شاعری اک دلنشیں پیرایہ ہے ۔۔۔ اپنی بات کہنے کا ۔۔
جہاں کہنے والا کبھی کبھار سب کچھ کہہ کر بھی کچھ نہیں کہتا ۔۔۔ اور ۔۔۔
کبھی کبھی کچھ نہ کہہ کر بھی سب کچھ کہہ جاتا ہے ۔۔ تہہ در تہہ ، لفظ در
لفظ معانی اور مفاہیم باریک بین نگاہوں کو دعوت فکر دیتے اور عقلوں پر پڑے
پردوں کے ہٹنے کے منتظر رہتے ہیں ۔۔۔ دانش مند ان سے سیکھتے نادان مگر اک
اچٹتی سی بے زار نگاہ ڈال کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔
جنوبی ایشیا میں تعمیر و ترقی اور قیام امن کے حوالے سے پاکستان اور بھارت
دو اہم فریق ہیں۔ شعور کی بیداری ، عوامی فلاح و بہبود ، معیار زندگی کی
بہتری ، بنیادی حقوق کی فراہمی ، تعلیم ااورتعمیرو ترقی دونوں ملکوں کے
بنیادی مسائل ہیں۔ چن د ماہ قبل پاکستان میں بر سر اقتدار آنے والی غیر
روایتی سیاسی قیادت اور اس کی جانب سے ملکی ترقی، معاشی نمو اور پائیدار
قیام امن کے لیے کیے جانیوالے اقدامات جہاں اس بات کی نشاندہی کر رہے ہیں
کہ پاکستان کی سول اور ملٹری اسٹیبلشمینٹ ایک پیج پر ہیں وہیں وہ اس بات کا
بھی پتہ دے رہے ہیں کہ پاکستان اپنے غلطیوں سے سیکھتے ہوے ، تلافی اور
اصلاح کی راہ پر گامزن ہے۔ اس کے برعکس دنیا کی سب سے بڑی ، سیکولر جمہوری
ریاست میں ہونے والے انتخابات اور ان کے نتائج ایک نئے انداز سے بھارت کے
سیکولر تشخص کو ری ڈیفائن کر رہے ہیں۔ سیکولر بھارت میں ہندتوا کے نظریے
اور زعفرانیت کے فلسفے پر الیکشن لڑنے والی بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کے
اتحادیوں کی فتح جہاں ایک طرف وہاں بسنے والی اقلیتوں کو ان کے حقوق بارے
فکر سے دوچار کر رہی ہے وہیں خطے میں قیام امن کی کوششوں کے مستقبل پر بھی
سوال اٹھا رہی ہے۔
ان سب باتوں کے ساتھ ساتھ یہ نکتہ بھی اہم ہے کہ لوک تنتر میں جمہور کو
اپنی قیادت چننے کا جو حق حاصل ہے اس کا احترام بہرحال ضروری ہے۔ سو اپنے
بھارتی ہمسایوں کو فہمیدہ ریاض کی ایک خوبصورت آزاد نظم کے توسط سے
مبارکباد دیتا ہوں کہ یقینا انہوں نے
اس
ع م بھی بال کل ہم جیسے نکلے
اب تک کہاں چھپے تھے بھائ ؟
وہ مورکھتا وہ گھامڑ پن
جس میں ہم نے صدی گنوائ
آخر پہنچی دوار تمہارے
ارے بدھائ بہت بدھائ
پریت دھرم کا ناچ رہا ہے
قآئم ہندو راج کرو گے ؟
سارے الٹے کاج کرو گے
اپنا چمن تاراج کرو گے
تم بھی بیٹھے کرو گے سوچا
پوری ہے ویسی تیاری
کون ہے ہندو کون نہیں ہے
تم بھی کرو گے فتوے جاری
ہو گا کٹھن یہاں بھی جینا
دانتوں آ جائے گا پسینہ
جیسی تیسی کٹا کرے گی
یہاں بھی سب کی سانس گھٹے گی
کل دکھ سے سوچا کرتی تھی سوچ کے بہت ہنسی آج آئ
تم بالکل ہم جےسے نکلے ہم دو قوم نہیں تھے بھائ
بھاڑ میں جائے شکشا وکشا
اں جاہل پن کے گن گانا
آگے گڑھا ہے یہ مت دیکھو
واپس لاؤ گیا زمانہ
بھشٹ کرو تو آ جآئے گا
الٹے پاؤں چلتے جانا
دھیان نہ من میں دوجا آئے
بس پیچھے ہی نظر جمانا
ایک جاپ سا کرتے جاؤ
وارم وار یہی دہراؤ
کتنا ویر مہان تھا بھارت
کیسا عالی شان تھا بھارت
پھر تم لوگ پہنچ جاؤ گے
بس پرلوک پہنچ جاؤ گے
ہم تو ہیں پہلے سے وہاں پر
تم بھی سمے نکالتے رہنا
اب جس نرکھ میں جاؤوہاں سے چٹھی وٹھی ڈالتے رہنا
شاعری اک دلنشیں پیرایہ ہے ۔۔ تہہ در تہہ ، لفظ در لفظ معانی اور مفاہیم
باریک بین نگاہوں کو دعوت فکر دیتے اور عقلوں پر پڑے پردوں کے ہٹنے کے
منتظر رہتے ہیں ۔۔۔ دانش مند ان سے سیکھتے نادان مگر اک اچٹتی سی بے زار
نگاہ ڈال کر آگے بڑھ جاتے ہیں
|