یوم تکبیر کی اصل حقیقت ۔۔ زاویہ احتساب

یوم تکبیر کی اصل حقیقت

پچھلے دنوں اٹھائیس مئی گزرا ، اس دن آج سے اکیس سال پہلے پاکستان ایٹمی دھماکے کر کہ ایٹمی قوت بنا تھا اس دن کو عالمی سطح پر منوانے کے لیے اس کا نام تجویز کرنے کا اعلان پی ٹی وی پر نشر کیا گیا ہم ان دنوں فارغ التحصیل تھےرزلٹ کا انتظار تھا کہ اس وقت کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے اعلان کیا کہ جو بھی اس دن کانام تجویز کرے گا اس کو ایک لاکھ روپے کے انعام سے نوازا جائے گا، اس دن صبح صادق کے وقت اللہ و اکبر کی صدا کان میں پڑی تو احساس ہوا کہ پوری دنیا میں جہاں کہیں بھی مسلمان ہوں وہ جس بھی فقہ سے تعلق رکھتے ہوں ایک نعرہ ان کو متحد کرتا ہے اور وہ نعرہ ہے نعرہ تکبیر اللہ و اکبر،سو اس دن کا نام ایسا ہو کہ دنیا کے کونے کونے سے ایک ہی آواز آئے اور اس میں ہمارا تکبر نہیں اللہ کی بڑائی ہو، سو اس حرارت ایمانی اور جذبہ حب الوطنی کے تحت ہم نے بھی یوم تکبیر نام لکھا اور خط پوسٹ کردیا ۔ آنے والے کچھ دنوں میں ایک دن ہمارے دروازے پر دستک دے کر بات آواز بلند ہمارا نام پکارا گیا ۔ واضح ہو کہ ہم نےقلمی نام تین سال پہلے ہی اپنایا ہے گو کہ یہ قلمی نام صرف ہمارے برتھ سرٹیفکیٹ کی حد تک محدود تھا ، دستک سن کر والدہ نے دروازے سے باہر جھانکا تو پوری گلی میں پولیس کی گاڑیاں تھیں ماں جی سے نام کنفرم نا ہونے پر ہمیں بلایا گیا ہمارا دروازے سے سر باہر نکلنے کی دیر تھی کہ پوری گلی میں بوٹوں کے شور میں سیلیوٹ کیا گیا اور ہمیں بتایا گیا کہ آپ کو وزیراعظم صاحب کی طرف سے خط آیا ہے وہ وصول کریں ۔ ہمیں پی ٹی وی لاہور بلایا گیا تھا ۔ دو تین اور خط بذریعہ ڈاک اسی طرح پولیس پروٹوکول میں ہی ملے ۔ پی ٹی آئی وی پر ان دنوں منزہ ہاشمی کا دور تھا ، اس تقریب میں میاں شہباز شریف موجود تھے ان کی زیر نگرانی قرعہ اندازی کرائی گئی تو قرعہ فال مجتبیٰ رفیق کے نام نکلا جنھیں ایک لاکھ روپے کی انعامی رقم ملنا تھی۔ وہیں میاں شہباز شریف جو کہ اس وقت وزیر اعلی پنجاب تھے نے اعلان کیا کہ باقی 689لوگوں میں دس لاکھ روپے تقسیم کئے جائیں گے جو کہ ان کو اگلی تقریب جو سیون کلب روڈ میں منعقد ہونا تھی ،میں سند اعزاز کے ساتھ چیکس کی صورت میں دیے جائیں گے ۔

اس دن کے لیے بھی حسب معمول ڈاک آئی اور پھر ہم لاہور لائے گئے اس بار ہم بہت خوش تھے اس جگہ ہمیں پہلی بار میاں نواز شریف سے ہاتھ ملانے اور باتیں کرنے کا موقع ملا۔

اس دور میں اتنا علم نہیں تھا کہ جو ہمیں ملنے جا رہا ہے اس کا ثبوت رکھنا بھی ضروری ہے ورنہ ہم بھی تصاویر ضرور بنوا لیتے ۔ دل میں سوچا ملک کے لیے کچھ کیا ہے چاہے صرف ایک نام ہی رکھا ہے سند اعزاز ہر تحریر لفظ قومی خدمت ہمارا خون گرماتی۔پھرگردش دوراں میں ایسا الجھے کہ اپنا بھی ہوش نا رہا ۔ تین چار سال پہلے یونہی لکھنے لکھانے کا سلسلہ شروع کیا تو اچھی پذیرائی ملی ۔کچھ اچھے دوست بھی بنے یونہی ایک سہیلی کے کہنے پر سرٹیفکیٹ کی تصویر فیس بک پر لگا دی سوشل میڈیا کے اس تیز ترین دور کی کرامات کے سبب منٹوں میں بات لاکھوں تک پہنچی تو عجیب سی صورتحال سامنے آنے لگی ۔کچھ نے ہمیں جعلی کہا تو کچھ نے کہا کہ صرف ایک بندے نے نام رکھا تھا ، اور سب سے زیادہ دکھ اس لمحہ پہنچا جب خبروں میں بھی کہا گیا کہ مجتبی نے ہی نام تجویز کیا تھا ۔ ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں بے شک انہوں نے بھی تجویز کیا ، لیکن کیا یہ زیادتی اور حق تلفی نہیں 689 لوگوں کی , جنھوں نے یہ نام تجویز کیا تھا؟ کیا نیوز کاسٹر یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ نام اٹھارہ کروڑ کی آبادی میں چھ سو نوے لوگوں نے تجویز کیا تھا جن میں سے بذریعہ قرعہ اندازی انعامی رقم کے حقدار فقط ایک کو قرار دیا گیا۔ کیا ہم باقی لوگوں نے یہی نام تجویز نہیں کیا تھا ؟ آپ ہم سے یہ فخر یہ احساس کیوں چھینتے ہو ,کیاہم محض سرٹیفکیٹ لینے گئے تھے؟ ہم نے یوم تکبیر کا نام تجویز نہیں کیا ؟ قرعہ فال ایک کے نام نکلنے کا مطلب ہم باقی لوگ محض ڈمی بن گئے ہمارا وجود ہی ختم کر دیا گیا۔ یہ سوچ ، اور اس نام کے خالق ہم لوگ بھی تو ہیں ہم نے بھی یہی نام تجویز کیا تھا ۔ ہمارا بس اتنا سا مطالبہ ہے کہ اگلی بار خبروں میں بتائیں کہ اس نام کو چھ سو نوے لوگوں نے تجویز کیا تھا تاکہ لوگ ہماری بات کو بے بنیاد نا قرار دیں ہمیں جھوٹا نا کہیں ۔۔
 

Ammara Kanwal
About the Author: Ammara Kanwal Read More Articles by Ammara Kanwal: 4 Articles with 4525 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.