات میں حصہ لیا۔ 11اپریل تا 19مئی تک ساتھ مراحل میں ان انتخابات
میں تقریباََ 60 کروڑ رائے دہندگان نے 39 لاکھ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے
ذریعے ووٹ ڈالے گئے۔ ابتدا میں پوسٹل ووٹوں کی گنتی ہوئی جو بیشتر فوجیوں
کے ہوتے ہیں اور اس مرحلے کے بعد الیکٹرانک مشینوں کے ووٹوں کی گنتی کی
جاتی ہے۔اعداد وشمار کے مطابق دنیا کے ان مہنگے ترین انتخابات میں ریکارڈ
چھ سو ملین ووٹ ڈالے گئے جبکہ ماہرین کے مطابق ان انتخابات کے انعقاد پر
سات بلین ڈالر سے زائد رقم خرچ ہوئی ہے۔ بی جے پی نے 2014میں بھارت کی
تاریخ میں سب سے زیادہ نشستیں لے کر کامیابی حاصل کی تھی ۔ حالیہ انتخابات
میں بھی گزشتہ انتخابات کے مقابلے تنہا ہی زیادہ نشستیں حاصل کرنے میں
کامیاب رہی ہے دوتہائی سے زائد اکثریت حاصل کے بعد مودی سرکار کو آئین میں
تبدیلی کا اختیا ر بھی حاصل ہوجائے گا ، جبکہ کانگریس جیسی جماعت خود کو
بھارت کے تمام طبقات کی نمائندہ سمجھتی ہے ۔ حیرت انگیز طور پر 2014 کی طرح
2019میں بھی ناکام رہی۔ کانگریس کی شکست کے اسباب میں سب سے اہم وجہ نریندر
مودی کی باحیثیت گجرات کے وزیر اعلیٰ مقبولیت تھی ۔ کانگریس نے عوام سے کئے
گئے وعدے پورے نہیں کئے تھے اس لئے بھارتی جنتا پارٹی نے اپنا فوکس عوامی
مسائل پر رکھا تھا۔نریندر مودی اپنے ہندو انتہا پسندانہ خیالات کی وجہ سے
بھارتی ہند و پرست عوام میں پہلے ہی بڑی مقبولیت حاصل کرچکے تھے ۔ خاص طور
پر گجرات میں مسلم کش فسادات کے بعد نریندر مودی ہند انتہا پسندوں کے لئے
ایک ماڈل بن چکے تھے۔حالیہ انتخابات میں کانگریس اتحادی جماعت نے دوبارہ
اٹھنے کی کوشش کی ۔واضح رہے کہ لوک سبھا انتخابات سے قبل ریاستی انتخابات
میں بی جے پی کو ناکامی کا سامنا ہوا تھا اور خیال کیا جارہا تھا کہ عام
انتخابات میں مودی سرکارآسانی سے کامیابی حاصل نہیں کرسکے گی۔ جب ایگزٹ پول
کے نتائج سامنے آنے لگے تھے تو کانگریس نے ان نتائج کو مسترد کردیا تھا۔
تاہم بھارت میں 17 ویں لو ک سبھا کے لیے ہونے والے انتخابات میں بھارتیہ
جنتا پارٹی (بی جے پی) کی قیادت میں قائم حکمران اتحاد 'نیشنل ڈیموکریٹک
الائنس' (این ڈی اے) کو دوبارہ اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوچکی ہے۔
حکمران این ڈی اے کو 545 رکنی لوک سبھا میں ، کانگریس کی سربراہی میں قائم
حزبِ اختلاف کے اتحاد 'یونائیٹڈ پروگریسو الائنس' (یو پی اے) اور دیگر
جماعتوں پر واضح سبقت حاصل کی ہے۔بی جے پی تنہا ہی کانگریس پر آگے
رہی۔علاقائی جماعتوں کی صورتِ حال یہ ہے کہ تمل ناڈو میں ڈی ایم کے، بہار
میں جنتا دل یونائیٹڈ، مہاراشٹرا میں شیو سینا کو، آندھرا پردیش میں وائی
ایس آر، تلنگانہ میں ٹی آر ایس، اترپردیش میں بہوجن سماج پارٹی اور سماج
وادی پارٹی، مغربی بنگال میں ترنمول کانگریس اور اڑیسہ میں بیجو جنتا دل کو
سبقت حاصل ہوئی ۔
حالیہ انتخابات میں تاثر دیا جارہا تھا کہ عوام نریندر مودی کی جانب سے کئے
جانے والے انتخابی وعدے پورے نہ کئے جانے پر بھارتی جنتا پارٹی اتحاد کو
مسترد کردے گی اور کانگریس اتحاد کو موقع دے گی۔ لیکن نریندر مودی نے
انتخابات سے قبل جس طرح ہند انتہا پسند سوچ کو پروان چڑھایا تھا ، اور خاص
طور پاکستان دشمنی میں منفی پروپیگنڈوں کے ساتھ نام نہاد سرجیکل اسٹرئک
سمیت بالا کوٹ واقعے کو اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا ۔ اس سے
بھارتی عوام میں یہ سوچ پیدا کرنے میں کامیاب ہوگئے کہ بھارت کو پاکستان سے
خطرہ ہے اور اس خطرے کو مودی کو دوبارہ لاکر دور کیا جاسکتا ہے۔ بھارتی
انتخابات میں کلیدی مسائل کے طور پر ملک میں کسانوں کی بڑی خود کشیوں کا
معاملہ نہایت سنگین حیثیت اختیار قرار دیا گیا تھا ۔ کسانوں کی مالی مشکلات
کو کمی کرنے میں ناکامی کی وجہ سے ہی کانگریس کو 2014میں اقتدار سے ہاتھ
دھونا پڑا تھا ۔ بی جے پی کے دو اقتدار میں بھی کاشت کاری میں بحران کمی
واقع نہیں ہوسکی ۔ کانگریس نے کسانوں کے لئے اپنے انتخابی منشور میں حکومت
کی جانب سے کسانوں کو دیئے گئے ریلیف کو انتہائی ناکافی قرار دیا اور
کسانوں کے لئے بڑے وعدے کئے تھے ۔ بنیادی طور پر بھارتی الیکشن میں سب سے
اہم مدعا بڑھتی ہوئی بے روزگاری رہی ۔ 1300کروڑ کی بڑی آبادی میں بے
روزگاری نے بی جے پی کو مقبولیت نہیں دی تھی کیونکہ بی جے پی نے بے روزگار
نوجوانوں کے لئے 2014میں بڑے بڑے وعدے کئے تھے ، لیکن بی جے پی ملک میں بے
روزگاری کو کم کرنے میں ناکام رہی۔ انڈیا میں اقتصادی بحران میں اضافے ،
فصلوں کی پیداوار اورمہنگائی اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے مودی سرکار کو
شدید تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ۔ بے روزگار وں کی بڑھتی تعداد اور
کسانوں کے قرضوں میں بے تحاشا اضافہ ہوتا چلا گیا ۔ دنیا کی چھٹی بڑی معیشت
کی مجموعی پیداوار میں نمایاں کمی رہی ۔ یہ شرح اس وقت سات فیصد کے قریب ہے
اور گذشتہ سال ایک حکومتی رپورٹ لیک ہوئی جس کے مطابق بیروزگاری کی سطح
1970 کی دہائی کے بعد بلند ترین سطح پر ہے۔ نوٹوں کی تبدیلی اور جی ایس ٹی
ٹیکس کی وجہ سے بھارتی عوام مودی سرکار کو شدید تنقید کا نشانہ بناتی رہی
ہے ۔ تاہم مودی سرکار نے اپنا تمام زور ہندو انتہا پرستی کی سوچ کو بڑھانے
پر دیا ۔ بھارت کو ہندو انتہا پرست مملکت کی نئی شناخت دی ۔ جس سے ملک بھر
میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف منفی رجحانات اور پرتشدد واقعات میں اضافہ ہوتا
چلا گیا ۔ خاص طور مسلم اقلیت کے خلاف منظم طور پر مہم چلائی گئی ۔ گھر
واپسی مہم ، بیٹی بچاؤ ، بیٹی لاؤ ، لو جہاد ، سب کا ساتھ سب کا وس نامی
سمیت مسلمانوں کو دوبارہ ہندو بنائے جانے کی انتہا پسند مہمات کے ساتھ گاؤ
رکھشا کے نا م پر پانچ برسوں میں ہندو قوم پرستی کو مرکزی دھارے میں شامل
کردیا۔ بھارت میں انتخابات پاکستان مخالف بیانات کی وجہ سے خصوصی اہمیت کا
حامل ہوتا ہے ۔ اس لئے بھارتی انتہا پسندانہ سوچ کے تحت پاکستان کے ساتھ ہر
معاملے میں غیر سنجیدگی اور غیر ذمے دارانہ سفارتی لائحہ عمل کو فروغ دیا
گیا ۔ پاکستان کے ساتھ کرکٹ سیریز نہ کھیلنے ، پاکستانی فنکاروں کے ساتھ
بہیمانہ سلوک سمیت ملک بدری ، فلمی صنعت میں پاکستانی فنکاروں کو کاسٹ نہ
کرنے سمیت معروف سنگیت کاروں کا جبراََ بائیکاٹ کرایا گیا ۔ بھارتی فنکاروں
نے ہندو انتہا پرستی کے زیر اثر مودی سرکار کی انتخابی عمل میں حصہ لیا اور
غیر جانبدار سمجھے جانے والے فنکاروں نے بی جے پی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا۔
بھارتی فلموں میں سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہر اُس فلم کے خلاف پرتشدد
کاروائیاں کیں جاتی جس میں پاکستانی فنکار کا معمولی سا بھی حصہ ہوتا ۔
یہاں تک کہ بھارتی چینلوں میں بھی پاکستانی فنکاروں پر جبری پابندی عاید
کردی گئی ۔،یہاں تک کہ بالی وڈ کے سپر اسٹار اور انتہا رسوخ رکھنے والے بھی
ہندو انتہا پرستی سے خوف زدہ ہوگئے اور باقاعدہ حلف نامے دیئے کہ آئندہ
پاکستان کے کسی فنکار کو اپنے پراجیکٹ کا حصہ نہیں بنایا جا یا گا ۔پاکستان
کے خلاف تجارتی پابندیوں کے تحت لائن آف کنٹرول سمیت واہگہ بارڈر پر دو
طرفہ تجارت پر پابندی عاید کردی ۔ مودی سرکار کا یہ رویہ لائن آف کنٹرول کی
مسلسل خلاف ورزیوں کا موجب بنتا چلا گیا اور تمام اخلاقی اقدار کو پس پشت
رکھتے ہوئے عام شہری آبادیوں پر گولے باری کرنا معمول بنا لیا گیا ۔ اور
ریکارڈ خلاف وزریاں کیں گئیں۔
مودی سرکار نے عوام کی توجہ عام مسائل سے ہٹانے کے لئے خصوصی منصوبہ بندی
کے تحت نیوز چینلز کو لالچ دے کر انتہا پسند نظریئے کو مزید گھمبیر بنایا
اور بھارتی میڈیا شتر بے مہار کی طرح خود ساختہ جھوٹی رپورٹوں کے نام پر
بھارتی عوام میں عدم تحفظ کا احساس پیدا کرنے میں کامیاب رہا ۔ عوام میں
ہندو قوم پرستی کی مہم کو مستحکم کرنے کے لئے ممبئی سمیت پارلیمنٹ ، پلوامہ
حملے کے خود ساختہ منصوبے بنائے گئے ۔ مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کے خلاف
مظالم میں خطرناک حد تک اضافہ کردیا ۔ مقبوضہ کشمیر میں اسرائیلی طرز پر
مسلمانوں کی آبادی کم کرنے کے لئے ہندو پنڈتوں کے بستیاں بنا کر انہیں آباد
کئے جانے لگا ۔ مسلمانوں کے خلاف ہندو انتہا پرستی اس خطرناک حد پہنچائی
گئی کہ مقبوضہ کشمیر میں مندر میں نابالغ مسلم بچی کے ساتھ اجتماعی زیادتی
کے واقعے پر کھل کر مسلم دشمنی کا مظاہرہ کیا گیا ۔ متاثرہ خاندان کا کیس
کوئی وکیل بھی ہند و انتہا پرستوں کے خوف کی وجہ سے لینے کو تیار نہیں تھا
۔ ان حالات میں ایک خاتون وکیل نے کیس لیا تو اس کے خلاف بدترین محاذ کھول
دیا گیا یہاں تک متاثرہ خاندان کو علاقہ چھوڑنے میں مجبور کردیا گیا ۔
انتخابات سے قبل فروری میں انڈیا کے مقبوضہ کشمیر میں مبینہ طور پر نیم
فوجی دستے پر حملے میں 40 اہلکاروں کی ہلاکت کے بعد قومی سلامتی بھی ایک
اہم نکتہ بناُیا گیا اور جنگی جنون کو بڑھانے میں بھارتی میڈیا نے جو
شرمناک کردار ادا کیا اس کے نتیجے میں بالا کوٹ میں بھارتی جنگی طیاروں نے
در اندازی کی اور دعویٰ کیا کہ بھارت نے دہشت گردی کے مبینہ کمیپ کو نشانہ
بنا کر300 سے زائد ٹریننگ میں موجود مبینہ ’’ دہشت گردوں ‘‘ کو ہلاک کردیا
۔ لیکن پاکستان نے اس سازش کو بے نقاب کیا ، لیکن بی جے پی ایجنڈے کے مطابق
بھارتی میڈیا کسی طور اپنے جھوٹ سے پیچھے ہٹنے سے تیار نہیں تھا یہاں تک
عالمی ذرائع ابلاغ و سفارت کاروں نے ازخود اُس جگہ کا معائنہ کیا جہاں
بھارتی بمباری سے درختوں کو نقصان پہنچا تھا اور ایک ’’ کوا ‘‘ ہلاک ہوا
تھا ۔ عالمی ذرائع ابلاغ نے سٹیلایٹ کی جدید ترین ٹیکنالوجی کو استعمال
کرتے ہوئے بھی مودی سرکار کے جھوٹے ڈھول کا پول کھول دیا ۔ بالاآخر بھارتی
وزیر خارجہ نے بھی تسلیم کرلیا کہ پاکستان کا موقف درست تھا بالاکوٹ میں
کوئی مدرسہ نشانہ نہیں بنا اور نہ ہی وہاں کسی بھی انسان کو معمولی خراش
بھی آئی ۔ بھارتی کے مذموم انتخابی جنگی مہم میں ایک مرتبہ پھر لائن آف
کنڑول پر بھارتی مگ 21طیاروں نے فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے
پاکستانی عوام کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی لیکن پاکستانی فضائیہ نے بھارت
کے دو جنگی طیاروں کو مار گرایا اور کمانڈر ابھی نندن کو گرفتار کرکے عالمی
میڈیا کے سامنے پیش کردیا ۔ بھارت نے پھر جھوٹ کا راستہ اختیار کیا کہ
پاکستان نے ایف 16طیاروں کا استعمال کیا۔ اور بھارت نے ایک F16طیارے کو مار
گرایا ۔ لیکن یہاں بھی مودی سرکار سخت شرمندگی کا سامنا ہوا۔ ایف 16کی
تعداد پوری ہونے کی تصدیق عالمی ذرائع بھی کی ۔ بھارت پاکستان کے خلاف
کاروائی کا کوئی ثبوت نہیں دے سکا ۔ لیکن اس کا تمام فائدہ مودی سرکار کو
پہنچا اور رافیل طیارے کی کرپشن کے باوجود ہندو شدت پسندی کی وجہ سے بھارتی
ووٹر کو یہ تاثر دینے میں کامیاب رہے کہ بھارت کے تحفظ کے لئے انہیں عالمی
قوتوں سے بڑے پیمانے پر جنگی ساز و سامان خریدنا ہوگا ۔ مودی جنگی ماحول
بنانے میں کامیاب ہوچکے تھے اور دونوں ممالک جنگ کے دھانے پر جا پہنچے تھے۔
مودی سرکار کی دوبارہ کامیابی کے بعد خطے میں بھارت کے سیکولر دعویٰ کی موت
ہوچکی ہے اور بھارت اب ہندو انتہا پسند مملکت کی شناخت کے ساتھ دیکھے جانے
لگا ہے۔ بھارت میں مذہبی اقلیتوں کو مودی کی دوبارہ کامیابی کے بعد شدید
تحفظات کا سامنا ہے ۔ مودی سرکار خطے میں جنگی جنون کی آڑ میں عالمی اسلحہ
ساز قوتوں سے بڑے پیمانے پر جنگی ساز و سامان خریدے گا ۔ جس سے خطے میں
اسلحہ کی دوڑ میں اضافے کا خدشہ ہے۔ دوسری جانب مودی سرکار اب خود اپنی
ہندو شدت پسند پالیسیوں کو واپس نہیں کرسکتے کیونکہ انہوں نے بھارتی عوام
کو شدت پسندی میں مبتلا کرکے ہی دوبارہ کامیابی حاصل کی۔ اگر عوامی مسائل
کے ماحول پر بھارتی عوام الیکشن میں ووٹ ڈالتے تو یقینی طور پر مودی سرکار
کی جانب سے کئے جانے والے وعدے پورے نہ ہونے پر مودی سرکار کا صفایا ہوسکتا
تھا ۔ لیکن ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ایک مخصوص ماحول پیدا کرنے کے بعد
مودی سرکار اب بھارت کو خطے میں پیدا ہونے والے چینلجوں کا مقابلہ کس طرح
کرے گی ۔ یہ وہ سوال ہے جو بڑی شد ومد کے ساتھ اٹھایا جارہا ہے۔اس وقت
بھارت میں بے جے پی کی کامیابی پر خوشی کا اظہار تو کیا جارہا ہے ۔ لیکن
وقت کے ساتھ ساتھ بھارتی عوام کو واضح ہوتا چلے جائے گا کہ دراصل انہوں نے
نام نہاد سیکولر اسٹیٹ کو انتہا پسند حکومت میں تبدیل کردیا ہے۔ مودی سرکار
کے سامنے اس وقت کئی چیلنج ہیں۔ کیونکہ اقتصای طور بھارت کی صورتحال مشکلات
کا شکار ہے ۔ امریکا ، افغانستان میں بھارت کے فوجیوں کو نہ بھیجنے کی وجہ
سے مودی سرکار پر طعنہ زنی کرچکا ہے۔اس وقت ایران اور امریکا کے درمیان سخت
کشیدگی عروج پر ہے ۔ جنگ کی چاپ بڑھتے جا رہی ہے ۔ بھارت ، ایران کا اتحادی
ہے اور اپنی پٹرولیم مصنوعات کا سب سے بڑا خریدار بھی ہے ۔ امریکا کی جانب
سے پہلے بھارت کو بھی ایران سے خام تیل کی خریداری پر استثنیٰ دیا گیا تھا۔
لیکن امریکا اس استثنیٰ کو ختم کرچکا ہے ۔ جس کے بعد ایران کو اپنی ضروریات
پوری کرنے کے لئے تیل پیدا کرنے والے دیگر ممالک سے رابطہ کرنا ہوگا ۔ جس
کی وجہ سے بھارت کو خام تیل مہنگا پڑے گا اور اس کا براہ راست اثر بھارتی
معیشت پر پڑے گا ۔ جس کے نتیجے میں بھارتی عوام کو مزید مالیاتی مشکلات کا
سامنا ہوگا ۔ افغانستان میں بھارتی مداخلت کی وجہ سے امریکا کو افغان امن
حل میں مشکلات درپیش ہیں کیونکہ کابل انتظامیہ وہ سب کچھ کرتی ہے جو مودی
سرکار کہتی ہے ۔ اس پالیسی کی وجہ سے خطے میں امن کے قیام میں دشواریاں
بڑھتی جا رہی ہیں ۔ خاص طور پر افغان طالبان اور امریکا کے درمیان براہ
راست مذاکرات کے چھے دور مکمل ہونے کے بعد امریکی صدر کے معاون خصوصی زلمے
خلیل زاد کے بھارتی دورے ، قابل توجہ ہیں۔ امریکا کی جانب سے’’ سب سے پہلے
امریکا ‘‘کے وژن کی وجہ سے غیر ملکی شہریوں کو روزگار کے مواقع کم کردیئے
گئے ہیں ۔ صدر ٹرمپ اس حوالے سے بھارت کو بھی تنقید کا نشانہ بنا چکے ہیں
۔امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت کو جانے والی امریکی برآمدات پر عائد
ٹیکسوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت، امریکہ کو اپنی منڈیوں تک
مناسب اور برابری کی رسائی نہیں دے رہا۔ تاہم جہاں ایران پر امریکی
پابندیوں سے بھارت کو اقتصادی نقصان ہوگا لیکن ، امریکہ اور چین کے درمیان
جاری تجارتی تنازعہ سے بھارت کے درآمد کنندگان کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔ اقوام
متحدہ کی کانفرنس آن ٹریڈ اینڈ ڈویلپمنٹ کی جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا
گیا ہے کہ امریکہ چین تجارتی تنازعہ سے جن چند ملکوں کو فائدہ پہنچے گا ان
میں بھارت بھی شامل ہے۔فیڈریشن آف ایکسپورٹ آرگنائزیشنز کے سربراہ، اجے
سہائے کا کہنا ہے کہ امریکہ اور چین کے درمیان جاری تجارتی تنازعہ سے بھارت
کے درآمد کنندگان کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔اجے سہائے کہتے ہیں کہ بھارت کی
مجموعی درآمد میں 9 فیصد اضافہ ہوا ہے، جبکہ امریکہ کو درآمدت میں 13 فیصد
اور چین سے درآمد میں 32 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اجے کے مطابق، گزشتہ ہفتے
امریکہ اور چین کے درمیان کوئی معاہدہ طے نہ پانے کے بعد، بھارت کی عالمی
منڈیوں تک رسائی میں فائدہ حاصل ہو گا۔
بھارتی لوک سبھا انتخابات میں مودی سرکار کی ناکامی کا سب سے اہم ایشو
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی انتخابات کا مکمل بائیکاٹ رہا اور مقبوضہ کشمیر کے
عوام نے بھارتی انتخابات کو رد کرکے عالمی برداری میں واضح پیغام دیا کہ
کشمیری عوام ،بھارت کی جبر تسلط کو قبول نہیں کرتی بلکہ اقوام متحدہ کی
قرار دادوں کے مطابق اپنے حق خود اردایت چاہتی ہے۔ مودی سرکار کو اپنے اگلے
دور میں مقبوضہ کشمیر میں مزید دشواریوں کا سامنا رہے گا اور حریت پسندوں
کی جانب سے آزادی کی تحریک کو ختم کرنے کی تمام کوششیں ناکام ثابت ہونگی ،
بلکہ حریت پسند مقبوضہ کشمیر کی بھارت سے آزادی کے لئے اپنے تحریکوں میں
مزید پرجوش ہوجائیں گے اور مودی سرکار کے عزائم کو کامیاب نہیں ہونے دیں
گے۔ مودی سرکار کو پاکستان سے مذاکرات کے لئے یقینی طور پر بیٹھنا ہوگا ۔
پاکستان تمام تصفیہ طلب معاملات پر بھارت کی نئی حکومت سے بھی مذاکرات کا
خواہاں ہے ۔ بشکیک میں شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں
بھارتی وزیر خارجہ کے ساتھ غیر رسمی ملاقات میں پاکستان نے ایک بار اپنے اس
عزم کو دوہرایا کہ اگر بھارت ایک قدم آگے بڑھاتا ہے تو پاکستان دو قد م
بڑھائے گا۔اگر بھارت ، پاکستان کے ساتھ اپنی پالیسیوں میں تبدیل نہیں کرتا
تو اس کے نتائج پورے خطے میں خطرناک ہونگے۔ پاکستانی وزیر اعظم نے تو
بھارتی الیکشن کے دوران ہی نریندر مودی کی جیت کو پاکستان کے لئے مفید قرار
دیا تھا کہ اگر مودی سرکار کامیاب ہوتی ہے تو یہ پاکستان کے لئے بہتر ہوگا
۔ تاہم پاکستان کی جانب سے خیر سگالی کے جذبات کا جواب مودی سرکار کس طرح
دیں گے ۔ یہ آنے والا وقت بتائے گا۔عمومی طور پر سمجھا جارہا ہے کہ مودی
سرکار کا رویہ پاکستان کے خلاف رویہ مصلحانہ ہونے کے بجائے مزید جارحانہ
ہونے کا امکان و تحفظات سامنے آنے کا امکان موجود ہے۔
|