عید کی صبح درخشاں اور عالم اسلام پر استعماری سازشوں کی پیہم یلغار

شعائر اسلام پر حملے اور اسلامی تہذیب و تمدن کے خلاف سازشیں روز کا معمول بن چکی ہیں

اسلام نے انسانیت کو عزت دی، مقامِ ممتاز پر فائز کیا، علم، اخلاق، کردار، حیا، تہذیب، شرم و مروت اور امن و عافیت کے جوہر سے آشنا کیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ انسانیت کی برہم زلفیں سنور گئیں۔ نصیبہ جاگ اٹھا، غیر انسانی رویوں کی حوصلہ شکنی ہوئی۔ خیالات کی وادیاں گل زار ہوئیں۔اسلام نے انسان کو انسان بنایا۔ اس کی فکر کی اصلاح کی، عقیدہ وعمل میں سدھار پیدا کیا اور اسے بے راہ رو ہونے سے بچایا۔ جب کہ ادیانِ باطلہ اور تمدنِ جدید کے پجاریوں نے دنیا کو تباہی و بربادی سے دوچار کیا۔ انسانیت کی قبا تار تار کی۔

مخالفت کے اسباب: جتنے انقلاب آئے ان کے اثرات وقتی اور محدود رہے۔ انقلابِ یونان و روم ملاحظہ کریں، فرانس، رسیا، چائنا، جرمنی، مصر و ایران کے انقلابات کا جائزہ لیں۔ ان کے اثرات دیرپا نہ رہے، وہ تاریخ کا ایک حصہ بن گئے۔ اسلام فطری دین تھا۔ اسلامی انقلاب نے معمولی مدت میں دِلوں پر دَستک دی۔ فکروں کو اَسیر بنایا۔ دیکھتے ہی دیکھتے دُنیا بھر میں پھیل گیا۔ اسی مقبولیت سے یہود و انگریز خوف زدہ تھے۔ پے در پے اسلام کی مقبولیت، زَمینوں کی فتح، دِلوں کی فتح نے انھیں حواس باختہ کر دیا۔ صدیوں تک وہ اسلام کے خلاف منصوبے بناتے رہے۔ دٗو بہ دٗو جنگ میں پسپا ہوتے رہے۔ پھر اُبھرے۔ لیکن ہر پسپائی انھیں مزید سازشوں پر اُبھارتی۔ بالآخر وہ بجائے آمنے سامنے کہ زیرِ زمیں جنگ میں مشغول ہوئے۔ ساری دُنیا میں ان کی سازشوں نے اُمتِ مسلمہ کو تباہ و برباد کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
اہداف: [۱]عیسائیت نے اسلام دُشمنی میں اپنے عظیم دُشمن یہودیوں سے اتحاد ومفاہمت کر لی ۔ [۲]دوٗ بہ دوٗ مقابلے میں مسلسل پسپائی سے اہداف تبدیل کر دیے۔
[۳] فکری جنگ شروع کی اور عقائد میں تذبذب پیدا کرنا شروع کیا۔ [۴] مشن یہ بھی رکھا کہ اگر عیسائیت قبول نہ کی جائے تو کوئی حرج نہیں؛ کم ازکم مسلمان بھی باقی نہ رہیں۔ اسلام سے برگشتہ ہو جائیں۔ساری دُنیا میں اسلام مخالف رجحانات کی اشاعت اسی کا حصہ ہے۔

سیاسی زوال: ہمارے اسلافِ کرام نے سیاسی و جغرافیائی اعتبار سے فتوحات کے جو علَم نصب کیے۔ اُس کے زیرِ اثر دھیرے دھیرے بڑے بڑے علاقے اسلام کے زیرِ نگیں آئے۔ اسلام کی اخلاقی تعلیمات کو جہاں رائج کیا گیا وہاں اسلام کا سیاسی اقتدار پختہ و مضبوط رہا۔ایک وقت آیا مسلمانوں کی سیاسی فتوحات کا سلسلہ تھم گیا، تاہم دِلوں کی فتح جاری رہی، علما و داعیانِ دین اولیاء اﷲ کے ذریعے۔لیکن ایک وقت میں اسلاف کے اَخلاف نے اگر نئے علاقے مملکتِ اسلامی میں شامل نہ کیے تو اُنھیں چھِننے بھی نہ دیا۔ ماضی کی آخری عظیم’’مملکتِ عثمانیہ- ترکی‘‘ کے بعد مسلمانوں کا وہ سیاسی زوال شروع ہوا کہ جو علاقے ہمارے تھے وہ رَفتہ رَفتہ ہاتھ سے جاتے رہے۔ کہیں برطانوی نو آبادی اور کالونیاں قائم ہوئیں۔ کہیں یہودیت کے قبضے جمے۔ ہم اسلاف کی زمینوں کو نہ بڑھا سکے؛ نہ بچا سکے۔

ذرائع ابلاغ کا منفی استعمال: یہودی پروٹوکولز میں صحافت و پریس پر یہودی اثرونفوذ کا ذکر موجود ہے۔ اس زمانے میں جب پریس کی قوت کا اندازہ نہ تھا۔ یہودیوں نے اسے سمجھ لیا تھا کہ مستقبل کا یہ ادارہ بڑا اہم ہوگا۔ انھوں نے اس کے ذریعے اسلام کی منفی تصویر کشی کی۔ ناموسِ رسالت میں حملے کیے۔ صحابہ و اہلِ بیت کے کردار کو مسخ کر کے پیش کیا۔ فلمیں بنائیں،ڈرامے سین کیے، افسانے اور ناول لکھے، جن میں اسلام کی ہجو کی گئی۔ اخلاقی خوبیوں کو جھوٹ کی ملمع کاری سے خرابیوں کا شکار بتایا، تھا کچھ ؛بتایا کچھ۔ اس مہم کے ذریعے مسلمانوں کو فکری و ذہنی مریض بنایا گیا۔ زوال پذیر قدروں کو مسلم ذہنوں میں راسخ کیا۔ قوم فکری تنزل کا شکار ہوئی۔مظالم یہود وانگریز نے کیے، میڈیا نے مظلوم کو ظالم؛ظالم کو مظلوم دکھایا۔

دہشت زدہ یا دہشت گرد: مغربی پالیسی کے خلاف پائے جانے والے مسلم ممالک کو دُشمن جانا گیا، وقت آنے پر انھیں تاخت وتاراج کیا گیا، جھوٹاالزام لگایا گیا، کسی کو وسیع تباہی کے ہتھیار تیار کرنے والا بتایا، حالاں کہ ایسا نہ تھا، پھر انسانیت کی دُہائی دے کر خود کے تیار کردہ وسیع تباہی والے ہتھیاروں سے مسلمانوں کو تہِ تیغ کردیا۔ حکم رَانوں کی آڑ لے کر بے گناہوں کو مارا، انسانی زندگیوں کو تاراج کیا، اسے نام دیا گیا کہ ’’ہم آزادی دِلا رہے ہیں۔‘‘ مسلمان کو دہشت زدہ کرنے والا امریکہ، برطانیہ، اسرائیل اپنی حکومتی دہشت گردی کے لیے کیا جواز رکھتے ہیں؟

اصطلاحی وتمدنی حملے: [۱]یہود وانگریز نے مسلم زوال کے لیے نسلی ولسانی اختلافات کو ہوا دی۔ گرچہ اس سلسلے میں ایک صدی قبل ہی وہ بہت حد تک کامیاب ہوچکے تھے۔ عثمانی سلطنت کے خاتمہ کے لیے لارنس آف عربیہ کے ذریعے یہ پیٹرن سَکسِس ہو چکا تھا۔ ترک و عرب قضیہ اس کا ثبوت ہے۔ اور اسی منافرت نے مسلم عرب ممالک کو بجائے اتحاد کے انتشار میں ڈال رکھا ہے۔
[۲]تہذیبی اعتبار سے مصر میں فراعنہ، ایران میں زرتشت، روم میں قیصر، شام میں کسریٰ کے نظام کو خوبیوں کا حامل بتا کر انھیں باقاعدہ نصاب میں شامل کیا گیا اور بگڑی وتباہ تہذیبوں کو اسلام کے مقابل ترقی یافتہ بتایا گیا۔
[۳]آئیڈیل اقوام جن سے اسلام کو تقویت پہنچی ان کی بہادری کو پسِ پشت ڈالا گیا، نمونہ شخصیات کو مسخ شدہ بتایا۔قومِ بربر بہادر تھی؛پروپے گنڈے کے ذریعے ’’بربریت‘‘ کو بہادری کی جگہ ظلم کا استعارہ بنادیا گیا۔ اسی طرح مہتر، خلیفہ، مُلا جیسی سنجیدہ و پاکیزہ اصطلاحات کو رُسوا بنا کر پیش کیا گیا۔اور یہ سب کچھ ہمارے معاشرے میں واقع ہوا۔ ہم اپنی ہی روایات کی مسخ شکلوں پر مطمئن رہے۔

اسلام بیزاروں کی پذیرائی: مستشرقین، پادریوں،پنڈتوں، یوگیوں کی کھلی مخالفت سے بہر حال مسلمان اِس قدر متاثر نہیں ہوتے تھے۔ غیر ایک دن بے نقاب ہوجاتا ہے۔ اس لیے ایک کام یہ کیا گیا کہ مسلم اُمہ سے ہی افراد تیار کیے جانے لگے۔ غیر کوئی نکتہ دے گا تو یہ دیکھا جانا فطری ہے کہ غیر نے کہا، غیر نے لکھا اس لیے شبہہ باقی رہتا۔ لیکن جب کوئی بنام مسلم یہود وانگریز کی بات کہے تو مسلمان متاثر ہوجاتا ہے۔ مرزاغلام احمد قادیانی، سلمان رشدی، تسلیمہ نسرین وغیرہ اسی کی مثالیں ہیں۔اور ان جیسے افراددُنیا کے مختلف ملکوں میں انھیں میسر ہیں۔اسی کے ارتقا کے لیے لبرل ماڈریٹ، اعتدال پسند جیسی اصطلاحات وضع کی گئی ہیں۔حالاں کہ اسلام انصاف و اعتدال و مساوات کو ہی رائج کرتا ہے۔

فرقہ پرستوں کے ذریعے : مسلم دُشمنی میں جو تنظیمیں وجود میں آئیں اُنھیں امریکہ و اسرائیل و برطانیہ کی پشت پناہی حاصل ہے۔ مختلف رُخ سے یہ تنظیمیں مسلمانوں پر مسلسل حملہ کر رہی ہیں۔ ان کا وار کھلا نہیں،مخفی ہے، جیسے سیاسی، ثقافتی، فکری، اعتقادی، تعلیمی وغیرہ۔ اس میں بھی سلو پوائزن ٹیکٹ رہا۔ پہلے نصاب پر اثر انداز ہوئے۔ مسلم آئیڈیل شخصیات کو حملہ آور پیش کیا گیا،مسلم سلاطین میں جو شریعت کے پابند رہے اُنھیں متشدد بتایا، غیر مسلم مفکرین کو آئیڈیل بنا کر پیش کیا گیا۔ یہ تو مثال ہے۔ملک میں ان کا اقتدار آنے کے بعد -بلی تھیلے سے باہر آگئی-مسلسل اور پے در پے اسلامی روایات کو ختم کرنے کی سعی جاری ہے، مسلمانوں کے تشخص کوختم کرنے کے لیے حکومتی سطح پر یکے بعد دیگرے کوششیں ہو رہی ہیں۔ مدارسِ اسلامیہ پر ان کی نظریں گڑی ہیں۔ ’’وندے ماترم‘‘ اور ’’یوگا‘‘ جیسے معاملات مسلمانوں پر لادنے کی کوشش اسی کا حصہ ہے۔

پروڈکٹ کے ذریعے: مسلمان جب تک تقویٰ و طہارت سے آراستہ تھے؛ کامیاب تھے۔ شعوری و لاشعوری طور پر حرام سے آلودگی نے شخصی اَثر ختم کر کے رکھ دیا ہے۔ مثلاً اجزاے خورد ونوش میں الکحل و حرام جانور کے اجزا کی شمولیت، اشیامیں غیر اسلامی اجزا کا کثرت سے استعمال؛ مسلمانوں کو بے رُوح کرنے کی سازش ہے۔ ہم احتیاط سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔گویا حرام و حلال کی تمیز اُٹھ گئی۔

اسلامی شعائر پر حملہ: انیسویں صدی کی تیسری دَہائی میں انگریز کے زیرِ اثر ہنود نے گائے اور اس کی نسل کے جانوروں کے ذبح پر شکنجہ کسنا شروع کیا۔ اس زمانے میں ہمارے اَسلاف نے اسے ناکام کیا۔ پھر آزادیِ ہند کے دوران جب ہندو مسلم اتحاد کیا جارہا تھا،تب اسے مضبوط بنانے کے نام پر ’’ترکِ ذبیحہ‘‘ کی مہم چلی؛ اس زمانے میں بریلی سے اعلیٰ حضرت نے’’ترکِ ذبیحہ‘‘کی مخالفت میں فتویٰ دیا، جس میں ذبیحہ کے شعارِ اسلام ہونے پر مدلل نکتہ تھاجس کے خاطر خواہ اثرات ظاہرہوئے۔ پھر اسی تحریک کی تجدید گاہے بہ گاہے کی جاتی رہی۔ کئی ریاستوں میں ذبیحہ پر پابندی لگائی گئی۔ مہاراشٹر کی حالیہ پابندی اسی کا اظہار ہے۔ جس کا نشانہ اسلامی شعار ہے۔

برقع اور داڑھی: ہمار ا ملک جمہوری ہے۔ جہاں مذہبی آزادی ہے۔ فرقہ پرست روایتی تعصب کا مظاہرہ کرتے ہوئے جہاں موقع ملتا ہے؛ اسلامی روایات پر قدغن لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کمپنیوں میں تعصب، نوکریوں میں صاحبانِ داڑھی سے امتیازی سلوک، برقع کی توہین، مشکوک نظروں سے حجاب کو دیکھنا، طاقت ملنے پر مسلم دُشمنی کا مظاہرہ۔ ایسے عوامل ہیں جن کا مشاہدہ ملک میں الگ الگ حالات میں دیکھنے میں آتا ہے۔ اس طرح ایک ایک عنوان پر اسلامی روایات کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔اور داڑھی و برقع کے خلاف عام ماحول تیار کیا جا رہا ہے۔

مسرتوں کی صبح یا شام احتساب: عید کی ساعتیں جلوہ فگن ہیں۔ صبحِ عید خوشیوں کی سوغات لاتی ہے۔ اسلام عبادتوں کے بعد جامِ مسرت پلاتا ہے۔ عید صلہ ہے ماہِ صیام کی عبادات کا۔ حقیقی خوشی اُن کی ہے جنھوں نے رمضان کے احکام بجا لائے، روزوں کے تقاضے پورے کیے، تلاوتِ قرآن کی، نیکیوں کا اہتمام کیا، غربا پروری کی، اپنی خوشی مفلسین کی امداد سے خریدی،بیواؤں کو عزت و وَقار کے ساتھ مال دیا، یتیموں کے دُکھوں کا مداوا کیا، اُنھیں کا انعام ہے صبحِ عید۔ایسے ہی افراد ’’عید‘‘ کو ’’وعید‘‘ نہیں بناتے بلکہ اِس دن کا احترام کرتے ہیں، اسلامی اُصولوں کے سائے میں عید مناتے ہیں۔دوسرے مذاہب غریبوں کے استحصال کے ساتھ خوشی مناتے ہیں، کسی کا آنگن اُجاڑ کر اپنا آنگن آباد کرنا یہ خوشی و مسرت نہیں، اسلام خوشیوں کا تصور غریبوں کی مدد[صدقۂ فطر کی ادائیگی]سے پیش کرتا ہے۔ اپنی خوشیاں اسلامی اُصولوں کی روشنی میں منائیے، مغربیت زدہ تہذیب سے متاثر ہوجانا دانش مندی نہیں۔ زوال پذیر قدریں جو معاشرتی اصلاح میں ناکام رہیں اُنھیں للچائی نظروں سے دیکھنا ہمیں زیب نہیں دیتا۔ مغرب انسانیت کے اعتبار سے موت سے ہم کنار ہے، ان کے فیشن اور فحاشی حقیقی مسرت نہیں دے سکتے۔ عیدمنائیں اسلامی روایات کے ساتھ، یہی حقیقی مسرت کی ضامن ہے۔اور فوز وفلاح کا پیام بھی ؂
اپنی ملت پہ قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
٭٭٭

Ghulam Mustafa Rizvi
About the Author: Ghulam Mustafa Rizvi Read More Articles by Ghulam Mustafa Rizvi: 277 Articles with 255377 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.